ممد بھائی
کہانی کی کہانی
ممد بھائی بمبئی میں اپنے علاقے کے لوگوں کے خیرخواہ ہیں۔ انھیں اپنے پورے علاقے کی خبر ہوتی ہے اور جہاں کوئی ضرورت مند ہوتا ہے، وہ اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ کسی عورت کے اکسانے پر ممد بھائی ایک شخص کا خون کر دیتا ہے۔ حالانکہ اس خون کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے پھر بھی اسے اپنی مونچھوں کی وجہ سے شناخت ہو جانے کا ڈر ہے۔ اسے صلاح دی جاتی ہے کہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے وہ اپنی مونچھیں صاف کرادے۔ ممد بھائی ایسا ہی کرتا ہے پھر بھی عدالت اسے قتل کرنے کے جرم میں سزا دیتی ہے۔
فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔
ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر ’پلے ہاؤس‘ آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے، ’’آؤ آؤ۔۔۔ دو آنے میں۔۔۔ فسٹ کلاس کھیل۔۔۔ دو آنے میں!‘‘
بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر ڈھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بجےبڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔’پی۔۔۔ پی۔۔۔ پی۔۔۔‘ یہ ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔
فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے