سیٹھ سلھکن داس سیالکوٹ کے ممتاز رؤسا میں سے تھے۔ سیالکوٹ اور گردو نواح میں ان کے نام کی بہت قدر تھی۔ سادہ کاغذ اٹھا کر بھیج دیتے۔ تو ہزاروں کا مال منگوا لیتے۔ ان کے باپ دادا نے بہت روپیہ کمایا تھا، اس باب میں سیٹھ صاحب خود بھی سمجھدار تھے۔ اس رویے میں اضافہ کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ کبھی گھٹانے کا حوصلہ نہیں کیا۔ ان کی دلی آرزو یہ تھی کہ جو کچھ اپنے باپ سے ورثہ پایا ہے۔ مرتے وقت اس سے زیادہ اپنے فرزند کو سونپ جائیں۔ ورنہ پرماتما کے سامنے آنکھیں جھک جائیں گی۔
چھاؤنی میں ان کی دکان تھی۔ نہایت مشہور اور شاندار سیٹھ صاحب دوکانداری کے اصولوں کے پورے ماہر تھے۔ ایک چالاک آدمی منیجر رکھا ہوا تھا۔ مگر گدی پر خود ہی بیٹھتے تھے۔ خریدار آتا تو اس سے ایسے عمدہ طور سے بات چیت کرتے اور ہنس ہنس کر ایسے جال پھینکتے کہ بھولی بھالی چڑیا دانے پر اتر آتی اور دو کی بجائے چار کا سودا بکتا۔ سیٹھ صاحب ان دوکانداروں میں سے نہ تھے جو خریدار کے ایک شے پسند نہ کرنے پر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ آپ کا قول تھا کہ خریدار ایک چیز مانگے تو اس کے آگے تین چیزیں رکھ دو۔ ایک نمونہ ناپسند کرے۔ چار اور نمونے سامنے پھینک دو۔ پھر دیکھو خریدار کورا کیسے نکل جاتا ہے۔ لیکن اگر خریدار گھر سے تصفیہ ہی کر کے نکلا ہے کہ دوکاندار کو تنگ کرنا ہے اور جیب کو ہاتھ لگانے سے قسم ہی کھا آیا ہے تو اور بات ہے لیکن اس حالت میں بھی سیٹھ صاحب کے ماتھے پر بل نہ آتا تھا اور وہ اٹھ کر چار قدم ساتھ رخصت کرنے جاتے تھے۔
وہ محض دکاندار ہی نہ تھے۔ بہت خوش گو اور بہت خوش آواز تھے۔ اپنی اچھی مجلسوں میں مدعو کئے جاتے تھے۔ ان کی باتیں اس قدر دلچسپ اور دلکش ہوتی تھیں کہ وہ ساری مجلس کو ان میں الجھا لیا کرتے تھے اور لوگ اٹھنے کا نام نہ لیتے تھے۔ بعض وقت کوئی آدمی انداز شکر گزاری کے طور کہتا کہ سیٹھ صاحب آپ نے یہاں تشریف لاکر بہت کرم فرمائی کی ہے۔ تو آپ سادگی سے جس کے ساتھ مذاق کی آمیزش ہوتی تھی جو اب دیتے۔ یہ تو میرا اشتہار ہے۔ لوگ سنتے تو قہقہہ لگاتے۔
مگر ان باتوں کے باوجود آپ پرانے خیال کے آدمی تھے۔ صبح اٹھ کر سورج کو پانی دینا ان کا معمول تھا اور شام کو مندر میں دیا ضرور جلایا کرتے تھے۔ ہر منگلوار کو مہابیر کا پکوان پکواتے اور ہر اتوار کو برت رکھتے تھے۔ یہ معمول کی باتیں تھیں جو کبھی نہ چھوٹتی تھیں۔ پنڈت کے قول پتھر کی لکیریں تھیں اور برادری کے فتوے وید بھگوان کے احکام۔
دیناناتھ ان کا لڑکا بہت سمجھدار اور ہونہار تھا۔ وہ انٹرینس کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کر چکا تھا اور اب مقامی کالج میں داخل ہو چکا تھا۔ سیٹھ صاحب کے سامنے اس نے کبھی آنکھیں نہ اٹھائی تھیں اور نہ ان کے دوست احباب میں سے کسی نے اسےشرارتیں کرتے دیکھا تھا، جب لڑکے مل ملا کر نئی شرارتیں سوچتے، جب وہ کسی غریب دہقان کو بنانے کی تجویز پختہ کرتے تو دینا ناتھ حلیمی سے ان کی مخالفت کرتا اور جب وہ اس کی نہ سنتے تو خاموش واپس چلا جاتا۔
وہ اپنےباپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں اسے ایک ہی سال کی عمر میں باپ کی آغوش محبت میں سونپ گئی تھی۔ سیٹھ صاحب اسے بہت پیار کرتے تھے۔ اپنے لئے پیسہ بھی صرف کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ مگر دینا ناتھ کے سر پر سے تھیلیاں قربان کرنے میں بھی پس وپیش نہ تھا۔
لوکل آریہ کمار سبھا کا سیکریٹری دینا ناتھ تھا۔ اس سے پہلے کمار سبھا مردہ حالت میں تھی مگر دینا ناتھ کی سرگرمیوں نے مردہ قالب میں روح پھونک دی اور شہر کے لڑکے شوق سے ہفتہ واری جلسوں میں شریک ہونے لگے۔
سماج کا سالانہ جلسہ آیا۔ دینا ناتھ کھانا پینا بھول گیا اور جب بھرے پنڈال میں اس نےا چھوتوں کی اصلاح پر مختصر تقریر کی۔ تو لوگ دنگ رہ گئے۔ اس نے کہا۔
’’تم کہتے ہو کہ وہ ینچ ہیں کیونکہ وہ ینچ والدین کے ہاں پیدا ہوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پھول مٹی گوبر اینٹ پتھروں ہی سے نکلتا ہے اور دنیا کی نگاہوں کو اپنی طرف کشش کر لیتا ہے۔ گنا زمین سے پھوٹتا ہے اور شربت کے گھڑے انڈیل دیتا ہے۔ کیا تم نے کبھی پھول کو اس وجہ سے پرے پھینکا کہ وہ مٹی سےپیدا ہوا ہے۔ کیا تم نے کبھی گنے کو اس سبب سے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا کہ وہ زمین سے نکلا ہے۔ وہ ینچ ہے کیونکہ وہ ایک ینچ کے ہاں پیدا ہوا اور میں اونچا ہوں کیونکہ میں ایک اونچے خاندان میں پیا ہوا۔ میں پوچھتا ہوں میرے پاس اونچا ہونے کی کونسی سند ہے۔ کیا اچھوتوں کی آنکھیں نہیں۔ کیا ان کے کان نہیں۔ کیا وہ میری مانند نہیں سوچتے اور کیا وہ میری طرح محسوس نہیں کرتے۔
’’تم کہتے ہو وہ تمہارے وید پڑھنے کے مستحق نہیں ہیں، میں کہتا ہوں یہ تمہارا ظلم ہے۔ وید پرماتما کے ہیں۔ اسی طرح جس طرح سورج، چاند، ہوا اور پانی پرماتما کے ہیں۔ کیا سورج ان کو روشنی نہیں دیتا۔ کیا ہوا، ان کے گھروں میں داخل نہیں ہوتی۔ کیا آگ ان کے چولہوں کو گرم نہیں کرتی۔ کیا زمین ان کو اپنے اوپر چلنے سے منع کرتی ہے پھر ان سے پرہیز کیوں؟
’’میں اچھوتوں کے آگے اپنا آپ پیش کرتا ہوں اور اپنی زندگی ان کے واسطے وقت کرنے کا عہد کرتا ہوں۔ میں پڑھوں گا میں ڈگری لوں گا، میں گاؤں گاؤں میں پھروں گا، میں تکلیفیں اٹھاؤں گا۔ میں آفتیں چھیلوں گا۔ میں فاقے کروں گا۔ میں بھوکا مروں گا۔ مگر ان کے لئے جن پر تو نے۔ اے ہندو قوم تو نے اپنی رحمت کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ کوشش کر کے کھول دوں گا۔ میں ایک برہمن کو جو کرموں کا ینچ ہے پرے پھینکوں گا، مگر ایک بدکار رنڈی کی اولاد کو جو نیک اور شریف ہو۔ گلے سے لگانے میں فخر سمجھوں گا۔‘‘
لوگوں نے سنا تو تالیاں پیٹ دیں۔ دینا ناتھ پلیٹ فارم سے اترا۔ سیکریٹری نے اسے گلے سے لگا لیا اور کہا، ’’ہمیں تجھ پر ناز ہے۔‘‘
دینا ناتھ نے سرجھکا کر جواب دیا، ’’یہ آپ کا حسن ظن ہے ورنہ میں تو ایک معمولی طالب علم ہوں۔‘‘
سیٹھ سلکھن داس نے اس تقریر کا حال سنا تو جل بھن کر کوئلہ ہو گئے۔ گرجتے ہوئے آئے اور بیٹےکے سر پر برس پڑے۔ دینا ناتھ خاموشی سے سنتا رہا اور سر جھکائے رہا۔ آخر ادب سے بولا، ’’میں آریہ سماجی ہوں اور آریہ سماج اچھوتوں کے اٹھانے کا مدعی ہے۔ میں بزدل نہیں بن سکتا۔‘‘
’’تو نے آج کچھ عہد کیا ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پتت ادھار (اچھوتوں کی اصلاح)