یکہ
’’دس بجے ہیں۔‘‘ لیڈی ہمت قدر نے اپنی موٹی سی نازک کلائی پر نظر ڈالتے ہوئے جماہی لی۔ نواب ہمت قدر نے اپنی خطرناک مونچھوں سے دانت چمکا کر کہا، ’’گیارہ، ساڑھے گیا بجے تک تو ہم ضرور پھو۔۔۔ ہونچ۔۔۔ بغ۔۔۔‘‘
موٹر کو ایک جھٹکا لگا اور تیوری پر بل ڈال کر نواب صاحب نے ایک چھوکرے کے ساتھ موڑ کا پہئے گڑھے سے نکالا اور عجیب لہجہ میں کہا، ’’لاحول ولا قوۃ کچی سڑک۔۔۔‘‘
گرد و غبار کا ایک طوفانِ عظیم پہئے کے نیچے سے اٹھا کہ جو ہم نے اپنے موٹر کے پیچھے چھوڑا۔ ’’کتنے میل اور ہوں گے؟‘‘ لیڈی ہمت قدر نے مسکرا تے ہوئے پوچھا۔ میں نے کچھ سنجیدگی سے جواب دیا، ’’ابھی اٹھائیس میل اور ہیں۔‘‘ نواب صاحب نے موٹر کی رفتار اور تیز کر دی۔
’’حضور آہستہ آہستہ، حضور راستہ خراب ہے۔‘‘ پیچھے سے مودبانہ طریقے سے شوفر نے نواب صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ مگر نواب صاحب کو تیز موٹر چلانے کی پرانی عادت تھی اور انہوں نے کہا، ’’ہش‘‘ اور شاید موٹر کو اور تیز کر دیا کیونکہ کچی سڑک سے جی گھبرا گیا تھا۔
(۱)
موٹر پوری رفتار سے ہچکولے کھاتا چلا جا رہا تھا اور ہم لوگ موٹر کی عمدہ کمانیوں اور ملائم گدوں پر بجائے ہچکولوں سے تکلیف اٹھانے کے مزے سے جھولتے جا رہے تھے۔ سامنے ایک نالائق یکہ جا رہا تھا۔ دور ہی سے نواب صاحب نے ہارن دینے شروع کر دیے تاکہ یکہ پیشتر ہی سڑک کے ایک طرف ہو جائے اور موٹر کی رفتار کم نہ کرنی پڑے۔ مگر یکے کی تیزی ملاحظہ ہو کہ جب تک وہ ایک طرف ہو موٹر سر پر پہنچا اور مجبوراً رفتار کم کرنا پڑی۔ نواب صاحب نے لال پیلے ہو کر یکے کی طرف منہ کر کے گویا حقارت سے ’’ہاؤ‘‘ کر دیا۔ واللہ عالم یکے والے نے سن بھی لیا اور نہیں۔ چشم زدن میں وہ نالائق یکہ مع اپنے یکہ والے کے گرد و غبار کے طوفان میں غلطاں و پیچاں ہو کر نہ معلوم کتنی دور رہ گیا۔
لیڈی ہمت قدر نے یکہ کو مڑکر دیکھنے کی ناکام کوشش کی اور پھر مسکرا کر اپنے قدرتی لہجے میں کہا، ’’آپ نے اس کو دیکھا؟ اس کو، یکہ کو! بخدا کیا سواری ہے۔ قیامت تک منزل مقصور پر پہنچ ہی جائےگا۔ کیا آپ کبھی۔۔۔ معاف کیجئےگا۔۔۔ کبھی یکے پر آپ بیٹھے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’بیٹھا ہوں اور اکثر بیٹھا ہوں۔‘‘
نواب ہمت قدر نے موٹر کی رفتار اور تیز کرتے ہوئے کہا، ’’قیں! ہیں اچھا یکے پر! آپ یکے پر بیٹھے ہیں! خوب! بھئی معاف کرنا بڑی ذلیل اور واہیات سواری ہے۔ ہمارے عالی خاندان کا کوئی فرد کبھی یکے پر نہیں بیٹھا۔ ’’پھر کچھ لا پرواہی سے نواب صاحب بولے، ’’واللہ اعلم اس پر کیسے سفر کرتے ہیں۔ بڑی واہیات سواری ہے۔‘‘ نواب صاحب نے کچھ غرور و تمکنت کے لہجہ میں جملہ ختم کیا۔
’’پھر لطف یہ!‘‘ لیڈی ہمت بولیں، ’’لطف یہ کہ تین تین آدمی ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔‘‘ مجھ سے پوچھا، ’’کیوں صاحب آپ تنہا بیٹھے ہیں یا کئی آدمیوں کے ساتھ؟‘‘
’’میں تنہا بھی بیٹھا ہوں اور ہم کل چار آدمی بھی بیٹھے ہیں اور پانچواں یکہ والا۔‘‘
’’پانچ آدمی!‘‘ لیڈی ہمت قدر چیخ کر بولیں، ’’ایں پانچ آدمی! چر۔۔۔ پانچ آدمی۔۔۔ آؤ!‘‘
موٹر کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ پشت پر سے شوفر لڑھک کر لیڈی ہمت قدر کی گودمیں آ گرا۔ نواب صاحب نے اسٹیرنگ وہیل چھوڑ کر کرنٹ کا تماشا کیا۔ یعنی بیٹھے بیٹھے الٹی قلابازی ایسی کھائی کہ گدے پر میرے اوپر گرے اور ساتھ ہی اس گڑبڑ میں ایک بم کا سا گولہ پھٹا۔ لیڈی ہمت قدر کی فلک شگاف چیخ اور موٹر کے ٹائر کی بم باری اور نواب صاحب کا میرے اوپر گرنا اور پھر تمام باتوں کا نتیجہ یعنی بدحواسی۔ موٹر کے اندر ہی اندر قیامت بپا ہو گئی۔ ہوش بجا ہوئے تو معلوم ہوا کہ خیریت گزری۔ محض پھاندا پھوندی رہی۔ میں نے اپنے اوپر نواب صاحب کے گرنے کی خود الٹی ان سے معذرت چاہی۔ شریف آدمی ہیں۔ انہوں نے کچھ خیال نہیں کیا بلکہ مجھ سے پوچھا کہ لگی تو نہیں۔ میرے سینہ میں نواب صاحب کا سر گولے کی طرح آ کر لگا تھا۔ مگر میں نے کہا بالکل نہیں لگی۔ یہ طے کر لیا گیا کہ سب سے زیادہ لیڈی ہمت قدر کے لگی ہے اور سب سے کم شوفر کے۔ اسی مناسبت سے دراصل ہم نے ایک دوسرے کی مزاج پرسی بھی کی تھی۔
بہت جلد دوسرا پہیہ چڑھا لیا گیا۔ لیکن اب جو چلاتے ہیں تو موٹر نہیں چلتا۔ بہت جلد وجہ معلوم ہو گئی۔ پٹرول کی ٹنکی میں ایک سوراخ تھا جس کو کاگ لگا کر بند کیا گیا تھا وہ دھچکے سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ واللہ اعلم کچھ دیر پہلے یا اب، کچھ بھی ہو، پٹرول بہہ چکا تھا۔ اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو زمین تر تھی۔ اب کیا ہو، اسٹیشن یہاں سے اٹھائیس میل ہوگا اور پھر کچی سڑک اور جانا اس قدر ضروری۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ عین اس گھبراہٹ اور یاس کے عالم میں کیا دیکھتے ہیں کہ عین سڑک کی سیدھ میں گویا افق سڑک پر نیر امید طلوع ہوا۔ یعنی اس ٹوٹے پھوٹے یکے کی چھتری چمکی۔ پھر اس کے بعد یکے کا ہیولا نظر آیا۔ جس نے برق رفتاری کے ساتھ یکہ مجسم کی صورت اختیار کرلی۔
ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور کبھی یکے کو حتی کہ قریب پہنچا، برابر آیا، کچھ ہلکا پڑا اور قریب قریب رک سا گیا۔ بلکہ یکے والے کے گرد آلود چہرے پر کچھ خوشی کی جھلک کے ساتھ لبوں کو حرکت بھی ہوئی۔ مگر یہاں سب خاموش۔ لیڈی ہمت قدر نے عین اس موقع پر ایک عجیب نظر ڈال کر آنکھوں ہی آنکھوں میں خجالت سے شاید مجھ سے کچھ کہا۔ میں نے معاً لیڈی ہمت قدر کی طرف دیکھا جنہوں نے کنکھیوں سے یکے کے پہئے کی طرف دیکھ کر اپنی نازک سی چھتری سے زمین کریدنا شروع کی۔ یکہ آگے نکل چکا تھا۔ دراصل مصیبت تو یہ تھی کہ سوائے میرے یہاں کسی کو یکے والے کو پکارنا تک نہیں آتا۔ میں البتہ ماہر تھا۔ مجبوری بری بلا ہے۔ میں نے نواب صاحب اور لیڈی ہمت قدر کی خفت دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔ ؏
مہربان آپ کی خفت مرے سر آنکھوں پر
اور پھر حلق پھاڑ کی آواز دی، ’’ابے او یکے والے۔‘‘
(۲)
اب سوال یہ تھا کہ لیڈی ہمت قدر اس پر کیسے بٹھائی جائیں۔ نواب صاحب نے مجھ سے کہا، ’’آپ ہی کوئی ترکیب نکالیے۔‘‘ کیونکہ سوائے میرے اور کون یہاں یکے کا ماہر تھا۔ لیڈی ہمت قدر کا ایک طرف سے میں نے بازو پکڑا اور دوسری طرف سے نواب صاحب نے۔ بیگم صاحبہ نے ایک پیر دھرے پر رکھا اور دوسرا پہیہ کے ہال پر اور اس کے بعد شاید اڑنے کی کوشش کی۔ ہال پر سے پیر سرک گیا اور وہ پرکٹی مینا کی طرح میری طرف پھڑ پھڑائیں، کیا کرتا مجبوراً میں نے ان کو لحاظ کے مارے چھوڑ دیا ورنہ وہ میری گود میں ہوتیں۔ انہوں نے ہاتھ پیر بھی آزاد پا کر چلا دیے اور ان کے بوٹ کی اونچی اور نوکیلی ایڑی قابل احترام شوہر کی ناک پر لگی۔ نتیجہ یہ کہ نواب صاحب پہیہ کے پاس دراز۔ میں نے کہا یا علی! نواب صاحب مونچھیں جھاڑتے ہوئے مجھ سے شکایت کرتے ہوئے اٹھے اور بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔ اب یہ طے پایا کہ یکے کو موٹر کے پاس کھڑا کیا جائے۔ برابر نواب صاحب بیٹھے اور آگے میں بیٹھا۔ یکے والے نے ٹخ ٹخ کی صدا بلند کی، ’’چوں چرغ چوں۔‘‘ اور یکہ چل دیا۔
نواب صاحب اور لیڈی صاحبہ کو معلوم ہوا کہ خود اپنے جوتوں سے اپنے کپڑے میلے ہو رہے ہیں۔ فوراً معاملہ میرے سامنے پیش کر کے اس کا علاج مجھ سے پوچھا۔ یکہ والے نے فوراً کہا، ’’آپ دونوں اپنے اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لے لیجئے۔ تاکہ میں آگے والے گھاس کے ڈبہ میں رکھ دوں۔‘‘ اور گھاس کا ڈبہ کھولا تو اس میں دو تین رسیاں، ایک چلم، ایک ہتھوڑی، چند کیلیں وغیرہ تھیں۔ نواب صاحب اب تک خاموش تھے، یکے والے پر سخت خفا ہوئے۔ میں نے نواب صاحب کو سمجھا دیا کہ کپڑے تو جوتے سے میلے ہونا لازمی ہی ہیں۔ پھر اس یکے کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کہ جس میں پیر رکھنے کا پائیدان بھی ہوتا ہے۔ وہ ہوتا تو غالباً لیڈی ہمت قدر کو چڑھنے میں یہ دقتیں پیش نہ آتیں۔
یکہ والے نے اپنی پوزیشن اس طرح صاف کی کہ ’’صاحب پائیدان کمانی دار یکے میں ہوتا ہے اور میں کچی سڑک پر چلاتا ہوں، لہٰذا کمانی دار یکے نہیں رکھتا، ورنہ دو دن میں کمانیاں چور چور ہو جائیں۔‘‘ یکہ والا کچھ فلسفیانہ رنگ میں آکر بولا، ’’حضور یہاں تو ’’کھڑیا‘‘ یکہ چلتا ہے۔ کچی سڑک کا یہ بادشاہ ہے۔ نہ لوٹے اور نہ یہ ٹوٹے اور مسافر بھی آرام سے چین کی بنسی بجاتا ہے۔‘‘
’’چپ‘‘ نواب صاحب نے بھنا کر یکے والے سے کہا۔
(۳)
تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے پینترے بدلنا شروع کیے۔ ان کاگھٹنا میری پیٹھ میں بری طرح گڑ رہا تھا۔ لیڈی ہمت قدر ایک ہاتھ سے اپنی نازک چھتری لگائے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے یکے کا ڈنڈا پکڑے تھیں۔ ان کے دونوں ہاتھ کبھی کے دکھ چکے تھے۔ ہر جھٹکے پر وہ اس طرح چیختی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ گر گئیں۔ نواب صاحب کے موذی گھٹنے کے گڑنے کی وجہ سے میں دھیرے دھیرے آگے سرکتا جاتا تھا۔ مگر جتنا میں ہٹتا اتنا شاید نواب صاحب کا گھٹنا اور بڑھ جاتا تھا۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں جو اس گھٹنے سے پناہ ملے۔
اتنے میں ایک جھٹکا لگا اور نواب صاحب کی ناک یکہ کے آگے والے ڈنڈے میں لگی۔ عین اس جگہ جہاں میں اس کو ہاتھ سے پکڑے تھا۔ میری چھنگلی کچل گئی۔ ’’لگی تو نہیں۔‘‘ نواب صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ کے تو نہیں لگی۔‘‘ میں نے ان کی لال ناک دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں کو زور سے لگی تھی۔ میری چھنگلی میں، ان کی ناک میں مگر دونوں جھوٹ بولے اور جواب واحد تھا۔ ’’جی نہیں، بالکل نہیں۔‘‘ واقعی جھٹکا ایسا لگا کہ اگر کہیں میری انگلی اس جگہ پر نہ ہوتی تو نواب صاحب کی ناک پچی ہو جاتی۔
’’ذرا ادھر ہٹئے۔‘‘ لیڈی ہمت قدر نے نواب صاحب سے روکھے لہجے میں کہا۔ نواب صاحب نے اپنی پیاری بیگم کے کہنے سے کروٹ سی بدل کر کوئی آدھ انچ گھٹنا اور میری پیٹھ میں گھسیڑ دیا۔ میں نے گھٹنے کی نوک کو! ہاں صاحب، نوک کو! جو بری طرح تکلیف دے رہی تھی۔ ذرا سرک کر دوسرے حصہ جسم پر لیا۔
’’تیز نہیں چلاتا۔‘‘ یکے والے سے نواب صاحب نے حلق پھاڑ کر کہا۔ اس نے سوت کی رسی کی لگام کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ٹٹخارہ دیا اور لگام کے زائد حصہ کو گھما کر دوطرفہ گھوڑے کو جھاڑ دیا اور پھر دوبارہ جو گھما کر سڑاکا دیا تو میری عینک لگام کے ساتھ اڑ چلی اور قبل اس کے کہ میں اپنی ناک پر ہاتھ لے جاؤں کہ کہیں عینک مع ناک کے تو نہیں چلی گئی، عینک مع رسی کے لیڈی ہمت قدر کے بالوں میں جا الجھی۔ لیڈی ہمت قدر نے چیخ نکالی۔ رسی میری ناک کے نیچے سے ہوتی ہوئی گئی تھی۔ گویا ایک دم سے میرے منہ میں لگام دے دی گئی۔ قدرتی امر کہ میرا ہاتھ ساتھ ساتھ اس پر پہنچا اور لیڈی صاحبہ کے میری عینک نے بال کھینچ لیے! وہ بولیں، ’’چیخ۔۔۔ چر۔۔۔ چیں۔‘‘
عینک بااحتیاط تمام لیڈی موصوفہ کے بالوں کو سلجھا کر نکالی گئی۔ یکے والا مارے ڈر کے کانپ رہا تھا۔ خوب ڈانٹا گیا بلکہ پٹتے پٹتے بچا۔ پھر سنبھل کر بیٹھے اور اس سلسلہ میں نواب صاحب کا گھٹنا ایک آدھ انچ اور میری کمر میں در آیا، مجبوراً میں کچھ اور آگے سرکا۔ مگر وہاں جگہ کہاں؟ میں پیشتر ہی کگر پر آ گیا تھا۔
لیڈی ہمت قدر پر تین طرح کا سایہ تھا۔ ایک تو خود نواب صاحب کا، دوسرے یکے کی چھتری کا اور تیسرے خود ان کی نازک چھتری کا۔ مگر دھوپ تیز تھی۔ یکہ کی چھتری ظاہر ہے کہ اگر کچھ پناہ دھوپ سے دیتی ہے تو وہ بھی ٹھیک بارہ بجے اور بارہ بجنے میں ابھی دیر تھی۔
باوجود ہر طرح کے سایہ کے لیڈی ہمت قدر گرمی سے حیران تھیں۔ سڑک ذرا بہتر آ گئی تھی۔ اور یکہ اب روانی کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور ظاہراً اور کوئی تکلیف نہ تھی۔ اب ایسے موقع پر گرمی کی تکلیف لامحالہ محسوس ہوئی اور لیڈی ہمت قدر نے کچھ بے چین ہو کر کہا، ’’خدا کی پناہ مری جا رہی ہوں گرمی سے۔۔۔‘‘ جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ یکہ والے نے اپنی سریلی آواز میں مصرعہ کھنچا۔ ’’ہم مرے جاتے ہیں۔ تم کہتے ہو حال اچھا ہے۔۔۔‘‘
’’ابے نالائق۔‘‘ یہ کہہ کر ایک طرف سے نواب صاحب گرجے اور دوسری طرف ایک کہنی اس کی بغل میں مار کر میں برس پڑا، ’’بے ہودہ، نالائق، بدتمیز۔‘‘ پھر نواب صاحب اس طرح گڑگڑائے اور بڑبڑائے جیسے کوئی بڑا خالی برتن پانی میں غرق ہوتا ہے۔ اور اس بری طرح ڈپٹا اور ساتھ ساتھ اس ڈپٹ کے کوئی آدھ انچ اور نواب صاحب نے اپنا ’’باریک‘‘ گھٹنا (موٹے تازے تھے) میری کمر میں بھونک دیا۔
دراصل اس وقت یکے والے کی خطا نہ تھی۔ اگر لمبے راستے کا ایک سست یکے پر آپ کو سفر کرنے کا موقع ملا ہے