سرورق
نظیر کی قلمی تصویر
فہرست مضمامین کلیات نظیر
پیش لفظ
مقدمہ
دل کو چشم یار نے جب جام مے اپنا دیا
غزلیات دیوان نظیر اردو
دل ہوا جس روز بسمل ابروے دلخوار کا
ردیف الف
خوباں کو جب اس رخ زیبا نظر آیا
تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا
مجھے اس جھک سے آیا نظر اک نگار رعنا
ہو کیوں نہ ترے کلام میں حیران تماشا
وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا
وہ رشک چمن کل جو زیب چمن تھا
شور افگن جنوں ہے جس جا نگاہ کرنا
گر عبش سے عشرت میں کٹی رات تو پھر کیا
جوش نشاط و عیش ہے ہر جابست کا
بتوں کے زرد پیراہن میں عطر چنپا جب مہکا
سحر آیا جو نہیں میں کلبۂ احزاں میں بیچارا
رہوں کاہے کو دلخستہ پھروں کا ہے کو آوارا
نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا
کیا دن تھے وہ جو واں کرم دلبرانہ تھا
لطف تشریف جو عشق اسکے نے آغاز کیا
مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لیجانا
بتوں کی مجلس میں شب کو مہرو جو اور ٹک بھی قیام کرتا
کلاں گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کو جام کرتا
جب سر زلف تا کمر پہونچا
نامۂ یار جو سحر پہونچا
شانے سے اس کے کل جو ہمیں درد شانہ تھا
ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا
ہوئی صبح جب گھر سے وہ یار نکلا
بہاں میں جو نہ ہوا اس پری کا دیوانہ
کیا جو یار نے ہم سے پیام رخصت کا
نظر پڑا اک بت پری وش نرالی سج دھج نئی ادا کا
کل مرے قتل کو اس ڈھب سے وہ بانکا نکلا
دل لگا کر قرار کھونا تھا
کہتے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
عشق میں عقل و ہوش کھونا تھا
عاشق ہو دم کے لینے کو جنجال کر دیا
کان میں اس شوخ چنچل کے جو نہیں بالا پڑا
حسن اس شوخ کا اہاہاہا
پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا
جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیا
میرا دل ہے مشتاق اس گلبدن کا
سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والا
ملا مجھ سے وہ آج چنچل چھبیلا
آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا
ادھر یار جب مہربانی کرے گا
جو دل دے کے کچھ شاد کامی کرے گا
بیٹھ یاں بھی کوئی پل کیا ہوگا
ڈر ہم کو نظر کا ہے وہ گھر سے چلا ہوگا
وہ غنچہ دہن جس کو اک دم بھی ملا ہوگا
کل اس کے چہرے کو ہم نے جو آفتاب لکھا
سنا تھا شور قاتل کی اکڑ کا
اپنے کوچے میں جس کو جادینا
رخ و جبیں مژۂ تیز و چشم و ابرو کو
ایسا ہی جو وہ خفا رہے گا
سامنے اس صف مژگاں کے میں کل جاؤں گا
منتظر اس کے دلا تابہ کجا بیٹھا
نہ آیا آج بھی کل کی طرح وہ گلعذار اپنا
گلزار ہے داغوں سے یہاں تن بدن اپنا
گلہ لکھوں میں اگر تیرے غم کے چہلوں کا
ترے بیمار کو تجھ بن شفا ممکن نہ تھی ہونی
نہ آیا رات بھی کتنا ہی انتظار کیا
اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
پھر آن کے منت سے ملا ہم سے وہ لالا
پھر ہو کے خفا روٹھ گیا ہم سے وہ لالا
اس کا مکھڑا جو بے نقاب ہوا
آتے ادھر جو ہم نے وہ کجلاہ دیکھا
اس شوخ کا جو ہم نے رخ بھر نگاہ دیکھا
چاہ میں دل بہت خراب ہوا
وہ رشک چمن کل جو زیب چمن تھا
ہو کے مہ وہ تو کسی اور کا بالا نکلا
اس نے جب آنکھیں لڑا کر ہنس دیا
لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کا
خرام ناز سے اس شوخ نے دامن کو جب جھٹکا
آغوش تصور میں جب ہم نے اسے مسکا
آج دیکھ اس نے میری چاہ کی چتون یارو
مالی نے جو دیکھا تری تصویر کا نقشا
جال میں زر کے اگر موتی کا دانا ہوگا
قاصد صنم نے خط کو مرے دیکھ کیا کہا؟
ہاتھ اس کا جب نقاب کے گوشے تلک گیا
ہوش و خرد کو کر دیا ترک اور شغل جو کچھ تھا چھوڑ دیا
نیچی نگہ کی ہم نے تو اس نے منہ کا چھپانا چھوڑ دیا
دن کتنے ہم میں اور اس میں ہر وقت یہی ایراد رہا
ڈر اس کے دل کو ہجر میں کب یاس کا لگا
دل میں جب چاہ نے قیام کیا
دل نہ لو دل کا یہ لینا ہے نہ اخفا ہوگا
کل جو رخ عرق فشاں یار نے ٹک دکھا دیا
شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
شہر دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا
سبھوں کو مے ہمیں خونناب دل پلانا تھا
کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا
ترے جمال کی سورج جھلک نہ دیکھ سکا
عیسیٰ کی قم سے حکم نہیں کم فقیر کا
عشق کا جو گل زخم دم شمشیر کھلا
رخ تو وہ ماہتاب سا دیکھا
چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا
چشم ساقی سے جس نے جام لیا
کسی کو بتا دھج دیکھا جا رہے گا
جو پیش نظر وہ گل اندام ہوگا
خیال یار سدا چشم نم کے ساتھ رہا
بے جا ہے وہ عشق میں اے دل گلۂ پا
ہے عزم کشور دل کی ادا کو غارت کا
گلچیں نہ توڑ گل یہ بعید و قریب کا
اٹکا لیا جو زلف نے دل کو اٹک گیا
تھا عہد یہ دل اس کو زنہار میں نہ دوں گا
دل واں سے جو کل شتاب آیا
محفل میں اسکے پہونچے اور یار کو نہ دیکھا
اس نے کتابی رخ دکھا ہوش ہمارا کھو دیا
ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا
اٹھاوے تو گر ناز اس دلستاں کا
یہ بھلا ہوا جو اس نے نہ سحر نقاب الٹا
ہوا مسکن اپنا در اس دلستاں کا
کیا ڈھب ہے دل کو لینا اور اجتناب کرنا
شیوۂ ناز ہوش چھل جانا
خط بھی آیا تو بھی ظالم مجھ کو ترساتا رہا
ادا کے تو سن پر اس صنم کو جو آج ہم نے سوار دیکھا
ہے ناز اسے ہر دم میں منتظر آنے کا
اگر ہے منظور یہ کہ ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا
آن نے دل لے لیا جیسے کہوں اس آن کیا
شب مہ میں دیکھ اس کا وہ جھمک جھمک کے چلنا
گرم یہاں یوں تو بڑا حسن کا بازار رہا
کیوں جی کیا تم نے مرے دل ساجواں باندھ لیا
اس نے کہا کہ مجھ سوا غنچہ دہن ہے کون سا
آنے کا عہد اس کے گر سچ نظر میں آتا ہے
کچھ تو ہو کر دو بدو کچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دیا
محفل میں اپنی ہم کو جس دم وہ بار دے گا
صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگر چہ یوں خیال دل کا
کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا
کلال گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کا جام کرتا
نہ چھوڑے دل کو وہ افسوس نگہ لڑانے کا
خوش ہوئی سینہ میں مژگاں کی جھپک تیر لگا
گہ چشم اٹھا رخ پر مرآت لقا ہونا
گرم گلشن کا جو کل وہ رشک مہر و مہ گیا
دل ہم نے جو چشم بت بیباک سے باندھا
اس سرخ لب سے ہم نے لعل یمن کو دیکھا
پایا مزا یہ ہم نے اپنی نگہ لڑی کا
جن دنوں حسن بتاں کے دل پئے نظارہ تھا
ہوا خورشید کے دیکھے سے دونا اضطراب اپنا
عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چو پٹ پڑا
جب ہمنشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
کل جو وہ دلربا ادھر آیا
اگر اس گلبدن کا دل میں کچھ آثار ہو پیدا
دل پر پرویوں کی چاہت سے تو ہے مغرور کیا
بحسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا
جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا
تمہاری زلف کا اے یار ہم سے بل بہ گیا
دیکھیئے جلوہ جو اس حسن بالا دست کا
متفرقات ردیف الف
لائے خاط میں ہمارے دل کو وہ مغرور کیا
جب کھلے اس معجزہ آرا کے لب
دیا جو ساقی نے ساغر مے رکھا کے آن اک ہمیں لباب
ردیف باء
ہیں گرچہ یاں تو اور بھی محبوب خوب خوب
یہ جواہر خانۂ دنیا جو ہے با آب وتاب
بحر ہستی میں صحبت احباب
خوباں میں اس طرح ہے وہ دلخواب سب سے خوب
رات کھینچا جو اسنے رخ سے نقاب
متفرقات ردیف (ب)
ساغر کے لب سے پوچھیے اس لب کی لذتیں
ہے جو اس محبوب کے انگشتری دردست چپ
کیونکہ رہے نہ آہ وہ الفت پذیر چپ
ردیف باء فارسی(پ)
کب غیر نے یہ ستم سہے چپ
کسی نے رات کہا اس کی دیکھ کر صورت
ردیف تاء فوقانی(ت)
دل کو لیکر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ
دل ہے یوں پہلو میں یاد بت گلفام سمیت
کیا نام خدا اپنی بھی رسوائی ہے کمبخت
کھل گیا رخسار اس کا جس گھڑی کاکل سمیت
ردیف تاء ہندی (ٹ)
گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ
نگہ لڑانے کے آگے اسکی ہے ناز کرتی پڑی لگاوٹ
صورت کبھی دکھلائی تو اس میں بھی لگاوٹ
کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج
ردیف ثاء مثلثہ (ث)
دے کے دل بے مہر کر کرنا گلا یہ بھی عبث
بتوں کی چاہ نہیں ہم کو دل پزیر عبث
ردیف جیم(ج)
ردیف جیم فارسی (چ)
اس کے تشریف جو لانے کی خبر پائی آج
بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
کچھ ایسی ہے کوئے یار کی صبح
ردیف حاء حطی (ح)
کی تم نے جفا ہم نے وفا جھوٹ ہے یا سچ
تھی چھوٹی اس کے مکھڑے پر کل زلف مسلسل اور طرح
آرسی نے ایسی دیکھی حسن میں کس کی طرح
ہم تو جائیں اس سے اب گستاخ
چھپاتا ہے جو ہم سے وہ صنم رخ
ردیف خاء معجمہ (خ)
جب مجھ سے پھیرتا ہے وہ کرکے عتاب رخ
جب ہم کو اس کی زلف کے آئے پسند بند
مرہم ہو کس طرح سے دل افگار کو پسند
ردیف دال مہملہ (د)
در پے ہیں دل اپنے کے ادھر عشوہ گرے چند
چھوٹا بڑا نہ کم نہ منجھولا ازار بند
دیا ہمارا اسے نامہ بر نے جب کاغذ
ردیف ذال معجمہ (ذ)
توہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد
مطلع
ہو کچھ آسیب تو واں چاہیے گنڈا تعویذ
عشق کا دور کرے دل سے جو دھڑکا تعویذ
جو پاویں دست بت دلستاں کا تعویذ
ایک دن اس مہر خوبی کے حضور
ردیف راے مہملہ (ر)
رہا ہے غم سے یوں آنکھوں میں آب ارغوانی بھر
کس طرح مل جائے اس اچپلے سے دوڑ کر
یوں آئینے میں عارض تر آئے ہے نظر
بسمل کے گلے کی نہیں تدبیر کوئی اور
ہر گز نہ پلا مے مجھے تو آنکھ بدل کر
رہے جو شب کو ہم اس گلی کے سات کوٹھے پر
کبھی تو آؤ ہمارے بھی جان کوٹھے پر
دھواں کلیجے سے میرے نکلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
یوں ہجر میں روتا ہوں میں اس گل کے شب وروز
رکھی ہر گز نہ ترے رخ نے رخ بدر کی قدر
دیتے ہیں جان حوروملک جس کی آن پر
غزل مستزاد
دنیا ہے ایک نگار فریبندہ جلوہ گر
بے جرم و خطا یار نہ کر چشم نمائی تیوری کو چڑٖھا کر
ہہ نور فزارخ کرتا ہے نگاہوں کو ترا مطلع انوار
مستزاد مثلث
مستزاد دوم
یوں ہم اس زلف میں آئے ہیں دل زار کو چھوڑ
ردیف راے ثقیلہ (ڑ)
اے شوخ ہر گھڑی نہ ہوس آشنا کو چھیڑ
آیا ادھر کو اک دن وہ گلبدن نہ ہر گز
جو آوے منہ پہ ترے ماہتاب ہے کیا چیز
ردیف زاء معجمہ (ز)
دل کے لینے کا رکھ کے دل میں پاس
گر وہ مژہ ہو مائل جنگ پر طاؤس
ردیف سین مہملہ (س)
ردیف شین معجمہ (ش)
ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش
ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش
شیریں کو جیسی جو کی تھی شیر پر نوازش
جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص
ہے تو کہنے کو ہر کہیں اخلاص
ردفی صاد مہملہ (ص)
سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرض
کہیئے کہاں تک ہمیں تم سے ہے جو جو عرض
ردیف ضاد معجمہ (ض)
ردیف طاء مہملہ (ط)
جب ہم نے اسے رقم کیا خط
دل ہے اس کجکلاہ سے محفوظ
ردیف ظاء معجمہ (ظ)
ردیف عین مہملہ (ع)
ہے ترا رخ بھی تجلی میں کچھ اس نور کی شمع
اس رخ کی ہمسری میں جو آوے خیال شمع
ردیف غین معجمہ (غ)
ساقی یہ پلا اس کو جو ہو جام سے واقف
کی جفا اس نے مہر کہہ کے دریغ
تھا جو از بسکہ میں عصیاں میں خراب آلودہ
ردیف فاء (ف)
ساقیا ہے بہار زینت باغ
محفل میں ہم تھے اس طرف وہ شوخ چنچل اس طرف
کان میں اس کے نہیں لعل و گہر دونوں طرف
ردیف قاف (ق)
اے صف مژگاں تکلف برطرف
دل پھنسانے کے ہمنشیں لائق
دیکھا جو ہمیں اس نے لگا پاؤں سے تا فرق
مے خوردہ جو دیکھا اسے آتے ہوئے در تک
بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک
ردیف کاف تازی (ک)
اس کے نازوادا کے رنگ اور ڈھنگ
یار کے کاکل نے دل ہم سے لیا اور الگ
ردیف کاف فارسی (گ)
ردیف لام (ل)
ہے یہ شور اس دل جلے کا اس کے در کے متصل
کب مثل شیشہ ان کا کسی سے بر آئے دل
کھولی جو ٹک اے ہمنشیں اس دلربا کی زلف کل
دکھا کر اک نظر دل کو نہایت کر گیا بیکل
اے دل اپنی تو چاہ پر مت پھول
جو دل کو دیجیے میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل
تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل
دیکھی جو اس محبوب کی ہم نے جھلک ہیکل کی کل
اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دل
ردیف میم (م)
کرکے نیرنگ فقط دل ہی نہ لے جاؤ گے تم
نہیں یاں بیٹھتے جو ایک دم تم
دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
نہ اس کے نام سے واقف نہ اس کی جا معلوم
رہ کے خاموش خوش آئے بت گلفام کو ہم
تمہیں جس گھڑی دیکھتے ہیں میاں ہم
بتوں کی دیکھ زلف عنبریں ہم
ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دیکھ پائیں گے ہم
کبھو دیکھوں نہ سنبل باغ کو میں مجھے اس خم زلف دوتا کی قسم
گر کسی سے نہ دل لگاتے ہم
ہوں تیرے تصور میں مری جاں ہمہ تن چشم
تدبیر ہمارے ملنے کی جس وقت کوئی ٹھہراؤ گے تم
اسی کی ذات کو ہے دائما ثبات و قیام
دیکھے نہ مجھے کیونکر از چشم حقارت او
کہتے ہیں یاں کہ مجھ سا کوئی مہ جبیں نہیں
ردیف نون (ن)
آج تو ہمدم عزم ہے یہ کچھ ہم بھی رسمی کام کریں
فرقت میں خستہ دل کا جب حال دیکھتے ہیں
سزاوار ارے ارے ہوئے ہیں
وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
خوباں تمہارے آگے جو نام جمال لیں
کیا کاسۂ مے لیجیے اس بزم میں اے ہم نشیں
صفائی اس کی جھلکتی ہے گورے سینے میں
کھلے گل سبزہ نزہت بار ہے کیا کیا بہاریں ہیں
بگولے اٹھ چلے تھے اور نہ تھی کچھ دیر آندھی میں
جب اس کا ادھر ہم گزر دیکھتے ہیں
مژگاں وہ جھپکتا ہے اب تیر ہے اور میں ہوں
یہ جو خوباں حجاب کرتے ہیں
کل نظر آیا چمن میں اک عجب رشک چمن
چمن میں جب سے لب اس غنچہ لب نے کھولے ہیں
عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
کیوں نہ ہو بام پہ وہ جلوہ نما تیسرے دن
اس کے رخسار کی صباحت میں
یہ ہم سے آپ جو چیں بر جبیں ہیں
لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
کیا کہیں ہم پہ رات چاہت میں
درد سے منہ کو دکھا جاوے تو کچھ دور نہیں
نہ دیویں ہم تو دل اپنا کبھی بتوں کے تئیں
دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہار اے جان نہیں
کیا دل لگادیں مہرباں ہم حسن صورت سے کہیں
کہیں بیٹھنے دے دل اب مجھے جو حواس ٹک میں بجا کروں
کیا کیا لگاوٹ بے بدل کیا کیا رکھاوٹ بر محل
نہ دن کو چین نہ راتوں کو خواب آنکھوں میں
تفرقہ ہوتا ہے ایسا بھی گل اندام کہیں
دوانہ ترا عاشق زار میں ہوں
کہتے ہیں جس کو نظیر سنیے ٹک اس کا بیان
یہ جو گلرونگار ہنستے ہیں
اپنی پرستشوں کی گرچہ نہایتیں ہیں
چھوٹا سا خال اس رخ خورشید تاب میں
ردیف واؤ (و)
متفرقات (ن)
نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
چاہت میں جس سے اے دل کچھ بھی معاملہ ہو
حسن وفا سے کیا کیا دکھلا دیا ہے تم کو
ہم دم چھپا دے واں کوئی کیا دل کی چاہ کو
بھوؤں کی تیغ کہا دل پہ آزمانے دو
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
جو دیکھو ہنس کے تم تو بند اشکوں کی روانی ہو
کہا جو ہم نے ہمیں در سے کیوں اٹھاتے ہو؟
دل جن کو دیا نام تلک ان کا نہ پوچھا
منہ کو دکھا کر ذرا اے گل خنداں تو
کچھ ڈر ہے ادھر آؤ اور اک آن نہ بیٹھو
خط کی رخساروں پر اس گل کے جو تحریرں ہیں دو
جھڑ کے بھی نہ الفت سے جو امداد کوئی ہو
جنہیں بر آرہے صحبت خیال یار کے ساتھ
ردیف ہائے ہوز (ہ)
دامان وکنار اشک سے کب ترنہ ہوے آہ
پان کھا کر جب کہا اس نے کہ لانا آئینہ
جو کہتے ہو چلیں ہم بھی ترے ہمراہ بسم اللہ
لگی ہے دل کی لگن اس حیا شعار کے ساتھ
زاہد و روضۂ رضواں سے کہو عشق اللہ
اس نے ایسے حسن کے پایا ہے کنجینے پہ ہاتھ
نور حق شافع امت سے کہو عشق اللہ
کل لگ چلے جو ہمدم ہم یار سے زیادہ
گورے ہاتھ اس کے وہ رکھتے ہیں عجب تاب پہ ہاتھ
بسکہ دل اس کا ہے مانوس خیال آئینہ
متفرقات ردیف (ہ)
غم نہیں گر دل بری سے دل کو لیجاتا ہے وہ
ہم سے تو آج بھی نہ ملا وہ نگار آہ
خجلت تو نہ دی کچھ اس بیمہر کی یاری نے
میاں دل تجھے لے چلے حسن والے
ردیف یائے تحتانی (ی)
خوش دو چند تمہیں سیر ماہتاب میں ہے
اب دیکھیں پھر ہم اے ہمدم کس روز منہ اس کا دیکھیں گے
تھے آگے بہت جیسے خوش اے یار ہمیں سے
مجبور ہو ہم اس کی یوں انجمن سے نکلے
دل لے کے پھر نہ کہیے ہنس کر ملا کرو گے
دوری میں اس قمر کے جب آتی ہے چاندنی
عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی
جو تو کہتا ہے اے غافل یہ میرا ہے یہ تیرا ہے
نہ سرخی غنچہ گل میں ترے دہن کی سی
ناگن ہے نئی زلف کی دل کیونکہ نہ ڈر جائے
ابرو نے کماں زلف نے زنجیر دکھا دی
نہیں ہوا میں یہ بونا فرختن کی سی
دل میں کچھ خوشدلی جو آپہونچی
اس صنم کا قرار کیا کہیئے
کئی دن سے ہم بھی ہیں دیکھتے اسے ہم پہ ناز و عتاب ہے
کیوں نہ اس کی ہو دلربا پہونچی
جب آیا وہ یاں دلربائی جتانے
پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
یہاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے
دیکھ عقد ثریا ہمیں انگور کی سوجھی
جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سردواں کس حساب میں
کسی کی چھین نہ لی ہم نے چاہ کی گٹھری
ہم تو عاشق ہیں ترے ناز اٹھانے والے
یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے
نہیں آئے گل سے جو تم ادھر اسے کیا خیال میں لایئے
کون یاں ساتھ لیے تاج وسریر آیا ہے
نہ مرنے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
ہوش نگہ لے چکی زلف کی اب گھات ہے
دیکھ کر کرتی گلے میں سبز دھانی آپ کی
چھپا کر جو بھاگے ہم اس سے ذرا جی
ہنسئے روئے پھرے رسوا ہوئے جاگے بندھے چھوٹے
ہم دیکھیں کس دن حسن اے دل اس رشک پری کا دیکھیں گے
ہے عزم یہ دل میں ہم بھی اسے اک روز نظر بھر دیکھیں گے
منہ سے پردہ نہ اٹھے صاحب سن یاد رہے
ناز کا اس کے جو تھپیڑا ہے
نہ آیا آج بھی سب کھیل اپنا مٹی ہے
ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اس کا ادھر وہ حسن دکھانا گھڑی گھڑی
سراپا حسن سمدھن گویا گلشن کی کیاری ہے
اس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہ
کمر تک اس نے زلفوں کو جو بل دے دے کے چھوڑا ہے
تھمہارے حسن کے شعلے کو دیکھے شمع جلتی ہے
رخ پری چشم پری زلف پری آن پری
درج غم میں چشم نے گوہر اگل کر بھر دیئے
سمجھے تھے چاہ ہم کو یاں غم نہ لینے دیگی
وہ جب گھر سے نکلا سچکتے سچکتے
ادھرجو دیکھا تو اس پری کی نگاہ جام شراب لائی
پھر بہار آئی ہے اور موج ہوا لہرائے ہے
جس کے لب سے سخن پند گہر جوش ہوئے
دیا جسے تو پھر ستم کا نہ اس کے ہر گز حساب کیجے
ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے
گلیاز عشرت ہو جیے کیا گلرخوں سے دو گھڑی
کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے
لگایا دام زلفوں کی شکن نے پیچ نے بل نے
سر شک چشم سے موتی بہت پروئے گئے
تاب اس کے دیکھنے کی نہ لائے چلے گئے
لے ہوش دل کو لینا ٹھہرا دیا ابھی سے
الطاف بیاں کب ہم سے ہوں ایجان تمہاری صورت کے
ہوے خوش ہم ایک نگار سے ہوے شاد اس کی بہار سے
دل وجاں ہمارے نہ غنچے سے ملتے
جن دنوں چاہت کی ہم کو دمبدم تقریر تھی
جب اس کی زلف کے حلقے میں ہم اسیر ہوے
ہوئی شکل ا پنی یہ ہمنشیں جو صنم کو ہم سے حجاب ہے
اس کے جھمکے کی لٹک سے جو ملا بالا ہے
تن پر اس کے سیم فدا اور منہ پر مہ دیوانہ ہے
دل زلف میں رکھتے ہو تو اکتانے نہ پاوے
ہمدم چلیں ہم اس کی طرف کیا نثار لے
دست غیر اس کے حناواں پاؤں پر باندھا کیے
ادا وناز میں کچھ کچھ جو ہوش اس نے سنبھالا ہے
جب آنکھ اس صنم سے لڑی تب خبر پڑی
کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے
دیر سے آج جو نکلے بت ذی شان کئی
خفا ان دنوں ہم سے وہ دلربا ہے
جو اس کے نازوادا ہم کو دل پذیر ہوئے
جب اس مہ جبیں پاس ہم شب کو پہونچے
جو دیکھی بالیدگی میں ہر دم بہار حسن نگار ہم نے
تن دیکھنے جس گل کا ہر برگ سمن نکلے
ہمیں اس نے وعدہ سے شاید چھلا ہے
مکھڑے پہ اپنے تم نقاب کھینچو ہو کیوں حجاب سے
کاکل مشکیں کا تجھ کو شوق بے تابانہ ہے
دیکھی نہ جدایار کی ابرو کبھی چیں سے
لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار کے گل دستوں سے
آیا نہیں جو کرکر اقرار ہنستے ہنستے
بھرے ہیں اس پری میں اب تو یارو سر بسر موتی
ناخوش دکھا کے جس کو ناز وعتاب کیجے
گئے ہم جو الفت کی واں راہ کرنے
پہلے ہی جو بتوں کی گھاتیں شمار کرتے
سحر کو نکلے تھے سیر کرنے جو ہمدم اک دن ہم اپنے گھر سے
کی اس صنم نے جس دم ہم پر نگاہ دل سے
کوچے میں اس کے اکثر کہتے ہیں یاں سے اٹھیے
ہے زلف خوش جو ایسی اور ہے وہ بند دل کی
لیجے یہ دل نہایت اچھا ہے
کب آہ وہ کر سکتے ہیں دل کی طپشوں سے
وہ مہ جبیں جو آیا شب کو ہمارے آگے
کل سنا ہم نے یہ کہتا تھا وہ اک ہمراز سے
ہے کام جس کے دل کو اس زلف عنبریں سے
ہم دل نہ دیں گے ہنس کر بولا یہ کیا سخن ہے
رکھیں نہ کیونکہ ہم اپنے کنارے دل کی خوشی
کچھ نہ دیکھا میں نے جز بیداد تیرے ہاتھ سے
پھڑکتی چشم ہے اور شوق بیتابی جتاتا ہے
غنچے کا منفعل ہے اس کے دہن دہن سے
دل جب بندھا ہمارا اس زلف کی رسن سے
دل لینے کے اوروں کو ہنر کیا نہیں آتے
جو میخانے میں جاکر ایک جام مے پیا ہم نے
دل اپنا جو ہم عاشق اس کا کریں گے
یہ میکشی ہو بھلا کس نمط زمیں کے تلے
مرتا ہے جو محبوب کی ٹھوکر پہ نظیرؔ
متفرقات ردیف (ی)
خمسہ برغزل مولانا سعدی رحمۃ اللہ علیہ
مخمسات عاشقانہ نظیر
نمی دانم کہ ایں مردم کیا نند
کل ہم جو گئے باغ میں ٹک لطف اٹھانے
سراپا
کب لالۂ و گل کر سکیں عارض سے تیرے ہمسری
خمسہ برغل حضرت امیر خسرو
کیست تا آں ساقی گلفام را
خمسہ برغزل حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ
آمد نگار دلبر شیریں کلام ما
تاکے بدقی و سبحہ کنی فکر دام را
کہاں وہ کیقبادی کار خانہ؟
کھلی جبکہ چشم دل حزیں تو وہ نم رہا نہ تری رہی
خمسہ برغزل سراجؔ
خمسہ برغزل قدرتؔ
آہ کس شعلہ رو سے طبع اب مایوس ہے
دل دیتا ہوں یارب مجھے الزام نہ ہووے
خمسہ برغزل فغاںؔ
وہ رنگ کہیں لعل بدخشاں میں آیا
اصغر کی عارفانہ غزل کی تضمین
خمسہ برغزل خود
مری بغل میں جو وہ گلعذار ہوتا تھا
مخمس جوش جنوں
کروں احوال کا اپنے بیاں کیا تجھ سے میں یارا
خمسہ
ہے دل میں عزم جس کی چاہت کی چاکری کا
جب اس نے دکھایا مجھے مکھڑے کا اجالا
نگہ کے جام کا کر عزم کچھ ادھر مے لا
وقت سحر جو ہم نے اک سیمبر کو دیکھا
اس قد کے آگے تیرا طرز قیام کیا ہے
تو سن کے زین پہ جس دم وہ زیب خانہ ہوگا
یار فقط نہ آئینہ دیکھ کے تجھ کو ہے خجل
دیتا ہے وہ انداز ترے کان کا بالا
دل کے دینے پر یہ کہئے ہوویں ہم مغرور کیا
میاں یہ کس پری کے ہاتھ پر عاشق ہوئی مہندی
جہاں میں ہم سے جو پرغم رہے رہے نہ رہے
اب تو ہر شوخ پری وش نے سنبھالا بالا
مہر دنیا کس قدر بے جام مے مستانہ تھا
کیا تو نے حال اس سے مرے درد کا کہا
خدا جہاں کا گر اس صنم کو کبھی مدارالہام کرتا
قمر خجل ہوا خون کی جھلک نہ دیکھ سکا
تنہا نہ منہ کو دیکھ جگر گل کا پھسٹ گیا
تھا وصل کا جس طور نشہ دل میں دوبالا
تھا ہجر میں جیا دل ویران تہ و بالا
خمسہ ہفت زبان
ہمیشہ چاہت کی دھن ہے جس کو دل اس کا ہے مہر خوں کا ہالا
چہرہ ہے ترانور کی تنویر کا نقشا
خوشی سے دل کی منگا عطروپان کوٹھے پر
خمسہ برغزل خود
چہرے پہ سیہ ناگن چھوٹی ہے جو لہرا کر
ہووے جو کوئی اس سب خود کام سے واقف
کھول ٹک چشم تماشا یار باشے پھر کہاں
چمن میں دن کو جو اک دو قدم وہ چلتے ہیں
دلبری
ہے دام بچھا اس کی زلفوں کے ہر اک بل میں
کہتا ہے تجھے کون کہ عاشق کو ستا سو
لگایا تھا دل ہم نے تم سے جو آہ
ملنے کا ترے رکھتے ہیں ہم دھیان ادھر دیکھ
یوں دل سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ
دشنام دے توآنہ پھراگردعار کے
چمن میں آج نسیم بہار آپہونچی
یار اب مجھ میں جو یہ حسن ہے زیبائی ہے
خمسۂ دیگر بطریق واسوخت
یوں تو اکثر ادھر آجاتے ہیں انسان کئی
موتی
رہیں ہیں اب تو پاس اس شوخ کے شام و سحر موتی
پری کا سراپا
خونریز کرشمۂ ناز وستم غمزوں کی جھکاوٹ ویسی ہی
یارو ذرا سنو یہ عجب سیر ہے بڑی
خواب کا طلسم
چلا جب گھر سے اک دلبردلوں کو حسن سے چھلنے
خواب عشرت
کل دیکھا خواب عجب ہم نے اک چنچل شوخ پری جھٹ سے
ہے دید فقط منظور جنہیں وہ ہو کر جب بیکل نکلے
دکھلا کے جھمک جس کو ٹک چاہ لگا دیجے
جس دن سے ادا مجھ کو اس بت کی لگی پیاری
مسدسات عاشقانہ نظیر
جدائی
جہاں میں نام تو سنتے تھے ہم جدائی کا
اس شوخ کے ستم کا گلہ آہ کیا کروں؟
مجبوری محبت
جب سے تم کولے گیا ہے یہ فلک اظلم کہیں
فراق
اپنے غمخواروں سے کوئی آن ہنس لے بول لے
التماس اخلاص
اشتیاق دیدار
کیا تاب ہے جو گل رخ نظریں چھپا لے ہم سے
وصل و فراق
گاہے بجندہ لب شکر آمیز می کنی
رضا جوئی
گر تجھ میں اے پریرو یا مہر یا جفا ہے
پھبتا ہے اس کو یارو دم عاشقی کا بھرنا
دید بازی
جب ہم نے دن سے اے زیب محفل
رہ نوردیٔ فراق
رازداری محبوب
من رے اے شوخ گلبدن نادان
ترکیب بند و ترجیع بند وغیرہ
ترکیب بند
ادھر کو جس گھڑی اے ہمنشیں وہ یار آیا
گیا ملال ہوے شاد ہم زمانے سے
ہمارے دل میں جو فرقت کی بیقراری تھی
عیاں جو سامنے آکر وہ گلعذار ہوا
ہم اپنے دل کی خوشی کا بیاں کریں کیا کیا
ترجیع بند
اے گل اندام دل آرام پریزاد صنم
اے گل خنداں لگا مت تو ہمارے دل میں خار
ترجیع بند
ہم پر اے بے مہر مت اتنی روابیداد رکھ
یاد ہے آگے جو غمازوں نے تھا بہتان کیا
کیوں بدلتا ہے ہمیں تو دیکھ کر ہر آن رنگ
تو جورشتے کی طرح کھاتا ہے ہم سے پیچ و تاب
قامت موزوں ہے تیرے باغ خوبی کا نہال
تیرے لب لعل سے گل اندام
ترکیب بند
جو مزا ہے مہر میں نامہربانی میں نہیں
تجھ میں تو نہ تھی جفا کی عادت
سمجھے تھے تجھے ہم اپنا دلدار
رہتے ہیں تری جفا سے گلرو
دل تیرے لگا کے خال و خد سے
ہے حسن میں تجھ کو تاجداری
وہ گل ہے تو آج حسن ایجاد
شب کو چمن میں واہ وا کیا ہی بہار تھی مچی!
بہار
کیا ہی مزے تھے رات کو یارو میں تم سے کیا کہوں
باغ میں شب کو واہ واہ کیا ہی مزوں کے گھور تھے
رات تو کیا ہی عیش کی ٹھہری تھی آکے انجمن
رات ہوے تھے واہ واہ کیا ہی نشے رسا رسا
کیا ہی نظر رات کو عیش کے تھے مقابلے!
لوٹے ہیں کیا ہی ہم نے واہ رات مزے بہار کے
صحن چمن میں واہ واہ زور بچھی تھی چاندنی!
چاندنی
رات لگی تھی واہ واہ کیا ہی بہار کی جھڑی
شب عیش
سحر سے شام تک صحرا میں پھرنا دن کو من مارے
نہ تھا معلوم جو الفت میں غم کھانا بھی ہوتا ہے
مجھے اے دوست تیرا ہجر اب ایسا ستاتا ہے
تضمین معشر
سوز فراق
کبھی ہو کر گریباں چاک صحرا کو نکلتا ہوں
ادھر دل مجھ سے کہتا ہے کہ تو چل یار کے ڈیرے
کہاں تک کھائیے غم؟ اب تو غم کھایا نہیں جاتا
غضب ہے ایک تو سمجھے نہ دل اور جی بھی گھبراوے
تضمین معشر
نظر آیا مجھے اک شوخ ایسا نازنیں چنچل
طلسم وصال
مجھے اس شوخ چنچل نے جب اپنا حسن دکھلایا
یہ باتیں کہہ کے تھا میرے بہت وہ دل کو بہلاتا
یہ سن کر تھا وہ کہتا میں تجھے اس کا پتا دیتا
کہوں کیا اس گھڑی یارو عجب احوال تھا میرا
ابھی یاں اک پری روکر گیا ہے مجھ کو دیوانہ
کہی یہ بات جب اس شوخ سے میں نے بہ چشم نم
وہ تھا یہ بات سنتا جب مرا منہ دیکھ رہتا تھا
چلا واں سے میں اس غمخوار کی باتوں سے گھبرا کر
ایک دن باغ میں جاکر چشم حیرت زدہ واکر
دوسرا مصرع
ناگہاں صحن چمن میں مجمع سردوسمن میں
بحر طویل
پہلا مصرع
راحت افزاے محباں مصدر لطف نمایاں
کہا یہ دل نے مجھے ایک دن کہ باغ کو دیکھ
قصائد قطعات و رباعیات نظیر
ایک دن رو کر لگا کہنے دل شیدا مجھے
قطعات
ایک دن دل خود بخود اک بار قہ قہ کر ہنسا
کہا دل نے مجھے اک دن کہ یاں دولت غنیمت ہے
کہا یہ دل نے مجھے دیکھ کر شب مہتاب
مکھڑے کو جو اس کے ہم نے جا کر دیکھا
رباعیات نظیرؔ
یہ جواہر خانۂ دنیا جو ہے با آب وتاب
قصائد نظیرؔ
کیا کاسۂ مے لیجیے اس بزم میں اے ہم نشیں
کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے
یک زماں از بحر عشرت زاے دہر
صفت کشتی
تمہید
مثنویات نظیرؔ
کیوں نہ وہ کشتی رواں ہر آن ہو
مثنوی سیر دریا
صفت شیرینی آب
جب نظر آیا کنارا بحر کا
تھی غدوبت اس کی یہ شکر فشاں
صفت دریا
ہر حباب اس کا نزاکت جوش تھا
صفت موج
صفت جنگی وشیرینی آب
موج رکھتی ہے نزاکت سے وہ نہر
سردی اور شیرینی اس میں یوں بھلی
صفت حباب
صفت گرداب
گردش اب تھی اس طور کی
ماہیاں تھیں اس میں وہ ندرت بھری
صفت ساحل
صفت ماہی
صفت صدف دریگ
صفت ذرۂ ریگ
یاں سے اب لیتا ہوں صحرا کی راہ
خاتمہ
مثنوی دوم
عجب دلکشا عالم حسن ہے
مکاں اس کے کیا کیا چمکتے ہوے
گیا ایک دن کھیلنے وہ شکار
رسیدن جوان برکنار چشمہ
بڑھے جب یہ آگے کو ہوشادماں
ماندن جوان بوقت شب درآں بیابان
جو دیکھا وہ صحرا نیا یک بیک
وہ تھا باغ جس کا وہ اک آن میں
ہوئی جب سحر پھر وہ آئی پری
تو پھر جس گھڑی دن بہت سا چڑھا
رہے واں بہت خوش یہ دو چار ماہ
یہ ملتے جو ہر روز تھے بے خطر
جب وہ آیا وہ گھر اپنے فرخندہ فال
غرض جا کے اتری جب ان کی برات
عجب عشق کا رتبہ وجاہ ہے
مثںوی سوم
کوئی شخص تھا صاحب عزوجاہ
ہوئی ایک دن واں عجب واردات
ہوا کوئی دارد جو ایک رات واں
یہ جب اس کی خدمت میں وہ کہ چکا
نظیر محراب عبادت میں
نظمیات نظیرؔ
الٰہی تو فیاض ہے اور کریم
یارب ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری
اے برتراز خیال وقیاس و گمان ما
ہوااللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی
اس ارض و سما کے عرصے میں یہ جتنا کھچم کھچا ہے
تو کار جہاں رانکو ساختی
خدا کی ات ہے وہ ذوالجلال والاکرام
چڑیوں کی تسبیح
وقت سحر کی روحیں کیا کیا ہوں ہوں ہوں کرتی ہیں
تم شہ دنیا و دیں ہو یا محمدؐ مصطفیٰ
نظیر بار گاہ رسالت میں
اقرار باللسان وتصدیق بالقلب
رکھ اپنے دل میں اے آدم کے بن کلمہ محمدؐ کا
منقبت
علی کی یاد میں رہنا عبادت اسکو کہتے ہیں
حضرت علی کا معجزہ
سنتے ہو اے علی کے محبان دوستدار
ہو کیوں نہ برا غم سے خوارج کا دہاڑا؟
خیبر کی لڑائی
مناقب شیر خدا
نور ظہور خالق اکبر کو کیا لکھوں
زور بازوئے علی
ایک معجزہ کہتا ہوں میں اس شاہ کا سن کر
مدح پنجتن
کروں کیا وصف میں ان کا الم ناک
مدح پنجتن پاک
ہے دل میں میرے یاد جو بارہ امام کی
ثمرۂ عقیدت
جو محب ہیں خاندان مصطفیٰ کے دوستدار
پہلے اس ختم رسالت سے کہو عشق اللہ
عشق اللہ یعنی آزادوں کا سلام
نظیر روضۂ حضرت سلیم چشتی پر
ہیں دوجہاں کے سلطاں حضرت سلیم چشتی
نذر حضرت گرو گنج بخش
داتا گنج بخش
ہو رہ دلا مدام گرو گنج بخش کا
ہیں کہتے نانک شاہ جنہیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو
گرونانک شاہ
تقریبات اہل اسلام
شب برات
کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
عیدالفطر
ہے عابدوں کو طاعت و تجرید کی خوشی
عید
یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ
ہے دھوم آج مدرسہ و خانقاہ میں
عیدگاہ اکبر آباد
بسنت
تقریبات اہل ہنود
جب پھول کا سرسوں کے ہوا آکے کھلنتا
مل کر صنم سے اپنے ہنگام دل کشائی
ہوا جو آکے نشاں آشکار ہولی کا
ہولی
قاتل جو میرا اوڑھے اک سرخ شال آیا
پھر آنکے عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر
جب آئی ہولی رنگ بھری سونازدادا سے مٹک مٹک
میاں تو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں
ہولی ، سفید و زرد کی لڑائی
جدا نہ ہم سے ہو اے خوش جمال ہولی میں
ملنے کا ترے رکھتے ہیں ہم دھیان ادھر دیکھ
ہولی کی بہاریں
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
آجھمکے عیش و طرب کیا کیا حسن دکھایا ہولی نے
ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہولی کی رنگ فشانی سے ہے رنگ یہ کچھ پیراہن کا
دوالی کا سامان
دوستوں کیا کیا دیوالی میں نشاط و عیش ہے
دیوالی
راکھی
چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار کی راکھی
شہر مکاں میں اب جو ملا ہے مجھے مکاں
شہر اکبر آباد
کیا آج رات فرحت و عشرت اساس ہے
کنھیا جی کی راس
آگرے کی تیراکی
جب پیر نے کی رت میں دلدار پیرتے ہیں
کیا وہ دلبر کوئی نویلا ہے
ترجیع بند
بلدیوجی کا میلا
حضرت سلیم چشتی کا عرس
ہے یہ مجمع نکو سرشتی کا
یارو جو تاج گنج یہاں آشکار ہے
تاج گنج کا روضہ
کنکوے اور پتنگ کی تعریف
نرجلا
یاں جن دنوں میں ہوتا ہے آنا پتنگ کا
ہے اب تو کچھ سخن کا مرے اختیار بند
شہر آشوب
آگرے کے کھیل تماشے
کبوتر بازی
ہیں عالم بازی میں جو ممتاز کبوتر
بلبلوں کی لڑائی
کل بلبلیں جو نودس قابو میں اپنے آئیں
گلہری کا بچہ
لیے پھرتا ہے یوں تو ہر بشر بچا گلہری کا
ریچھ کا بچہ
کل راہ میں جاتے جو ملا ریچھ کا بچا
بیچے ہے اب تو کوئی بلبل بئے کا بچا
اژدہے کا بچا
اب ہاتھ پر مرے جونمودار ہے بیا
بیا
کیا دن تھے یارو وہ بھی تھے جبکہ بھولے بھالے
طفلی
مدارج عمر
کیا وقت تھا وہ ہم تھے جب دودھ کے چٹورے
لطف شباب
کیا عیش کی رکھتی ہے سب آہنگ جوانی؟
کیا قہر ہے یارو جسے آجائے بڑھاپا
عالم پیری
بڑھاپے کی تعلیاں
جو نوجوان ہیں ان کے دلمیں گمان کیا ہے؟
قائم ہے جسم گو کہ نہیں کس غنیمت است
بڑھاپے کا عشق
جوانی بڑھاپے کی لڑائی ، مناظرہ شیب و شاب
جہاں میں یارو خدائی کی کیا خدائی ہے
زور جب تک کہ ہمارے بدن و تن میں رہا
موازنۂ زوروکمزوری
جو مرنا مرنا کہتے ہیں وہ مرنا کیا بتلائے کوئی
موت کی فلاسفی ، ہندوانہ لہجہ
دنیا کے بیچ یارو سب زیست کا مزا ہے
موت کا ڈھرکا
دنیا میں اپنا جی کوئی بہلا کے مر گیا
کل نفس ذائقۃ الموت
عالم گزران
کی وصل میں دلبر نے عنایات تو پھر کیا؟
گل من علیھا فان
گرشاہ سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا؟
گر بادشاہو کر عمل ملکوں ہوا تو کیا ہوا؟
مراتب دنیا محض بے ثبات ہیں
رہے نام اللہ کا
دنیا میں کوئی خالص نہ کوئی عام رہے گا
طلسم زندگی ، فرصت حیات و کثرت وقوع واردات
آہ کیا کہیئے رہی یاں جب تلک اپنی حیات
فنا تنبیہ الغافلین
جہاں ہے جب تک یاں سیکڑوں شادی و غم ہونگے
فنا ، انسان خاک کا پتلا ہے آخر خاک ہی میں اسکو ملجانا ہے
دنیا میں کوئی شاد کوئی درد ناک ہ ے
پڑھ علم کئی اس دنیا میں گر کامل ذی اور اک ہوے
فنا ، موت کے آگے علم و فضل سب ہیچ ہے
بعد ازفنا
کیا کیا جہاں میں اب ہیں ہماری سواریاں
بٹ مارا جل کا آپہونچا ٹک اسکو دیکھ ڈرو بابا
پیری کی سواری اور سفر آخرت کی تیاری
ٹک حرص وہوا کہ چھوڑ میاں مت دیسن بدیس پھرے مارا
بنجارا ، دنیا کا سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
لاتی ہے جب اپنا یہ شروعات اندھیری
اندھیری
مناظر
برسات کا تماشا
اہل سخن کو ہے گا اک بات کا تماشا
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
برسات کی بہاریں
برسات کا جہان میں لشکر پھسل پڑا
برسات اور پھسلن
برسات کی امس
کیا ابر کی گرمی میں گھڑی پہر ہے امس
ساقیا موسم برسات ہے کیا روح فزا
برسات کا لطف
جب ماہ اگہن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
جاڑے کی بہاریں
جاڑے میں پھر خدا نے کھلواے تل کے لڈو
تل کے لڈو
نارنگی
اب تو ہر باغ میں آئی ہے بھلی نارنگی
کیا موسم گرمی نمودار ہے پنکھا
پنکھا
کورے برتن ہیں کیاری گلشن کی
کورا برتن
آگرے کی ککڑی
پہونچے نہ اس کو ہر گز کابل درے کی ککڑی
کیون نہ ہو سبز زمرد کے برابر تربوز
تربوز
یارو میں چپ رہوں بھلا تاکے
مکھیاں
آندھی
نہ ہو کیونکر جہاں یارو زبر اور زیر آندھی میں
دنیا کے امیروں میں یاں کس کا رہا ڈنکا
عاشقوں کی بھنگ
کیوں عبث بیٹھا ہے ڈالے کان میں غفلت کا تیل
عاشقوں کی بنگ
عاشقوں کی سبزی
جتنے ہیں اس جہاں میں سبزی کے عشق والے
مستی عشق
ہیں عاشق اور معشوق جہاں واں شاہ و زیری ہے بابا
اے دل نہ رہ تو عالم ہستی میں بے خبر
اخلاقیات ، مذمت دنیا
ہے دنیا جس کا ناؤں میاں یہ زور طرح کی بستی ہے
مکافات عمل
یہ پیٹھ عجب ہے دنیا کی اور کیا کیا جنس اکھٹی ہے
دنیا دھوکے کی ٹٹی ہے
دنیا دار المکافاۃ ہے
دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی سات لے
یہ جتنا خلق میں اب جابجا تماشا ہے
دنیا
جہاں میں جب تلک یارو ہمارے جسم میں دم ہے
دنیا میں سب دم کا تماشا ہے
کیا کیا فریب کہئے دنیا کی فطرتوں کا
مذمت اہل دنیا
دنیا ہے اک نگار فریبندہ جلوہ گر
دنیا
زرکی جو محبت تجھے پڑ جاوے گی بابا
مذمت بخل ، صدائے درویش
تن کا جھونپڑا
یہ تن جو ہے ہر اک کے اتارے کا جھونپڑا
جتنے تو دیکھتا ہے یہ پھل پھل پات بیل
توکل و ترک وتجرید
توکل
اے دل کہیں تو جا کے نہ اپنی زباں ہلائے
بھرے ہیں کیا کیا الٹ پلٹ کر کسی میں آکر یہ دم کسی کے
ترک و تجرید
تلقین توحید ، خدا کی خدائی تمام خدائی سے ظاہر ہے
تنہا نہ اسے اپنے دل تنگ میں پہچان
تسلیم و رضا
جو فقر میں پورے ہیں وہ ہر حال میں خوش ہیں
دیکھ ٹک غافل چمن کو گلفشانی پھر کہاں
دم غنیمت ہے
تلقین ریاضت ، ریاضت فقیرانہ
دلا تو کہنے کو میرے یقین جان میاں
کیا علم انھوں نے سیکھ لیے جو بن لکھے کو بابچے ہیں
وجد وحال
ترغیب سخاوت و آزادگی
زردار ہے تو ہر گز مت مار اپنے من کو
لے آئینے کو ہاتھ میں اور بار بار دیکھ
آئینہ
دنیا کا چمن یارو ہے خوب یہ آراستہ
گلدستۂ قدرت
جہاں میں کیا کیا خرد کے اپنی ہر اک بجاتا ہے شادیانے
اسرار قدرت
جب یار نے اٹھائی چھڑی تب خبر پڑی
خواب غفلت
یہ نعمتیں عیاں ہیں جو عالم کے واسطے
خدا کی دی ہوئی نعمتیں
کوڑی کی فلاسفی
فلسفیانہ نظمیں ، حکمت
کوڑی ہے جن کے پاس وہ اہل یقین ہیں
پیسے کی فلاسفی
نقش یاں جس کے میاں ہاتھ لگا پیسے کا
پیسے ہی کا امیر کے دل میں خیال ہے
نقشا ہے عیاں سو طرب ورقص کی رے کا
روپئے کی فلاسفی
دنیا میں کون ہے جو نہیں ہے فداے زر
زر کی فلاسفی
مفلسی کی فلاسفی
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
افلاس کا فوٹو
رکھ بوجھ سر پہ نکلا اشتر ملا تو ایسا
آٹے دال کی فلاسفی
کیا کہوں نقشہ میں یارو خلق کے احوال کا
آٹے کے واسطے ہے ہوس ملک ومال کی
آٹے دال کی فلاسفی(۲)
روٹی کی فلاسفی
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
جب ملی روٹی ہمیں سب نور حق روشن ہوے
چپاتی کی فلاسفی
پیٹ کی فلاسفی
کرتا ہے کوئی جورو جفا پیٹ کے لیے
ہیں مرد اب وہی کہ جنہوں کا ہے فن درست
تند رستی کی فلاسفی ، بشمول حرمت
دکھ کی دولت ہو تو اس کو بھی تباہی بوجھیے
تندرستی اور آبرو
خوش آمد کی فلاسفی
دل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے
آدمی کی فلاسفی
دنیا میں بادشاہے سو ہے وہ بھی آدمی
لولی پیر
ہر کام میں ہر بات میں شرماتی ہے بڑھیا
ظرافت
سچے نفس کش
بیٹا ہوا کسی کے جو سن پاویں ہیجڑے
کیوں جان کبھی ہم سے اشارات کی ٹھہرے
حسن طلب
مزے کی باتیں
کی ترے آن کو پہچان گئی میں
بن دلبر کیونکر پھولے اب میرے دل کی کلی کلی
برہ کی کوک
تجرد کے مزے
نہ شوخ پری زاد کے بولوں میں مزا ہے
چوہوں کا آچار
پھر گرم ہوا آن کے بازار چہوں کا
لیلیٰ مجنوں
قصص و حکایات
پہلے تو حمد خالق ارض و سما لکھوں
دنیا کی جو الفت کا ہوا مجھ کو سہارا
ہنس نامہ
ایک پود نے کا حال عجب سننے میں آیا
پودنے اور گڑھ پنکھ کی لڑائی
کوے اور ہرن کی دوستی
اک دشت میں سنا ہے کہ اک خوب تھا ہرن