Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دس روپے

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسی کم سن لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے امڈتے ہوئے شباب سے بے خبر تھی۔ اس کی ماں اس سے پیشہ کراتی تھی اور وہ سمجھتی تھی کہ ہر لڑکی کو یہی کرنا ہوتا ہے۔ اسے دنیا دیکھنے اور کھلی فضاؤں میں اڑنے کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن جب وہ تین نوجوانوں کے ساتھ موٹر میں جاتی ہے اور اپنی مرضی کے مطابق خوب تفریح کر لیتی ہے تو اس کا دل خوشی سے اس قدر سرشار ہوتا ہے کہ وہ ان کے دیے ہوئے دس روپے لوٹا دیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ روپے میں کس لیے لوں؟

    وہ گلی کے اس نکڑ پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اور اس کی ماں اسے چالی (بڑے مکان جس میں کئی منزلیں اور کئی چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں) میں ڈھونڈ رہی تھی۔ کشوری کو اپنی کھولی میں بٹھا کر اور باہر والے سے کافی ملی چائے لانے کے لیے کہہ کروہ اس چالی کی تینوں منزلوں میں اپنی بیٹی کو تلاش کر چکی تھی۔ مگر جانے وہ کہاں مر گئی تھی۔ سنڈاس کے پاس جا کر بھی اس نے آواز دی، ’’اے سریتا۔۔۔ سریتا!‘‘ مگر وہ تو چالی میں تھی ہی نہیں اور جیسا کہ اس کی ماں سمجھ رہی تھی،اب اسے پیچش کی شکایت بھی نہیں تھی۔ دوا پیے بغیر اس کو آرام آچکا تھا۔ اور وہ باہر گلی کے اس نکڑ پر جہاں کچرے کا ڈھیر پڑا رہتا ہے، چھوٹی چھوٹی لڑکیوں سے کھیل رہی تھی اور ہر قسم کے فکر و تردّد سے آزاد تھی۔

    اس کی ماں بہت متفکر تھی۔ کشوری اندر کھولی میں بیٹھا تھا۔ اور جیسا کہ اس نے کہا تھا، دو سیٹھ باہر بڑے بازار میں موٹر لیے کھڑے تھے لیکن سریتا کہیں غائب ہی ہوگئی تھی۔ موٹر والے سیٹھ ہر روز تو آتے ہی نہیں، یہ تو کشوری کی مہربانی ہے کہ مہینے میں ایک دو بار موٹی اسامی لے آتا ہے۔ ورنہ ایسے گندے محلے میں جہاں پان کی پیکوں اور جلی ہوئی بیڑیوں کی ملی جلی بو سے کشوری گھبراتا ہے، سیٹھ لوگ کیسے آسکتے ہیں۔ کشوری چونکہ ہوشیار ہے اس لیے وہ کسی آدمی کو مکان پر نہیں لاتا بلکہ سریتا کو کپڑے وپڑے پہنا کر باہر لے جایا کرتا ہے اور ان لوگوں سے کہہ دیا کرتا ہے کہ، ’’صاحب لوگ آج کل زمانہ بڑا نازک ہے۔ پولیس کے سپاہی ہر وقت گھات میں لگے رہتے ہیں۔ اب تک دو سو دھندا کرنے والی چھوکریاں پکڑی جاچکی ہیں۔ کورٹ میں میرا بھی ایک کیس چل رہا ہے۔ اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

    سریتا کی ماں کو بہت غصہ آرہا تھا۔ جب وہ نیچے اتری تو سیڑھیوں کے پاس رام دئی بیٹھی بیڑیوں کے پتے کاٹ رہی تھی۔ اس سے سریتا کی ماں نے پوچھا، ’’تو نے سریتا کو کہیں دیکھا ہے؟ جانے کہاں مر گئی ہے، بس آج مجھے مل جائے وہ چار چوٹ کی مار دوں کہ بند بند ڈھیلا ہو جائے۔۔۔ لوٹھا کی لوٹھا ہوگئی ہے پر سارا دن لونڈوں کے ساتھ کدکڑے لگاتی رہتی ہے۔‘‘

    رام دئی بیڑیوں کے پتے کاٹتی رہی اور اس نے سریتا کی ماں کو جواب نہ دیا۔ دراصل رام دئی سے سریتا کی ماں نے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا، وہ یونہی بڑبڑاتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی۔ جیسا کہ اس کا عام دستور تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن اسے سریتا کو ڈھونڈنا پڑتا تھا اور رام دئی کو جو کہ سارا دن سیڑھیوں کے پاس پٹاری سامنے رکھے بیڑیوں پر لال اور سفید دھاگے لپیٹی رہتی تھی مخاطب کرکے یہی الفاظ دہرایا کرتی تھی۔

    ایک اور بات وہ چالی کی ساری عورتوں سے کہا کرتی تھی، ’’میں تو اپنی سریتا کا کسی بابو سے بیاہ کروں گی۔۔۔ اسی لیے تو اس سے کہتی ہوں کہ کچھ پڑھ لکھ لے۔۔۔ یہاں پاس ہی ایک اسکول منسی پالٹی (میونسپلٹی) نے کھولا ہے۔ سوچتی ہوں اس میں سریتا کو داخل کرادوں، بہن اس کے پتا کو بڑا شوق تھا کہ میری لڑکی لکھی پڑھی ہو۔۔۔‘‘ اس کے بعد وہ ایک لمبی آہ بھر کر عام طور پر اپنے مرے ہوئے شوہر کا قصہ چھیڑ دیتی تھی۔ جو چالی کی ہر عورت کو زبانی یاد تھا۔ رام دئی سے اگر آپ پوچھیں کہ اچھا جب سریتا کے باپ کو جو ریلوائی میں کام کرتا تھا، بڑے صاحب نے گالی دی تو کیا ہوا تو رام دئی فوراً آپ کو بتا دے گی کہ سریتا کے باپ کے منہ میں جھاگ بھر آیا اور وہ صاحب سے کہنے لگا۔ ’’میں تمہارا نوکر نہیں ہوں۔ سرکار کا نوکر ہوں۔ تم مجھ پر رعب نہیں جما سکتے۔ دیکھو اگر پھر گالی دی تو یہ دونوں جبڑے حلق کے اندر کردوں گا۔‘‘ بس پھر کیا تھا۔ صاحب تاؤ میں آگیا، اور اس نے ایک اور گالی سنا دی۔ اس پر سریتا کے باپ نے غصے میں آکر صاحب کی گردن پر دھول جما دی کہ اس کا ٹوپ دس گزپر جا گرا اور اس کو دن میں تارے نظر آگئے۔ مگر پھر بھی وہ بڑا آدمی تھا آگے بڑھ کر اس نے سریتا کے باپ کے پیٹ میں اپنے فوجی بوٹ سے اس زور کی ٹھوکر ماری کہ اس کی تلی پھٹ گئی اور وہیں لائنوں کے پاس گر کر اس نے جان دے دی۔ سرکار نے صاحب پر مقدمہ چلایا اور پورے پانچ سو روپے سریتا کی ماں کو اس سے دلوائے مگر قسمت بری تھی۔ اس کو سٹہ کھیلنے کی چاٹ پڑ گئی۔ اور پانچ مہینے کے اندر اندر سارا روپیہ برباد ہوگیا۔

    سریتا کی ماں کی زبان پر ہرقت یہ کہانی جاری رہتی تھی لیکن کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ۔ چالی میں سے کسی آدمی کو بھی سریتا کی ماں سے ہمدردی نہ تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ سب کے سب خود ہمدردی کے قابل تھے، کوئی کسی کا دوست نہیں تھا۔ اس بلڈنگ میں اکثر آدمی ایسے رہتے تھے جو دن بھر سوتے تھے اور رات کو جاگتے تھے۔ کیونکہ انھیں رات کو پاس والی مل میں کام پر جانا ہوتا تھا۔ اس بلڈنگ میں سب آدمی بالکل پاس پاس رہتے تھے لیکن کسی کو ایک دوسرے سے دلچسپی نہ تھی۔

    چالی میں قریب قریب سب لوگ جانتے تھے کہ سریتا کی ماں اپنی جوان بیٹی سے پیشہ کراتی ہے لیکن چونکہ وہ کسی کے ساتھ اچھا برا سلوک کرنے کے عادی ہی نہ تھے، اس لیے سریتا کی ماں کو کوئی جھٹلانے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ جب وہ کہا کرتی تھی میری بیٹی کو تو دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں۔ البتہ ایک روز صبح سویرے نل کے پاس جب تکا رام نے سریتا کو چھیڑا تھا تو سریتا کی ماں بہت چیخی چلائی تھی۔ اس موئے گنجے کو تو کیوں سنبھال کے نہیں رکھتی۔

    ’’پرماتما کرے دونوں آنکھوں سے اندھا ہو جائےجن سے اس نے میری کنواری بیٹی کی طرف بری نظروں سے دیکھا۔۔۔ سچ کہتی ہوں ایک روز ایسا فساد ہوگا کہ اس تیری سوغات کا مارے جوتوں کے سر پلپلا کردوں گی۔۔۔ باہر جو چاہے کرتا پھرے یہاں اسے بھلے مانسوں کی طرح رہنا ہوگا۔ سنا!‘‘

    اور یہ سن کر تکا رام کی بھینگی بیوی دھوتی باندھتے باندھتے باہر نکل آئی، ’’خبردار موئی چڑیل جو تو نے ایک لفظ بھی اور زبان سے نکالا۔۔۔ یہ تیری دیوی تو ہوٹل کے چھوکروں سے بھی آنکھ مچولی کھیلتی ہے اور تو کیا ہم سب کو اندھا سمجھتی ہے کیا ہم سب جانتے نہیں کہ تیرے گھر میں نت نئے بابو کس لیے آتے ہیں۔ اور یہ تیری سریتا آئے دن بن سنور کر باہر کیوں جاتی ہے۔۔۔ بڑی آئی عزت آبرو والی۔۔۔ جا جا دور دفان ہو یہاں سے۔‘‘

    تکارام کی بھینگی بیوی کے متعلق بہت سی باتیں مشہور تھیں۔ لیکن یہ بات خاص طور پر سب لوگوں کو معلوم تھی کہ گھانسلیٹ والا (مٹی کا تیل بیچنے والا) تیل دینے کے لیے آتا ہے تو وہ اسے اندر بلا کر دروازہ بند کرلیا کرتی ہے۔ چنانچہ سریتا کی ماں نے اس خاص بات پر بہت زور دیا۔ وہ بار بار نفرت بھرے لہجے میں اس سے کہتی،