سر ورق
فہرست
اب جواس بزم میں ہوتا نہیں جانا اپنا
افتاد گانِ خاک کے جو سر پہ آگیا
حرف آغاز
نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
محمد ہے نبی ممدوح ذات کبریائی کا
اک جام سے حل کردے جو عقدہ دو جہاں کا
ہر رنگ میں گر ہم کو وہ جلوہ نہ دکھاتا
رتبہ گلِ بازی کا دلا کاش تو پاتا
نہیں کرنے کا رسوا تجھ کو مجھ سے روٹھ مت جانا
کوئی دنیا میں ظالم کیا نہ ہو گا
جستجو میں دل کے بہلانے کی جی کھونا پڑا
کچھ بھی مزاج تیرا اے بد گمانی بدلا
درد کے صدمے سے جو واں تک آہ نہ میں بدنام گیا
آہ کیوں کر نہ جدا ہم سے وہ پیارا ہوتا
خالی اس بن جو ہم نے گھر دیکھا
میں وہ طوفانِ چشمِ تر دیکھا
خبر ہے تجھ کو دیوانا ہے وہ اے بےخبر کس کا
ابرِ غم اے چشمِ گریاں جب برس کر کھل گیا
اب تصور ترا آنکھوں کے حضور آن بندھا
بہ از گل جانتا ہوں چاک میں اپنے گریباں کا
ہوا ہے اب تو یہ نقشا ترے بیمارِ ہجراں کا
عزیزو کیا کہوں رونا میں اپنی چشمِ گریاں کا
ہوا ظاہر نہ مردہ بھی ترے بیمارِ ہجراں کا
مت یہ گھبرا کر کہو اب گھر کو بندہ جائے گا
جس پری رو نے کیا دل صاف دیوانا مرا
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
پوچھتے کیا ہو وہ عیار ہے دلبر اپنا
گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
تن اب بستر سے یوں مجھ خستہ جاں کا اٹھ نہیں سکتا
جس گلستاں میں آکے وہ رشک چمن گیا
کس جا نہ بے قراری سے میں خستہ تن گیا
در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
سچ تو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
ہاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا
کب کوئی تجھ سا آینہ رو یاں ہے دوسرا
دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا
دودِ آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا
گو ہوں وحشی یہ تیرےدر سے نہ ٹل جاؤں گا
رفتگی پر تو ہے نازاں گر بہ گلشن اے صبا
کی جوہم حسرت زدوں نے سیرِ گلشن اے صبا
دل کے لگ جاتے ہی جی تن سے ہمارے نکلا
داغ ہر دل جو ترا چاہنے والا نکلا
شب کیا یہ چپکے چپکے وہ شوخ و شنگ بولا
کیا لڑکپن کا ہے عالم اس بت نادان کا
دوستی ڈھونڈوں ہوں اس سے جو ہے دشمن جان کا
کل واں سے آتے ہی جو ہمیں خواب لے گیا
ہندوے زلف دل پہ لگا گھات لے گیا
جان کر اس نے گرفتار جو در بند کیا
دیکھنا دشوار ہے اب اس بت دل خواہ کا
غنچہ دل کو لو یوں نالہ شب گیر کھلا
گر مشغلہ نہیں تہ دریا شراب کا
سمنکھ ہو اس سے ڈھب نہیں ملتا ہے بات کا
اب ساغر سے ملا مت لبِ گلگوں اپنا
کچھ منہ سے دینے کہہ وہ بہانے سے اٹھ گیا
صاف اس کا دل اب اپنے بٹھانے سے آٹھ گیا
جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
اب بتا دل میں ترے اے بت عیار ہے کیا؟
کیوں نہ لرزاں ہو سراپا تنِ لاغر میرا
مرتے ہیں جس کی خاطر دل خواہ وہ نہ آیا
نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
یہ کس پردہ نشیں سے دل لگایا
فلک یک دم اسے آگے نہ لایا
زباں پر نہ گر حرفِ غم لایئے گا
یوں ہی وحشت سے جو گھبرا ئیے گا
کھینچ شکل اس کی مصور تو نہ تاخیر لگا
سر گزشت اس سے جو کچھ کہنے میں دل گیر لگا
نہ جواب لے کے قاصد جو پھرا شتاب الٹا
اس مرگ سنگِ تربت بہ صد اضطراب الٹا
دلِ زار آپ سے بستر پہ کب اے یار اٹھ بیٹھا
جو دیکھا خواب میں شب لیٹے لیٹے یار اٹھ بیٹھا
کیا اس گھر میں چرچا جس نے میری آہ و زاری کا
یہ نادانی نہ کر یاں فکر منعم گھر بنانے کا
سبب پوچھو نہ واں سے دستۂ نرگس کے آنے کا
گئے وہ دن جو عزمِ یار تھا یاں سے نہ جانے کا
دل کے پھنس جاتے ہی میں ایسا دوانا بن گیا
یوں خارِ الم کا ہے دلِ تنگ میں کیڑا
جوں غم کا لگا دل کی ہے فرہنگ میں کیڑا
نصیحت کرنے سے ناصح ہٹے گا
حسرت زدوں کے پاس گزر جو کہ کر گیا
جیتے تو غمِ گردشِ افلاک نے کھایا
واں سے گھر آکے کہاں سونا تھا
رو رو کے جو غش اس دلِ غم ناک نے کھایا
کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
ہر کوئی دیکھنے کو اے یار گھر سے نکلا
عاشق کا جب جنازہ یک بار گھر سے نکلا
اب میں اجل کے نامہ و پیغام میں پھنسا
الفت سے ہو خاک ہم کو لہنا
رات جب تک مرے پہلو میں وہ دلدار نہ تھا
دل سے کب چھٹتے ہی وہ تیرِ نگہ پار نہ تھا
بسترِ غم پر ہے کیوں بے حس دلا، کیا ہو گیا
دو چار نزع میں جو حسن سبزِ یار رہا
کچھ اپنا نالۂ دل پر کب اختیار رہا
اس دل سے جو ملا نہ دل اس رشکِ ماہ کا
دل پر لگا الٹ کے وہیں تیر آہ کا
پوچھو نہ کچھ سبب مرے حالِ تباہ کا
کل جو رونے پر مرے ٹک دھیان اس کا پڑگیا
بیاں کرتا ہوں یہ سوزِ فراقِ یار تھوڑا سا
دل جو کہیں لگا ہے دو چار دن سے اپنا
واں چاہنا عیاں ہے دو چار دن سے اپنا
جو ماہِ رخِ یار نہ باراں نے دکھایا
جو کہیے ’’ہوگا یاں رہنا تمہارا‘‘
اسے رحم جب مجھ پہ آنے گلا
نیند بھی اڑ گئی یارب یہ ہوا مجھ کو کیا
گر کہوں غیر سے پھر ربط ہو اتجھ کو کیا
اچپلاہٹ سے ہے واں ہر بار اٹھنا بیٹھنا
اس تری یاد و فراموش نے بے ہوش کیا
ترے بن اب جو مشکل ہے قرار اے فتنہ گر آنا
کون دیکھے گا بھلا، اس میں ہے رسوائی کیا
نہ لوٹنا دلِ پراضطراب سے چھوٹا
دردِ فرقت کا الم ہر دم ہمیں گھیرے رہا
اس بن جو اتفاقاً یک لحظہ ہم کو سنا
خاک میں اب نام و ننگ اپنا یہ رسوائی ملا
ایسی ہل چل میں کہیں کیوں دل دوانا لگ گیا
اگرچہ جی کے بہلانے کو میں کس جا نہیں جاتا
سینے کے زخم سے جوں ہی پھاہا سرک گیا
کہتے ہو سیر باغ میں دل اب تو لگ گیا
سر تن سے مرے تو نے ستم گار اتارا
پر از گوہر سرشکِ چشم سے دامانِ تر پایا
عجب انداز سے کل بزمِ خوباں میں وہ آتا تھا
رکے کیوں کر نہ وہ محفل میں جو میں تلملاتا تھا
تن میں دم روک میں بہ دیر رکھا
حسن اے جان نہیں رہنے کا
دمِ آخر مرے بالیں پہ آؤ گے تو کیا ہوگا
یہ مضطرب میں بتِ دلربا کے گھر سے پھرا
دل چھیدے ہے یوں سوزنِ ہجراں کا لوہا
یہ تیز ہے اس کاردِ مژگاں کا لوہا
اپنے پہلو سے وہ جانی جو گیا پھر نہ پھرا
میرے اور اس کے جو پوچھو ربط، کیا کیا کچھ نہ تھا
بستا تھا کب قفس یہ صیاد اس طرح کا
کچھ تو کیا ہے اس نے ارشاد اس طرح کا
آرام نہ ہو دل کو تو اے یار کریں کیا
اس کے جانے سے جو ملال ہوا
اسے چھوڑ کر تو اگر جائے گا
اب بھی ساقی گل اندام ہمیں بھول گیا
یک بار عقل و ہوش کا سب ڈھنگ اڑ گیا
خفا مت ہو میاں گر اب کے ٹوٹا تار رونے کا
ہے بہت مائل وہ شوخِ بے حجاب آئینے کا
جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا
کھد جائے دل پہ نقش اگر اس نگار کا
دردِ دل سے تو میں کس رات پکارا نہ کیا
جو اس گلی میں کسی آشنا کا گھر ہوتا
مدعی کوئی نہیں اے بتِ خوں خوار
ذرا کر سیر گلرو، تازگی پر ہے چمن اپنا
کیسا پیام آکے یہ تونے صبا دیا
دل کی کیا پوچھے ہے کیوں یہ خستہ جاں ٹکڑے ہوا
گر لگی آتش مرے دل اور جگر کو، کیا ہوا
کیوں اٹھ چلا جہاں سے دلِ زار، کیا ہوا
کیا ہجومِ داغ سے گلزار سارا تن ہوا
کس بے وفا کے دام میں جا مبتلا ہوا
عشق کب یار مجھ سے چھوٹ گیا
یاں ہم کو جس نے مارا، معلوم ہو رہے گا
خاک ہو کر ہم رہے سارے جہاں کے زیرِ پا
بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
تجھ سے جس شخص کا دل اے بتِ خوں خوار لگا
صبح ہوتے ہی جو وہ غائب ہوا مہتاب سا
جب میں نے کہا اے بتِ خود کام ورے آ
رخ جو پردے سے مرے رشکِ قمر کا نکلا
کیا خلل آپس میں تونے شوخِ پر فن کر دیا
ہوں دو چنداں اس فلک کی ظلم رانی سے خفا
دل جو غم کھایا کیا وہ غم مجھے کھاتا رہا
تجھ کو جب میرا خیال اے مہ جبیں جاتا رہا
جس کو تو ڈھونڈھے ہے وہ اے ہم نشیں جاتا رہا
برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا
رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
پیام جلد صبا وصلِ یار کا پہنچا
چھیڑے ہم کو یار آج آیا
یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
کل رات مجھ سے یار مرا بے حجاب تھا
جگر خوں ہو کے باہر دیدۂ گریان آوے گا
جنگ میں کون سے دن آہ وہ روپوش نہ تھا
بندھا تھا دھیان اب تو اور ہی نخچیر پر تیرا
کس کو منظور ہو آس در پہ بٹھانا اپنا
آہ جب کوچۂ جاناں ہی میں جانا نہ رہا
سن کے میں عزمِ سفر مر ہی گیا
دل تجھ سے جو بے درد سے میں یار لگایا
یاں جی ہی ٹھہرتا نہیں مجھ خستہ جگر کا
صیاد نے کب صحنِ گلستاں میں چھوڑا
کچھ پوچھتا ہے ہو کے وہ جب پر عتاب سا
دام میں صیاد نے جب ہم کو پرربستہ کیا
مجھ پاس جو شب خواب میں وہ رشک قمر تھا
شمع ساں کس نے مجھے پھولتے پھلتے دیکھا
کیا کہوں جو ترے بیمار کا احوال ہے آہ
تو قصدِ سفر اگر کرے گا
کیا حال پوچھتا ہے تو اس خستہ جان کا
دل کیوں کہ ہو نہ مائل اس سوش کی ادا کا
یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
مبتلا بس کہ ہوں میں اک بت ہرجائی کا
مرگیا درد اٹھا کر جو وہ تنہائی کا
اپنے جو آہ و نالہ سے طغیاں ہے آگ کا
وحشت میں سوزِ دل سے جوس طغیاں ہے آگ کا
ہستی ہو اپنی کیوں نہ فراموش نقشِ پا
رکھتا ہوں جس کے کام پہ میں جوں آجاغ پا
شکوہ کیا کیجئے ناتوانی کا
بتلا تو دے کہ میں نے کہا تجھ کو کیا بھلا
آہ تن سوزِ دروں سے شکل آتش ہے مرا
گرمی سے تیری یوں دل دیوانہ جل گیا
لکھتے ہی سوزِ غم نہ فقط خامہ جل گیا
کیا وہ رشکِ پری چھوڑ کر جو یاں تنہا
دم کا ہے کیا بھروسا کب تک رکا کرے گا
دشتِ سخن میں رکھیو نہ تو بے سراغ پا
تری فرقت میں کس کو غم ہے میرا
ہم تو کہتے تھے دمِ آخر ذرا سستا، نہ جا
ہم دم نہ پوچھ حال، سنایا نہ جائے گا
بہہ گیا جوں شمعِ تن سارا اگر اچھا ہوا
لے کے دل کو پھر ادھر آس کا گزارا نہ ہوا
سنے ہے جس دم گلی میں اپنی وہ فتنہ گر شور و شر ہمارا
جستجو میں دل کی اس کوچے میں اب جو جائے گا
یا وہیں کا ہو رہے گا یا عدم کرجائے گا
سوزِ دل سے حال یہ تھا شب ترے غمناک کا
دیکھ اس کل کو جو شعلہ سا جگر سے چمکا
کر سرگزشت میری اس سے نہ تو کہے گا
سن شور یہ بولا مری فریاد حزیں کا
عاشقی جرأت نہ کر، ناحق نہ جی کو غم لگا
کر کیجے ارادہ تری قدرت کے رقم کا
کچھ داغ جوانی میں نہیں عشق کا چمکا
شب خواب میں جو اس کے دہن سے دہن لگا
جو دلِ وحشت زدہ پھرتا تھا آوارا پڑا
شب اس کے گھر سے میں گریہ کناں چلا آیا
گلی سے اس کی میں اپنے تو دل کو کیا لایا
مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا
شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
یہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجابِ عشق سے حال تھا
لاچاری سے پیارے تمہیں گھر جانے تو دوں گا
میں باغِ جہاں میں شجرِ سوختہ ہوں گا
حیراں نہ ہو کیوں دیکھ اسے چاہنے والا
دے جام کہ ساقی کریں سیرِ گل و لالا
کرکے خوں مانگے ہے دل اشک روں اور نیا
گرچہ دن رات میں اک مجمعِ خوباں میں رہا
سو تردد جو ہم آغوشیِ جاناں میں رہا
مجھ سے ہم خانہ وہ تا عالمِ امکاں میں نہ تھا
آئے گر اس رشک گلی بن صحنِ گلشن زیر پا
اب نہ ٹھہرے گی زمیں اے شوخِ پر فن زیرِ پا
لا کبھی تو جاکے ظالم اس کا مدفن زیرِ پا
عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کہ عشق باہم لگا چھڑایا
جو دردِ آہ ِ جگر اپنا تا زباں پہنچا
یہ دل کو صدمۂ درد و غمِ نہاں پہنچا
دریغ اس بے وفا کو روزِ اول میں نہ پہنچایا
کھینچ کر آہ جو میں ہاتھ جگر پر رکھا
مری طرف سے ذرا اب اسے کہو اتنا
دل سے اٹھتا ہے دھواں، خاک ہے جینا اپنا
بندہ خانے میں جو آپ آئے کرم تم نے کیا
ہے یہ دارِ عشق وہ رتبہ ترے رنجور کا
ہے قریب مرگ احوال اب ترے رنجور کا
غم کا یہ اس مریض پہ کوہِ گراں گرا
پھر اٹھ سکا نہ جب کہ ترا خستہ جاں گرا
کیا جانیں اب مریض ہے تیرا کہاں پڑا
میں جو دل کھول کے گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
پابوس میسر ہمیں ہیہات نہیں اب
بحرِ غم میں کوئی تاچند غمیں جاوے ڈوب
گلی میں اس کی لے چل ہم نشیں اب
شرم کھاتا ہوں جو یوں کوہ و زمیں جاوے ڈوب
ہم کئی دن سے نہیں سنتے فغانِ عندلیب
ہو گیا مجھ سے وہ برہم آہ و زاری کے سبب
تیغِ براں نکالو صاحب
آج بھی اس کو نہ دیکھا چشمِ گریاں کے سبب
سرشکِ گرم ہیں میرے بسانِ آتش و آب
بعد موت کے جو گھر اس کے ہمیں لائے نصیب
ہے اشک گرم سے جوں چشم کانِ آتش و آب
مہِ رخسار نظر آئے ہے یوں خال سے خوب
منفعل کیوں کہ نہ ہوں اس کی میں اس چال سے خوب
اس لئے بیٹھے رہے ہم اس کے گھر ناچار چپ
درپئے عمرِ رفتہ ہوں یارب!
غمِ فراق سے کٹتی ہے یوں ہماری رات
بلائیں ہاتھوں نے میرے جو لیں تمہاری رات
دل کیا کرتا ہے کچھ کچھ جو بیاں ساری رات
ہیں اب کہاں نمود پہ دو چار کوہ و دشت
رکھتا تھا قیس نالوں سے آباد اور دشت
کچھ جو محفل میں چلی اس بتِ خونخوار کی بات
بلبل سنے نہ کیوں کہ قفس میں چمن کی بات
گئے وہ دن کہ رہتی تھی گل و گلزار سے صحبت
چھپا مت شب کو جو تھی تجھ سے اور اغیار سے صحبت
کر سکوں میں ترے شکوے کو رقم، کیا طاقت
یہ حالت جوشِ وحشت سے ہے ہر رات
جادو ہے نگہ چھب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
جز بے کسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا
میں تو حیراں ہوں خفا یار ہوا کس باعث
کیوں کر نہ جائے رشتۂ عمر اپنا جان ٹوٹ
گر کہوں کرتے ہو ہر اک سے ملاقات عبث
آیا نہ اس کے وصل کا گر کچھ پیام آج
کوئی دم میں اس کے جائے کی یاں سے خبر ہے آج
ظالم پھر اس مریضِ محبت کا کیا علاج
دل کو اے عشق سوے زلفِ سیہ فام نہ بھیج
دل کی طیش کا، کاہشِ جاں کا نہیں علاج
سخت ہم پر غضبِ عشق ہے آج
یار کے پیشِ خرامِ ناز کیا توقیرِ موج
کیا اس بغیر بات کریں انجمن کے بیچ
جوں جسم ناتواں ہے مرا پیرہن کے بیچ
تھی کل اس بن یہ مری شکل گلستاں کے بیچ
اے گل اب جو ترے در پر ہے سو زر کے لالچ
چین وقتِ شام ہے بستر پہ نے آرام صبح
دم دے کے ہمدمو اسے لاؤ کسی طرح
پڑ گئے یوں مری آہوں سے جگر میں سوراخ
کیفی ہے چشمِ یار سفید و سیاہ و سرخ
لگتا ہے بن ترے اسے صبر و قرار تلخ
دشمن کا میری بات سے ہو کیوں نہ کام تلخ
کہتا ہے مجھ کو منہ سے جو ہر ایک آن تلخ
ساقی میں کس طرح کہوں تیری شراب تلخ
زور آپ کے بھی ہاتھ چڑھا ہے حسین بند
ہے دل کو اک تو دردِ فراقِ حبیب تلخ
جوابِ خط میں مرے اس نے کب لکھا کاغذ
اس گل کی سی نہ پائے بہار آسمان پر
قدم ہوں رکھے ہے وہ پیارا زمیں پر
یہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار
روز حیران سا بیٹھوں ہوں میں در میں آکر
دور سے کل ہم نے اس کے آستاں کو دیکھ کر
دل ہم نے دیا ہے تجھے دلدار سمجھ کر
جو روئیں دردِ دل سے تلملا کر
جب ناز سے وہ سوخ رکھے گام زمیں پر
ہم کو دکھلاتے ہو جو تم دم بہ دم شمشیر و تیر
اب خاک تو گیا ہے دل کو جلا جلا کر
نہیں تل جو تل اے رشک ملک ہے تیرے چہرے پر
جاتی ہے میری جان تنِ زار چھوڑ کر
کیا جانیے کیا لائے فلک پیکر گل پر
جو ڈر سے اس بتِ خوں خوار کے روتا ہوں رہ رہ کر
پھرتے نظر جو پڑتے ہیں خوباں ادھر ادھر
نہ جی کو دل کی خبر ہے نہ دل کو جی خبر
بتاؤں ہم نفساں کیا میں گلستاں کی خبر
اس ڈھب سے کیا کیجئے ملاقات کہیں اور
اس بے وفا کے در پہ میں سر مار مار کر
جب گھر کو وہ چلا کسی بے کس کو مار کر
رہا ہے نوکِ مژگاں پر دلِ پژمردہ یوں آکر
ہم اس طرح رہے یارانِ رفتگاں سے دور
بٹھایا ضعف نے یوں ہم کو کارواں سے دور
رنگیں یہ وحشیوں سے ہیں اےیار سنگ و خار
دل تجھ پہ کوئی دم میں بلا آئے ہے کچھ اور
اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
گلشن میں جو وصف اس کا کہوں دھیان لگا کر
یہ سوزِ عشق سے ہے طیش اپنی جان پر
داغ سے ہے بہارِ لختِ جگر
مل جاؤ کچھ ہمیں نہیں تنہا ترنگ پر
ہر چند بھرے دل میں ہیں لاکھوں ہی گلے ،پر
روزن نہیں جو واں کے دیوار و در کے اندر
بھڑکے ہے آتشِ غم یہ اپنے تن کے اندر
کر لیتا ہوں بند آنکھیں میں دیوار سے لگ کر
بن اس کے نظر پڑتے ہی ٹک قمر پر
وہ ہنس ہنس کے کافر مری چشم تر پر
نظر پڑتے ہی اس کی مژگانِ تر پر
چپکے چپکے روتے ہیں منہ پر دو پٹہ تان کر
بناتے ہیں جو سو باتوں کے دفتر واں سے گھر آکر
حیراں نہ ہو سر دیکھ مرا اپنی زمیں پر
جو آج چڑھاتے ہیں ہمیں عرشِ بریں پر
ہم اٹھیں واں سے اور اس در کو نہ چھوڑے پتھر
اشکِ گل رنگ نے بے رنگ نہ چھوڑے پتھر
ہم نے چھاتی پہ لگا گو کئی پھوڑے پتھر
ہو سوگ میں ہیں دل کے، ہو صبر و تاب کیوں کر
بن کے دیکھے اس کے جاوے رنج عذاب کیوں کر
واں ہے یہ بدگمانی جاوے حجاب کیوں کر
لب و دنداں کا تمہارے جو ہے دھیان آٹھ پہر
سب کہتے ہیں دیکھ اس کو سرِ راہ زمیں پر
گرچہ پر اک نوعِ بشر آئے ہے نظر
شوخی سے جب وہ پیشِ نظر آئے ہے نظر
جوشِ گریہ یہ دمِ رخصتِ یار آئے نظر
رخشِ بے تابی پہ ہم ووہیں سوار آئے نظر
بالیں کہاں رکھے ہے ترا مست زیرِ سر
نظر پڑے ہے کب اس آب و رنگ پر تصویر
عیاریوں کا اس کی کروں کیا بیاں کچھ اور
تصور اب باندھ باندھ تیرا فدا میں ہوتا ہوں یار تجھ پر
سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑا
بنِ ترے یہ دلِ دیوانہ گریبان کو پھاڑ
ہوں وہ دیوانہ کہ نکلا جو گریبان کو پھاڑ
برقِ حسن اپنی سے تھا تو نہ کچھ آگاہ ہنوز
نشست تا کسی صورت سے ٹھہرے واں پر روز
کر سکے کیوں کہ بھلا پاؤں وہ رنجور دراز
کچھ بھی نکلی نہ دل زار کی اے یار ہوس
اب نکل اپنی کچھ اے گردشِ افلاک ہوس
غم ہٹانے کو جو بیٹھوں کسی غم خوار کے پاس
ہوتی ہے کس مریض کو آزار کی ہوس
سرشک و سوز جگر سے ہے دل گہے بہ آب و گہے بہ آتش
لگ اٹھی یوں دلِ سوزاں سے جگر کو آتش
بہ سرد و گرمِ زمانہ ہے دل کہے بہ آب و گہے بہ آتش
آجائے گر چمن میں وہ رونق فزاے باغ
بدگمانی سے نہ لے جاؤ گمان اور طرف
ہے یہ گل کی اور اس کی آب میں فرق
سبزہ باہم ہو ولے پیشانی اسرارِ عشق
قیس اور فریاد بھی تو ہاے تھے بیمارِ عشق
موے جعد صنم آئے جو نظر لاکھوں ایک
جانتے ہیں تجھے اے رشکِ قمر لاکھوں ایک
چشمِ تر یوں طپشِ داغ نے کر ڈالے خشک
نہ سر کوں واں سے گو اس میں کٹے اے یار گردن تک
دل دے چکے ہیں تس پہ بھی حاضر ہیں جاں تلک
کبریائی میں مرا وہ بت دلخواہ ہے ایک
کروں جو یاد ذرا آستان یار کا سنگ
بلبل کو ہو سیرِ گل و گلزار مبارک
دردِ فراق سے ہے یہ بہتر کہ آئے مرگ
نیرنگِ محبت نے یہ اپنا تو کیا رنگ
یہ حالِ دل ہے غم سے لگے ہے جو ہر کو آگ
رکھتا ہے جو مرا یہ دلِ تنگ رنگ ڈھنگ
رونے ہی سے ہے گرمیِ بازار لختِ دل
سخت گھبرائے ہے اب سب کی ملاقات سے دل
آج تک سنتے ہی بس ہم تو رہے نامِ وصال
غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل
سیر کر دل کی، ذرا پردے سے منہ یار نکال
کہیں رونے پہ دلا گھر سے نہ دے یار نکلا
رہ کے چپ جان مری مت دلِ بیمار نکال
عیدِ قرباں کو بھی دے گھر سے ہمیں یار نکال
گر غمِ عشق سے تیرے نہ عمیں ہوتے ہم
عشق کی کچھ نہیں جگر میں دھوم
کیا جانیے کیا ہوتی ہے جرأت نہیں معلومت
بہ تنگ آئے ہیں اس دل کے پیچ و تاب سے ہم
یا تو اس کے گھر سے آتےتھے نہ اپنے گھر کو ہم
جاتے دنیا ہی سے پر اس کے نہ گھر جاتے ہم
بہہ گیا ہو کے لہویوں یہ دلِ زار تمام
ہوگئے وصل کا ہم سنتے ہی پیغام تمام
دیکھ کر اے ہم نشیں فرقت کی بھاری رات ہم
آ کے آواز اپنی جب در پر سنا جاتے ہو تم
ٹک جو پردے میں جھلک اپنی دکھا جاتے ہو تم
بن دیکھے ہی جو اس کے پھرے گھر کو ہائے ہم
ٹک دیکھنے اس آئینہ رو کو نہ پائے ہم
دل، جگر، جاں غمِ عشق میں کھو بیٹھے ہم
کوچۂ یار میں جو ہوئے سو ہو، بیٹھے ہم
نہ ہو اک دم کی خاطر سرگراں تم
نہ کیوں کر روئیں یہ کب تک ستم اے یار دیکھیں ہم
مثلِ آئینہ باصفا ہیں ہم
کب رکھے خاکِ شہیداں پر تحمل سے قدم
ہے یہ اس کے نقاب کا عالم
یاں فوجِ غم جو ٹوٹ پڑی آن کر تمام
ڈونڈھوں کس جا تمہیں کیوں ہو کے نہاں بیٹھے تم
کیسی محفل میں مری جان یہ جا بیٹھے تم
قول آنے کا دے کے راہم میں تم
بہ دریاے محبت زورق آسا غم کے مارے ہم
تصور باندھتے ہیں اس کو جب وحشت کے مارے ہم
رہو الفت میں گر ثابت قدم تم
ٹک ملا سکتے نہیں آکے نظر تم سے ہم
سینہ دل ِ سوزاں کے گئے، پر بھی رہا گرم
مکھڑا ہی فقط اس کا نہیں نامِ خدا گرم
گر کہیے بغل کیجے ہماری بھی ذرا گرم
جوں اٹھے پاس سے آس شوخِ دلآرام کے ہم
یاد کر ایک آئینہ رو کے لب و دندان ہم
ہے یہ مشکل جو ملیں اس بت مغرور سے ہم
پروا نہیں اس کو اور موئے ہم
جو راہِ ملاقات تھی سو جان گئے ہم
بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
چڑھا کے دل نے مئے عاشقی کا جام تمام
نظارہ کناں جب بہ درِ یار ہوے ہم
کب شکوۂ قاتل تہِ شمشیر کریں ہم
تھے بیابانِ محبت میں جو گریاں آہ ہم
بے خودی میں اس سے جو رخصت ہوے ناگاہ ہم
گالیاں دینے لگے نام مرا لے لے تم
کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا ٹھاے بن
یاد کر وہ حسنِ سبز اور انکھڑیاں متوالیان
دام میں ہم کو لاتے ہو تم، دل اٹکا ہے اورکہیں
کیوں کہ تم پاس سے ہم جائیں بھلا اور کہیں
روز و شب رہتے ہیں ہم گو وصل کی تدبیر میں
دور سے کس روز اس کے در کو میں تکتا نہیں
کوچۂ جاناں سے جاتے ہیں یہ جا سکتے نہیں
حال اپنا اس کو محفل میں جتا سکتے نہیں
کون سا غم جس کی خاطر جان پر میری نہیں
ناتوانی بر مرا کچھ زور چلتا ہی نہیں
کیوں کہ اب اس سے ملاقات ہو اک آن کہیں
گھر سے نکلا وہ نازنین نہ کہیں
سیہ بختی میں بھی اوج اپنا دیکھو کیا دکھاتا ہوں
خیال وصل میں اس کے عجب باتیں بناتا ہوں
قدم میں ناتواں جب اس کے کوچے سے اٹھاتا ہوں
کہے ہے جب وہ محفل میں کہ لو اب گھر کو جاتا ہوں
قصور تیری صورت کا جو باندھ اے یار لیتا ہوں
یہ کون آکر رہا تھا گھر مرے میں سخت حیراں ہوں
بہ صد عجز اس کے آگے پہلے تو کچھ کچھ میں بکتا ہوں
منہ پھیر لے جھجک کے جو قدموں سے جا لگوں
مجھ سے مت پوچھو کہ دم ساز کسے کہتے ہیں
اے ستم ایجاد کب تک یہ ستم دیکھا کریں
دل مرا یار جہاں ہے تجھے معلوم نہیں
آوے کیا بوے دلِ سوختہ، یہ عود نہیں
درد اپنا میں اسی طور جتا رہتا ہوں
پر سے جب نالہ کناں شہر میں آجاتا ہوں
گرمی مرے کیوں نہ ہو سخن میں
وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں
شکل دکھلایئے کہیں تو ہمیں
لختِ دل سمجھو نہ میرے آنسو کے تار میں
لختِ دل کی ہے اب آمد دیدۂ خوں بار میں
دیکھیو شوخی کہ زار و ناتواں پا کر ہمیں
چھپ گیا پردے میں وہ صورت جو دکھلا کر ہمیں
شب چلی جاتی ہے لیکن آنکھ لگ جاتی نہیں
اہ کرنے کی بھی طاقت ہمیں ہیہات نہیں
جی کے احوال سے یہ دل بھی خبر دار نہیں
حال سننا مرا کچھ اس کو تو دشوار نہیں
میں کہا، ایک ادا کر، تو لگا کہنے اوں ہوں
یوں تنگ ہوں اس زلفِ گرہ گیر کے ہاتھوں
یہ حسرت جو ہم دم بہ دم دیکھتے ہیں
ہم اب تن میں طاقت کہاں دیکھتے ہیں
چھڑا کر ہاتھ سے میرے نہ جا اے فتنہ گردامن
سوزِ ہجراں کو زباں پر جو ذرا لاؤں میں
پھر کیوں کر کہیے تجھ کو کہ بیداد گر نہیں
کس دن غمِ فراق سے چشم اپنی تر نہیں
کیا کہیں کس روز اپنے دل پہ درد و غم نہیں
دم بہ دم گر طلبِ وصلِ دلآرام نہیں
دختِ رزگی ہے جو کچھ عشوہ گری شیشے میں
جس کے بن دیکھے یہ جاتا نہیں غم اور کہیں
باتیں یہ کیجئے اے رشکِ قمر اور کہیں
دیکھو اشکوں سے مرے لختِ جگر پانی میں
عکس آیا ہے یہ تیرا ہی نظر پانی میں
ہم نشیں پوچھ مت کہیں ہوں میں
جب نہ کچھ طاقت رہی اپنے پر پرواز میں
پر میں میرے جب تلک وہ سیم تن آتا نہیں
شکل دو دز سے جو تم نے ہم دکھلائی نہیں
دھیان میں وہ اس کے پچھلے ربط جب لاتا ہوں میں
ذرا ہم اس سے لگ چلنے کو سو سو ڈھب لگاتے ہیں
آپ میں آنے سے تیرے جان رہتا میں نہیں
نہ تنہا شدت گریہ سے مردم خوف کرتے ہیں
دیکھ اے عیارِ ٹک اپنی بھی یہ عیاریاں
پردے میں شکل کس کی یہ آئی نظر ہمیں
وہ گرمیاں جو اب نہیں آتیں نظر ہمیں
دے قیدِ غم یہ کون کیا اپنے گھر ہمیں
روز و شب یہ کس کے وصل و ہجر کے ہیں دھیان میں
کیوں نہ وہ ہم رنگ کی دونی کرے اک آن میں
بھلا دیکھو تو ہم تم ایک ہی بستی میں بستے ہیں
لگ جاگلے سے طاقت اب اے نازنیں نہیں
دل ملے جب سے تو مل بیٹھے نہ ٹک
تفرقہ ایسا بھی کم دیکھا ہے اے ہمدم کہیں
ایک گھر میں بھی کبھی مل کے نہیں بیٹھتے ہیں
چشمِ بد دور، یار کی آنکھیں
نہ دیکھو گل کو حیرانی سے مجھ دل گیر کی آنکھیں
دل مرا مجھ کو کہیں اے ہم نشیں ملتا نہیں
زیست میں ایک دم خوشی افسوس دل نے کی نہیں
سچ کہو کی بادہ خواری یا یہ آنکھیں روئی ہیں
یہ قصوں میں جو دکھ اٹھائے بندھے ہیں
خیالِ خواب کہاں، سوزِ غم سے جلتے ہیں
مقیمِ شہرِ دور افتاد گاں ہو ورنہ مرتے ہیں
طیش سے اس کی اب اعضا تمام جلتے ہیں
کچھ بن آتی نہیں اس امر میں لاچار ہوں میں
رکھیویارب تو پھنسا دل کی گرفتاری میں
بات کرتے اس سے ڈرتے ہیں، الٰہی کیا کریں
رکھو معذور یارو فرق ہو گر رسمِ یاری میں
اٹھاتے ہیں بن اس کے ہم یہ لذت دل فگاری میں
کب زمیں پر وہ نظر پردہ نشیں اے ہمیں
ناتوانی نے گم ایسا ہے کیا ہائے ہمیں
ابرِ مژگاں سے مرے لوہو کی بوندیں جھڑنیاں
ہو کے آزردہ جو ہم سے وہ پرے پھرتے ہیں
یہ رنگ مہر ہے گردش ہی ہم کو سارے دن
ہم نشیں باتوں پہ تیری کیا کروں ہر بار ہوں
لی جمائی اس بتِ خوں خوار نے جب باغ میں
سوزشِ دل کا مرے مجھ سے بیاں ہو سو کہاں
چوری چوری مرے لگ جاؤ گلے آکے کہیں
دل کی طپش سے صدمے جوں برق جان پر ہیں
اب یہ کنایے اس کے مجھ ناتواں پر ہیں
اے وقتِ خوش انہوں کا کیا لطف ہم دگر میں
کس سج سے ہم دوانے افتاد، خاک پر ہیں
زبس وہ آپ کو بے مثل سمجھے ہے زمانے میں
وہ بتِ سنگ دل جو آہ لے کے دل آشنا نہیں
عہد شباب ہے اخیر عیش بہت منا نہیں
ہجر میں جینا مجھے اک دم نظر آتا نہیں
جاتا ہے جلد چشمِ سے اشکِ رواں کہیں
دکھلادے اپنی مہر سے جلوہ کبھو ہمیں
دل ہے پہلو میں مرے، روزِ ازل کا دشمن
اس دل بے تاب کو آہ نہیں کل کہیں
کچھ غم نہیں تڑپھا جو یہ نخچیر لہو میں
عبث کعبے میں سجدہ کرنے والے سر پٹکتے ہیں
حالتِ دل اے بتِ گمراہ میں کس سے کہوں
غمِ فراق سے اے یار ! مجھ میں حال نہیں
ہم کب از خود ترے گھر یار چلے آتے ہیں
تصور میں تمہارے صورتِ تصویر حیراں ہوں
سنو بات اس کی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں
دیا دتنہا ہو جی دل نے، دوانا اس کو کہتے ہیں
دیکھے جو در پر اسے پھر وہ بھلا جائے کہاں
ضعف ایسا کہ چلیں واں تو چلا جائے کہاں
زبس تھیں شورشیں من پر ہزاروں
حیف بدگویوں کے کہنے سے برا جانا ہمیں
جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
باتیں اس ڈر سے نہ گلشن میں تری یار کہیں
ایک جا رہ نہیں سکتے ہیں ہم اے یار کہیں
بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں
کیوں کر گلی میں اس کی میں اے ہم رباں! رہوں
تپِ غم سے کوئی جیا ہی نہیں
دے کے خفت وہ تو بن اٹھوائے رہ سکتا نہیں
خواب آنکھوں میں شب آتا ہی نہیں
دل لے کے نگاہوں میں ہے اب جاں طلبی جان
شکلِ گل سونگھے ہیں رات ایسی ہی بو باس کے کان
سر ورق
فہرست
اب جواس بزم میں ہوتا نہیں جانا اپنا
افتاد گانِ خاک کے جو سر پہ آگیا
حرف آغاز
نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
محمد ہے نبی ممدوح ذات کبریائی کا
اک جام سے حل کردے جو عقدہ دو جہاں کا
ہر رنگ میں گر ہم کو وہ جلوہ نہ دکھاتا
رتبہ گلِ بازی کا دلا کاش تو پاتا
نہیں کرنے کا رسوا تجھ کو مجھ سے روٹھ مت جانا
کوئی دنیا میں ظالم کیا نہ ہو گا
جستجو میں دل کے بہلانے کی جی کھونا پڑا
کچھ بھی مزاج تیرا اے بد گمانی بدلا
درد کے صدمے سے جو واں تک آہ نہ میں بدنام گیا
آہ کیوں کر نہ جدا ہم سے وہ پیارا ہوتا
خالی اس بن جو ہم نے گھر دیکھا
میں وہ طوفانِ چشمِ تر دیکھا
خبر ہے تجھ کو دیوانا ہے وہ اے بےخبر کس کا
ابرِ غم اے چشمِ گریاں جب برس کر کھل گیا
اب تصور ترا آنکھوں کے حضور آن بندھا
بہ از گل جانتا ہوں چاک میں اپنے گریباں کا
ہوا ہے اب تو یہ نقشا ترے بیمارِ ہجراں کا
عزیزو کیا کہوں رونا میں اپنی چشمِ گریاں کا
ہوا ظاہر نہ مردہ بھی ترے بیمارِ ہجراں کا
مت یہ گھبرا کر کہو اب گھر کو بندہ جائے گا
جس پری رو نے کیا دل صاف دیوانا مرا
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
پوچھتے کیا ہو وہ عیار ہے دلبر اپنا
گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
تن اب بستر سے یوں مجھ خستہ جاں کا اٹھ نہیں سکتا
جس گلستاں میں آکے وہ رشک چمن گیا
کس جا نہ بے قراری سے میں خستہ تن گیا
در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
سچ تو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
ہاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا
کب کوئی تجھ سا آینہ رو یاں ہے دوسرا
دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا
دودِ آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا
گو ہوں وحشی یہ تیرےدر سے نہ ٹل جاؤں گا
رفتگی پر تو ہے نازاں گر بہ گلشن اے صبا
کی جوہم حسرت زدوں نے سیرِ گلشن اے صبا
دل کے لگ جاتے ہی جی تن سے ہمارے نکلا
داغ ہر دل جو ترا چاہنے والا نکلا
شب کیا یہ چپکے چپکے وہ شوخ و شنگ بولا
کیا لڑکپن کا ہے عالم اس بت نادان کا
دوستی ڈھونڈوں ہوں اس سے جو ہے دشمن جان کا
کل واں سے آتے ہی جو ہمیں خواب لے گیا
ہندوے زلف دل پہ لگا گھات لے گیا
جان کر اس نے گرفتار جو در بند کیا
دیکھنا دشوار ہے اب اس بت دل خواہ کا
غنچہ دل کو لو یوں نالہ شب گیر کھلا
گر مشغلہ نہیں تہ دریا شراب کا
سمنکھ ہو اس سے ڈھب نہیں ملتا ہے بات کا
اب ساغر سے ملا مت لبِ گلگوں اپنا
کچھ منہ سے دینے کہہ وہ بہانے سے اٹھ گیا
صاف اس کا دل اب اپنے بٹھانے سے آٹھ گیا
جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
اب بتا دل میں ترے اے بت عیار ہے کیا؟
کیوں نہ لرزاں ہو سراپا تنِ لاغر میرا
مرتے ہیں جس کی خاطر دل خواہ وہ نہ آیا
نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
یہ کس پردہ نشیں سے دل لگایا
فلک یک دم اسے آگے نہ لایا
زباں پر نہ گر حرفِ غم لایئے گا
یوں ہی وحشت سے جو گھبرا ئیے گا
کھینچ شکل اس کی مصور تو نہ تاخیر لگا
سر گزشت اس سے جو کچھ کہنے میں دل گیر لگا
نہ جواب لے کے قاصد جو پھرا شتاب الٹا
اس مرگ سنگِ تربت بہ صد اضطراب الٹا
دلِ زار آپ سے بستر پہ کب اے یار اٹھ بیٹھا
جو دیکھا خواب میں شب لیٹے لیٹے یار اٹھ بیٹھا
کیا اس گھر میں چرچا جس نے میری آہ و زاری کا
یہ نادانی نہ کر یاں فکر منعم گھر بنانے کا
سبب پوچھو نہ واں سے دستۂ نرگس کے آنے کا
گئے وہ دن جو عزمِ یار تھا یاں سے نہ جانے کا
دل کے پھنس جاتے ہی میں ایسا دوانا بن گیا
یوں خارِ الم کا ہے دلِ تنگ میں کیڑا
جوں غم کا لگا دل کی ہے فرہنگ میں کیڑا
نصیحت کرنے سے ناصح ہٹے گا
حسرت زدوں کے پاس گزر جو کہ کر گیا
جیتے تو غمِ گردشِ افلاک نے کھایا
واں سے گھر آکے کہاں سونا تھا
رو رو کے جو غش اس دلِ غم ناک نے کھایا
کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
ہر کوئی دیکھنے کو اے یار گھر سے نکلا
عاشق کا جب جنازہ یک بار گھر سے نکلا
اب میں اجل کے نامہ و پیغام میں پھنسا
الفت سے ہو خاک ہم کو لہنا
رات جب تک مرے پہلو میں وہ دلدار نہ تھا
دل سے کب چھٹتے ہی وہ تیرِ نگہ پار نہ تھا
بسترِ غم پر ہے کیوں بے حس دلا، کیا ہو گیا
دو چار نزع میں جو حسن سبزِ یار رہا
کچھ اپنا نالۂ دل پر کب اختیار رہا
اس دل سے جو ملا نہ دل اس رشکِ ماہ کا
دل پر لگا الٹ کے وہیں تیر آہ کا
پوچھو نہ کچھ سبب مرے حالِ تباہ کا
کل جو رونے پر مرے ٹک دھیان اس کا پڑگیا
بیاں کرتا ہوں یہ سوزِ فراقِ یار تھوڑا سا
دل جو کہیں لگا ہے دو چار دن سے اپنا
واں چاہنا عیاں ہے دو چار دن سے اپنا
جو ماہِ رخِ یار نہ باراں نے دکھایا
جو کہیے ’’ہوگا یاں رہنا تمہارا‘‘
اسے رحم جب مجھ پہ آنے گلا
نیند بھی اڑ گئی یارب یہ ہوا مجھ کو کیا
گر کہوں غیر سے پھر ربط ہو اتجھ کو کیا
اچپلاہٹ سے ہے واں ہر بار اٹھنا بیٹھنا
اس تری یاد و فراموش نے بے ہوش کیا
ترے بن اب جو مشکل ہے قرار اے فتنہ گر آنا
کون دیکھے گا بھلا، اس میں ہے رسوائی کیا
نہ لوٹنا دلِ پراضطراب سے چھوٹا
دردِ فرقت کا الم ہر دم ہمیں گھیرے رہا
اس بن جو اتفاقاً یک لحظہ ہم کو سنا
خاک میں اب نام و ننگ اپنا یہ رسوائی ملا
ایسی ہل چل میں کہیں کیوں دل دوانا لگ گیا
اگرچہ جی کے بہلانے کو میں کس جا نہیں جاتا
سینے کے زخم سے جوں ہی پھاہا سرک گیا
کہتے ہو سیر باغ میں دل اب تو لگ گیا
سر تن سے مرے تو نے ستم گار اتارا
پر از گوہر سرشکِ چشم سے دامانِ تر پایا
عجب انداز سے کل بزمِ خوباں میں وہ آتا تھا
رکے کیوں کر نہ وہ محفل میں جو میں تلملاتا تھا
تن میں دم روک میں بہ دیر رکھا
حسن اے جان نہیں رہنے کا
دمِ آخر مرے بالیں پہ آؤ گے تو کیا ہوگا
یہ مضطرب میں بتِ دلربا کے گھر سے پھرا
دل چھیدے ہے یوں سوزنِ ہجراں کا لوہا
یہ تیز ہے اس کاردِ مژگاں کا لوہا
اپنے پہلو سے وہ جانی جو گیا پھر نہ پھرا
میرے اور اس کے جو پوچھو ربط، کیا کیا کچھ نہ تھا
بستا تھا کب قفس یہ صیاد اس طرح کا
کچھ تو کیا ہے اس نے ارشاد اس طرح کا
آرام نہ ہو دل کو تو اے یار کریں کیا
اس کے جانے سے جو ملال ہوا
اسے چھوڑ کر تو اگر جائے گا
اب بھی ساقی گل اندام ہمیں بھول گیا
یک بار عقل و ہوش کا سب ڈھنگ اڑ گیا
خفا مت ہو میاں گر اب کے ٹوٹا تار رونے کا
ہے بہت مائل وہ شوخِ بے حجاب آئینے کا
جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا
کھد جائے دل پہ نقش اگر اس نگار کا
دردِ دل سے تو میں کس رات پکارا نہ کیا
جو اس گلی میں کسی آشنا کا گھر ہوتا
مدعی کوئی نہیں اے بتِ خوں خوار
ذرا کر سیر گلرو، تازگی پر ہے چمن اپنا
کیسا پیام آکے یہ تونے صبا دیا
دل کی کیا پوچھے ہے کیوں یہ خستہ جاں ٹکڑے ہوا
گر لگی آتش مرے دل اور جگر کو، کیا ہوا
کیوں اٹھ چلا جہاں سے دلِ زار، کیا ہوا
کیا ہجومِ داغ سے گلزار سارا تن ہوا
کس بے وفا کے دام میں جا مبتلا ہوا
عشق کب یار مجھ سے چھوٹ گیا
یاں ہم کو جس نے مارا، معلوم ہو رہے گا
خاک ہو کر ہم رہے سارے جہاں کے زیرِ پا
بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
تجھ سے جس شخص کا دل اے بتِ خوں خوار لگا
صبح ہوتے ہی جو وہ غائب ہوا مہتاب سا
جب میں نے کہا اے بتِ خود کام ورے آ
رخ جو پردے سے مرے رشکِ قمر کا نکلا
کیا خلل آپس میں تونے شوخِ پر فن کر دیا
ہوں دو چنداں اس فلک کی ظلم رانی سے خفا
دل جو غم کھایا کیا وہ غم مجھے کھاتا رہا
تجھ کو جب میرا خیال اے مہ جبیں جاتا رہا
جس کو تو ڈھونڈھے ہے وہ اے ہم نشیں جاتا رہا
برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا
رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
پیام جلد صبا وصلِ یار کا پہنچا
چھیڑے ہم کو یار آج آیا
یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
کل رات مجھ سے یار مرا بے حجاب تھا
جگر خوں ہو کے باہر دیدۂ گریان آوے گا
جنگ میں کون سے دن آہ وہ روپوش نہ تھا
بندھا تھا دھیان اب تو اور ہی نخچیر پر تیرا
کس کو منظور ہو آس در پہ بٹھانا اپنا
آہ جب کوچۂ جاناں ہی میں جانا نہ رہا
سن کے میں عزمِ سفر مر ہی گیا
دل تجھ سے جو بے درد سے میں یار لگایا
یاں جی ہی ٹھہرتا نہیں مجھ خستہ جگر کا
صیاد نے کب صحنِ گلستاں میں چھوڑا
کچھ پوچھتا ہے ہو کے وہ جب پر عتاب سا
دام میں صیاد نے جب ہم کو پرربستہ کیا
مجھ پاس جو شب خواب میں وہ رشک قمر تھا
شمع ساں کس نے مجھے پھولتے پھلتے دیکھا
کیا کہوں جو ترے بیمار کا احوال ہے آہ
تو قصدِ سفر اگر کرے گا
کیا حال پوچھتا ہے تو اس خستہ جان کا
دل کیوں کہ ہو نہ مائل اس سوش کی ادا کا
یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
مبتلا بس کہ ہوں میں اک بت ہرجائی کا
مرگیا درد اٹھا کر جو وہ تنہائی کا
اپنے جو آہ و نالہ سے طغیاں ہے آگ کا
وحشت میں سوزِ دل سے جوس طغیاں ہے آگ کا
ہستی ہو اپنی کیوں نہ فراموش نقشِ پا
رکھتا ہوں جس کے کام پہ میں جوں آجاغ پا
شکوہ کیا کیجئے ناتوانی کا
بتلا تو دے کہ میں نے کہا تجھ کو کیا بھلا
آہ تن سوزِ دروں سے شکل آتش ہے مرا
گرمی سے تیری یوں دل دیوانہ جل گیا
لکھتے ہی سوزِ غم نہ فقط خامہ جل گیا
کیا وہ رشکِ پری چھوڑ کر جو یاں تنہا
دم کا ہے کیا بھروسا کب تک رکا کرے گا
دشتِ سخن میں رکھیو نہ تو بے سراغ پا
تری فرقت میں کس کو غم ہے میرا
ہم تو کہتے تھے دمِ آخر ذرا سستا، نہ جا
ہم دم نہ پوچھ حال، سنایا نہ جائے گا
بہہ گیا جوں شمعِ تن سارا اگر اچھا ہوا
لے کے دل کو پھر ادھر آس کا گزارا نہ ہوا
سنے ہے جس دم گلی میں اپنی وہ فتنہ گر شور و شر ہمارا
جستجو میں دل کی اس کوچے میں اب جو جائے گا
یا وہیں کا ہو رہے گا یا عدم کرجائے گا
سوزِ دل سے حال یہ تھا شب ترے غمناک کا
دیکھ اس کل کو جو شعلہ سا جگر سے چمکا
کر سرگزشت میری اس سے نہ تو کہے گا
سن شور یہ بولا مری فریاد حزیں کا
عاشقی جرأت نہ کر، ناحق نہ جی کو غم لگا
کر کیجے ارادہ تری قدرت کے رقم کا
کچھ داغ جوانی میں نہیں عشق کا چمکا
شب خواب میں جو اس کے دہن سے دہن لگا
جو دلِ وحشت زدہ پھرتا تھا آوارا پڑا
شب اس کے گھر سے میں گریہ کناں چلا آیا
گلی سے اس کی میں اپنے تو دل کو کیا لایا
مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا
شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
یہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجابِ عشق سے حال تھا
لاچاری سے پیارے تمہیں گھر جانے تو دوں گا
میں باغِ جہاں میں شجرِ سوختہ ہوں گا
حیراں نہ ہو کیوں دیکھ اسے چاہنے والا
دے جام کہ ساقی کریں سیرِ گل و لالا
کرکے خوں مانگے ہے دل اشک روں اور نیا
گرچہ دن رات میں اک مجمعِ خوباں میں رہا
سو تردد جو ہم آغوشیِ جاناں میں رہا
مجھ سے ہم خانہ وہ تا عالمِ امکاں میں نہ تھا
آئے گر اس رشک گلی بن صحنِ گلشن زیر پا
اب نہ ٹھہرے گی زمیں اے شوخِ پر فن زیرِ پا
لا کبھی تو جاکے ظالم اس کا مدفن زیرِ پا
عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کہ عشق باہم لگا چھڑایا
جو دردِ آہ ِ جگر اپنا تا زباں پہنچا
یہ دل کو صدمۂ درد و غمِ نہاں پہنچا
دریغ اس بے وفا کو روزِ اول میں نہ پہنچایا
کھینچ کر آہ جو میں ہاتھ جگر پر رکھا
مری طرف سے ذرا اب اسے کہو اتنا
دل سے اٹھتا ہے دھواں، خاک ہے جینا اپنا
بندہ خانے میں جو آپ آئے کرم تم نے کیا
ہے یہ دارِ عشق وہ رتبہ ترے رنجور کا
ہے قریب مرگ احوال اب ترے رنجور کا
غم کا یہ اس مریض پہ کوہِ گراں گرا
پھر اٹھ سکا نہ جب کہ ترا خستہ جاں گرا
کیا جانیں اب مریض ہے تیرا کہاں پڑا
میں جو دل کھول کے گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
پابوس میسر ہمیں ہیہات نہیں اب
بحرِ غم میں کوئی تاچند غمیں جاوے ڈوب
گلی میں اس کی لے چل ہم نشیں اب
شرم کھاتا ہوں جو یوں کوہ و زمیں جاوے ڈوب
ہم کئی دن سے نہیں سنتے فغانِ عندلیب
ہو گیا مجھ سے وہ برہم آہ و زاری کے سبب
تیغِ براں نکالو صاحب
آج بھی اس کو نہ دیکھا چشمِ گریاں کے سبب
سرشکِ گرم ہیں میرے بسانِ آتش و آب
بعد موت کے جو گھر اس کے ہمیں لائے نصیب
ہے اشک گرم سے جوں چشم کانِ آتش و آب
مہِ رخسار نظر آئے ہے یوں خال سے خوب
منفعل کیوں کہ نہ ہوں اس کی میں اس چال سے خوب
اس لئے بیٹھے رہے ہم اس کے گھر ناچار چپ
درپئے عمرِ رفتہ ہوں یارب!
غمِ فراق سے کٹتی ہے یوں ہماری رات
بلائیں ہاتھوں نے میرے جو لیں تمہاری رات
دل کیا کرتا ہے کچھ کچھ جو بیاں ساری رات
ہیں اب کہاں نمود پہ دو چار کوہ و دشت
رکھتا تھا قیس نالوں سے آباد اور دشت
کچھ جو محفل میں چلی اس بتِ خونخوار کی بات
بلبل سنے نہ کیوں کہ قفس میں چمن کی بات
گئے وہ دن کہ رہتی تھی گل و گلزار سے صحبت
چھپا مت شب کو جو تھی تجھ سے اور اغیار سے صحبت
کر سکوں میں ترے شکوے کو رقم، کیا طاقت
یہ حالت جوشِ وحشت سے ہے ہر رات
جادو ہے نگہ چھب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
جز بے کسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا
میں تو حیراں ہوں خفا یار ہوا کس باعث
کیوں کر نہ جائے رشتۂ عمر اپنا جان ٹوٹ
گر کہوں کرتے ہو ہر اک سے ملاقات عبث
آیا نہ اس کے وصل کا گر کچھ پیام آج
کوئی دم میں اس کے جائے کی یاں سے خبر ہے آج
ظالم پھر اس مریضِ محبت کا کیا علاج
دل کو اے عشق سوے زلفِ سیہ فام نہ بھیج
دل کی طیش کا، کاہشِ جاں کا نہیں علاج
سخت ہم پر غضبِ عشق ہے آج
یار کے پیشِ خرامِ ناز کیا توقیرِ موج
کیا اس بغیر بات کریں انجمن کے بیچ
جوں جسم ناتواں ہے مرا پیرہن کے بیچ
تھی کل اس بن یہ مری شکل گلستاں کے بیچ
اے گل اب جو ترے در پر ہے سو زر کے لالچ
چین وقتِ شام ہے بستر پہ نے آرام صبح
دم دے کے ہمدمو اسے لاؤ کسی طرح
پڑ گئے یوں مری آہوں سے جگر میں سوراخ
کیفی ہے چشمِ یار سفید و سیاہ و سرخ
لگتا ہے بن ترے اسے صبر و قرار تلخ
دشمن کا میری بات سے ہو کیوں نہ کام تلخ
کہتا ہے مجھ کو منہ سے جو ہر ایک آن تلخ
ساقی میں کس طرح کہوں تیری شراب تلخ
زور آپ کے بھی ہاتھ چڑھا ہے حسین بند
ہے دل کو اک تو دردِ فراقِ حبیب تلخ
جوابِ خط میں مرے اس نے کب لکھا کاغذ
اس گل کی سی نہ پائے بہار آسمان پر
قدم ہوں رکھے ہے وہ پیارا زمیں پر
یہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار
روز حیران سا بیٹھوں ہوں میں در میں آکر
دور سے کل ہم نے اس کے آستاں کو دیکھ کر
دل ہم نے دیا ہے تجھے دلدار سمجھ کر
جو روئیں دردِ دل سے تلملا کر
جب ناز سے وہ سوخ رکھے گام زمیں پر
ہم کو دکھلاتے ہو جو تم دم بہ دم شمشیر و تیر
اب خاک تو گیا ہے دل کو جلا جلا کر
نہیں تل جو تل اے رشک ملک ہے تیرے چہرے پر
جاتی ہے میری جان تنِ زار چھوڑ کر
کیا جانیے کیا لائے فلک پیکر گل پر
جو ڈر سے اس بتِ خوں خوار کے روتا ہوں رہ رہ کر
پھرتے نظر جو پڑتے ہیں خوباں ادھر ادھر
نہ جی کو دل کی خبر ہے نہ دل کو جی خبر
بتاؤں ہم نفساں کیا میں گلستاں کی خبر
اس ڈھب سے کیا کیجئے ملاقات کہیں اور
اس بے وفا کے در پہ میں سر مار مار کر
جب گھر کو وہ چلا کسی بے کس کو مار کر
رہا ہے نوکِ مژگاں پر دلِ پژمردہ یوں آکر
ہم اس طرح رہے یارانِ رفتگاں سے دور
بٹھایا ضعف نے یوں ہم کو کارواں سے دور
رنگیں یہ وحشیوں سے ہیں اےیار سنگ و خار
دل تجھ پہ کوئی دم میں بلا آئے ہے کچھ اور
اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
گلشن میں جو وصف اس کا کہوں دھیان لگا کر
یہ سوزِ عشق سے ہے طیش اپنی جان پر
داغ سے ہے بہارِ لختِ جگر
مل جاؤ کچھ ہمیں نہیں تنہا ترنگ پر
ہر چند بھرے دل میں ہیں لاکھوں ہی گلے ،پر
روزن نہیں جو واں کے دیوار و در کے اندر
بھڑکے ہے آتشِ غم یہ اپنے تن کے اندر
کر لیتا ہوں بند آنکھیں میں دیوار سے لگ کر
بن اس کے نظر پڑتے ہی ٹک قمر پر
وہ ہنس ہنس کے کافر مری چشم تر پر
نظر پڑتے ہی اس کی مژگانِ تر پر
چپکے چپکے روتے ہیں منہ پر دو پٹہ تان کر
بناتے ہیں جو سو باتوں کے دفتر واں سے گھر آکر
حیراں نہ ہو سر دیکھ مرا اپنی زمیں پر
جو آج چڑھاتے ہیں ہمیں عرشِ بریں پر
ہم اٹھیں واں سے اور اس در کو نہ چھوڑے پتھر
اشکِ گل رنگ نے بے رنگ نہ چھوڑے پتھر
ہم نے چھاتی پہ لگا گو کئی پھوڑے پتھر
ہو سوگ میں ہیں دل کے، ہو صبر و تاب کیوں کر
بن کے دیکھے اس کے جاوے رنج عذاب کیوں کر
واں ہے یہ بدگمانی جاوے حجاب کیوں کر
لب و دنداں کا تمہارے جو ہے دھیان آٹھ پہر
سب کہتے ہیں دیکھ اس کو سرِ راہ زمیں پر
گرچہ پر اک نوعِ بشر آئے ہے نظر
شوخی سے جب وہ پیشِ نظر آئے ہے نظر
جوشِ گریہ یہ دمِ رخصتِ یار آئے نظر
رخشِ بے تابی پہ ہم ووہیں سوار آئے نظر
بالیں کہاں رکھے ہے ترا مست زیرِ سر
نظر پڑے ہے کب اس آب و رنگ پر تصویر
عیاریوں کا اس کی کروں کیا بیاں کچھ اور
تصور اب باندھ باندھ تیرا فدا میں ہوتا ہوں یار تجھ پر
سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑا
بنِ ترے یہ دلِ دیوانہ گریبان کو پھاڑ
ہوں وہ دیوانہ کہ نکلا جو گریبان کو پھاڑ
برقِ حسن اپنی سے تھا تو نہ کچھ آگاہ ہنوز
نشست تا کسی صورت سے ٹھہرے واں پر روز
کر سکے کیوں کہ بھلا پاؤں وہ رنجور دراز
کچھ بھی نکلی نہ دل زار کی اے یار ہوس
اب نکل اپنی کچھ اے گردشِ افلاک ہوس
غم ہٹانے کو جو بیٹھوں کسی غم خوار کے پاس
ہوتی ہے کس مریض کو آزار کی ہوس
سرشک و سوز جگر سے ہے دل گہے بہ آب و گہے بہ آتش
لگ اٹھی یوں دلِ سوزاں سے جگر کو آتش
بہ سرد و گرمِ زمانہ ہے دل کہے بہ آب و گہے بہ آتش
آجائے گر چمن میں وہ رونق فزاے باغ
بدگمانی سے نہ لے جاؤ گمان اور طرف
ہے یہ گل کی اور اس کی آب میں فرق
سبزہ باہم ہو ولے پیشانی اسرارِ عشق
قیس اور فریاد بھی تو ہاے تھے بیمارِ عشق
موے جعد صنم آئے جو نظر لاکھوں ایک
جانتے ہیں تجھے اے رشکِ قمر لاکھوں ایک
چشمِ تر یوں طپشِ داغ نے کر ڈالے خشک
نہ سر کوں واں سے گو اس میں کٹے اے یار گردن تک
دل دے چکے ہیں تس پہ بھی حاضر ہیں جاں تلک
کبریائی میں مرا وہ بت دلخواہ ہے ایک
کروں جو یاد ذرا آستان یار کا سنگ
بلبل کو ہو سیرِ گل و گلزار مبارک
دردِ فراق سے ہے یہ بہتر کہ آئے مرگ
نیرنگِ محبت نے یہ اپنا تو کیا رنگ
یہ حالِ دل ہے غم سے لگے ہے جو ہر کو آگ
رکھتا ہے جو مرا یہ دلِ تنگ رنگ ڈھنگ
رونے ہی سے ہے گرمیِ بازار لختِ دل
سخت گھبرائے ہے اب سب کی ملاقات سے دل
آج تک سنتے ہی بس ہم تو رہے نامِ وصال
غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل
سیر کر دل کی، ذرا پردے سے منہ یار نکال
کہیں رونے پہ دلا گھر سے نہ دے یار نکلا
رہ کے چپ جان مری مت دلِ بیمار نکال
عیدِ قرباں کو بھی دے گھر سے ہمیں یار نکال
گر غمِ عشق سے تیرے نہ عمیں ہوتے ہم
عشق کی کچھ نہیں جگر میں دھوم
کیا جانیے کیا ہوتی ہے جرأت نہیں معلومت
بہ تنگ آئے ہیں اس دل کے پیچ و تاب سے ہم
یا تو اس کے گھر سے آتےتھے نہ اپنے گھر کو ہم
جاتے دنیا ہی سے پر اس کے نہ گھر جاتے ہم
بہہ گیا ہو کے لہویوں یہ دلِ زار تمام
ہوگئے وصل کا ہم سنتے ہی پیغام تمام
دیکھ کر اے ہم نشیں فرقت کی بھاری رات ہم
آ کے آواز اپنی جب در پر سنا جاتے ہو تم
ٹک جو پردے میں جھلک اپنی دکھا جاتے ہو تم
بن دیکھے ہی جو اس کے پھرے گھر کو ہائے ہم
ٹک دیکھنے اس آئینہ رو کو نہ پائے ہم
دل، جگر، جاں غمِ عشق میں کھو بیٹھے ہم
کوچۂ یار میں جو ہوئے سو ہو، بیٹھے ہم
نہ ہو اک دم کی خاطر سرگراں تم
نہ کیوں کر روئیں یہ کب تک ستم اے یار دیکھیں ہم
مثلِ آئینہ باصفا ہیں ہم
کب رکھے خاکِ شہیداں پر تحمل سے قدم
ہے یہ اس کے نقاب کا عالم
یاں فوجِ غم جو ٹوٹ پڑی آن کر تمام
ڈونڈھوں کس جا تمہیں کیوں ہو کے نہاں بیٹھے تم
کیسی محفل میں مری جان یہ جا بیٹھے تم
قول آنے کا دے کے راہم میں تم
بہ دریاے محبت زورق آسا غم کے مارے ہم
تصور باندھتے ہیں اس کو جب وحشت کے مارے ہم
رہو الفت میں گر ثابت قدم تم
ٹک ملا سکتے نہیں آکے نظر تم سے ہم
سینہ دل ِ سوزاں کے گئے، پر بھی رہا گرم
مکھڑا ہی فقط اس کا نہیں نامِ خدا گرم
گر کہیے بغل کیجے ہماری بھی ذرا گرم
جوں اٹھے پاس سے آس شوخِ دلآرام کے ہم
یاد کر ایک آئینہ رو کے لب و دندان ہم
ہے یہ مشکل جو ملیں اس بت مغرور سے ہم
پروا نہیں اس کو اور موئے ہم
جو راہِ ملاقات تھی سو جان گئے ہم
بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
چڑھا کے دل نے مئے عاشقی کا جام تمام
نظارہ کناں جب بہ درِ یار ہوے ہم
کب شکوۂ قاتل تہِ شمشیر کریں ہم
تھے بیابانِ محبت میں جو گریاں آہ ہم
بے خودی میں اس سے جو رخصت ہوے ناگاہ ہم
گالیاں دینے لگے نام مرا لے لے تم
کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا ٹھاے بن
یاد کر وہ حسنِ سبز اور انکھڑیاں متوالیان
دام میں ہم کو لاتے ہو تم، دل اٹکا ہے اورکہیں
کیوں کہ تم پاس سے ہم جائیں بھلا اور کہیں
روز و شب رہتے ہیں ہم گو وصل کی تدبیر میں
دور سے کس روز اس کے در کو میں تکتا نہیں
کوچۂ جاناں سے جاتے ہیں یہ جا سکتے نہیں
حال اپنا اس کو محفل میں جتا سکتے نہیں
کون سا غم جس کی خاطر جان پر میری نہیں
ناتوانی بر مرا کچھ زور چلتا ہی نہیں
کیوں کہ اب اس سے ملاقات ہو اک آن کہیں
گھر سے نکلا وہ نازنین نہ کہیں
سیہ بختی میں بھی اوج اپنا دیکھو کیا دکھاتا ہوں
خیال وصل میں اس کے عجب باتیں بناتا ہوں
قدم میں ناتواں جب اس کے کوچے سے اٹھاتا ہوں
کہے ہے جب وہ محفل میں کہ لو اب گھر کو جاتا ہوں
قصور تیری صورت کا جو باندھ اے یار لیتا ہوں
یہ کون آکر رہا تھا گھر مرے میں سخت حیراں ہوں
بہ صد عجز اس کے آگے پہلے تو کچھ کچھ میں بکتا ہوں
منہ پھیر لے جھجک کے جو قدموں سے جا لگوں
مجھ سے مت پوچھو کہ دم ساز کسے کہتے ہیں
اے ستم ایجاد کب تک یہ ستم دیکھا کریں
دل مرا یار جہاں ہے تجھے معلوم نہیں
آوے کیا بوے دلِ سوختہ، یہ عود نہیں
درد اپنا میں اسی طور جتا رہتا ہوں
پر سے جب نالہ کناں شہر میں آجاتا ہوں
گرمی مرے کیوں نہ ہو سخن میں
وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں
شکل دکھلایئے کہیں تو ہمیں
لختِ دل سمجھو نہ میرے آنسو کے تار میں
لختِ دل کی ہے اب آمد دیدۂ خوں بار میں
دیکھیو شوخی کہ زار و ناتواں پا کر ہمیں
چھپ گیا پردے میں وہ صورت جو دکھلا کر ہمیں
شب چلی جاتی ہے لیکن آنکھ لگ جاتی نہیں
اہ کرنے کی بھی طاقت ہمیں ہیہات نہیں
جی کے احوال سے یہ دل بھی خبر دار نہیں
حال سننا مرا کچھ اس کو تو دشوار نہیں
میں کہا، ایک ادا کر، تو لگا کہنے اوں ہوں
یوں تنگ ہوں اس زلفِ گرہ گیر کے ہاتھوں
یہ حسرت جو ہم دم بہ دم دیکھتے ہیں
ہم اب تن میں طاقت کہاں دیکھتے ہیں
چھڑا کر ہاتھ سے میرے نہ جا اے فتنہ گردامن
سوزِ ہجراں کو زباں پر جو ذرا لاؤں میں
پھر کیوں کر کہیے تجھ کو کہ بیداد گر نہیں
کس دن غمِ فراق سے چشم اپنی تر نہیں
کیا کہیں کس روز اپنے دل پہ درد و غم نہیں
دم بہ دم گر طلبِ وصلِ دلآرام نہیں
دختِ رزگی ہے جو کچھ عشوہ گری شیشے میں
جس کے بن دیکھے یہ جاتا نہیں غم اور کہیں
باتیں یہ کیجئے اے رشکِ قمر اور کہیں
دیکھو اشکوں سے مرے لختِ جگر پانی میں
عکس آیا ہے یہ تیرا ہی نظر پانی میں
ہم نشیں پوچھ مت کہیں ہوں میں
جب نہ کچھ طاقت رہی اپنے پر پرواز میں
پر میں میرے جب تلک وہ سیم تن آتا نہیں
شکل دو دز سے جو تم نے ہم دکھلائی نہیں
دھیان میں وہ اس کے پچھلے ربط جب لاتا ہوں میں
ذرا ہم اس سے لگ چلنے کو سو سو ڈھب لگاتے ہیں
آپ میں آنے سے تیرے جان رہتا میں نہیں
نہ تنہا شدت گریہ سے مردم خوف کرتے ہیں
دیکھ اے عیارِ ٹک اپنی بھی یہ عیاریاں
پردے میں شکل کس کی یہ آئی نظر ہمیں
وہ گرمیاں جو اب نہیں آتیں نظر ہمیں
دے قیدِ غم یہ کون کیا اپنے گھر ہمیں
روز و شب یہ کس کے وصل و ہجر کے ہیں دھیان میں
کیوں نہ وہ ہم رنگ کی دونی کرے اک آن میں
بھلا دیکھو تو ہم تم ایک ہی بستی میں بستے ہیں
لگ جاگلے سے طاقت اب اے نازنیں نہیں
دل ملے جب سے تو مل بیٹھے نہ ٹک
تفرقہ ایسا بھی کم دیکھا ہے اے ہمدم کہیں
ایک گھر میں بھی کبھی مل کے نہیں بیٹھتے ہیں
چشمِ بد دور، یار کی آنکھیں
نہ دیکھو گل کو حیرانی سے مجھ دل گیر کی آنکھیں
دل مرا مجھ کو کہیں اے ہم نشیں ملتا نہیں
زیست میں ایک دم خوشی افسوس دل نے کی نہیں
سچ کہو کی بادہ خواری یا یہ آنکھیں روئی ہیں
یہ قصوں میں جو دکھ اٹھائے بندھے ہیں
خیالِ خواب کہاں، سوزِ غم سے جلتے ہیں
مقیمِ شہرِ دور افتاد گاں ہو ورنہ مرتے ہیں
طیش سے اس کی اب اعضا تمام جلتے ہیں
کچھ بن آتی نہیں اس امر میں لاچار ہوں میں
رکھیویارب تو پھنسا دل کی گرفتاری میں
بات کرتے اس سے ڈرتے ہیں، الٰہی کیا کریں
رکھو معذور یارو فرق ہو گر رسمِ یاری میں
اٹھاتے ہیں بن اس کے ہم یہ لذت دل فگاری میں
کب زمیں پر وہ نظر پردہ نشیں اے ہمیں
ناتوانی نے گم ایسا ہے کیا ہائے ہمیں
ابرِ مژگاں سے مرے لوہو کی بوندیں جھڑنیاں
ہو کے آزردہ جو ہم سے وہ پرے پھرتے ہیں
یہ رنگ مہر ہے گردش ہی ہم کو سارے دن
ہم نشیں باتوں پہ تیری کیا کروں ہر بار ہوں
لی جمائی اس بتِ خوں خوار نے جب باغ میں
سوزشِ دل کا مرے مجھ سے بیاں ہو سو کہاں
چوری چوری مرے لگ جاؤ گلے آکے کہیں
دل کی طپش سے صدمے جوں برق جان پر ہیں
اب یہ کنایے اس کے مجھ ناتواں پر ہیں
اے وقتِ خوش انہوں کا کیا لطف ہم دگر میں
کس سج سے ہم دوانے افتاد، خاک پر ہیں
زبس وہ آپ کو بے مثل سمجھے ہے زمانے میں
وہ بتِ سنگ دل جو آہ لے کے دل آشنا نہیں
عہد شباب ہے اخیر عیش بہت منا نہیں
ہجر میں جینا مجھے اک دم نظر آتا نہیں
جاتا ہے جلد چشمِ سے اشکِ رواں کہیں
دکھلادے اپنی مہر سے جلوہ کبھو ہمیں
دل ہے پہلو میں مرے، روزِ ازل کا دشمن
اس دل بے تاب کو آہ نہیں کل کہیں