قرینہ
عرض ناشر
طبع رواں، منظر معنی، اور بے شمار امکان
آب رواں
پیش لفظ
لب پہ تکریم تمناے سبک پائی ہے
یہ نرم نرم گھاس، یہ پھولوں بھری زمیں
شب بھر رواں رہی گل مہتاب کی مہک
ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں
ہمیں ہی تھا لب خاموش کا قرینہ بھی
کس نے پیشانی خاک کو زرد پتوں کے جھومر دیے
مجھے تیری نہ تجھے میری خبر جائے گی
چھپ سکی نہ لوگوں سے تیری کم نگاہی بھی
نہ کوئی زخم لگا ہے ، نہ کوئی داغ پڑا ہے
سدا بہار نہ تھے تیرے گل کدے، لیکن
در پہ سورج ہے کھڑا، اٹھ بیٹھو
شب سیاہ میں امید کا دیا بھی میں
غم کا چرچا تو کرو، زخم کو رسوا تو کرو
مہتاب میں نہ رہگزر کہکشاں میں تھا
پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا نانو
سانولے بھانولے مکھ سے شرموں کے گھونگھٹ اٹھاتے نہیں
دل وہ بگڑا ہوا بچہ ہے کہ جو مانگے گا
وقت بتلائے گا اک روز تجھے میں کیا ہوں
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
اب اور چاہتا کیا ہے مجھے بتا تو سہی
رات دیکھی ہے پگھلتی ہوئی زنجیر کوئی
آنکھوں میں لہرائے لالہ زار، بہار آگئی
آپ ہی قزاق تھے، خود ہی سے تھی مار دھاڑ
خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
جھوٹی خوشی سہی، وہ کہیں دیکھتا نہ ہو
ٹھہری ہوئی تھی دل وجگر تک
فروغ جسم نہ رنگینی قبا دیکھوں
روش روش رواں ہوئی ہیں رنگ دار صورتیں
جہاں نگار سحر پیرہن اتارتی ہے
دل کی صدا پکارتی ہے رات بھر کسے
ہزار ربط بڑھائیں خیال خام سے ہم
سخن سرائی تماشہ ہے، شعر بندر ہے
بزم سخن میں ہم پہ نہ اٹھی نگاہ بھی
بچا نہ کوئی بھی غواص کیا شناور کیا
سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا
اب کی بہار میں تو عجب ماجرا ہوا
دینے والے مجھے یہ درد خوش آغاز نہ دے
رو میں آئے تو وہ خود گرمی بازار ہوئے
کچھ باد تنش کا ہے یہاں زور بھی بہت
کبھی ہجوم ہوس میں ہو گلبدن ہونا
جو غم ملا جبیں کے شکن میں چھپا لیا
بن سنے برسا رہے ہیں داد بھی ، بیداد بھی
وہ ایک عکس کہ آئینہ نظر میں نہیں
سبزۂ گلزار پر چوما ہے جس کو خواب میں
زخم کو منظر بناؤں ، چشم کو عریاں کروں
کسی کے ساتھ اگر دو قدم بھی چلتا ہوں
وہ جان مانگے تو دے دو اسی پہ بس کیا ہے
اس کی ہر طرز تغافل پہ نظر رکھتی ہے
اسے منظور نہیں ، چھوڑ، جھگڑتا کیا ہے
اور، یہ افتاد ہے کیسی، اسی سے رم بھی ہے
دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے
بجا کہ تخت ہوا پر تری نشست بھی ہے
نہیں ، کہ اونچی ہوا میں کبھی سفر نہ کیا
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
سبھی تسلیم ہے،اے معتقد میرؔ مجھے
سچ ہے کہ میرے چاروں طرف جمگھٹا بھی ہے
حریف آتش پنہاں یہ چشم تر نہ سہی
شام سے تنہا کھڑا ہوں ادھ کھلے در کی طرف
چلے ہیں تیرے لیے تیر شش جہات سے کیا
خوب ہے سلسلۂ جرم وسزا، رہنے دے
امیں دید کے سورج دکھا دکھا کے مجھے
جس سے چاہا تھا بکھرنے سے بچالے مجھ کو
نقاب غم سے نہ ابر نشاط سے نکلا
جنون بے خطر و زخم بے نشاں رکھیے
مکاں لرزتے رہے، سیل غم گزر بھی گیا
ایک ہی رشتہ ہو اس سے ، یہ کہ وہ بیگانہ ہو
اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے
ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا
مل ہی جائے گا کہیں وہ، جستجو کیا کیجئے
کس کا سراغ پائیے ٹوٹے ہوئے خمار سے
جو چاند ڈوب چکا ہے تو رات کیوں ہے وہی؟
ہر بھرا کسی وادی میں ایک بن ہے کوئی
شورش رنگ جنوں عام ہے، سر خالی ہیں
تھا گرچہ اسی خاک کی پوشاک سمندر
دیکھا تو اک آواز کا پیکر نظر آیا
دے کے دل خوش ہوں، چلو پانو سے کانٹا نکلا
یہی تیغ تیز تلی ہوئی، یہی زخم ناب کھلا ہوا
مانا گل و گل زار پہ رعنائی وہی ہے
خون کی ریتلی دیوار گرائے نہ کہیں
دل کو صدا نہ دوں، مگر اپنے جہان میں
صہباے غم سے آج نہ ٹوٹا خمار خوں
دل کی ویرانی کا منظر اس قدر کالا نہ تھا
عکس کوئی اتار لوں آئینہ سراب سے
نہ سورج نہ دشت سفر گرم ہے
منزل پہ خاک ڈال، سفر کا نشاں تو ہے
کتنے دلوں مںی وا شد زخم سفر نہیں
کچھ ہمیں ہمت فزا کہسار کا منظر بھی تھا
بہت سہے ہیں ستم دور آسماں جو ہوا
کھینچ لائی ہے یہاں لذت آزار مجھے
گلا فتاب
پیش لفظ
ویراں تھی رات چاند کا پتھر سیاہ تھا
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
اور بھی ہیں قفس کئی دور شب ملا ل سے
میں بھی شریک مرگ ہوں، مر میرے سامنے
جسم جو چاہتا ہے اس سے جدا لگتی ہو
جسم کے ریگ زار میں شام و سحر صدا کروں
کہاں کی آگ تھی کیا جانے اور دھواں کیسا
غزل کا شور ہے اندر پرانا
دریاے تند موج کو صحرا بتائیے
نظر نواز تو ہیں بحر و بر ہمارے لیے
بکھر بکھر گئے الفاظ سے ادا نہ ہوئے
خالی خولی غبار نکلا
مقبول عوام ہو گیا میں
کنگ ہے خاکستر خوں بولتا پھرتا ہوں میں
گیا شور شبخون غم بھی گیا
تصویر باغ و منظر دریا الٹ گیا
الٹے پلٹے ہندّسے دیتے رہے دہائیاں
کیسی ہار تھی کیسی جیت اور کیا چھگی پر ستا
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
بد رنگ ہے زمیں ابھی کالا ہے آسماں
سنسناتی ہوئی فضا کے سوا
ذروژں کا اختیار نہیں تھا ہواؤں پر
جس کی فضا آفتاب، جس کی ہوا آفتاب
ویسی ہی شام ہے وہی نقشہ ہے بام کا
اڑی چاند چلمن چمک چار سو
سورج دریا میں گر رہا تھا
دھوکا ہوا تھا آب رواں پر سراب کا
شعلے شفق شرار وہ دیوار سنگ پر
بجلی گری ہے کل کسی اجڑے مکان پر
دھندلا گیا نشان سفر بھی نگاہ میں
بکھری ہوئی فلک بہ فلک شام ہے کوئی
آنکھوں میں رکا حسن کا ہنگام سفر میں
پھوٹا اداس جسم سے موسم بہار کا
در ہے کوئی وجود کے اندر کھلا ہوا
سکوت زرد میں اک سرخی صدا ہو کر
رات کا زہر بجھاتے رہے بینائی میں
بھر جاتا ہے تاریک دھواں تنگ مکاں میں
بے کار دل دھڑکتا ہے دنیا کوئی نہیں
پھر آئی ہوا ڈوبی ہوئی رات کے رس میں
آنکھ بھی وا ہوئی سورج بھی سفر سے آیا
خبر نہیں سفر خاک میں کہاں ہوں میں
اور بھی ڈر تھا کوئی خوف خداؤں بغیر
میں لڑکھڑا تا پھرا باغ کے برابر میں
ٹوٹتے پتوں کا موسم ہر طرف چھایا ہوا
عکس ادا ہی اور ہے نقش نوا ہی اور ہے
یہ اڑتے ہوئے رنگ ہیں یا سنگ ہوا میں
گزر گیا ہے نظر سے کوئی سراب ایسا
دیکھوں وہی تماشا رت کی رانیوں میں
خالی خلا ہے اور ہوا میں رکھا ہے کیا
نم نگاہ تھی کیا شے سم سراب ہے کیا
سفر میں ساتھ سلگتا رہا نشاں اس کا
صدا کے سانپ کو سب سامنے عصا کرکے
مرنے پہ ہو چلے سبھی تیار کس لیے
رنگوں کا تمنائی نہ سودائی ہوں رس کا
آثار آب، سیل صدا، رنج رایگاں
میں یوں تو ہنس دیا تھا سفر کے سوال پر
صداے سنگ بھی تھی رنگ رہ گزار بھی تھا
جنوں بھی سر میں ہے اس بحر سے گزر نے کا
کچھ اتنی دور سے دی وہم نے صدا مجھ کو
موت مداح مری موت پہ مائل میں بھی
عکس اڑتے ہیں عجب آتش آواز کے ساتھ
زردی کھنڈی ہوئی تھی جہاں نقش ناب میں
لہو کی سر سبز تیرگی ہے کہ رنگ اڑتے لباس کا ہے
جیسا خمار خواب نے چاہا بھی آئے گا
کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
فضا میں اڑتے شرار دیکھو دھویں کی تاریک دھار دیکھو
پکڑا گیا میں ذوق تماشا کے زور میں
جھونکا یہ تر و تازہ تبھی جان میں آیا
دو بدو آ کر لڑے گا جس گھڑی جانیں گے ہم
کس لیے راہ میں رکنے لگی رفتار مری
خواہش خانماں تو ہے کاہش کارواں تو ہے
صداے سنگ سے تھا یا ہوا کے ہاتھ سے تھا
پیلی پڑی ہے دھوپ نہ صحرا ہی زرد ہے
عکس تھر تھراتا ہے آسمان پیالے میں
میدان تھے جہاں وہاں جنگلے جنگل ہوئے
مجھے قہر تھا میں برستا رہا
صدا بھی سانس میں الجھے بدن بھی ڈر کے رہے
نوا میں نکھرا ہوا راز رہگزر ہی نہ ہو
نوا کے زیر و زبر نوحۂ نوا ہی تو ہے
دھندلا گئی ہوا پس دیوار اس طرف
بے عکس بے درخت وہی شام ہر طرف
عکس میں افتاد گی تھی نقش میں ناسور تھا
تند کی تہ میں طلب تھی تنگ میں تاخیر تھی
ساحلوں سونے سیہ تھے پانیوں پایاب تھے
انکار خندق ہے راستے میں
گرجا گھنگھور کو بہ کو پر
اندھا دھند انداز اندرے اندر
چمک چمکارنے شب شیر نے کے
راکھ سراب سیہ جنگلاں میں پیا سا نام نشاں کا
دلدّر درمیاں دلدار نے کا
شکل مٹ شام شک در ماندگی دل
صدف صف ریت رقص ارژنگ آہنگ
جبر جولاں جڑت جنجال جلوہ
کھڑے کھیتاں رزے ریتاں تناظر
چتر چاتر چشم مینسز بہانہ
کرک بجلی بھڑک شعلہ دھڑک دھوپ
چمن وادی گلو گل داکھ دیوار
دیا دکھتا لیا چپ چور لت پت
مہر زار آسماں گہرا جنگل سبز
ٹھرک ٹھنڈک تھرک تھوکیں چھنک چھینک
اجل خواب آئینہ آغاز عکس اندام دریاواں
دیوار درز دو بدو ارژنگ اثرواں
تن طغیانی تہ بہ تہ نیند نوا چپ چانگی
پتھر پکار پائینچہ پیچاک سانولی
پتھر پیرہن رت رہا باردا
مہک ماورا چیخ چادر چندن
جسے ڈوبنا تھا اسے تار گیا
کڑھ کرلاٹ سفن سنگھنا ہڑھ ہونجھ ہوا واں جتھے
ات اگنور شفق سونا پایاب ہوا پرچھائیں
فصیح فراسٹ عزائم بلیغ عنقا میں
رطب ویابس
رطب ویابس کا شاعر
نقش تھا جا بہ جا محمد کا
وہ تو اپنا تھا، یہ دھوکا اسے کیا دینا تھا
ہواے دل بھی نہ تھی، موسم دعا بھی نہ تھا
میں، یوں تو نہیں ہے کہ محبت میں نہیں تھا
اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
گرم سفر ہے، بے سروسامان ہے تو کیا
کیا علم تھا یوں عکس نما مجھ کو ملے گا
شرح و شمار شوق کی حالت میں آئے گا
کھلا بھی موسم جاں، قرض دل ادا بھی ہوا
قافیے کی بند گلیوں کا گدا گر کر دیا
توڑ ڈالیں سب حدیں اور مسئلہ حل کر دیا
پردے میں یوں تو پھول کھلا احتیاط کا
دل کے صفحے پہ خوب چھاپا
پڑا دشت ابد میں ازل سے ایک اکلا
یاری ہے وہی، وہی بلپا
ہے ساری مصیبتوں کا منبع
کھایا کسی اور ہی نے میوہ
مجھ پر وہ جمائے کیوں نہ دھوّا
تمھی بتلاؤ، کیا کیجے مداوا
وہ دن میں ہی اس کو چھوڑ نسا
روکو گے تو ہم کریں گے دنگا
عینک لیجے اگر بدلوا
دیر ہو جائے گی، نہا لیں اب
میں نے پوچھا تھا، ہے کوئی اسکوپ؟
ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت
دل میں ہوتی ہے خلا کی آہٹ
نہیں ایسا کہ ہر ہنر ہے عبث
اور تو کچھ ہے آج کام نہ کاج
قید کے قہر میں نجات کی آنچ
سن لے بس ایک بات ستم گر کسی طرح
روز پکتی ہے شاعری کی بطخ
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
سوچیے شعر کا نیا کوئی کوڈ
ہو گیا خوف پر خطر نافذ
کرتا ہوں جمع خود کو بکھرنے کے نام پر
قتل وغارت میں ہی کٹا اتوار
کہے گا وصل اس کو کون کنجر
نہ چمکی اس بدن کی دھوپ دم بھر
رہتے ہو تفکّر
چر گئی ککڑی، ککڑ
گرتے ہوئے ہاتھ، گرتی آواز
چیزیں اچھی ہیں دونوں، پوڈر، روژ
دودھ دے گی نہیں ہمیشہ بھینس
نیلے نشے کی ٹوٹ میں چمکا وہ برق وش
جن کے رہتا ہے خود بیان میں نقص
کچھ ہوئے خوف خطا سے ناراض
کب سے بے کار ہو، سلیم وریاض
سفر میں نہیں میں ہی تنہا غلط
خود سے آزاد، خبر سے محفوظ
رخت غم رایگاں، سفر ضائع
اس مکاں کو اس مکیں سے ہے شرف
کوئی نکلا کہ آئے ہم ناحق
روح میں خاک، رہ گزار میں خاک
سب خورد و خرید ہو مبارک
تیرگی خیر میں شعلۂ شر ہے الگ
بہت قید کاٹی ہے، گھر سے نکل
سر گشتۂ سراب تھے وشت صدا کے ہم
مسکرا دینے میں، ہونٹوں کی ضیاد ینے میں
یقیں کی خاک اڑاتے، گماں بناتے ہیں
کیا تپا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں
شور اٹھا پھر سخن گرم کا بازاروں میں
ابھی سے وصل دل آرا کا اہتمام کہاں
خود سے بھی چال چلتا رہتا ہوں
خیر، جعلی ہے کہ فرضی ہے ، میاں
سفر خواب کا صلہ مانگیں
حد ہو چکی ہے، شرم شکیبائی ختم ہو
شامل عرض ہنر کرکے ریا کاری کو
دھوپ، عکس ہوس تماشا، لو
تھے سبھی لرزش دیوار کی تقدیر کے ساتھ
سانس کے آر پار، دل سے وراء
لیتے ہیں آڑ کیوں سخن فتنہ ساز کی
گم ہیں کسی جستجو میں اب بھی
آگ دو دن میں ہوگئی ٹھنڈی
میری بھی نہ چوڑ کر ترٹی
رات گئے چڑھ دوڑے کمّی
اتنا نہ سنبھال مال مڈّی
تنہائی آئے گی، شب رسوائی آئے گی
حرف نکھرا ہے محبت کا مٹا دینے سے
صحرا مرا سفینہ، صدا باد بان ہے
ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دو بارہ مجھے
فنور اگرچہ تمنا کا سر میں اتنا ہے
ایک ہی نقش ہے، جتنا بھی جہاں رہ جائے
سونا سا کچھ رگوں میں چھپایا ہوا تو ہے
یوں تو کس چیز کی کمی ہے
عکس خیال و نقش صدا ہے ترے لیے
قافیہ چاہیے کھانے کے لیے
رنگ جلنے کے لیے، راز پگھلنے کے لیے
دن ہوا، کٹ کر گرا میں روشنی کی دھار سے
مشکل کا پتا کر، کہیں آساں کی خبر دے
ایماں کے ساتھ خامی ایماں بھی چاہیے
بوسہ نہ سہی، اپنا کوئی ،ذائقہ تو دے
اک دن ادھر سوار سمندر سفر تو آئے
عرض واظہار سے آگے ہے، نوا کیسی ہے
کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے
یہ جو لکھا ہے مجھے، یہ مٹایا ہے مجھے
مشکل بھی شعر ہو تو سمجھ میں ذرا تو آئے
زہر زمیں میں تھی نہ فشار فلک میں ہے
چھیڑا اسے آج پھر، چناں چے
بجتے نہیں اب ٹنن ٹنن ٹے
مصروف کار تو نظر آتا بھی چور ہے
غبار آلود سمتوں کا سراغ
وہی منظر برف برسنے کے، وہی گھڑیاں دھوپ نکلنے کی
غبار آرزو میں روشنی ہے
چمکتی وسعتوں میں جو گل صحرا کھلا ہے
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
نہیں کہ ذوق سماعت بیاں کے بعد ہوا
ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو
یہ فیصلہ ہے کہ خود سے خفا نہیں رہنا
رخ زیبا ادھر نہیں کرتا
سراب دیکھنے کو، انتظار کرنے کو
سیدھا تھا مسئلہ مگر الٹا سمجھ لیا
نظر کو چھوڑیے، صرف نظر ہی ممکن ہے
نکل سکوں قفس اعتبار سے باہر
یو بھی نہیں میرے بلانے سے آگیا
سرکشی سہی، فی الحال تو سر بھی نہیں رکھتے
عجیب سلسلۂ روز گار رکھتے ہیں
چھپا ہوا ہی سہی خوف خواب کے پیچھے
جسے بھی اس پہ ہے دعواے جبر، بکتا ہے
نظر کا پھیر ہے یا مال ہی کچھ ایسا تھا
منظر، ظفر کھلیں ہی کھلیں آفتاب کے
چوں کی طرح زرد بکھرنا تو چاہیے
کھولیے آنکھ تو منظر ہے نیا اور بہت
کشتی ہوس ہواؤں کے رخ پر اتار دے
جو تھے امیر اب ان کو فقیر تو دیکھو
سو بھی تمام گرمی بازار کا بدن
دیکھتے دیکھتے ویراں ہوئے منظر کتنے
ایسا نہیں کہ داد ہنر دیجیے مجھے
لرزش پردۂ اظہار کا مطلب کیا ہے
اب تو یہ انتظام رکھنا ہے
بستی میں ہے پانی تو نگر میں بھی ہے پانی
گھونسلے شاخیں، ثمر، سارا شجر پانی میں ہے
یہ فرد جرم ہے مجھ پر کہ اس سے پیار کرتا ہوں
بندھے وہ زور ظفرؔ خاک کی روانی کے
ہوتا رہے گا یوں ہی نظارا کہ اب نہیں
وہ کوئی خواب پریشاں تھا، محبت کیا تھی
کچھ ہم میں پرکھنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا
میں زرد آگ نہ پانی کے سرد ڈر میں رہا
ملوں اس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں
درون خانہ کہ بیرون در ضرورت ہو
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں، اور در کیسا ہے وہ
کب وہ ظاہر ہوگا اور حیراں کر دے گا مجھے
بہت کچھ ہو تو سکتا ہے، مگر، کچھ بھی نہیں ہوگا
سر شاخسار گلاب ہے کہ سراب ہے
رفتہ رفتہ اس دل سے جو محبت ماند پڑی
حسن کے انکار سے بھی کچھ تو پردہ رہ گیا
جرم دل کی سزا نہیں دیتا
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
فکر کر تعمیر دل کی، وہ یہیں آجائے گا
مسافرت کو بہانہ اگر بنا لیتا
خوش ہے وہ دے کے ہمیں خواب سہانے خالی
قیام ہے ابھی، سوے سفر بھی آتا ہوں
نشیب راہ میں ہے یا فراز بام پہ ہے
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستا بھول جاتا ہوں
ہمارے نقش طلب کا نشاں بھی خالی ہے
ہمیں شکایت پیہم سے اجتناب تو ہے
یوں بھی نہیں کہ دل میں کوئی غم نہیں رہا
نظر جھکائے ادھر سے ادھر گزرتا ہے
آنکھ میں شوخی نہیں چمکے گی، آنسو آئے گا
گلشن خواب ہوں، تاراج حقیقت کردے
کچھ احتیاط بھی اس میں بہت ضروری تھی
اور اب سلسۂ ناز نہیں رکھ سکتا
انکار کی حدوق سے گزرتے کچھ اور ہیں
رکو اگر تو روانی بحال کر لینا
لڑتے ہیں، مگر، معرکہ جاری نہیں رکھتے
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں، میں آرام کرتا ہوں
جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا
پہلے تکرار کروں گا ہوس یار کے ساتھ
وہ بے بسی ہے کہ دل کو یقیں نہیں آتا
نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا
دیکھنا بار دگر دیکھنا ہے
لگا ہوں جب شام کے کنارے
خامشی اچھی نہیں، انکار ہونا چاہیے
جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے
درکار ہے مجھے تو دوائی کے طور پر
یہ مت سمجھو کنارہ کرنے والا ہوں
شب امید بھی ہے ہجر کی اس شام کے بعد
نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
سرعام
شور تھا جس کا بہت وہ انقلاب آیا نہیں
کچھ لے سراغ ظلم کے نیلے نشان کا
گرچہ کہتی تو نہیں خلق خدا سب اچھا
حضرت دل تو اس دفعہ صاف نکل نکل گئے
کچھ ہوئے باغی یہاں، کچھ لوگ بے دل ہوگئے
آداب محبت جو نبھانے کے لیے تھے
شور ہے زیر زمیں، چشمہ ابلتا کیوں نہیں
نقش ہوس دلوں پہ مکرّر بٹھا دیا
کیا پوچھ رہے ہو نام اس کا
شکوۂ سختی بے جا نہیں کرنے دیتے
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
اصل میں صرف سلانے کے لیے آیا تھا
جو پہلے کہ چکا اس سے مکرنا چاہتا ہے
ہمارے ساتھ وہ ظاہر ہے جو کچھ کرنے والا ہے
مجھ سے تو پوچھتا ہے، وہ انکار کیوں ہوا
ایک بیوی ہے، چار بچے ہیں
لوگ تو ایک ہی جیسے ہیں
ابھی تبدیل کر لیں جو طریقہ آپ کا ہے
بات سچ کہتا ہوں، اب تجھ سے تو کچھ پردہ نہیں ہے
مرے بیاباں میں گل کھلا کیا اسی لیے تھا
پیلے کالے ایک اگر ہو جائیں تو
شاعر جو بھی یہاں پر جھوٹے سچّے ہیں
مسائل ہو تو سکتے ہیں، مگر، تفہیم بھی ہوگی
انھیں کچھ سوچ کر الزام دینا چاہیے تھا
طریقہ وہی دیکھا بھالا تو ہے
کون ہے جس کے سوا کوئی نہیں تھا
مٹا ہے رنگ دل، تصویر آدھی رہ گئی ہے
مسافت کے اندھیروں میں اجالا راستہ ہے
حساب اب کیجیے تسلی کے ساتھ کتنے کی روٹیاں ہیں
معاملات زیدہ ہیں، گردنیں کم ہیں
نہیں حل ہو رہا یہ مسئلہ حال آں کہ چھوٹا ہے
اپنا تو مذہب ہی اس بنیاد پہ قائم ہے
بڑھ کر جینا ہے یا گھٹ کر مرنا ہے
بھو کے ہو تو کھلیانوں پر ٹوٹ پڑو
بہت بدحالیاں جھیلی ہیں، خوشحالوں پہ چڑھ دوڑو
ان بڑے لوگوں کو آگے بڑھ کے سیدھا کیو ںنہیں کرتے
زندگی پانو کی زنجیر نہیں ہو سکتی
کیا دبدھا ہے، بھا ڈکیت
جتنی ہو جیسی چھترول
اگر توڑ ہے اور مگر توڑ ہے
جہاں تمہارے رشوت خور
پیسے مانگتا ہے دھلوائی کرنے والا
آدھی رات منگائی روٹی
کسی تازہ سفر کے واسطے تیار ہونا ہے
کوئی پکارا، کچھ تو کر
کیوں اس نے اشارہ نہیں کیا
کہاں سے چل کے آیا ہے، کہاں ٹھہرا ہوا ہے
گورے ٹھاہ بھئی کالے ٹھاہ
مرغ کڑاہی کے شوقین
روکھی سوکھی ہی مل جائے
موٹے جھوٹے مردہ باد
جاگیروں والے تھوہ
آنے والا ہے اک موڑ
برا ہو یا کہ اچھا ہونے والا
کوئی صورت نکلتی کیوں نہیں ہے
طبع رواں کو لوگوں کی اپنی راہوں پر ڈال دیا
رکتا نہیں وقت ہمارا بھی
دیکھتے ہی رہیے، باہر سے کیسے ہیں
کہ دیں گے ہو کر مجبور
دھوپ ہی دھوپ ہے پھیلی ہوئی، سنایا کم ہے
ظفرؔ لے کی جگہ فریاد کو تبدیل کرنا ہے
اب کیا کہیں، گزرتی ہے گزران کس طرح
کھویا ہے کہاں زمانہ اپنا
خاص کوئی نہیں، عام کوئی نہیں
لبوں پہ مہر لگی ہے حکایتیں اب کیا
جو کار خاص مکرر دیا گیا ہے مجھے
وہ کانچ کانچ بدن چور چور کس کا تھا
دامان شہ سے دست گدا کتنی دور ہے
الزام ایک یہ بھی اٹھا لینا چاہیے
ہے تو خوب صورت وہ پر، ذرا کپتی ہے
شاعر ہوں، کتاب بیچتا ہوں
کچھ نکالی ہے، کچھ گھسیڑی ہے
ہزار حسن کے صورت کدوں میں رہتا ہوں
مدتیں گزریں پر اب بھی وہی عالم ہے یہاں
حدیث شام غریبی شجر شجر سے کہو
سو بار کہ چکا ہوں، تماشا ہے اور بھی
سینوں میں موج خیز میں ارماں نئے نئے
اٹھ ، اور پھر سے روانہ ہو، ڈر زیادہ نہیں
تیرے ہی راستے سہی، دل سے گزر گزر تو جا
ہو لیے یکسو بہت، اب تو بکھرنا رہ گیا
یہ بات الگ ہے مرا قاتل بھی وہی تھا
پردہ یہ مصلحت کا ہٹا کیوں نہ دیجیے
دلائل ان کے اپنے ہیں نہ حجت ان کی اپنی ہے
شام دہشت میں کہیں سنگ صدا آیا تو ہے
واپس لہو کی اپنے شفق مانگتے ہیں لوگ
پھر زندگی کے نام پہ مروا دیا گیا
روٹی کپڑا ابھی دے، مکان بھی دے
اگر چہ منع بھی کرتا نہیں مروّت میں
غم بھی قربانی ہے، آزار بھی قربانی ہے
خلاف قاعدہ اب کے دلوں کا مس کیا تھا
غریب شہر ہوں، سڑکوں پہ ہے سفر میرا
مچلی ہے جہاں زلف خیالات کی خوش بو
نگار ونقش گلستاں تو کیا نکھارو گے
قدر قائم رہی معیار بدل دینے سے
یہ رات، یہ گھن گرج، یہ برسات
بدلے ہوئے موسم کی فضا سب کے لیے ہے
پھاڑ پھینکی مری تحریر شکایت اس نے
جواب دیجیے اس کو اگر تو کیا کہ کر
کرتے ہیں اپنے ترک تمنّا کا اعتبار
سحر ہوئی ہے، سفینے خطر سے نکلے ہیں
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دنیا میں رہتا ہوں
دوستیاں ہیں بے حساب، دوستیوں کی بات کیا
روازہ بھی کھولے گا، پذیرائی بھی ہوگی
یہ شہر وہ ہے جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں
ہر حجت حیلہ چھوڑ دیا
میں پیسے دھیلے کی سوچتا ہوں
فرش پر بے بسی بچھاتا ہوں
پھر غزل آرہی ہے، بسم اللہ
یہاں مت پوچھیے کیا مسئلہ در پیش رہتا ہے
وہ جاگے ہوں کہ سوتے، کھا رہے ہیں
رنگ دنیا بدل نہیں سکتا
جینا بھی وہاں کیوں نہ ہو مرنے کے برابر
کام ہوتے نہیں سارے میرے
عرش پاتال ہوگئے میرے
عیب و ہنر
پیش لفظ
نفس نذرانہ ہے اس کا
جو ناروا تھا اس کو روا کرنے آیا ہوں
خاص بھی ہونا ہمارا عام رہ جانے سے ہے
تماشا نہیں، تازیانہ ہے اب
دل میں جو محبت کا تماشا نہیں لگتا
خوش ہیں الفاظ معنی کے بغیر
آنکھوں کے آسماں پہ جو یہ ابر پارہ ہے
لفظ موہوم ہیں، گفتگو خواب ہے
یہ راکھ سے جو شرارے بناتا رہتا ہوں
ابر کے ٹکڑے ہیں شاخوں پر، تو پتے آسماں پر ہیں
ہوا کے ہاتھ پہ رکھا ہوا معاملہ ہے
اس کے سفر میں زاد سفر دیکھنا نہیں
کھینچ لے جاتی ہے سب کو، یہ ہنر خاک میں ہے
رعب دکھا کر اس کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں
جا، بے جا کہنے والا
محبت کے زمانے کون سے ہیں
عیب کو محفوظ کرنے سے ہنر جاتا نہیں
خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کرکے
سوال وصل پہ کچھ دیکھتے نہ بھالتے ہیں
میں کہ سکتا نہیں جو بات کہنا چاہتا ہوں
سوچتا ہوں کیا کیا نہیں کرنے والا
جس کا بھی قصیدہ ہو، تشبیب تو میری ہے
ہے وہی دل کو دکھانے کی ستانے کی ادا
کھول کر بھی پاؤ گے بار دگر باندھا ہوا
نت نئے اسلوب سے شام وسحر مشکل میں ہے
کب یہ آنکھیں تری دہلیز سے چپکا سکتا
جو نہ آیا مرے بلانے سے
رنگ جمانا بھی ہے، رنگ اڑانا بھی ہے
دیکھا نہ ہم نے ، اور ، تماشے لگے رہے
خبر کو خواب سے عاری نہ کرنا
بالآخر کسی گھاٹ آترنا تو ہے
چھوٹی موٹی کوئی تدبیر تو کر سکتےتھے
جینا ہے نہ مجھ کو مرنا ہے
اس کی نہیں ہے فکر کہ عقبیٰ خراب ہے
رہ گئی ہے شب سفر کچھ اور
خواب فراغت مشکل ہے
یہ عمر ہے تو پھر اس کو بسر بھی کرنا ہے
لکھیے تو غزل، ہو جیسی بھی
مرنے والے مرجاتے ہیں
جواب اس نے دیا ہے ملال کرتے ہوئے
ایسے ہے کہ جیسے گھر میں ہونا
اور یہ جو سر پہ سب کے چمکتا ہے آسماں
حال کیسا ہے، وہ سب جانتا ہے
شام تھی، اور سبک سیر خیالات اس کے
دل اگر اتنی مصیبت میں نہیں
شاد کیسا ہو گیا، آباد کیسا ہو گیا
سوچ کر لکھنا ہے، اکثر سوچتا رہتا ہوں میں
قرض معاف بھی کرنا تھا
نئی اس پر ہمیں اب خوش کمانی کون سی ہے
جو یہاں گفتگو ہو گئی ہے
کچھ سروکار کسی کو نہیں اے دل میرے
منزل الگ تراشی، رستہ الگ بنایا
اندر سے رواں رکھتا ہے مجھے
گزرنا پڑا سر سراتے ہوئے
شیشۂ جاں پہ ذرا سا ہی ضرر لے جائے
تھا دل میں زر خوب تو اظہار ہی کرتے
مدت سے کوئی میرے بھی جیسا نہیں آیا
بیٹھا مغز نہ چاٹا کر
کچھ تو آزادانہ اس بستی میں بسنا چاہیے
جھیلا ہے جو ٹھنڈا تتا بھی
جیتنے بھی قرینے ہیں جھجکنے کے بہت ہیں
فغاں بھی وہ ہے کہ جو خود فغاں سے باہر ہے
دل فسردہ جو اتنا خبر سے خالی ہے
زمیں سہمی ہوئی ہے، اور،ستارے رک گئے ہیں
چلو ، جتنا بھی بورھا ہو گیا ہوں
مجھے تو ہار ہی جانا ہے پھر بھی
ابھی تو میری کاوش ہے بس اتنی
زمیں نے عکس کیا ڈالا ہے مجھ پر
گرے گی ایک دن مجھ پر ہی آخر
مجھے پھیلا ئے آکر دھوپ میں کون
منائیں خیر کاروبار کی سب
عجب ہلچل مچی رہتی ہے مجھ میں
میں جب ہونے پہ آیا ہوں کسی دم
کیا تھا کام کوئی چھپ چھپا کر
مرے ہونے کی صورت ہی نہ تھی کچھ
تو، اس میں آپ کا نقصان کیا ہے
برائی اور نیکی جڑ گئے ہیں
زمین ڈھونڈتے ہیں آسمان کے نیچے
لمبی تان کے سونا ہے
اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے
غلط کام کا ہے نتیجہ صیح
نکل سکیں ہم اگر شب ماہ سے کھچ آگے
لہرو لہر اچھلتا دن
بجھا ہے رنگ دل، اور، خواب ہستی کربلا ہے
ہمارا کچھ نہیں ہے، اور تمہارا کچھ نہیں ہے
یاد حسین اب جو منانے کو رہ گئی
تماشا دیکھتے رہنا نہیں ہے
جتنا ہنستے جانا ہے
ہم ہیں جدھر اسے بھی ادھر ہونا چاہیے
آگے کیا اور پیچھے کیا
عداوت سب سے رکھتا ہوں کہ یہ منشور ہے میرا
لہو آپے سے باہر ہو رہا ہے
روح میں دیوار سی اٹھتی ہے، در کھلتا نہیں
پس نگاہ، کبھی رو برو لرزتا ہے
کبھی غبار، کسی دن دھواں دکھائی دیا
میرے دل میں محبت بہت ہے
بہت مشکل میں رہنا اور کبھی آسان ہو جانا
کبھی یہ دیکھنا وہ خود لہو میں شامل ہے
کچھ ابھی کھویا نہیں ہے، اور، برابر ڈھونڈتے ہیں
پس الفاظ مطلب اور بھی ہے
کبھی ےہے شعلہ، کسی شب دھواں نکلتا ہے
کیا ترے لوٹ کے آنے کے لیے زندہ رہوں
سمٹنے کی ہوس کیا تھی، بکھرنا کس لیے ہے
جو اک رنگ تماشا ٹوٹتا ہے
ہے اس کا ٹوٹنا ہی بس غنیمت
کبھی تو یوں بھی لگتا ہے کہ دل میں
زمیں ذروں میں بٹتی ہے دما دم
تسلسل ہی نہیں رہا ہے کوئی
اگر آغاز کار اپنا نہ ٹوٹے
کہیں جا کر نہیں اب ٹوٹتا دل
سو ، یہ تاثیر بھی ہے خاص اس کی
یہی ہے منزل مقصود اس کی
منائے خیر خود اپنی بھی اب وہ
مکمل ٹوٹنے کا منتظر وہ
محبت سے رہا ہونا ہے خود ہی
خرابی ہے مرے ہونے سے کیا کیا
یونہی بس خرچ ہو جائے گا یہ دل
وہاں سر سبز رہتا ہے جو ہر دم
مجھے سالم سمجھتا ہے، صد افسوس
یہ دروازہ بھی ٹوٹے گا کسی دن
کوئی حربہ کار گر ہونے ہی والا ہے
کہیں آتا ہوں اب نہ جاتا ہوں
یہ میری آگ ہے، لیکن، دھواں میرا نہیں ہے
ایک ہی بار دو بارہ سی
یہی تھی ضد مجھے دانا سمجھنے والوں سے
حدوں کے بیچ رہا بے کنار ہو کر بھی
کر نہیں سکا، لیکن، کمال ہوتا جاتا ہوں
جینے کے درمیاں ہوں کہ مرنے کے درمیاں
برا سمجھوں اسے اب یا کہ اچھا کر چکا ہوں
ہے آشکار، مگر، آشکار سے کم ہے
ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا
کیا کروں آغاز کو، انجام ادھورا رہ گیا ہے
تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کس کو خبر تھی وہ بھی مرا یار ہو گا
کہیں جانے سے ہوا، اور، نہ آنے سے ہوا
کچھ تم کا بدل جانا، کچھ ہم کا بدل جانا
کہاں تک مفت میں رسوائیے گا
کیا کچھ وہ ابھی میرے حوالے نہیں کرتا
زباں کھینچی گئی جس بات پر حلقوم کی حد تک
سامان کچھ ادھر سے ادھر ہونے ولا ہے
آواز کی لہروں میں گہرائی ہوا کی ہے
وہ صبر تھا تو صبر کا پھل ہونا چاہیے
رہتا ہے جو اک سلسلۂ آب پس خواب
کبھی چھپ کے، اور کبھی آشکار میں آئے گا
رہتا نہیں خاموش گھنیرے میں اندھیرا
یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ تماشا سکتا
سب سے آگے گا
زمانے بھر سے ہم اس کو حسیں بھی مانتے ہیں
سفر تازہ پہ ہوتا ہوں رواں از سر نو
آب رواں سے عیب وہنرتک
قرینہ
عرض ناشر
طبع رواں، منظر معنی، اور بے شمار امکان
آب رواں
پیش لفظ
لب پہ تکریم تمناے سبک پائی ہے
یہ نرم نرم گھاس، یہ پھولوں بھری زمیں
شب بھر رواں رہی گل مہتاب کی مہک
ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں
ہمیں ہی تھا لب خاموش کا قرینہ بھی
کس نے پیشانی خاک کو زرد پتوں کے جھومر دیے
مجھے تیری نہ تجھے میری خبر جائے گی
چھپ سکی نہ لوگوں سے تیری کم نگاہی بھی
نہ کوئی زخم لگا ہے ، نہ کوئی داغ پڑا ہے
سدا بہار نہ تھے تیرے گل کدے، لیکن
در پہ سورج ہے کھڑا، اٹھ بیٹھو
شب سیاہ میں امید کا دیا بھی میں
غم کا چرچا تو کرو، زخم کو رسوا تو کرو
مہتاب میں نہ رہگزر کہکشاں میں تھا
پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا نانو
سانولے بھانولے مکھ سے شرموں کے گھونگھٹ اٹھاتے نہیں
دل وہ بگڑا ہوا بچہ ہے کہ جو مانگے گا
وقت بتلائے گا اک روز تجھے میں کیا ہوں
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
اب اور چاہتا کیا ہے مجھے بتا تو سہی
رات دیکھی ہے پگھلتی ہوئی زنجیر کوئی
آنکھوں میں لہرائے لالہ زار، بہار آگئی
آپ ہی قزاق تھے، خود ہی سے تھی مار دھاڑ
خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
جھوٹی خوشی سہی، وہ کہیں دیکھتا نہ ہو
ٹھہری ہوئی تھی دل وجگر تک
فروغ جسم نہ رنگینی قبا دیکھوں
روش روش رواں ہوئی ہیں رنگ دار صورتیں
جہاں نگار سحر پیرہن اتارتی ہے
دل کی صدا پکارتی ہے رات بھر کسے
ہزار ربط بڑھائیں خیال خام سے ہم
سخن سرائی تماشہ ہے، شعر بندر ہے
بزم سخن میں ہم پہ نہ اٹھی نگاہ بھی
بچا نہ کوئی بھی غواص کیا شناور کیا
سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا
اب کی بہار میں تو عجب ماجرا ہوا
دینے والے مجھے یہ درد خوش آغاز نہ دے
رو میں آئے تو وہ خود گرمی بازار ہوئے
کچھ باد تنش کا ہے یہاں زور بھی بہت
کبھی ہجوم ہوس میں ہو گلبدن ہونا
جو غم ملا جبیں کے شکن میں چھپا لیا
بن سنے برسا رہے ہیں داد بھی ، بیداد بھی
وہ ایک عکس کہ آئینہ نظر میں نہیں
سبزۂ گلزار پر چوما ہے جس کو خواب میں
زخم کو منظر بناؤں ، چشم کو عریاں کروں
کسی کے ساتھ اگر دو قدم بھی چلتا ہوں
وہ جان مانگے تو دے دو اسی پہ بس کیا ہے
اس کی ہر طرز تغافل پہ نظر رکھتی ہے
اسے منظور نہیں ، چھوڑ، جھگڑتا کیا ہے
اور، یہ افتاد ہے کیسی، اسی سے رم بھی ہے
دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے
بجا کہ تخت ہوا پر تری نشست بھی ہے
نہیں ، کہ اونچی ہوا میں کبھی سفر نہ کیا
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
سبھی تسلیم ہے،اے معتقد میرؔ مجھے
سچ ہے کہ میرے چاروں طرف جمگھٹا بھی ہے
حریف آتش پنہاں یہ چشم تر نہ سہی
شام سے تنہا کھڑا ہوں ادھ کھلے در کی طرف
چلے ہیں تیرے لیے تیر شش جہات سے کیا
خوب ہے سلسلۂ جرم وسزا، رہنے دے
امیں دید کے سورج دکھا دکھا کے مجھے
جس سے چاہا تھا بکھرنے سے بچالے مجھ کو
نقاب غم سے نہ ابر نشاط سے نکلا
جنون بے خطر و زخم بے نشاں رکھیے
مکاں لرزتے رہے، سیل غم گزر بھی گیا
ایک ہی رشتہ ہو اس سے ، یہ کہ وہ بیگانہ ہو
اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے
ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا
مل ہی جائے گا کہیں وہ، جستجو کیا کیجئے
کس کا سراغ پائیے ٹوٹے ہوئے خمار سے
جو چاند ڈوب چکا ہے تو رات کیوں ہے وہی؟
ہر بھرا کسی وادی میں ایک بن ہے کوئی
شورش رنگ جنوں عام ہے، سر خالی ہیں
تھا گرچہ اسی خاک کی پوشاک سمندر
دیکھا تو اک آواز کا پیکر نظر آیا
دے کے دل خوش ہوں، چلو پانو سے کانٹا نکلا
یہی تیغ تیز تلی ہوئی، یہی زخم ناب کھلا ہوا
مانا گل و گل زار پہ رعنائی وہی ہے
خون کی ریتلی دیوار گرائے نہ کہیں
دل کو صدا نہ دوں، مگر اپنے جہان میں
صہباے غم سے آج نہ ٹوٹا خمار خوں
دل کی ویرانی کا منظر اس قدر کالا نہ تھا
عکس کوئی اتار لوں آئینہ سراب سے
نہ سورج نہ دشت سفر گرم ہے
منزل پہ خاک ڈال، سفر کا نشاں تو ہے
کتنے دلوں مںی وا شد زخم سفر نہیں
کچھ ہمیں ہمت فزا کہسار کا منظر بھی تھا
بہت سہے ہیں ستم دور آسماں جو ہوا
کھینچ لائی ہے یہاں لذت آزار مجھے
گلا فتاب
پیش لفظ
ویراں تھی رات چاند کا پتھر سیاہ تھا
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
اور بھی ہیں قفس کئی دور شب ملا ل سے
میں بھی شریک مرگ ہوں، مر میرے سامنے
جسم جو چاہتا ہے اس سے جدا لگتی ہو
جسم کے ریگ زار میں شام و سحر صدا کروں
کہاں کی آگ تھی کیا جانے اور دھواں کیسا
غزل کا شور ہے اندر پرانا
دریاے تند موج کو صحرا بتائیے
نظر نواز تو ہیں بحر و بر ہمارے لیے
بکھر بکھر گئے الفاظ سے ادا نہ ہوئے
خالی خولی غبار نکلا
مقبول عوام ہو گیا میں
کنگ ہے خاکستر خوں بولتا پھرتا ہوں میں
گیا شور شبخون غم بھی گیا
تصویر باغ و منظر دریا الٹ گیا
الٹے پلٹے ہندّسے دیتے رہے دہائیاں
کیسی ہار تھی کیسی جیت اور کیا چھگی پر ستا
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
بد رنگ ہے زمیں ابھی کالا ہے آسماں
سنسناتی ہوئی فضا کے سوا
ذروژں کا اختیار نہیں تھا ہواؤں پر
جس کی فضا آفتاب، جس کی ہوا آفتاب
ویسی ہی شام ہے وہی نقشہ ہے بام کا
اڑی چاند چلمن چمک چار سو
سورج دریا میں گر رہا تھا
دھوکا ہوا تھا آب رواں پر سراب کا
شعلے شفق شرار وہ دیوار سنگ پر
بجلی گری ہے کل کسی اجڑے مکان پر
دھندلا گیا نشان سفر بھی نگاہ میں
بکھری ہوئی فلک بہ فلک شام ہے کوئی
آنکھوں میں رکا حسن کا ہنگام سفر میں
پھوٹا اداس جسم سے موسم بہار کا
در ہے کوئی وجود کے اندر کھلا ہوا
سکوت زرد میں اک سرخی صدا ہو کر
رات کا زہر بجھاتے رہے بینائی میں
بھر جاتا ہے تاریک دھواں تنگ مکاں میں
بے کار دل دھڑکتا ہے دنیا کوئی نہیں
پھر آئی ہوا ڈوبی ہوئی رات کے رس میں
آنکھ بھی وا ہوئی سورج بھی سفر سے آیا
خبر نہیں سفر خاک میں کہاں ہوں میں
اور بھی ڈر تھا کوئی خوف خداؤں بغیر
میں لڑکھڑا تا پھرا باغ کے برابر میں
ٹوٹتے پتوں کا موسم ہر طرف چھایا ہوا
عکس ادا ہی اور ہے نقش نوا ہی اور ہے
یہ اڑتے ہوئے رنگ ہیں یا سنگ ہوا میں
گزر گیا ہے نظر سے کوئی سراب ایسا
دیکھوں وہی تماشا رت کی رانیوں میں
خالی خلا ہے اور ہوا میں رکھا ہے کیا
نم نگاہ تھی کیا شے سم سراب ہے کیا
سفر میں ساتھ سلگتا رہا نشاں اس کا
صدا کے سانپ کو سب سامنے عصا کرکے
مرنے پہ ہو چلے سبھی تیار کس لیے
رنگوں کا تمنائی نہ سودائی ہوں رس کا
آثار آب، سیل صدا، رنج رایگاں
میں یوں تو ہنس دیا تھا سفر کے سوال پر
صداے سنگ بھی تھی رنگ رہ گزار بھی تھا
جنوں بھی سر میں ہے اس بحر سے گزر نے کا
کچھ اتنی دور سے دی وہم نے صدا مجھ کو
موت مداح مری موت پہ مائل میں بھی
عکس اڑتے ہیں عجب آتش آواز کے ساتھ
زردی کھنڈی ہوئی تھی جہاں نقش ناب میں
لہو کی سر سبز تیرگی ہے کہ رنگ اڑتے لباس کا ہے
جیسا خمار خواب نے چاہا بھی آئے گا
کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
فضا میں اڑتے شرار دیکھو دھویں کی تاریک دھار دیکھو
پکڑا گیا میں ذوق تماشا کے زور میں
جھونکا یہ تر و تازہ تبھی جان میں آیا
دو بدو آ کر لڑے گا جس گھڑی جانیں گے ہم
کس لیے راہ میں رکنے لگی رفتار مری
خواہش خانماں تو ہے کاہش کارواں تو ہے
صداے سنگ سے تھا یا ہوا کے ہاتھ سے تھا
پیلی پڑی ہے دھوپ نہ صحرا ہی زرد ہے
عکس تھر تھراتا ہے آسمان پیالے میں
میدان تھے جہاں وہاں جنگلے جنگل ہوئے
مجھے قہر تھا میں برستا رہا
صدا بھی سانس میں الجھے بدن بھی ڈر کے رہے
نوا میں نکھرا ہوا راز رہگزر ہی نہ ہو
نوا کے زیر و زبر نوحۂ نوا ہی تو ہے
دھندلا گئی ہوا پس دیوار اس طرف
بے عکس بے درخت وہی شام ہر طرف
عکس میں افتاد گی تھی نقش میں ناسور تھا
تند کی تہ میں طلب تھی تنگ میں تاخیر تھی
ساحلوں سونے سیہ تھے پانیوں پایاب تھے
انکار خندق ہے راستے میں
گرجا گھنگھور کو بہ کو پر
اندھا دھند انداز اندرے اندر
چمک چمکارنے شب شیر نے کے
راکھ سراب سیہ جنگلاں میں پیا سا نام نشاں کا
دلدّر درمیاں دلدار نے کا
شکل مٹ شام شک در ماندگی دل
صدف صف ریت رقص ارژنگ آہنگ
جبر جولاں جڑت جنجال جلوہ
کھڑے کھیتاں رزے ریتاں تناظر
چتر چاتر چشم مینسز بہانہ
کرک بجلی بھڑک شعلہ دھڑک دھوپ
چمن وادی گلو گل داکھ دیوار
دیا دکھتا لیا چپ چور لت پت
مہر زار آسماں گہرا جنگل سبز
ٹھرک ٹھنڈک تھرک تھوکیں چھنک چھینک
اجل خواب آئینہ آغاز عکس اندام دریاواں
دیوار درز دو بدو ارژنگ اثرواں
تن طغیانی تہ بہ تہ نیند نوا چپ چانگی
پتھر پکار پائینچہ پیچاک سانولی
پتھر پیرہن رت رہا باردا
مہک ماورا چیخ چادر چندن
جسے ڈوبنا تھا اسے تار گیا
کڑھ کرلاٹ سفن سنگھنا ہڑھ ہونجھ ہوا واں جتھے
ات اگنور شفق سونا پایاب ہوا پرچھائیں
فصیح فراسٹ عزائم بلیغ عنقا میں
رطب ویابس
رطب ویابس کا شاعر
نقش تھا جا بہ جا محمد کا
وہ تو اپنا تھا، یہ دھوکا اسے کیا دینا تھا
ہواے دل بھی نہ تھی، موسم دعا بھی نہ تھا
میں، یوں تو نہیں ہے کہ محبت میں نہیں تھا
اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
گرم سفر ہے، بے سروسامان ہے تو کیا
کیا علم تھا یوں عکس نما مجھ کو ملے گا
شرح و شمار شوق کی حالت میں آئے گا
کھلا بھی موسم جاں، قرض دل ادا بھی ہوا
قافیے کی بند گلیوں کا گدا گر کر دیا
توڑ ڈالیں سب حدیں اور مسئلہ حل کر دیا
پردے میں یوں تو پھول کھلا احتیاط کا
دل کے صفحے پہ خوب چھاپا
پڑا دشت ابد میں ازل سے ایک اکلا
یاری ہے وہی، وہی بلپا
ہے ساری مصیبتوں کا منبع
کھایا کسی اور ہی نے میوہ
مجھ پر وہ جمائے کیوں نہ دھوّا
تمھی بتلاؤ، کیا کیجے مداوا
وہ دن میں ہی اس کو چھوڑ نسا
روکو گے تو ہم کریں گے دنگا
عینک لیجے اگر بدلوا
دیر ہو جائے گی، نہا لیں اب
میں نے پوچھا تھا، ہے کوئی اسکوپ؟
ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت
دل میں ہوتی ہے خلا کی آہٹ
نہیں ایسا کہ ہر ہنر ہے عبث
اور تو کچھ ہے آج کام نہ کاج
قید کے قہر میں نجات کی آنچ
سن لے بس ایک بات ستم گر کسی طرح
روز پکتی ہے شاعری کی بطخ
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
سوچیے شعر کا نیا کوئی کوڈ
ہو گیا خوف پر خطر نافذ
کرتا ہوں جمع خود کو بکھرنے کے نام پر
قتل وغارت میں ہی کٹا اتوار
کہے گا وصل اس کو کون کنجر
نہ چمکی اس بدن کی دھوپ دم بھر
رہتے ہو تفکّر
چر گئی ککڑی، ککڑ
گرتے ہوئے ہاتھ، گرتی آواز
چیزیں اچھی ہیں دونوں، پوڈر، روژ
دودھ دے گی نہیں ہمیشہ بھینس
نیلے نشے کی ٹوٹ میں چمکا وہ برق وش
جن کے رہتا ہے خود بیان میں نقص
کچھ ہوئے خوف خطا سے ناراض
کب سے بے کار ہو، سلیم وریاض
سفر میں نہیں میں ہی تنہا غلط
خود سے آزاد، خبر سے محفوظ
رخت غم رایگاں، سفر ضائع
اس مکاں کو اس مکیں سے ہے شرف
کوئی نکلا کہ آئے ہم ناحق
روح میں خاک، رہ گزار میں خاک
سب خورد و خرید ہو مبارک
تیرگی خیر میں شعلۂ شر ہے الگ
بہت قید کاٹی ہے، گھر سے نکل
سر گشتۂ سراب تھے وشت صدا کے ہم
مسکرا دینے میں، ہونٹوں کی ضیاد ینے میں
یقیں کی خاک اڑاتے، گماں بناتے ہیں
کیا تپا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں
شور اٹھا پھر سخن گرم کا بازاروں میں
ابھی سے وصل دل آرا کا اہتمام کہاں
خود سے بھی چال چلتا رہتا ہوں
خیر، جعلی ہے کہ فرضی ہے ، میاں
سفر خواب کا صلہ مانگیں
حد ہو چکی ہے، شرم شکیبائی ختم ہو
شامل عرض ہنر کرکے ریا کاری کو
دھوپ، عکس ہوس تماشا، لو
تھے سبھی لرزش دیوار کی تقدیر کے ساتھ
سانس کے آر پار، دل سے وراء
لیتے ہیں آڑ کیوں سخن فتنہ ساز کی
گم ہیں کسی جستجو میں اب بھی
آگ دو دن میں ہوگئی ٹھنڈی
میری بھی نہ چوڑ کر ترٹی
رات گئے چڑھ دوڑے کمّی
اتنا نہ سنبھال مال مڈّی
تنہائی آئے گی، شب رسوائی آئے گی
حرف نکھرا ہے محبت کا مٹا دینے سے
صحرا مرا سفینہ، صدا باد بان ہے
ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دو بارہ مجھے
فنور اگرچہ تمنا کا سر میں اتنا ہے
ایک ہی نقش ہے، جتنا بھی جہاں رہ جائے
سونا سا کچھ رگوں میں چھپایا ہوا تو ہے
یوں تو کس چیز کی کمی ہے
عکس خیال و نقش صدا ہے ترے لیے
قافیہ چاہیے کھانے کے لیے
رنگ جلنے کے لیے، راز پگھلنے کے لیے
دن ہوا، کٹ کر گرا میں روشنی کی دھار سے
مشکل کا پتا کر، کہیں آساں کی خبر دے
ایماں کے ساتھ خامی ایماں بھی چاہیے
بوسہ نہ سہی، اپنا کوئی ،ذائقہ تو دے
اک دن ادھر سوار سمندر سفر تو آئے
عرض واظہار سے آگے ہے، نوا کیسی ہے
کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے
یہ جو لکھا ہے مجھے، یہ مٹایا ہے مجھے
مشکل بھی شعر ہو تو سمجھ میں ذرا تو آئے
زہر زمیں میں تھی نہ فشار فلک میں ہے
چھیڑا اسے آج پھر، چناں چے
بجتے نہیں اب ٹنن ٹنن ٹے
مصروف کار تو نظر آتا بھی چور ہے
غبار آلود سمتوں کا سراغ
وہی منظر برف برسنے کے، وہی گھڑیاں دھوپ نکلنے کی
غبار آرزو میں روشنی ہے
چمکتی وسعتوں میں جو گل صحرا کھلا ہے
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
نہیں کہ ذوق سماعت بیاں کے بعد ہوا
ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو
یہ فیصلہ ہے کہ خود سے خفا نہیں رہنا
رخ زیبا ادھر نہیں کرتا
سراب دیکھنے کو، انتظار کرنے کو
سیدھا تھا مسئلہ مگر الٹا سمجھ لیا
نظر کو چھوڑیے، صرف نظر ہی ممکن ہے
نکل سکوں قفس اعتبار سے باہر
یو بھی نہیں میرے بلانے سے آگیا
سرکشی سہی، فی الحال تو سر بھی نہیں رکھتے
عجیب سلسلۂ روز گار رکھتے ہیں
چھپا ہوا ہی سہی خوف خواب کے پیچھے
جسے بھی اس پہ ہے دعواے جبر، بکتا ہے
نظر کا پھیر ہے یا مال ہی کچھ ایسا تھا
منظر، ظفر کھلیں ہی کھلیں آفتاب کے
چوں کی طرح زرد بکھرنا تو چاہیے
کھولیے آنکھ تو منظر ہے نیا اور بہت
کشتی ہوس ہواؤں کے رخ پر اتار دے
جو تھے امیر اب ان کو فقیر تو دیکھو
سو بھی تمام گرمی بازار کا بدن
دیکھتے دیکھتے ویراں ہوئے منظر کتنے
ایسا نہیں کہ داد ہنر دیجیے مجھے
لرزش پردۂ اظہار کا مطلب کیا ہے
اب تو یہ انتظام رکھنا ہے
بستی میں ہے پانی تو نگر میں بھی ہے پانی
گھونسلے شاخیں، ثمر، سارا شجر پانی میں ہے
یہ فرد جرم ہے مجھ پر کہ اس سے پیار کرتا ہوں
بندھے وہ زور ظفرؔ خاک کی روانی کے
ہوتا رہے گا یوں ہی نظارا کہ اب نہیں
وہ کوئی خواب پریشاں تھا، محبت کیا تھی
کچھ ہم میں پرکھنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا
میں زرد آگ نہ پانی کے سرد ڈر میں رہا
ملوں اس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں
درون خانہ کہ بیرون در ضرورت ہو
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں، اور در کیسا ہے وہ
کب وہ ظاہر ہوگا اور حیراں کر دے گا مجھے
بہت کچھ ہو تو سکتا ہے، مگر، کچھ بھی نہیں ہوگا
سر شاخسار گلاب ہے کہ سراب ہے
رفتہ رفتہ اس دل سے جو محبت ماند پڑی
حسن کے انکار سے بھی کچھ تو پردہ رہ گیا
جرم دل کی سزا نہیں دیتا
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
فکر کر تعمیر دل کی، وہ یہیں آجائے گا
مسافرت کو بہانہ اگر بنا لیتا
خوش ہے وہ دے کے ہمیں خواب سہانے خالی
قیام ہے ابھی، سوے سفر بھی آتا ہوں
نشیب راہ میں ہے یا فراز بام پہ ہے
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستا بھول جاتا ہوں
ہمارے نقش طلب کا نشاں بھی خالی ہے
ہمیں شکایت پیہم سے اجتناب تو ہے
یوں بھی نہیں کہ دل میں کوئی غم نہیں رہا
نظر جھکائے ادھر سے ادھر گزرتا ہے
آنکھ میں شوخی نہیں چمکے گی، آنسو آئے گا
گلشن خواب ہوں، تاراج حقیقت کردے
کچھ احتیاط بھی اس میں بہت ضروری تھی
اور اب سلسۂ ناز نہیں رکھ سکتا
انکار کی حدوق سے گزرتے کچھ اور ہیں
رکو اگر تو روانی بحال کر لینا
لڑتے ہیں، مگر، معرکہ جاری نہیں رکھتے
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں، میں آرام کرتا ہوں
جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا
پہلے تکرار کروں گا ہوس یار کے ساتھ
وہ بے بسی ہے کہ دل کو یقیں نہیں آتا
نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا
دیکھنا بار دگر دیکھنا ہے
لگا ہوں جب شام کے کنارے
خامشی اچھی نہیں، انکار ہونا چاہیے
جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے
درکار ہے مجھے تو دوائی کے طور پر
یہ مت سمجھو کنارہ کرنے والا ہوں
شب امید بھی ہے ہجر کی اس شام کے بعد
نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
سرعام
شور تھا جس کا بہت وہ انقلاب آیا نہیں
کچھ لے سراغ ظلم کے نیلے نشان کا
گرچہ کہتی تو نہیں خلق خدا سب اچھا
حضرت دل تو اس دفعہ صاف نکل نکل گئے
کچھ ہوئے باغی یہاں، کچھ لوگ بے دل ہوگئے
آداب محبت جو نبھانے کے لیے تھے
شور ہے زیر زمیں، چشمہ ابلتا کیوں نہیں
نقش ہوس دلوں پہ مکرّر بٹھا دیا
کیا پوچھ رہے ہو نام اس کا
شکوۂ سختی بے جا نہیں کرنے دیتے
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
اصل میں صرف سلانے کے لیے آیا تھا
جو پہلے کہ چکا اس سے مکرنا چاہتا ہے
ہمارے ساتھ وہ ظاہر ہے جو کچھ کرنے والا ہے
مجھ سے تو پوچھتا ہے، وہ انکار کیوں ہوا
ایک بیوی ہے، چار بچے ہیں
لوگ تو ایک ہی جیسے ہیں
ابھی تبدیل کر لیں جو طریقہ آپ کا ہے
بات سچ کہتا ہوں، اب تجھ سے تو کچھ پردہ نہیں ہے
مرے بیاباں میں گل کھلا کیا اسی لیے تھا
پیلے کالے ایک اگر ہو جائیں تو
شاعر جو بھی یہاں پر جھوٹے سچّے ہیں
مسائل ہو تو سکتے ہیں، مگر، تفہیم بھی ہوگی
انھیں کچھ سوچ کر الزام دینا چاہیے تھا
طریقہ وہی دیکھا بھالا تو ہے
کون ہے جس کے سوا کوئی نہیں تھا
مٹا ہے رنگ دل، تصویر آدھی رہ گئی ہے
مسافت کے اندھیروں میں اجالا راستہ ہے
حساب اب کیجیے تسلی کے ساتھ کتنے کی روٹیاں ہیں
معاملات زیدہ ہیں، گردنیں کم ہیں
نہیں حل ہو رہا یہ مسئلہ حال آں کہ چھوٹا ہے
اپنا تو مذہب ہی اس بنیاد پہ قائم ہے
بڑھ کر جینا ہے یا گھٹ کر مرنا ہے
بھو کے ہو تو کھلیانوں پر ٹوٹ پڑو
بہت بدحالیاں جھیلی ہیں، خوشحالوں پہ چڑھ دوڑو
ان بڑے لوگوں کو آگے بڑھ کے سیدھا کیو ںنہیں کرتے
زندگی پانو کی زنجیر نہیں ہو سکتی
کیا دبدھا ہے، بھا ڈکیت
جتنی ہو جیسی چھترول
اگر توڑ ہے اور مگر توڑ ہے
جہاں تمہارے رشوت خور
پیسے مانگتا ہے دھلوائی کرنے والا
آدھی رات منگائی روٹی
کسی تازہ سفر کے واسطے تیار ہونا ہے
کوئی پکارا، کچھ تو کر
کیوں اس نے اشارہ نہیں کیا
کہاں سے چل کے آیا ہے، کہاں ٹھہرا ہوا ہے
گورے ٹھاہ بھئی کالے ٹھاہ
مرغ کڑاہی کے شوقین
روکھی سوکھی ہی مل جائے
موٹے جھوٹے مردہ باد
جاگیروں والے تھوہ