Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ قدیم اداس رات

حجاب امتیاز علی

وہ قدیم اداس رات

حجاب امتیاز علی

MORE BYحجاب امتیاز علی

    کہانی کی کہانی

    یہ دو ایسی سہیلیوں کی کہانی ہے جو باہر سے جس قدر ایک دوسرے کے قریب دکھائی دیتی ہیں در اصل دونوں ایک دوسرے سے دور ہیں۔ ایک اداس رات میں، جبکہ ہر طرف خاموشی ہے دونوں ایک دوسرے سے اپنے دل کی بات کہتی ہیں اور سکون محسوس کرتی ہیں۔

    وہ قدیم اداس رات، ہائے! وہ بچھڑے ہوئے وقت کی ایک بہت پرانی مگر بہت ہی اداس اورالمناک رات جس کی سیاہی، جس کی خاموشی اور جس کی اداسی آج بھی، آج اتنے سالوں بعد بھی میری روح کو آمادہ گریہ کر رہی ہے اور قلب پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دیتی ہے۔

    شاید اس رات کے مختصر اورناتمام حالات سے آ پ کو کوئی دلچسپی نہ ہو، بہت ممکن ہے کہ میں آپ کو اس بچھڑی ہوئی اُداس رات کے حالات سنا نے لگوں اور آپ کو لغومعلوم ہوں اور آپ اکتاجائیں اورمحض اخلاقاً سنتے رہیں۔ آپ کو اختیار ہے مگر ادھرمیری یہ کیفیت ہے کہ جب بھی اس زمانے کے حالات اور زندگی کی اس رات کو یاد کرتی ہوں توایک آہ سرد بھر کرگمشدہ وقت کی کھوئی دلچسپیوں میں گم ہوجاتی ہوں۔ ایک میٹھا درد۔۔۔ ایک تسکین دہ صدمہ! شاید اس لیے کہ اس مضمون کے کئی کیریکٹر آج اس دنیا میں موجود نہیں۔ وہ اب ستاروں کی جگمگانے والی دنیا میں آباد ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ان کی سہانی پیاری یاد، خوشگوارخواب کی طرح دماغ پر چھا جاتی ہے۔ ان کے مرحوم چہرے جن کو پھر ایک دفعہ دیکھنے کی تمنا اکثر رات کی تنہائیوں میں دل میں چٹکیاں لیتی ہے، آنکھوں کے آگے آجاتے ہیں۔ اس کے خواہ یہ افسانے یایوں کہیے افسانے کے چند الفاظ آپ کو کیسے ہی بے معنی، کیسے ہی آ پ کے نقطہ خیال سے بیہودہ معلوم ہوں، میرے لیے وجہ تسکین ہیں اور میں انہیں حوالہ قلم کرتی ہوں۔ کرنے پر مجبورہوں۔

    اس شام میں افسردہ مضمحل تھی۔ باوجود موٹے موٹے بادلوں کے آسمان شفق سے سرخ سرخ ہورہاتھا۔ سردی بالکل کم ہوگئی تھی۔ گرم اور خوشگوار ایشیا میں یہ موسم عموماًبڑا صحت بخش سمجھا جاتاہے مگر میرے لیے موجودہ صورتِ حال میں اس سے لطف اندوز ہونا کارے دارد والا معاملہ تھا۔ میں گزشتہ ایک ماہ کے بعض واقعات کے بعد پریشان سی رہنے لگی تھی۔ چنانچہ اس وقت بھی اداس طبیعت کو بہلانے کے لیے باغیچہ میں اتر گئی اور سرخ گلاب کی جھاڑیوں میں چلی گئی جہاں بیٹھ کر اکثر میں شعر سوچاکرتی تھی یا افسانے کے پلاٹ مکمل کیاکرتی تھی۔ ہائے وہ دن۔۔۔!

    ان دنوں میں جسوتی (یعنی اپنی اکلوتی پیاری سہیلی) کے حالاتِ زندگی کتابی صورت میں لکھ رہی تھی۔ اس وقت بھی اسی ناول کا ایک ذرامشکل باب سوچ رہی تھی۔ ہاں مشکل باب! کیوں کہ اس میں گزشتہ ہفتہ کے تمام واقعات۔۔۔ مصور لبریزی کا وطن واپس آنا، دشت کیباس میں مجادلہ عشق، سیاح زرنور۔۔۔ بیماری۔ چچاکی پریشانی۔ غرض تمام حالات ناولانہ انداز میں لکھنے اورتمام کیریکٹر کے فرضی نام سوچنے تھے۔ دور مشرق سے نیلی نیلی گھٹائیں اٹھ رہی تھی۔ دفعتاً میرے دیکھتے ہی دیکھتے شاہ بلوط اور دیودار کے درخت ہواکے تند جھونکوں سے زور زور سے کانپنے اور بے چین ہونے لگے۔ تھوڑی دیر میں ہوا کی تندی اور بڑھی اور گر د سے میری آنکھیں بند ہوگئیں۔ ایسا معلوم ہوتاتھا جیسے رات خوب آندھی چلے گی۔

    اچانک مجھے اپنی گردن پر تین انگلیاں رکھی ہوئی محسوس ہوئیں۔ میں چونک پڑی۔ ہمارے مالی کو مرے صرف دوماہ گزرے تھے۔ اکثر تنہائی میں اس مرحوم کی شکل آنکھوں کے آگے آکھڑی ہوتی تھی اور میں مارے خوف کے چیخ پڑتی تھی۔ اس وقت بھی فوراً خیال آیا اسی کی بدروح نہ ہو۔ مڑکردیکھاتوکرنل صاحب کھڑے مسکراتے رہے تھے۔ اب تو وہ مجھ سے کافی بے تکلف ہوچکے تھے۔ دولمحے مسکراتے رہنے کے بعد فرمایا، ’’آپ کے آگے شمشاد کایہ درخت ہواسے کس طرح جھوم رہا ہے کہیں آپ سے کچھ سرگوشیاں تو نہیں کرتا؟‘‘

    ان کے اس سوال پر مالک جانے کیوں میں کچھ پریشان سی ہوگئی اور گھبراکر ان کے چہر ے کو تکنے لگی۔ وہ انجان بنے دوسری طرف دیکھ رہے تھے اور مشغلے کے طور پر سبز رنگ کی نکٹائی کو درست کررہے تھے۔ ان ایام میں کرنل صاحب جسوتی کی موجودہ علالت اور کاونٹ لوث کے خاندان کی غیر معمولی پریشانیوں کودیکھ کر اس ٹوہ میں لگے رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اصلی راز معلوم کریں۔

    ’’ہاں توآپ نے جواب نہیں دیا۔‘‘ وہ مسکراکرکہنے لگے، ’’میں نے سناتھاخوبصورت پودے شاعروں سے بات چیت کیا کرتے ہیں۔ کہیں یہ کسی کی زندگی کا راز توآپ سے بیان نہیں کر رہا خاتون روحی؟‘‘ (خاتون روحی میرا افسانوی نام ہے۔) میں ان کے اس سوال پر کچھ چڑسی گئی۔ بولی، ’’کرتا ہوگا۔ پھر اس سے آپ کو کیا کرنل؟‘‘ کرنل صاحب کچھ ہنس کر کہنے لگے، ’’معلوم ہوتا ہے خاتون آج آپ کی ناک غیرمعمولی لال ہو رہی ہے۔ کیوں؟ کیوں؟‘‘

    ’’ناک لال‘‘ ہونے کا انہوں نے محاورہ بنارکھا تھا۔ مطلب تھا بے انتہا خفا ہوں۔ مجھے اس شام ان کی یہ بیہودگیاں بخدا بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔ اس لیے میں فوارے کی طرف انجان بن کر دیکھنے لگی۔ کبھی کبھی بےزاری اور نفرت کے باعث میرے ہونٹوں پر ہلکی سی تلخ مسکرہٹ آجاتی تھی جسے میں بڑی جلدی مٹادیتی تھی۔

    ’’افوہ!‘‘ کرنل نے ذرا مسکرا کرکہا، ’’آج آپ کی ناک بہت زیادہ لال معلوم ہوتی ہے بہت ہورہی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ میں فوراً یہاں سے دفع ہو جاؤں۔‘‘ یہ سن کر اس وقت مجھے اس پر کسی قدر رحم سا آ گیا، ’’نہیں کرنل اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے نہایت افسوس ہے۔ آج میری طبیعت کچھ پریشان اور متوحش سی ہورہی ہے۔‘‘

    ’’خدا خیر کرے۔‘‘ اس نے کچھ حیرانی کے لہجہ میں کہا، ’’طبیعت متوحش کیوں ہے؟آج شام تم باہر کیوں نہیں گئیں؟‘‘

    ’’آندھی آنے والی ہے۔ کیسے جاتی؟ چلیے اندر بیٹھیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں اندر جانے کے لیے کچھ مڑی مگر کرنل نے مجھے روکا، ’’ایسے سماں میں اندر؟یہاں بیٹھ کر شفق کا منظر کیوں نہ دیکھیں؟مشرق میں دور افق پر بجلی چمک رہی ہے۔ آپ گرج سے ڈرتی تونہیں؟ میں آپ کو ساحل پر چہل قدمی کے لیے لے جانا چاہتا تھا۔ موسم اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہائیں! خاتون روحی؟آپ واقعی لمحہ بہ لمحہ حیرت انگیز طریق پر زرد ہوتی جاتی ہیں۔‘‘

    یہ سن کر میں گھبراسی گئی۔ الٰہی! اب کیاکروں؟ جھٹ میں نے کہا، ’’ہاںکرنل۔ شاید محنت سے میں ان دنوں زرد سی رہنے لگی ہوں۔‘‘

    ’’محنت سے؟‘‘ کرنل نے سگار سے راکھ جداکرتے ہوئے مسخرے اندازمیں پوچھا، ’’کیسی محنت لڑکی؟ ہل جوتتی ہو؟ یا کنوئیں کی چرخی چلاتی رہیں؟‘‘

    ان کے اس اندازِگفتگوسے مجھے چڑتھی، بولی، ’’تم جانتے ہوان دنوں میں وہ ناول لکھنے لگی ہوں جس کا اشتہار پچھلے ہفتے ’’ہلال بغداد‘‘ میں چھپاتھا۔ آج صبح سے اسی کا ایک باب سوچ رہی ہوں۔ شاید اسی محنت سے زرد ہوں۔ کرنل صاحب کچھ سوچ کر بولے، ’’اچھا! وہ ناول۔ شاید جو کچھ دیکھ رہی ہووہ لکھ رہی ہو؟‘‘

    مجھے یاد ہے یہ سن کرمیں بوکھلاسی گئی تھی اور کرنل کے چہرے کو بغور دیکھنے لگی تھی۔ مجھے ان کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر سا لگتا تھاکہ کہیں وہ تمام حالات جان نہ چکے ہوں۔ وہ بے پروائی کے انداز میں اپنے بادل کے رنگ کی پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے۔ منہ میں سگا ر تھا۔ چھوٹی گہری نیلی آنکھوں میں ایک جستجو اور خفیف سی مسکراہٹ تھی۔ دھوپ کے رنگ کے سنہرے بال کبھی ہواکی شوخی سے بکھر کر پیشانی پر آجاتے تھے۔

    ’’چلواندرچلو۔‘‘ میں نے بیساختگی کے لہجہ میں کہا، ’’تم نے شاید ابھی کونٹس جسوتی کی نبض نہیں دیکھی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میں اس کا سہارا لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ باغ گزر کر ہم اوپر کی منزل میں گیے۔ وہاں خاتون جسوتی ایک ریشمی فروزی رنگ کی شال میں لپٹی لپٹائی دریچے کے آگے کوچ پر نڈھال سی نیم درازتھی۔ اس کے سیاہ دراز بال کھلے ہوئے تھے۔ کچھ شال کے اندر چھپ گیے تھے، کچھ کوچ پر پڑے تھے۔ ہائے بچھڑا ہوا وقت! جونہی کرنل نے کمرے میں قدم رکھا، مجھے یاد ہے وہ حیران رہ گیا تھااور میں بھی دہشت سے دوقدم پیچھے ہٹ گئی تھی۔ ’’بلند آسمان کونٹس!‘‘ کرنل نے چیخ نما آواز میں اپنی حیرت کا اظہار کیا تھا، ’’یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ کوئی غیر معمولی محنت تو آپ نے نہیں کی؟ ٹینس تو نہیں کھیلی؟‘‘

    آہ! جسوتی کا وہ ناتواں لہجہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔ اس نے کہا تھا، ’’کرنل صاحب! میں تو کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ ٹینس کیا کھیلوں گی۔‘‘ اسی وقت کمرے میں بوڑھاڈاکٹر داخل ہوا۔ کرنل نے ڈاکٹر گار کی طرف دیکھ کرپوچھا، ’’کیوں جناب؟ مریضہ کی آج یہ کیا حالت ہے؟‘‘

    بوڑھا ڈاکٹر گار سناٹے میں آگیا۔ کیاجواب دے سکتا تھا؟ کیا بول سکتا تھا! یہ حالات دیکھ کر میں اس مختصر سی نشست گاہ سے پریشان ہوکر باہرنکلی۔ بالا خانے کے زینے کے پاس ہی ایک لمباسا عربی وضع کا دریچہ کھلا ہوا تھا۔ وہاں جا کھڑی ہوئی۔ باغ کے بڑے بڑے تناوردرخت دریچے کے سامنے بڑے زور ز ورسے جھوم رہے تھے، گرداڑرہی تھی، ہوا سیٹیاں بجارہی تھی، درخت ناچ رہے تھے مگرمیں۔۔۔! چپ چاپ کھڑی کونٹ کے خاندان کے حالات پر غور کررہی تھی۔ دل مسلسل پریشانیوں سے گھبرا گیا تھا۔ اسی وقت کرنل ھی نشست گاہ سے باہر نکل آیا۔ کہنے لگا، ’’خاتون روحی۔ میں کونٹس کے متعلق ازحد فکرمند ہوگیا ہوں۔‘‘

    میں اس گفتگوسے بچنا چاہتی تھی اس لے انجان بن کر کہنے لگی، ’’اُف کرنل! بڑا ہی وحشت نا ک موسم ہے۔ سمندری موجوں کی آوازنہیں سنی تم نے؟ ایسا معلوم ہوتاہے جیسے جنگل میں کوئی وحشی درندہ پکا رہاہو۔ ذرادریچے سے جھانک کر سمندر کو تو دیکھو کس قدر غصیلا ہو رہا ہے۔‘‘

    مگر وہ کہاں چپ رہنے والے حضرت تھے۔ بولے، ’’ہاں موسم نہایت وحشت ناک ہے، ا س سے زیادہ وحشت ناک موجودہ حالات معلوم ہوتے ہیں۔ خاتون روحی میں یہ کہنے کی ضرور جرأت کروں گا کہ کونٹس کی بیماری یہ ایک روگ ہے۔ نہایت عجیب! ایک روحانی صدمہ ہے۔۔۔ بہت ہی گہرا! دیکھنا پیاری یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی بچہ ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک انگلی میر ے رخسار پر رکھ دی۔ ’’ایں! بو کھلا کیوں گئیں؟ نہیں لڑکی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کرانہوں نے آہستہ آہستہ میری پیٹھ ٹھوکی پھر کہنے لگے، ’’مگر اب تمہاری یہ کوشش بے کارہے۔ صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ کونٹس جسوتی کی زندگی۔۔۔ کی شادی کا مسئلہ۔۔۔ محبت۔۔۔ خیریوں کہوان کی غیر معمولی طبیعت کی وجہ سے ان دنوں تم سب کے سب پریشان ہورہے ہو؟

    اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی؟‘‘

    اتنا سن کر میں نے کرنل کو روک دیاتھا، ’’خدا کے لیے بس! بس کرنل بس۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ میری آنکھوں میں مارے خوف کے آنسو بھر آئے۔ کرنل نے جھک کر میرا چہرہ دیکھا، ’’ایں روحی پیاری؟ آنسو؟ لوانہیں جلدی سے خشک کرلو۔ اچھا تومیں جاتاہوں۔ کل آؤں گا(میرا ایک ہاتھ لے کر زور سے ہلاتے ہوئے) دیکھنا اب نہ رونا۔ سنا؟خداحافظ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسکراکر دو ایک دفعہ مجھے ہلکے سے ہلایاپھر نیچے اترگیا۔

    یہ سب واقعات مجھے آج ا بھی تک ایسے ہی یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ آہ۔۔۔ ز ندگی کے بعض واقعات انسان کو کبھی نہیں بھولتے۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دریچہ بند کردیا۔ اب اچھی خاصی آندھی شروع ہو چکی تھی۔ خانساماں احمد اوربوڑھی حبشن زوناش نے محل کے تمام دروازے دریچے جلدی جلدی بندکردیے، آتش دان روشن کردیا۔

    شب کے آٹھ بجے تھےاور وہ رات بڑی خاموش اور اداس رات تھی۔ قبر کی طرح خاموش ویران۔ بیمارکی طرح ا داس اور پریشان۔ اب تک مجھے یاد ہے۔ ہوا باربار زورکی سیٹیاں بجارہی تھی۔ کبھی دور سے سمندر کی موجوں میں سے ہوکر کسی دریائی پرند کی وحشت ناک چیخ سنائی دیتی تھی۔

    ڈاکٹر گار اپنے مطالعہ کے کمرے میں کوئی کتاب لے کر بیٹھ گیاتھا۔ اب جسوتی نچلی منزل میں شاذ ہی آتی تھی۔ میں نیچے تن تنہا گھبرا گئی۔ کچھ دیر کمرہ ملاقات میں بیٹھی ٹرکی کے شیدائی اور مشرقی تمدن کے عاشق زار’’پیری لوٹی‘‘ کا ایک ناول دیکھتی رہی مگر دل گھبرا گیا۔ اٹھ کر کوٹ پہنا اور دستانے کے بٹن لگاتی کچھ سوچتی ہوئی بالائی منزل پر جسوتی کے کمرے کی طرف گئی۔

    وہ اپنی مختصر سی نشست گا ہ میں ایک سبز مخملی صوفے پر اداس لیٹی فانوس کو دیکھ رہی تھی۔ میں اس کے قریب آگ کے پاس ایک کوچ پر نیم دراز ہوگئی۔ جسوتی مجھے دیکھ کر پوچھنے لگی، ’’روحی تم شام سے نظرنہیں آئیں۔ کہاں تھیں؟ کیا کرنل صاحب تم سے محبت کرنے لگے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں تو جسوتی۔‘‘ میں نے گھبراکر کہا۔ مجھے اپنے ہارلی سے محبت تھی اور وہ بھی شدید قسم کی محبت۔ اس لیے جسوتی سے یہ سوال سن کر میں گھبراسی گئی۔ جسوتی مسکرائی۔ اداس اور پڑمردہ مسکراہٹ۔ بولی، ’’میرا یہ مطلب نہ تھا کہ تم کرنل صاحب سے محبت کرنے لگیں؟ میری مراد یہ تھی کہ کہیں وہ تم سے محبت تو نہیں کررہے؟‘‘ میں بولی، ’’بالکل نہیں جسوتی، مجھے یقین ہے کہ نہیں۔ ان دنوں ہم دونوں ہم دونوں باغ کی تنہائیوں میں تمہارے متعلق سرگوشیاں کیا کرتے ہیں۔

    جسوتی بچاری ڈر سی گئی، ’’میرے متعلق ہائے! تو یہ راز طشت ازبام ہوکر رہے گا۔‘‘ میں تسکین بخش انداز میں کہنے لگی، ’’مگر ابھی تک تو کرنل کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ تم اطمینان رکھو، میں ہرگز اس پرکوئی بات عیاں نہ ہونے دوں گی۔ (کسی قدر شگفتگی کے ساتھ )’’رات کیسی سرد ہوگئی! ہلکی ہلکی آندھی چل رہی ہے اور موسم دلچسپ ہے۔ قہوہ پئیں جسوتی؟‘‘

    ’’ضرور روحی۔ زونا ش قہوہ براہ کرم۔‘‘ تھوڑی دیرکمرے میں سناٹا رہاہم دونوں خاموشی سے آگ کو گھورتی رہیں اور قہوہ پیتی رہیں۔ دریچوں کے شیشوں میں سے ہوکر بجلی کی چمک کبھی کبھی اندر آجاتی تھی اور خوف سے میں اپنی آنکھیں بند کرلیتی تھی۔ دفعتاًجسوتی نے سوال کیا، ’’روحی اب تو ہمیں یہاں آکر کئی مہینے گزر گیے۔ کوہ نیل واپس جائیں۔‘‘ اس زمانے میں گھر واپس جانے کے خیال سے میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے، کیونکہ گھرواپس جا کرہمیں مختلف حادثات اور ڈراؤنے واقعات سے دوچار ہونا تھا۔ اس لیے میں نے تامل کر کے کہا، ’’مگر میر ی جان !میرا خیال ہے تم ابھی تندرست نہیں ہوئیں۔ نہ اتنی جلدی کرنل صاحب تم کو واپسی کی اجازت دیں گے۔‘‘

    جسوتی کی آنکھوںمیں شاید اس وقت دوایک آنسو بھر آئے تھے۔ وہ کہنے لگی، ’’مگر روحی میں جانا چاہتی ہوں، دیر سے کیا فائدہ جوہونے والاہے ہورہے گا۔ تم جانتی ہو خاندان کی عجیب حالت ہوگئی ہے۔ ہر طرف پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔ آہ! غریب چچا! میرے غریب چچا! سچ تو یہ ہے کہ میں گوتم بدھ کے اس قول کی بہت قدر دان ہوں۔ اس نے کہا تھا انسان کے لیے بہترین نعمت یہ ہوتی ہے کہ وہ عالم وجود میں نہ لایا جاتا۔‘‘

    ’’روحی! تم ہی انصاف کروپیاری مجھ جیسی لڑکی کی بھی کوئی زندگی ہے؟لوگوں کوکیا حق ہے کہ خواہ مخواہ مجھے دق کریں؟میں کیا کسی کی منکوحہ بیوی بن کر دنیامیں آئی ہوں روحی؟ پھر کیا وجہ ہے کہ لبریزی مجھے اس طرح تنگ کرے؟اس کی ہٹیلی طبیعت مالک جانے اور کیا کیا گل کھلائے۔ بزرگوں نے انہیں کچھ حد سے زیادہ نازپر وربنارکھاہے۔

    وہ ایک بگڑا ہوابچہ ہوگیے ہیں۔ لوگوں نے اگر ان کے غیر معمولی حسن سے متاثر ہوکر انہیں ’’یونانی دیوتا‘‘ کالقب دیاہے تو اس سے مجھے کیا؟محبت کو حسن سے کیا تعلق روحی؟‘‘ میں چونک پڑی ’’مگر جسوتی، ہارلی کی نیلی نیلی آنکھیں۔۔۔ اور۔‘‘

    جسوتی نے کچھ چیں بجیں ہو کر مجھے روک دیا، ’’ٹھہروروحی۔ فضول باتیں نہ کرو۔ محبت کو حسن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ تم ہارلی کی نیلی آنکھوں سے محبت نہیں کررہی ہو بلکہ ہارلی سے محبت کررہی ہو۔ بس روحی میں کہتی ہوں مصورلبریزی اگر حسین ہے تو اس سے مجھے کیا؟ میں اس سے محبت نہیں کرسکتی۔ فرض کروکسی نے تم سے کہا کہ تم ہارلی کی محبت چھوڑ دواورکسی اور سے، مثلاًلبریزی سے محبت کرنے لگوتوتمہیں غصہ نہ آئے گا؟‘‘

    ’’میں تواسے زور سے ماروں گی جسوتی۔‘‘ میں نے غصیلے لہجہ میں کہا۔

    جسوتی ہلکی ہنسی ہنس پڑی، ’’دیکھا! تمہیں کیسا غصہ آیا؟ اب میرے جذبات کا اندازہ لگاؤاب تو بس میں نے تصفیہ کرلیاہے۔۔۔ زندگی کا تصفیہ اور یہ میری زندگی کا بہت عمدہ تصفیہ ہے۔‘‘ میں التجا کے پیرائے میں کہنے لگی، ’’کیا میں تمہاری زندگی کے تصفیہ کو سن سکتی ہوں جسوتی؟‘‘

    ’’بے شک روحی۔‘‘ جسوتی نے کہا، ’’تم میری محب صادق ہو، نہ تمہاری زندگی کا کو ئی راز مجھ سے چھپاہواہے نہ میرا تم سے۔ میرا تصفیہ یہ ہے کہ میں شادی ہی نہ کروں۔ تم جانتی ہوگی کی میری شادی خاندان کے لیے مصیبت کا باعث ہوگی۔ سوچ کر روح لرزتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا تو پھر تم کیا کروگی؟‘‘ میں نے اضطراب کے لہجہ میں پوچھا۔

    ’’میں؟‘‘ جسوتی نے سگریٹ سے راکھ جدا کرتے ہوئے کچھ بہت زیادہ سنجیدہ صورت بناکرکہا، ’’میں روحی چلی جاؤں گی۔ لوگ کہتے ہیں۔۔۔ کہ ہمارے ان مشرقی گرم صحراؤںمیں ایک دل فریب جادو، ایک پراسرار افسوں پوشیدہ ہوتا ہے، میں ان صحراؤں کی راہب عورتوں میں مل جاؤں گیاور مالک کی بندگی میں اپنی زندگی بسر کروں گی۔ روحی تم اپنے وطن چلی جاؤ۔ میرے پیچھے گھبراؤگی۔ افسانے لکھو، نظمیں موزوں کرو، سیاحت پر نکل جاؤ، دنیامیں شہرت حاصل کرواور دولت کماؤ۔ ایک خوش نصیب لڑکی بن کر رہو۔ تم میری فکر نہ کرو۔‘‘

    میں نے رومال سے اپنے آنسو خشک کیے، ’’آہ جسوتی۔‘‘ میری زبان سے نکلا، ’’آخر تم نے اپنی زندگی کا یہ تصفیہ کیا؟ ہائے تمہارے چچا! بچارے کاؤنٹ لوث!‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنے چچا کا نام سن کر اس پر رقت طاری ہوگئی تھی، کہنے لگی، ’’اسی لیے تومیں نے یہ تصفیہ کیاہے۔ چچا کو مصائب سے محفوظ رکھنے کے لیے۔ روحی تم کو میرے اس تصفیے پر خوش ہوناچاہیے۔‘‘ میں مشکل سے کہہ سکی، ’’جسوتی !میں ایسی سنگ دل نہیں ہوں۔ بھلا ایسا پتھر کا کلیجہ کہاں سے لاؤں جو تمہارے اس تصفیہ پر اظہار مسرت کر سکوں؟‘‘

    ہائے! زندگی کی وہ بچھڑی ہوئی رات! وہ ۱۹۲۹ء کی ایک رات! مجھے یاد ہے ہم بے چاری لڑکیاں بہت دیر تک آتش دان کے قریب بیٹھی روتی رہی تھیں۔ اس شام کو ہ نیل سے ہمارے پاس کوئی نہیں آیا۔ نہ گھر کی کوئی خبر ملی۔ اسی وقت بوڑھی زوناش نے کھانے کی اطلاع دی کہ تیار ہے چونکہ ڈاکٹر گار بہت مضمحل رہا کرتا تھا اس لیے اس نے آج کا کھانا بھی اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا۔ ہم دونوں چپ چاپ کھانے لگیں۔ چراغ کی روشنی مدھم تھی اور ہر طرف ایک افسردگی برس رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے