لکڑبگھا رویا
کپتان پولس سے لکڑبگھا زندہ پکڑلانے کے اس کارنامے پرشاباشی اورانعام لینا ہے۔ اس خواہش کے نشے میں وہ ہجوم ایسا بے حواس ہوا کہ یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا بنگلہ آباد ی سے پرے جنگل کے راستے میں ہے اور جنگل دیکھ کر اس کی وحشت بھڑک بھی سکتی ہے۔ اور یہی ہوا۔
لکڑبگھے کولیے ہوئے وہ ہجوم ابھی پولس کپتان کے بنگلے کے راستے ہی میں تھا اوربنگلے کی چاردیواری تھوڑی ہی دوررہ گئی تھی توجانے اس کے اندرکہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ وہ ایک لمحے کورکا۔گردن میں پڑی زنجیر کھینچی اور تن کررہ گئی۔ منھ پر بندھے مسیکے کے اندر غراہٹیں آپس میں گڈمڈ ہونے لگیں۔ تب زنجیر تھامے شخص نے اپنی پوری طاقت سے زورلگایا۔ لکڑبگھے کے اگلے پنجے زمین سے اٹھے اور پچھلے پنجوں پہ تھما اس کا بدن چند بالشت آگے سرک آیا اور اتنے حصے کی زمین پر اس کے پنجوں کے نشان ایسے بن گیے جیسے کسی نے زمین پر دولاٹھیاں رکھ کرطاقت سے کھینچ دی ہوں۔ پچھلے پنجوں کودَم لگاکر روکا۔ اگلے پنجے فضا میں بلند کیے اورپورے بدن کی قوت کو ریڑھ کی ہڈی اوربازوؤں کے جوڑوں میں بھرکر چھلانگ لگا دی۔
زنجیرتھامے شخص کی مضبوط گرفت میں پھنسی زنجیر اس کی ہتھیلیوں کو لہولہان کرتی ہاتھ سے نکل گئی۔ ہجوم کے منھ سے ایک چیخ نکلی اور کچھ بے ترتیب جملے۔ وہ آگے ہی آگے دوڑ رہا تھا اور زنجیر جھنجھناتی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ کھسک رہی تھی۔ دیہات سے آنے والی سڑک پر پولس کی ایک جیپ شورمچاتی ہوئی آرہی تھی۔ آگے جیپ اور پیچھے اودھم مچاتا ہجوم۔ وہ ایک لمحے کوٹھنکا اورکپتان کے بنگلے کے گیٹ پر کھڑے بارودی سپاہی کی خاکی پتلون سے ٹکراتا ہوا گلاب کے تختے کوپار کرکے گردن گردن کھڑے گیہوں کے کھیت میں گھس کرگم ہوگیا۔
پولس کپتان نے ڈرائنگ روم سے ملحق اپنے آفس میں بیٹھے بیٹھے دروازے سے باہر برآمدے میں کھڑے اس شخص کو دیکھا جو کرتا پاجامہ پہنے تھا، جس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی، جس کی گردن اورچہرے پرڈنڈوں کی مار کے تازہ نشان تھے۔ اورجس کے ہونٹوں پر پپڑی جمی ہوئی تھی۔ کندھوں پر رائفل لٹکائے دوسپاہی اس کے بازو پکڑے اسے گھیرے کھڑے تھے۔
سورج ڈوب چکا تھا لیکن روشنی اتنی کم بھی نہیں تھی کہ پولس کپتان اس شخص کے ماتھے پہ لکھے اندھیرے کوپڑھ نہ سکیں۔ انہوں نے کرسی پر پہلو بدلا۔ حلق میں کوئی چیز اٹکی ہوئی محسوس ہوئی۔ کھنکار کر گلا صاف کیا اور اپنے اور اس آدمی کے درمیان کھڑے تھا نہ کنچن گڑھی کے تھانے دار کی وردی کوآنکھوں ہی آنکھوں میں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور آوازمیں افسرانہ رعب پیدا کرتے ہوئے پوچھا، ’’ہیڈ کانسٹبل رام اوتار کتنی دیر میں آ پائے گا؟‘‘
تھانے دار کی ایڑیاں آپس میں ملیں، مٹھیاں ٹانگو ں سے چپک کرنیچے کی طرف کھنچیں۔ ہونٹوں پر ایک تجربہ کار مسکراہٹ آئی، ’’ڈرائیور سے کہہ دیاتھا سرکار کہ آندھی کی طرح جیپ لے جائے اور طوفان کی طرح واپس لائے۔ دیوان جی تھانے پر نہ ہوں توگھرسے اٹھا لائے۔ سول پہنے ہوں تو وردی پہننے میں سمے نہ خراب کریں۔ وردی اٹھائے لائیں۔ راستے میں جیپ کےاندر ہی بدل لیں۔ جیپ آتی ہی ہوگی حضور۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر انہوں نے اس شخص کے پیچھے کھیتوں پہ پھیلی تاریکی میں آنکھیں جمادیں۔ اورجب نگاہیں واپس کھینچیں تو دیکھا کہ برآمدے کے نیم تاریک ماحول میں لپٹے اس شخص کا سینہ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا اور آنکھوں سے بے آواز آنسو بہہ رہے تھے۔ انہیں پھر حلق میں کوئی چیز اٹکی ہوئی محسوس ہوئی۔
دبدھا بھری آواز میں تھانے دار سے پوچھا، ’’کیا آپ کوبالکل یقین ہے کہ یہ نایک کے گروہ کا آدمی ہے؟‘‘ حسب عادت تھانے دار نے بدن کو خفیف سا جھٹکا دے کرخود کو اٹینشن ظاہر کیا اور پہلے سے بھی زیادہ اعتماد کے ساتھ بولا، ’’آپ چنتا نہ کریں حضور۔ بالکل صحیح آدمی مارا جا رہا ہے۔‘‘ پھر کچھ رک کر، کچھ سوچ کربولا، اس بار اس کی آواز میں سرگوشی کے سرنمایاں تھے۔
’’اگر چھوڑ دیا گیا توکل ہی یہ ضمانت کرالے گا اور پرسوں آپ کے پاس علاقے سے وائرلیس میسیج آجائے گا کہ فلاں گاؤں میں ڈکیتی پڑگئی اورتین آدمی مارے گیےاور پھراوپر سے آئی جی صاحب کی ڈانٹ آئے گی۔ تو سرکار آپ خوب غور کرلیں۔‘‘
اور تب کپتان پولیس نے سوچاکہ کنچن گڑھی کا تھانے دار بالکل سچ کہہ رہا ہے کیوں کہ اگر یہ جھوٹ بھی بول رہا ہے تب بھی اپنی بات کوسچ ثابت کرنے بھر کی طاقت اور صلاحیت اس میں موجود ہے۔ اگرمخبر کی اطلاع صحیح بھی ہے کہ تھانےدار کنچن گڑھی اس ملزم شیام سندر کو صرف اس لیے مروانا چاہتا ہے کہ کنچن گڑھی کا پردھان اس کام کے لیے تھانے دار کو پانچ ہزار روپے دے چکا ہےتب بھی میں کیا کر سکتا ہوں، اگر میں ملزم شیام سندر کو چھوڑ بھی دوں تو یہ بالکل صحیح ہے کہ کل ہی اس کی ضمانت ہوجائے گی اور پرسوں تھانہ کنچن گڑھی سے دوکوس دور گرام لال پور کے ان تینوں آدمیوں کو تھانے دار مرواڈالے گا جن کے قتل کے لیے ایم۔ ایل اے شری رام دھردس ہزار نقد اور تخت تھانے کی تھانے داری دلانے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ اورپھر رات کے تین بجے وائرلیس پر تعینات سپاہی میرے کمرے کے اندر جو تے اتارکرآئے گا اور ہاتھ میں تھامی سلپ پڑھے گا۔
’’گرام لال پور میں رات دو بج کر پینتالیس منٹ پر ڈکیتی پڑی۔ پولس ٹھیک سمے پرپہنچ گئی۔ ڈاکو سامان نہیں لےجاسکے۔ مڈبھیڑ میں ڈاکوؤں کے ہاتھ گاؤں کے تین آدمی مارے گیے۔ ڈاکوایک دیسی طمنچہ اورکچھ خالی کارتوس چھوڑ کربھاگنے میں کامیاب ہوگیے۔‘‘
اورجب یہ میسیج ہییڈکوارٹر پہنچے گا تو آئی جی صاحب کی ڈائری میں پھرمیرا نام لکھا جائے گا اورجون والے تبادلوں میں ہوسکتا ہے کسی بے کار سی پوسٹنگ پر مجھے دے ماریں۔ اورجب بے کار سی پوسٹ ملتی ہے تو نہ اتنا بڑا گھر ہوتا ہے جس میں سال بھر کا غلہ اگایا جا سکے اور نہ سپاہیوں کی اتنی بڑی فوج اورنہ وہ دبدبہ۔ ساتھ کے افسران چپکے ہی چپکے آنکھوں ہی آنکھوں میں کیسا مذاق اڑاتے ہیں۔
’’میرے کہنے کا مطلب یہ تھا۔‘‘ انہوں نے کرسی کی پشت سے پیٹھ لگا کر مطمئن لہجے میں کہنا شروع کیا، ’’کہ کیا ہیڈ کانسٹبل رام اوتار کو اس کا تجربہ بھی ہے؟‘‘
’’حضور!‘‘ تھانے دار کی آوازمیں بلا کا اعتماد تھا کیونکہ وہ اپنے افسر کی ہار پڑھ چکا تھا۔
’’حضور دیوان جی رام اوتار پچھلے کپتان پولیس شری ورما کے سمے میں اکیلے ہی پانچ بار کام کرچکا ہے۔ بہت بکٹ جوان ہے۔‘‘
’’مگر کیا یہ مناسب ہوگا کہ ملزم یعنی اس ڈکیت کو ہماری ہی کوٹھی میں مارا جائے۔‘‘
’’سرکار۔ اس میں ایک راج نیتی ہے۔ مقدمہ یوں بنے گا کہ ملزم اپنے گروہ کے ساتھ کپتان پولیس کی کوٹھی پررات کے سمے پہنچا جہاں تھانے دار کنچن گڑھی علاقے کی ڈکیتی اور مرڈر کی چرچا کرنے گیے ہوئے تھے۔ گروہ اس بات کی ٹوہ لینا چاہتا تھا کہ کپتان پولیس نے کیا آدیش دیے ہیں۔ کیونکہ کپتان صاحب نے پورے علاقے کوکلیر کرنے کےآدیش دیے تھے۔ اس لیے اچانک کپتان صاحب پرجانی حملہ ہوا۔ ملزمان بھاگے۔ ان کے پیچھے پیچھے تھانے دار کنچن گڑھی اور دیوان رام اوتار بھاگے۔ باقی لوگ اسلحہ اور کچھ خالی کارتوس اورجوتے چھوڑ کر بھاگنے میں سپھل ہوگیے، پرنتو حملہ کرنے والے شیام سندرعرف شامو کو دیوان اوتار نے مڈبھیڑ میں مار گرایا۔
اتنا کہہ کر تھانے دار رکا۔ کپتان پولیس نے دیکھا کہ اندھیرے میں اس کے دانت چمک رہے تھے۔ جیسے۔۔۔
’’ہوسکتا ہے ڈی۔ آئی۔ جی صاحب ہیڈکانسٹبل رام اوتار کواس بہادری کے صلے میں پان سو روپیہ انعام بھی دے دیں۔‘‘ اس کے دانت پھرچمکے۔ اس کے دانتوں کی چمک اور ملزم کے چہرے پر پھیلی ہوئی دھندلاہٹ کے پس منظر میں گیہوں کے کھیت بالکل تاریک ہوچکے تھے۔
’’کر مچ کے جوتوں اور دیسی کٹے کا انتظام ہوگیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں حضور! سپاہی بلدیو کے پاس تھیلے میں سارا سامان موجود ہے۔‘‘
جیپ نے موڑ کاٹا۔ برآمدے کے پاس آکربریک لگے اور ہیڈلائٹس بجھ گئیں۔ پولیس دیوان رام اوتار وردی پہنے اترا۔ کھٹ کھٹ کرتا چلا۔ اورملزم شیام سندر کو ایک نظر دیکھتا ہوا، کپتان پولیس کے سامنے آکرجوتے بجا کر سیلوٹ کرکے اٹینشن کھڑا ہوگیا۔
’’آرام سے۔‘‘ کپتان پولیس نے حسب عادت کہا۔
’’باہر بڑی بھیڑ ہے۔ دیہات واے لکڑبگھا پکڑ کرلائے تھے، وہ چھوٹ گیا ہے اور صاحب کی کوٹھی کے اندر ہی ہے۔‘‘ رام اوتار نے بدن ڈھیلا چھوڑتے ہوئے کہا۔
’’کیا دیوار پھلانگ کر آیا؟‘‘ کپتان پولیس نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں حضور۔ پہرے کے سپاہی نے بتایا ہے کہ مین گیٹ سے گھسا ہے۔‘‘
’’لکڑبھگے کی ہمت دیکھیے حضورمین گیٹ سے گھس آیا۔‘‘ تھانےدار کنچن گڑھی کے دانت پھر چمکے۔ کپتان پولیس کرسی سے آدھے اٹھ چکے تھے۔ اس جملے پر ایک ثانیے کوٹھٹکے، پھر سیدھے کھڑے ہوکر بولے، ’’میں دیکھتا ہوں۔ بھیڑ کوٹھی کے اندر نہ آجائے۔‘‘
’’آپ بیٹھیں سرکار۔ بھیڑ میں خود سنبھالتا ہوں۔‘‘ تھانےدار بولا۔
’’نہیں۔‘‘ کپتان پولیس نے تقریباً جھڑکنے والے اندازمیں اس طرح کہا جیسے افسر کہتے ہیں کیونکہ عہدے اورتجربے نے انہیں اتنا سکھا دیا تھا کہ جس عمل سے کسی کو کوئی مادی نقصان نہ پہنچ رہا ہو اس بارے میں لہجہ کتناہی درشت اورکرخت کیوں نہ ہو، ماتحت برانہیں مانتے اوربرامان بھی جائیں تو اس کا کوئی نقصان دہ ردعمل نہیں ہوتا۔ اورپھرایسے موقعے پرلہجے کو کرخت کرنے سے افسری کی انا کوبھی تسکین ملتی ہے۔
’’آپ اس کام کو نبٹائیے۔‘‘ انہوں نے ملزم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر ملزم کا بدن کانپنے لگا۔ انہوں نے ملزم کی آنکھوں کی طرف غورسے دیکھا۔ کیونکہ اس کا چہرہ ملگجی روشنی میں تھا اس لیے وہ اس کی آنکھیں نہیں دیکھ سکے۔ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ کمرے سے باہرنکل گیے۔ گیٹ پر پہرے کا سپاہی بھیڑ کو روکے کھڑا تھا اور چلاچلا کر کہہ رہا تھا، ’’چنتا نہ کرو۔ دیواربہت اونچی ہے۔ نکل نہیں پائے گا۔‘‘
’’اس کے ہاتھ باندھ کرکوٹھی کے پیچھے لے چلو۔ دیوان جی !رائفل لوڈ کرلو۔ سپاہی! کھیت کے پاس جاکراسے دوڑاؤ۔ چنتا نہ کرو دیواربہت اونچی ہے۔ یہ بھاگ نہیں پائے گا۔‘‘
’’میں بہت پرسن ہوں کہ آپ لوگوں نے جی داری سے کام لے کراس خونی لکڑبگھے کو زندہ پکڑلیا۔‘‘ کپتان پولیس یہ کہہ کر رکے اورپھاٹک سے لگی بھیڑ پر ایک نظرڈال کریہ سوچ کردل ہی دل میں بہت خوش ہوئے کہ ان کے بولتے ہی بھیڑ ایسے خاموش ہوگئی تھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
’’اب آپ لوگ شورنہ کریں۔ باہرہی باہردیوار کے سہارے لاٹھیاں لے کر کھڑے ہوجائیے۔ اگرلکڑبگھا بھاگنے کی کوشش بھی کرے تو اسے باہرمت نکلنے دیجئے گا۔ یہ خونی اب بچ کرنہیں جاسکتا۔ دیوار کے پاس ایک ایک گزکی دوری پر جم جائیے۔‘‘
بھیڑدائیں طرف کی دیوار کے برابر برابر کھڑی ہونے کے لیے آگے بڑھی۔
’’اور دیکھورام اوتار دیوان جی! تھانے دار کنچن گڑھی نے دیسی شراب کی بوتل کا کاگ کھول کربوتل اسے دیتے ہوئے کہا، ’’جب یہ دس گزبھاگ لے تو فائر کردینا۔ سپاہی !تم تھیلے سے کرمچ کے جوتے نکال لو۔ جہاں سے یہ بھاگے وہاں جوتے ڈال دینا۔ خالی کارتوس اورکٹابھی وہیں گرا دینا۔‘‘
ڈھیلے ڈھیلے قدم رکھتا، سپاہیوں کے پنجوں کے مضبوط شکنجوں میں کسا ملزم وہاں تک چلا جہاں تک سپاہی اسے لے گیے۔ گیہوں کے کھیت کی مینڈھ آگئی تھی۔
’’رام اوتار۔ یہ بھاگ کرکوٹھی کے ادھر والے حصے کے کھیتوں کی طرف نہ جاسکے۔ دھیان رہے۔‘‘ تھانے دار بولا۔
’’آپ چنتانہ کریں سرکار! رام اوتاراناڑی نہیں ہے۔ اب یہ بچ کر کہا ں جائے گا۔‘‘ رام اوتار نے بوتل خالی کرتے ہوئے کہا اوربوتل کو پاس کھڑے سپاہی کے تھیلے میں اڑس دیا جس میں سے ابھی ابھی کرمچ کے جوتے ، خالی کارتوس اور دیسی پستول نکال کر زمین پر بکھرادیے گیے تھے۔ دیوان جی رام اوتار نے رائفل لوڈ کی۔
’’اب آپ باؤنڈری کی دیوار کے پاس ہوشیاری سے کھڑے ہوجائیے۔‘‘ کپتان پولیس نے چلا کر کہا۔ اور دھیمےسے پاس کھڑے پہرے کے سپاہی سے بولے، ’’لکڑبگھا کوٹھی کے ادھر والے حصے کی طرف نہ بھاگ سکے۔ دھیان رکھنا۔ رائفل لوڈ کرلو۔‘‘
اچانک ٹھنڈی ہوا کا ایک تیزجھونکا آیا اورکپتان پولیس کی ریڑھ کی ہڈی کو ٹھنڈا کرتا ہوا گیہوں کےان کھیتوں میں گھس گیا جہاں لکڑبگھا چھپا ہوا تھا۔
تیزہوا سے ہلتے پودوں میں راستہ بناتا چٹ چٹ کرتا لکڑبگھا نسبتاً کم گنجان کھیت کے حصے میں نکل آیا۔ گلاب کے کسی پودھے کے کانٹوں میں الجھ کرمنھ پربندھا مسیکا پہلے ہی کہیں گرچکا تھا۔ رک کر، کانوں کوکھڑا کرکے ان کی نوکیں ملائیں اوران نوکوں کے سرے چہاردیواری کی طرف کردیے جس کی دوسری طرف سے ابھی ابھی انسانی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اچانک اسے اپنے پیچھے کچھ سرسراہٹ سی سنائی دی۔ بدن کو موڑے بغیر صرف گردن گھماکر دیکھا۔ دو پرچھائیاں تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑی تھیں اور کھیت میں کچھ دیکھنے کی کوشش کررہی تھیں اورانسانی آواز میں کچھ بول رہی تھیں۔
ملزم نے سنا کہ تھانے دار کنچن گڑھی نے ایک عجیب سی بے ہنگم آوازمیں کہا تھا، ’’کمر پرلات مارکراسے بھگاؤ رام اوتار۔‘‘
’’رام اوتار رائفل سنبھالے، گالی بکتا اس کی طرف بڑھا۔ ملزم کا چہرہ ان کی طرف نہیں تھا اس لیے کان جان بن گیے تھے۔ اس نے بہت واضح اندازمیں سنا کہ تھانے دار اوردیوان جی رام اوتار کے منھ سے جانوروں جیسی آوازیں نکل رہی تھیں۔ کمرپرلات پڑنے کی وجہ سے ملزم آگے کی طرف جھٹکے سے گرتے گرتے بچا اور پوری طاقت سے بھاگ پڑا۔ اس امید پر کہ شاید چہاردیواری پھلانگ سکے۔ لکڑبگھے نے ان پرچھائیوں کی طرف مڑکر دیکھا۔
کپتان پولیس نے ریوالور والے ہاتھ سے سپاہی کو اشارہ کیا، سپاہی نے رائفل چھتیائی۔ لکڑ بگھا گردن گھماکر چٹ چٹ کرتا پوری طاقت سے گیہوں کے پودھوں میں الجھتا بھاگتا دیوار تک پہنچا۔
’’فائر۔۔۔‘‘ کپتان پولیس پوری طاقت سے چیخے۔ جاڑوں کی نیم تاریک خاموش رات کئی فائروں کی آواز سے گونج گئی۔ درختوں پر بسیرا لیتے پرندے گھبراکر اڑے اوردیر تک بولتے رہے اور دیرتک درختوں کے پتوں اورشاخوں سے الجھتے رہے۔ رام اوتار نے پھونک مارکررائفل کا دھواں صاف کیا اورکھیتوں میں پھڑکتے ملزم کو ایک نظردیکھا۔پہرے کے سپاہی نے دوبارہ بولٹ کیا اوربھاگتے ہوئے لکڑبگھے پرفائرکیا۔ اس بار بھی نشانہ چوکا۔ لکڑبگھا دیوارکے پاس پہنچ کرایک پل کو ٹھٹکا اور پوری طاقت سے چہار دیواری کو پھلانگنے کے لیے چھلانگ لگادی۔
کپتان پولیس تیزی سے مڑے اورپھاٹک سے نکل کر دیوار کے پیچھے جاکر دیکھا۔ لاٹھیاں لیے ہوئے لوگ اس پرجٹے ہوئے تھے اور وہ پیٹھ کے بل پڑا تڑپ رہا تھا۔ انہوں نے ایک نظرلکڑبگھے کو دیکھا۔ چہرہ کا پسینہ پونچھتے تیزی سے پیچھے مڑے اوربھاگ کر اندرآکر پہرے کے سپاہی کو حکم دیا، ’’جاکر دیکھو لکڑبگھا مراکہ نہیں۔ گیٹ کے اندر کسی کومت آنے دینا خبردار!‘‘
ریوالوار جیب میں ٹھونستے ہوئے بھاگتے قدموں سے وہ اپنے آفس میں داخل ہوئے، کرسی پرخود کو گراکر آنکھیں بند کرکے انہوں نے خیال کیاکہ جب لکڑبگھے پرفائر ہواتھا تو کوٹھی کے اس طرف بھی فائرکی آوازسنائی دی تھی۔ انہیں حلق میں سانس گھٹتا ہوامحسوس ہوا۔ آنکھیں کھولیں۔ سامنے تھانے دار کنچن گڑھی، دیوان جی رام اوتار اور دونوں سپاہی اٹینشن کھڑے تھے۔
’’رام اوتار۔‘‘ انہوں نے بہت تھکی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’کیا مرتے دم وہ رو رہا تھا؟‘‘
’’ہار سرکار۔‘‘ آفس میں داخل ہوتے ہوئے پہرے کے سپاہی نے کہا جس کے چہرے پرخوف و ہراس کے آثار تھے اور سانسیں زور زور سے چل رہی تھیں، ’’ہاں سرکار۔‘‘ وہ رو رہا تھا۔ مرتے مرتے رو رہا تھا۔ گاؤں والے کہہ رہے تھے کہ جنگلی جانوروں کوانہوں نے کبھی روتے نہیں دیکھا، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سرکار وہ مر رہا تھا، اس کا سینہ زور زور سے ہل رہا تھا اورآنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بے آواز بہہ رہی تھی۔‘‘
کپتان پولیس کرسی سےاٹھے، میز پر چڑھے اور چاروں ہاتھوں پیروں سے میزپر کھڑے ہوکر چھت کی طرف گردن اٹھاکر زور زور سے رونے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.