کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
حسن مرقع ہے طلسمات کا
روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے
سمجھے ہے موسم اسے برسات کا
اٹھتی جوانی جو ہے تو دن بہ دن
اور ہی عالم ہے کچھ اس گات کا
گھر میں بلایا ہے تو کچھ منہ سے دو
سیکھو یہ ڈھب ہم سے مدارات کا
شیخ جواں ہوگا تو پی دیکھ اسے
شیشے میں پانی ہے کرامات کا
ہم نہ ملیں تم سے تو نکلے ہے جاں
اور تمہیں عالم ہے مساوات کا
اس نے کی اب کم سخنی اختیار
جس کو مزہ تھا مری ہر بات کا
آنکھ بھی ملتی ہے تو نا آشنا
اب وہ کہاں لطف اشارات کا
رونے کی جا ہے سن اسے ہم نشیں
تو تو ہے محرم مرے اوقات کا
حکم ہوا رات کو آؤ نہ یاں
دن کو رکھو طور ملاقات کا
دل کے اٹکتے ہی ہوا ہے ستم
فرق ملاقات میں دن رات کا
بات نئی سوجھے ہے جرأتؔ تجھے
میں تو ہوں عاشق تری اس بات کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.