اٹھتے ہوئے قدموں کی دھمک آنے لگی ہے
اٹھتے ہوئے قدموں کی دھمک آنے لگی ہے
پو پھٹنے سے پہلے ہی گلی جاگ اٹھی ہے
عاشق ہو تو چوروں میں بھی اب نام لکھاؤ
دروازہ بھلے بند ہے کھڑکی تو کھلی ہے
لوگ اپنے مکانوں کی طرف بھاگ رہے ہیں
گھر والوں پہ جیسے کوئی افتاد پڑی ہے
اے باد صبا کس لیے پھرتی ہے پریشاں
کیا تو بھی اسی پھول کی ٹھکرائی ہوئی ہے
آ گردش دوراں تجھے سینے سے لگا لوں
اب تک تو مری جاں تو مرے ساتھ رہی ہے
اب آئے ہو دنیا میں تو یوں منہ نہ بگاڑو
دو روز تو رہنا ہے بری ہے تو بری ہے
بازار کے داموں کی شکایت ہے ہر اک کو
پھر بھی سر بازار بڑی بھیڑ لگی ہے
کانٹے کی طرح سوکھ کے رہ جاؤ گے علویؔ
چھوڑو یہ غزل گوئی یہ بیماری بری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.