(۱)
ملیا ہر ی ہری گھاس کا گٹھا لے کر لوٹی تو اس کا گیہواں رنگ کچھ سرخ ہوگیا تھا اور بڑی بڑی مخمور آنکھیں کچھ سہمی ہوئیں تھیں۔ مہابیر نے پوچھا، ’’کیا ہے ملیا؟ آج کیسا جی ہے۔‘‘ ملیا نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور منہ پھیر لیا۔
مہابیر نے قریب آکر پوچھا، ’’کیا ہوا ہے؟ بتاتی کیوں نہیں؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟اماں نے ڈانٹا ہے؟ کیوں اتنی اداس ہے؟‘‘ ملیا نے سسک کر کہا، ’’کچھ نہیں ہوا کیا ہے اچھی تو ہوں۔‘‘ مہابیر نے ملیا کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر پوچھا، ’’چپ چاپ روتی رہے گی بتائے گی نہیں۔‘‘ ملیا نے سرزنش کے انداز سے کہا، ’’کوئی بات بھی ہو۔ کیا بتادوں۔‘‘
ملیا اس خارزار میں گلِ صد برگ تھی۔ گیہواں رنگ تھا۔ غنچہ کا سا منہ۔ بیضادی چہرہ، ٹھوڑی کھچی ہوئی، رخساروں پر دل آویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلفریب معصومیت، ساتھ ہی ایک عجیب کشش۔ معلوم نہیں چماروں کے اس گھر میں یہ اپسرا کہاں سے آگئی تھی۔ کیااس کا نازک پھول سا جسم اس قابل تھا کہ وہ سر پر گھاس کی ٹوکری رکھ کر بیچنے جاتی۔ اس گاؤں میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو اس کے تلوؤں کے نیچے آنکھیں بچھاتے تھے۔ اس کی چتونوں کیلیے ترستے تھے جن سے اگر وہ ایک بات بھی کرتی تو نہال ہوجاتے لیکن ملیا کو آئے سال بھر سے زائد ہوگیا۔ کسی نے اسے مردوں کی طرف تاکتے نہیں دیکھا۔ وہ گھاس لینے نکلتی تو اس کا گندمی رنگ طلوع کی سنہری کرنوں سے کندن کی طرح دمک اٹھتا۔ گویا بسنت اپنی ساری شگفتگی اور مستانہ پن لیے مسکراتی چلی جاتی ہو۔ کوئی غزلیں گاتا۔ کوئی چھاتی پر ہاتھ رکھتا۔ پر ملیا آنکھیں نیچی کیے راہ چلی جاتی تھی۔ لوگ حیران ہوکر کہتے اتنا غرور اتنی بے نیازی مہابیر میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں ایسا جوان بھی تو نہیں۔ نہ جانے کیسے اس کے ساتھ رہتی ہے۔ چاند میں گہن لگ جاتا ہوگا۔
مگر آج ایک ایسی بات ہوگئی جو چاہے اس ذات کی دوسری نازنینوں کے لیے دعوت کا پیغام ہوتی۔ ملیا کے لیے زخم جگر سے کم نہ تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ ہو ا آم کے بور کی خوشبو سے متوالی ہورہی تھی۔ آسمان زمین پر سونے کی بارش کررہا تھا۔ ملیا سر پر ٹوکری رکھے گھاس چھیلنے جارہی تھی کہ دفعتاً نوجوان چین سنگھ سامنے سے آتا دکھا ئی دیا۔ ملیا نے چاہا کہ کتراکرنکل جائے۔ مگر چین سنگھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور بولا، ’’ملیاکیا تجھے مجھ پر ذرا رحم نہیں آتا۔‘‘ ملیا کا وہ پھول سا چہرہ شعلہ کی طرح دہک اٹھا۔ وہ ذرا بھی نہیں ڈری۔ ذرا بھی نہیں جھجھکی۔ جھوازمین پر گرادیا۔ اور بولی، ’’مجھے چھوڑ دو۔ نہیں تو میں چلاتی ہوں۔‘‘
چین سنگھ کو آج زندگی میں یہ نیا تجربہ ہوا۔ نیچی ذاتوں میں حسن کا اس کے سوا اورکام ہی کیا ہے کہ وہ اونچی ذات والوں کا کھلونابنے۔ ایسے کتنے ہی معرکے اس نے جیتے تھے۔ پر آج ملیا کے چہرے کا وہ رنگ، وہ غصّہ، وہ غرور، وہ تمکنت دیکھ کر اس کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس نے خفیف ہوکر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ملیا تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ چوٹ کی گرمی میں درد کا احساس نہیں ہوتا۔ زخم ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ تو ٹیس ہونے لگتی ہے۔ ملیاجب کچھ دور نکل گئی۔ تو غصّہ اور خوف اور اپنی بے کسی کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے کچھ دیر تک ضبط کیا پھر سسک سسک کر رونے لگی۔ اگر وہ اتنی غریب نہ ہوتی تو کسی کی مجال تھی کہ اس طرح کی آبرو لوٹ لیتا۔ وہ روتی جارہی تھی اور گھاس چھیلتی جاتی تھی۔ مہابیرکا غصّہ وہ جانتی تھی۔ اگر اس سے کہہ دے تو وہ اس ٹھاکر کے خون کا پیاسا ہوجائے گا پھر نہ جانے کیا ہو۔ اس خیال سے اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اسی لیے اس نے مہابیرکے سوالوں کا کوئی جواب نہ دیا تھا۔
(۲)
دوسرے دن ملیا گھاس کے لیے نہ گئی۔ ساس نے پوچھا، ’’تو کیوں نہیں جاتی اور سب تو چلی گئیں۔‘‘ ملیا نے سرجھکا کر کہا، ’’میں اکیلی نہ جاؤں گی۔‘‘ ساس نے کہا، ’’اکیلے کیا تجھے باگھ اٹھالے جائے گا۔ کیوں اوروں کے ساتھ نہیں چلی گئی۔‘‘ ملیا نے اور بھی سرجھکا لیا اور نہایت دبی ہوئی آواز میں بولی، ’’اوروں کے ساتھ نہ جاؤں گی۔‘‘ ساس نے ڈانٹ کر کہا، ’’نہ تو اوروں کے ساتھ جائے گی، نہ اکیلی جائے گی، تو پھر کیسے جائے گی؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ میں نہ جاؤں گی۔ تو یہاں میرے گھر میں رانی بن کر نباہ نہ ہوگا۔ کسی کو چام نہیں پیارا ہوتا۔ کام پیارا ہوتا ہے۔ تو بڑی سندر ہے تو تیری سندرتا لیکرچاٹوں۔ اٹھا جھوااور جا گھاس لا۔‘‘
دروازہ پر نیم کے درخت کے سایہ میں کھڑامہابیر گھوڑے کو مل رہا تھا۔ اس نے ملیاکو روتی صورت بنائے جاتے دیکھا پر کچھ بول نہ سکا۔ اس کا بس چلتا تو ملیا کو کلیجہ میں بٹھا لیتا۔ آنکھوں میں چرا لیتا۔ لیکن گھوڑے کاپیٹ بھرنا توضروری تھا۔ گھاس مول لے کر کھلائے تو بارہ آنے سے کم خرچ نہ ہوں۔ اسے مزدوری ہی کیا ملتی ہے۔ مشکل سے ڈیڑھ دو روپے۔ وہ بھی کبھی ملے کبھی نہ ملے۔ برا ہوا ان موٹرلاریوں کا۔ اب یکے کو کون پوچھتا ہے۔ مہاجن سے ڈیڑھ سو روپے قرض لے کر یکہ اور گھوڑا خریدا تھا۔ اس کے سود کے بھی نہیں پہنچتے۔ اصل کا ذکر ہی کیا۔ ظاہر داری کی، ’’نہ جی چاہتا ہو نہ جا، دیکھی جائے گی۔‘‘
ملیا نہال ہوگئی۔ آب گوں آنکھوں میں محبت کا سرور جھلک اٹھا۔ بولی ’’گھوڑا کھائے گا کیا؟‘‘
آج اس نے کل کا راستہ چھوڑ دیا اور کھیتوں کی مینڈھوں سے ہوتی ہوئی چلی۔ بار بار خائف نظروں سے ادھر ادھر تاکتی جاتی تھی۔ دونوں طرف اوکھ کے کھیت کھڑے تھے۔ ذرا بھی کھڑکھڑاہٹ ہوتی تو اس کا جی سن سے ہوجاتا۔ کوئی اوکھ میں چھپا بیٹھا نہ ہو۔ مگر کوئی نئی بات نہ ہوئی۔ اوکھ کے کھیت نکل گئے۔ آموں کا باغ نکل گیا،سینچے ہوئے کھیت نظرآنے لگے۔ دور ایک کنویں پرپر چل رہا تھا۔ کھیتوں کی مینڈھوں پر ہری ہری گھاس جمی ہوئی تھی۔ ملیاکا جی للچایا۔ یہاں آدھ گھنٹہ میں جتنی گھاس چھل سکتی ہے اتنی خشک میدان میں دوپہر تک بھی نہ چھل سکے گی۔ یہاں دیکھتا ہی کون ہے؟ کوئی پکارے گا تو چپکے سے سرک جاؤں گی۔ وہ بیٹھ کر گھاس چھیلنے لگی۔ اور ایک گھنٹہ میں اس کا جھابا آدھے سے زیادہ بھر گیا۔ اپنے کام میں اتنی محو ہوگئی کہ اسے چین سنگھ کے ٓانے کی خبر بھی نہ ہو ئی۔ یکایک آہٹ پاکر سر اٹھایا تو چین سنگھ کھڑاتھا۔
ملیا کا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔ جی میں آیا کہ بھاگ جائے۔ جھابا وہیں الٹ دے اور خالی جھابا لے کر چلی جائے۔ پر چین سنگھ نے کئی گز کے فاصلہ ہی پر روک کر کہا، ’’ڈرمت، ڈرمت،بھگوان جانے میں منہ سے کچھ نہ بولوں گا۔ خوب چھیل لے میرا ہی کھیت ہے۔‘‘ ملیا کے ہاتھ مفلوج سے ہوگئے۔ کھرپی ہاتھ میں جم سی گئی۔ گھاس نظر ہی نہ آتی تھی۔ جی چاہتا تھا دھرتی پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں، زمین آنکھوں کے سامنے تیرنے لگی۔
چین سنگھ نے دلاسا دیا، ’’چھیلتی کیوں نہیں، میں منہ سے کچھ کہتا تھوڑے ہی ہوں۔ یہیں روز چلی آیا کر میں چھیل دیا کروں گا۔‘‘
ملیا بت بنی بیٹھی رہی اس کے سینے میں اب اتنی دھڑکن نہ تھی۔
چین سنگھ نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور بولا، ’’تو مجھ سے اتنا کیوں ڈرتی ہے کیا توسمجھتی ہے میں تجھے ستانے آیا ہوں۔ ایشور جانتا ہے کل بھی تجھے ستانے کے لیے تیرا ہاتھ نہیں پکڑا تھا۔ تجھے دیکھ کر آپ ہی ہاتھ بڑ ھ گئے۔ مجھے کچھ سدھ ہی نہ رہی۔ تو چلی گئی تو میں وہیں بیٹھ کر گھنٹوں روتا رہا۔ جی میں آتا تھا اس ہاتھ کوکاٹ ڈالوں، کبھی جی چاہتا زہر کھالوں تبھی سے تجھے ڈھونڈرہا ہوں۔ آج تو ادھر سے چلی آئی میں سارے بار میں مارامارا پھرا کیا۔ اب جو سزا تیرے جی میں آوے دے۔ اگر تو میرا سر بھی کاٹ لے تو گردن نہ ہلاؤں گا۔ میں شہدا ہوں، لچاہوں، لیکن جب سے تجھے دیکھا ہے نہ جانے کیوں میرے من کی کھوٹ مٹ گئی اب تو یہی جی چاہتا ہے کہ تیرا کتا ہوتا اور تیرے پیچھے پیچھے چلتا۔ تیرا گھوڑا تب تو کبھی کبھی میرے منہ پر ہاتھ پھیرتی تو مجھ سے کچھ بولتی کیوں نہیں۔ کسی طرح یہ چولا تیرے کام آوے۔ میرے من کی یہی سب سے بڑی لاسا ہے۔ روپیہ، پیسہ، اناج، پانی۔ بھگوان کا دیا سب گھر میں ہے بس تیری دیا چاہتا ہوں۔ میری جوانی کام نہ آوے۔ اگر میں کسی کھوٹ سے یہ باتیں کررہا ہوں۔ بڑا بھاگوان تھا مہا بیرہ ایسی دیوی اسے ملی۔‘‘
ملیا چپ چاپ سنتی رہی پھر سر نیچا کرکے بھولے پن سے بولی، ’’توتم مجھے کیا کرنے کہتے ہو؟‘‘ چین سنگھ نے اور قریب آکر کہا، ’’بس تیری دیا چاہتا ہوں۔‘‘
ملیا نے سر اٹھاکراس کی طرف دیکھا اس کا شرمیلا پن نہ جانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔ چبھتے ہوئے لفظوں میں بولی، ’’تم سے ایک بات پوچھوں برا تو نہ مانو گے؟تمہارا بیاہ ہوگیا ہے یا نہیں؟‘‘
چین سنگھ نے دبی زبان سے کہا، ’’بیاہ تو ہوگیا ہے ملیا لیکن بیاہ کیا ہے کھلواڑ ہے۔‘‘
ملیا کے لبوں پر ایک حقارت آمیز تبسّم نمودار ہوگیا۔ بولی، ’’اگر اسی طرح مہابیر تمہاری عورت کو چھیڑتا تو تمھیں کیسا لگتا؟ تم اس کی گردن کاٹنے پر تیار ہوجاتے کہ نہیں؟ بولو کیا سمجھتے ہو مہابیر چمارہے تو اس کے بدن میں لہو نہیں ہے۔ شرم نہیں آتی ہے اپنی اِجّت آبرو کا کھیال نہیں ہے۔ میرا روپ رنگ تمہیں بھاتاہے کیا مجھ سے سندر عورتیں، شہرمیں ندی کے گھاٹ پر نہیں گھوماکرتیں۔ میرا منہ ان کی تلوؤں کی برابری بھی نہیں کرسکتا۔ تم ان میں سے کسی سے کیوں دیا نہیں مانگتے۔ کیا ان کے پاس دیا نہیں ہے۔ مگر تم وہاں نہ جاؤ گے۔ کیونکہ وہاں جاتے تمہاری چھاتی دہلتی ہے۔ مجھ سے دیا مانگتے ہو۔ اسی لیے تو کہ میں چمارن ہوں۔ نیچ جات ہوں۔ اور نیچ جات کی عورت جراسی آرجوبنتی، یا جراسے لالچ یا جراسی گھرکی دھمکی سے کابو میں آجاتی ہے۔ کتنا سستا سودا ہے۔ ٹھاکر ہو نہ ایسا سستا سودا کیوں چھوڑنے لگے۔‘‘
چین سنگھ پر گھڑوں پانی پھرگیا۔ بلکہ سینکڑوں جوتے پڑگئے۔ خفت آمیز لہجہ میں بولا، ’’یہ بات نہیں ہے ملیا میں سچ کہتا ہوں۔ اس میں اونچ نیچ کی بات نہیں ہے، سب آدمی برابرہیں تو تیرے چرنوں پر سر رکھنے کو تیار ہوں۔‘‘
ملیا طنز سے بولی، ’’اسی لیے کہ جانتے ہو میں کچھ کر نہیں سکتی جاکر کسی کھترانتی یا ٹھکرائن کے چرنوں پر سر رکھو تو معلوم ہوکہ چرنوں پر سر رکھنے کا کیا پھل ملتا ہے۔ پھر یہ سر تمہاری گردن پر نہ رہے گا۔‘‘
چین سنگھ مارے شرم کے زمین میں گڑاجاتا تھا۔ اس کا منہ خشک ہوگیا تھا کہ جیسے مہینوں کی بیماری کے بعد اٹھا ہو۔ منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ ملیا اتنی ذی فہم ہے اس کا اسے گمان بھی نہ تھا۔
ملیا نے پھر کہا، ’’میں بھی روزبجارجاتی ہوں۔ بڑے بڑے گھروں کا حال جانتی ہوں،مجھے کسی بڑے گھر کا نام بتادوجس میں کوئی سائیس، کوئی کوچوان، کوئی کہار، کوئی پنڈا، کوئی مہراج نہ گھسا بیٹھا ہو، یہ سبھی بڑے گھروں کی لیلا ہے۔ اور وہ عورتیں جو کچھ کرتی ہیں۔ ٹھیک کرتی ہیں۔ ان کے مرد بھی تو چمارنوں اور کہارنوں پر جان دیتے پھرتے ہیں۔ لینا دینا برا بر ہوجاتا ہے۔ بیچارے گریب آدمیوں کے لیے یہ راگ رنگ کہاں۔؟ مہا بیر کے لیے سنسار میں جو کچھ ہوں میں ہوں۔ وہ کسی دوسری عورت کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا۔ سنجوگ کی بات ہے کہ میں جرا سندر ہوں۔ لیکن میں کالی کلوٹی ہوتی تب بھی مہابیر مجھے اسی طرح رکھتا۔ اس کا مجھے بھروسا ہے۔ میں چمارن ہوکر بھی اتنی کمینی نہیں ہوں کہ جو اپنے اوپر بھروسے کرے اس کے ساتھ دگا کروں۔ ہاں مہابیر اپنے من کی کرنے لگے۔ میری چھاتی پر مونگ دلے تو میں بھی اس کی چھاتی پرمونگ دلوں گی۔ تم میرے روپ ہی کے دیوا نے ہو نہ؟آج مجھے ماتا نکل آئیں۔ کانی ہوجاؤں، تو میری طرف تاکوگے بھی نہیں۔ بولو جھوٹ کہتی ہوں؟‘‘
چین سنگھ انکار نہ کرسکا۔
ملیا نے اسی ملامت آمیز لہجہ میں کہا، ’’لیکن میری ایک نہیں، دونوں آنکھیں پھوٹ جائیں تب بھی مہابیر کی آنکھ نہ پھرے گی۔ مجھے اٹھاوے گا۔ بٹھاوے گا۔ کھلاوے گا۔ سلا وے گا۔ کوئی ایسی سیوا نہیں ہے جو وہ اٹھا رکھے۔ تم چاہتے ہو۔ میں ایسے آدمی سے دگا کروں، جاؤ اب مجھے کبھی نہ چھیڑنا۔ نہیں اچھا نہ ہوگا۔‘‘
(۳)
جوانی کا جوش ہے، حوصلہ ہے،عزم ہے،رحم ہے،قوت ہے، اور وہ سب کچھ جو زندگی کو روشن، پاکیزہ اور مکمل بنا دیتا ہے۔ جوانی کا نشہ غرور ہے،نفس پروری ہے، ر عونت ہے، ہوس پرستی ہے،خود مطلبی ہے اور وہ سب کچھ جو زندگی کو بہمیت، زوال اور بدی کی جانب لے جاتا ہے۔ چین سنگھ پر جوانی کا نشہ تھا۔ ملیانے ٹھنڈے چھینٹوں سے نشہ اتار دیا۔ عورت جتنی آسانی سے دین اور ایمان کو غارت کرسکتی ہے اتنی ہی آسانی سے ان کو قوت بھی عطا کرسکتی ہے۔ وہی چین سنگھ جو بات بات پر مزدوروں کو گالیاں دیتا تھا۔ آسامیوں کو پیٹتا تھا اب اتنا خلیق اتنا متحمل، اتنا منکسر ہوگیا تھا کہ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا۔
کئی دن گذر گئے ایک دن شام کو چین سنگھ کھیت دیکھنے گیا۔ پر چل رہاتھا اس نے دیکھاکہ ایک جگہ نالی ٹوٹ گئی ہے اور سارا پانی بہا چلا جارہا ہے۔ کیاری میں بالکل پانی نہ پہنچتا تھا۔ مگر کیاری بنانے والی عورت چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے اس کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ پانی کیوں نہیں آتا۔ پہلے یہ لا پروائی دیکھ کر چین سنگھ آپے سے باہر ہوجاتا اس عورت کی پورے دن کی مزدوری کاٹ لیتا اور پر چلا نے والوں کو گھڑکیاں جماتا پر آج اسے غصّہ نہیں آیا۔ اس نے مٹی لے کر نالی باندھ دی۔ اور بڑھیا کے پاس جاکر بولا۔ تو یہا ں بیٹھی ہے اور پانی سب بہا جارہا ہے۔ بڑھیا کو تھر تھر کانپتے دیکھ کر چین سنگھ نے اس کی دل جمعی کرتے ہوئے کہا، ’’بھاگ مت میں نے نالی بند کردی ہے۔ بڑھؤ کئی دن سے نہیں دکھائی دیے کہیں کام دھندھاکرنے جاتے ہیں کہ نہیں۔‘‘
بڑھیا کا سکڑا ہوا چہرہ چکنا ہوگیا۔ بولی، ’’آج کل تو ٹھالے ہی بیٹھے ہیں بھیا۔ کہیں کام نہیں لگتا۔‘‘
چین سنگھ نے نرمی سے کہا، ’’تو ہمارے یہاں لگا دے۔ تھوڑا سا سن رکھا ہے کات دیں۔‘‘ یہ کہتا ہوا وہ کنوئیں کی جانب چلا گیا۔ وہاں چار پر چل رہے تھے پر اس وقت دو ہکوے بیر کھانے گئے ہوئے تھے۔ چین سنگھ کو دیکھتے ہی باقی مزدوروں کے ہوش اڑ گئے۔ اگرٹھاکرنے پوچھا دو آدمی کہاں گئے۔ تو کیا جواب دیں گے۔ سب کے سب ڈانٹے جائیں گے۔ بے چارے دل میں سہمے جارہے تھے۔ کہ دیکھ سر پر کون آفت آتی ہے۔ چین سنگھ نے پوچھا ’’وہ دونوں کہاں گئے؟‘‘ ایک مزدورنے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’دونوں کسی کام سے ابھی چلے گئے ہیں بھیا۔‘‘
دفعتاً دونوں مزدور دھوتی کے ایک کونے میں بیر بھرے آتے دکھائی دیئے۔ دونوں خوش خوش چلے آرہے تھے۔ چین سنگھ پر نگاہ پڑی توپاؤں من من بھرکے ہوگئے۔ اب نہ آتے بنتا ہے نہ جاتے۔ دونوں سمجھ گئے کہ آج بے طرح مار پڑی، شاید مزدوری بھی کٹ جائے، شش وپنج کی حالت میں کھڑے تھے۔ کہ چین سنگھ نے پکارا، ’’آؤ۔ بڑ ھ آؤ کیسے بیرہیں؟ ذرا مجھے بھی دکھاؤ میرے ہی باغ کے ہیں نہ؟‘‘ دونوں اور بھی تھرااٹھے آج ٹھاکر جیتا نہ چھوڑے گا۔ شاید سر کے بال بھی نہ بچیں۔ بھگو بھگو کر لگائے گا۔
چین سنگھ نے پھر کہا، ’’جلدی آؤ جی، کھڑے کیا ہو۔ مگر پکی پکی سب میں لے لوں گا کہے دیتا ہوں۔ ذرا ایک آدمی لپک گھر سے تھوڑا سا نمک تولے لو (مزدوروں سے) چھوڑ دو پر، آؤ بیر کھاؤ اس باغ کے بیر بہت میٹھے ہوتے ہیں۔ کام تو کرنا ہی ہے۔‘‘ دونوں خطاواروں کو اب کچھ تشفی ہوئی۔ آکر سارے بیر چین سنگھ کے سامنے رکھ دئیے۔ ایک مزدور نمک لانے دوڑا۔ ایک نے کنوئیں سے لٹیاڈور سے پانی نکالا۔ چین سنگھ چرسے کا پانی نہ پیتا تھا، آدھ گھنٹہ تک چاروں پر بندھ رہے۔ سبھوں نے خوب بیر کھائے جب سب بیر اڑ گئے تو ایک مجرم نے ہاتھ جوڑکر کہا۔ بھیاجی۔ آج جان بکسی ہوجائے بڑی بھوک لگی تھی۔ نہیں تو کام چھوڑ کر نہ جاتے۔
چین سنگھ نے ہمدردانہ انداز سے کہا، ’’تو اس میں برائی کیا ہوئی میں نے بھی تو بیر کھائے آدھ گھنٹہ کا ہرج ہوا۔ اتنا ہی تو۔ تم چاہو گے تو گھنٹہ بھر کاکام آدھ گھنٹہ میں کرلوگے۔ نہ چاہوگے تو دن بھر میں بھی گھنٹہ بھر کا کام نہ ہوگا۔‘‘
چین سنگھ چلا گیا تو چاروں باتیں کرنے لگے۔
ایک نے کہا، ’’مالک اس طرح رہے تو کام کرنے میں جی لگتا ہے۔ یہ نہیں ہر دم چھاتی پر سوار۔‘‘
دوسرا، ’’میں نے تو سمجھا آج کچا ہی کھا جائے گا۔‘‘
چوتھا، ’’سانجھ کو پوری مجوری ملے تو کہنا۔‘‘
پہلا، ’’تم تو ہو گوبرگنیس۔ آدمی کا رکھ نہیں پہچانتے۔‘‘
دوسرا، ’’اب خوب دل لگا کر کام کریں گے۔‘‘
تیسرا، ’’جب انھوں نے ہمارے اوپر چھوڑدیا۔ تو ہمارا بھی دھرم ہے کہ اپنا کام سمجھ کر کام کریں۔‘‘
چوتھا، ’’مجھے تو بھیا ٹھاکر پر اب بھی بسواس نہیں آتا۔‘‘
(۴)
ایک دن چین سنگھ کو کسی کام سے کچہری جانا تھا۔ پانچ میل کا سفر تھا یوں تو وہ برابر اپنے گھوڑے پر جایا کرتا تھا۔ پر آج دھوپ تیز تھی۔ سوچایکے پر چلا چلوں۔ مہابیر کو کہلا بھیجا، ’’مجھے بھی لیتے جانا۔‘‘ کوئی نو بجے مہابیرنے پکارا، چین سنگھ تیار بیٹھا تھا۔ چٹ پٹ یکے پر بیٹھ گیا۔ مگرگھوڑا اتنا دبلا ہورہا تھا یکے کی گدی اتنی میلی اور پھٹی ہوئی، سارا سامان اتنا بوسیدہ کہ چین سنگھ کو یکے پر بیٹھتے شرم آتی تھی۔ پوچھا، ’’یہ سامان کیوں بگڑا ہوا ہے۔ مہابیر۔ تمہارا گھوڑا تو کبھی اتنا دبلا نہ تھا۔ کیا آج کل سواریاں کم ہیں؟‘‘
مہابیر نے کہا، ’’مالک، سواریاں کم نہیں مگر لاریوں کے سامنے یکے کو کون پوچھتا ہے۔ کہاں دوڈھائی، تین کی مجوری کرکے گھر لوٹتا تھا کہاں اب بیس آنے کے پیسے بھی نہیں ملتے۔ کیا جانور کو کھلاؤں، کیا آپ کھاؤں، بڑی بپت میں پڑا ہوا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ یکہ گھوڑا بیچ کرآپ لوگوں کی مجوری کروں۔ پر کوئی گاہک نہیں لگتا۔ جیا دہ نہیں تو بارہ آنے تو گھوڑے ہی کو چاہیے۔ گھاس اوپر سے۔ جب اپنا ہی پیٹ نہیں چلتا تو جانور کوکون پوچھے۔‘‘
چین سنگھ نے اس کے پھٹے ہوئے کرتے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’دوچار بیگہے کی کھیتی کیوں نہیں کرلیتے۔ کھیت مجھ سے لے لو۔‘‘ مہابیر نے معذوری کے اندازسے سر جھکاکر کہا، ’’کھیتی کے لیے بڑی ہمت چاہیے۔‘‘
’’مالک میں نے بھی سوچا ہے کوئی گاہک لگ جائے تو یکے کو اونے پونے نکال دوں۔ پھرگھاس چھیل کر بجارلے جایاکروں۔ آج کل ساس بہو دونوں گھاس چھیلتی ہیں۔ تب جاکر دس بارہ آنے پیسے نصیب ہوتے ہیں۔‘‘
چین سنگھ نے پوچھا، ’’تو بڑھیا بجارجاتی ہوگی؟‘‘
مہابیر شرماتا ہوا بولا، ’’نہیں راجہ۔ وہ اتنی دور کہاں چل سکتی ہے گھر والی چلی جاتی ہے۔ دوپہر تک گھاس چھیلتی ہے۔ تیسرے پہر بجار جاتی ہے۔ وہاں سے گھڑی رات گئے لوٹتی ہے۔ ہلکان ہوجاتی ہے۔ بھیا مگر کیا کروں تکدیر سے کیا جور۔‘‘
چین سنگھ کچہری پہنچ گیا۔ مہا بیر سواریوں کی ٹوہ میں شہر کی طرف چلا گیا۔ چین سنگھ نے اسے پانچ بجے آنے کو کہہ دیا۔
کوئی چار بجے چین سنگھ کچہری سے فرصت پاکر باہر نکلا۔ احاطے میں پان کی دکان تھی احاطے کے باہر پھاٹک سے ملا ہوا ایک برگد کا درخت تھا۔ اس کے سایہ میں بیسوں ہی یکے تانگے بگھیا کھڑی تھیں۔ گھوڑے کھول دیے گئے تھے۔ وکیلوں، مختاروں اور افسروں کی سواریاں یہیں کھڑی رہتی تھیں۔ چین سنگھ نے پانی پیا، پان کھایا اور سوچنے لگا۔ کوئی لاری مل جائے تو ذراشہر کی سیر کر آؤں کہ یکایک اس کی نگاہ ایک گھاس والی پر پڑ گئی۔ سر پر گھاس کا جھابا رکھے سائیسوں سے مول بھاؤ کررہی تھی۔ چین سنگھ کا دل اچھل پڑا۔ یہ تو ملیا ہے۔ کتنی بنی ٹھنی، کئی کوچبان جمع ہوگئے تھے۔ کوئی اس سے مذاق کرتا تھا۔ کوئی گھورتا تھا کوئی ہنستا تھا۔
ایک کالے کلوٹے کوچبان نے کہا، ’’ملیا گھاس تواڑ کے چھ آنے کی ہے۔‘‘
ملیا نے نشہ خیز آنکھوں سے دیکھ کر کہا، ’’چھ آنے پر لینا ہے۔ تو وہ سامنے گھسیارنیں بیٹھی ہیں۔ چلے جاؤ۔ دوچار پیسے کم میں پاجاؤگے۔ میری گھاس تو بارہ آنے ہی میں جائیگی۔‘‘
’’ایک ادھیڑ عمر کوچبان نے فٹن کے اوپر سے کہا، ’’تیرا جمانا ہے، بارہ آنے نہیں ایک روپیہ مانگ بھائی۔ لینے والے جھک ماریں گے، اور لینگے۔ نکلنے دے وکیلوں کو۔ اب دیر نہیں ہے۔‘‘
ایک تانگے والے نے جو گلابی پگڑی باندھے ہوئے تھا کہا، ’’بڑھؤ کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اب ملیا کا مجاج کاہے کو ملے گا۔‘‘
چین سنگھ کو ایسا غصّہ آرہا تھا کہ ان بدمعاشوں کو جوتوں سے خبر لے۔ سب کے سب اس کی طرف کیسا ٹکٹکی لگائے تاک رہے ہیں۔ گویا آنکھوں سے پی جائیں گے۔ اور ملیابھی یہاں کتنی خوش ہے۔ نہ لجاتی ہے نہ جھجھکتی ہے۔ نہ بگڑتی ہے۔ کیسا مسکرا مسکرا کر رسیلی چتونوں سے دیکھ دیکھ کر سر کا آنچل کھسکا کر، منہ موڑموڑ کر باتیں کررہی ہے۔ وہی ملیا جو شیرنی کی طرح تڑپ اٹھتی تھی۔
ذرا دیر میں وکیل مختاروں کا ایک میلا سا نکل پڑا۔ کوچبان نے بھی چٹ پٹ گھوڑے جوتے۔ ملیا پر چاروں طرف عینک بازوں کی مشتاق، مستانہ قدرانہ، ہوسناک نظریں پڑنے لگیں۔ ایک انگریزی فیشن کے بھلے آدمی آکر اس فٹن پر بیٹھ گئے اور ملیا کو اشارے سے بلایا۔ کچھ باتیں ہوئیں ملیا نے گھاس پائدان پر رکھی۔ ہاتھ پھیلاکر اور منہ موڑ کر کچھ لیا۔ پھر مسکراکرچل دی۔ فٹن بھی روانہ ہوگئیں۔
چین سنگھ پان والے کی دکان پر خودفراموشی کی حالت میں کھڑا تھا پان والے نے دکان بڑھائی۔ کپڑے پہنے اور کیبن کا دروازہ بند کرکے نیچے اترا تو چین سنگھ کو ہوش آیا۔ پوچھا، ’’کیادکان بند کردی؟‘‘ پان والے نے ہمدردانہ انداز سے کہا، ’’اس کی دواکرو ٹھاکر صاحب یہ بیماری اچھی نہیں ہے۔‘‘ چین سنگھ نے استعجاب سے پوچھا، ’’کیسی بیماری؟‘‘ پان والا بولا، ’’کیسی بیماری؟ آدھ گھنٹہ سے یہاں کھڑے ہو جیسے بدن میں جان ہی نہیں ہے۔ ساری کچہری خالی ہوگئی مہتر تک جھاڑو لگا کر چل دیے۔ تمہیں کچھ خبر ہوئی؟ جلدی دوا کر ڈالو۔‘‘
چین سنگھ نے چھڑی سنبھالی۔ اور پھاٹک کی طرف چلا کہ مہابیر کا یکہ سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
(۵)
یکہ کچھ دور نکل گیا تو چین سنگھ نے پوچھا، ’’آج کتنے پیسے کمائے مہابیر؟‘‘ مہابیر نے ہنس کر کہا، ’’آج تو مالک دن بھر کھڑا ہی رہ گیا کسی نے بیگار میں بھی نہ پکڑا۔ اوپر سے چار پیسے کی بیڑیاں پی گیا۔‘‘ چین سنگھ نے ذرا پس و پیش کے بعد کہا، ’’میری ایک صلاح مانو۔ عزت ہماری اور تمھاری ایک ہے۔ تم مجھ سے ایک روپیہ روزآنہ لے لیا کرو۔ بس، جب بلاؤں تو یکہ لے کر آجاؤ۔ تب تو تمہاری گھر والی کو گھاس کو لے کربازار نہ آنا پڑے گا۔ بولو منظور ہے؟‘‘
مہابیر نے مشکور نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’مالک آپ ہی کا تو کھاتا ہوں۔ پرجا بھی آپ ہی کاہوں۔ جب مرجی ہو بلوالیجئے۔ آپ سے روپے۔۔۔‘‘ چین سنگھ نے بات کاٹ کر کہا، ’’نہیں میں تم سے بیگار نہیں لینی چاہتا۔ تم تو مجھ سے ایک ایک روپیہ روز لے جایا کرو۔ گھر والی کو گھاس لے کر بازار مت بھیجا کرو۔ ہاں دیکھو۔ ملیا سے بھول کربھی اس کی چرچا نہ کرنا۔ نہ اور کسی سے کچھ کہنا۔‘‘
کئی دنوں کے بعد شام کو ملیا کی ملاقات چین سنگھ سے ہوگئی۔ وہ آسامیوں سے لگان وصول کرکے گھر کی طرف لپکا جارہا تھا کہ اسی جگہ جہاں اس نے ملیا کی بانھ پکڑی تھی۔ ملیا کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ اس نے ٹھٹک کر دیکھا تو ملیا دوڑی چلی آرہی تھی۔ بولا، ’’کیا ہے ملیا؟دوڑ مت دوڑ مت میں تو کھڑا ہوں۔‘‘
ملیا نے ہانپتے ہوئے کہا، ’’اب میں گھاس بیچنے نہیں جاتی۔ کئی دن سے تم سے ملنا چاہتی تھی پر تم کہیں ملتے نہ تھے۔ اور تمہارے گھر جا نہ سکتی تھی۔ آج تمہیں دیکھ کر دوڑی۔ اس پیپل کے پاس دوڑی آرہی ہوں۔‘‘
چین سنگھ نے پیپل کی طرف دیکھ کر معذرت کے انداز سے کہا، ’’نا حق اتنی دور دوڑی۔ پسینے پسینے ہورہی ہے۔ تو نے بڑا اچھا کیا کہ بازارجانا چھوڑدیا۔‘‘
ملیا نے پوچھا، ’’تم نے مجھے کبھی گھاس بیچتے دیکھا ہے کیا؟‘‘
چین سنگھ، ’’ہاں ایک دن دیکھا تھا۔ کیا مہابیر نے تجھ سے سب کچھ کہہ ڈالا۔؟میں نے تو منع کیا تھا۔‘‘
ملیا، ’’وہ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتا۔‘‘
دونوں ایک لمحہ تک خاموش کھڑے رہے یکایک ملیا نے مسکراکر کہا، ’’یہیں تم نے میری بانھ پکڑی تھی۔‘‘
چین سنگھ شرمندہ ہوکر بولا، ’’اس کو بھول جاؤ مولا دیوی۔ مجھ پر نہ جانے کون بھوت سوار تھا۔‘‘
ملیا نے بھرائی آواز میں کہا، ’’اسے کیوں بھول جاؤں اسی ہاتھ پکڑنے کی لاج تو نبھارہے ہو۔ گریبی آدمی سے جو چاہے کر ادے۔ تم نے مجھے ڈو بنے سے بچالیا۔‘‘
پھر دونوں چپ ہوگئے۔
ذرا دیر بعد ملیا نے شرارت آمیز انداز سے پوچھا، ’’تم نے سمجھا ہوگا میں ہنسنے بولنے میں مگن ہورہی تھی؟ کیوں؟‘‘
چین سنگھ نے زور دے کر کہا، ’’نہیں ملیا مجھے ایسا خیال ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آیا۔ اتنا کمینہ نہ سمجھ۔‘‘
ملیا مسکرا کر بولی، ’’مجھے تم سے یہی آسا تھی۔‘‘
ہوا سینچے ہوئے کھیتوں میں آرام کرنے جارہی تھی۔ آفتاب افق کی گود میں آرام کرنے جارہا تھا۔ اور اس دھندلی روشنی میں کھڑا چین سنگھ ملیا کی مٹتی ہوئی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔