کارمن
کہانی کی کہانی
امیر اور متمول خاندان کے ایک نوجوان کے ذریعے ایک غریب لڑکی کے استحصال کی روایتی کہانی ہے جو لڑکی کے بے غرض محبت کی ٹریجڈی ہے۔ کہانی میں سادگی، دلکشی اور جاذبیت ہے۔ قاری آخر میں کہانی کے انجام سے واقف تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوتی، شاید یہ کہانی کی خوبصورتی ہے۔
رات کے گیارہ بجے ٹیکسی شہر کی خاموش سڑکوں پر سے گزرتی ایک پرانی وضع کے پھاٹک کے سامنے جاکر رکی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھول کر بڑے یقین کے ساتھ میرا سوٹ کیس اتار کر فٹ پاتھ پر رکھ دیا اور پیسوں کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مجھے ذرا عجیب سا لگا۔ ’’یہی جگہ ہے؟‘‘ میں نے شبہ سے پوچھا۔
’’جی ہاں‘‘ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ میں نیچے اتری۔ ٹیکسی گلی کے اندھیرے میں غائب ہوگئی اور میں سنسان فٹ پاتھ پر کھڑی رہ گئی۔ میں نے پھاٹک کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اندر سے بند تھا۔ تب میں نے بڑے دروازے میں جو کھڑکی لگتی تھی اسے کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر بعدکھڑکی کھلی۔ میں نے چوروں کی طرح اندر جھانکا۔ اندر نیم تاریک آنگن تھا جس کے ایک کونے میں دو لڑکیاں رات کے کپڑوں میں ملبوس آہستہ آہستہ باتیں کر رہی تھیں۔ آنگن کے سرے پر ایک چھوٹی سی شکستہ عمارت ایستادہ تھی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے گھسیاری منڈی لکھنؤ کا اسکول یاد آگیا، جہاں سے میں نے بنارس یونیورسٹی کا میٹرک پاس کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر گلی کی طرف دیکھا جہاں مکمل خاموشی طاری تھی۔ فرض کیجیے۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ جگہ افیمچیوں، بردہ فروشوں اور اسمگلروں کا اڈّا نکلی تو۔۔۔؟ میں ایک اجنبی ملک کے اجنبی شہر میں رات کے گیارہ بجے ایک گمنام عمارت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی جو گھسیاری منڈی کے اسکول سے ملتا جلتا تھا۔ ایک لڑکی کھڑکی کی طرف آئی۔
’’گڈ ایوننگ! یہ وائی ڈبلیو سی اے ہے نا۔۔۔؟‘‘ میں نے ذرا عجز سے مسکرا کر پوچھا۔۔۔ ’’میں نے تار دلوا دیا تھا کہ میرے لیے ایک کمرہ ریزرو کردیا جائے۔‘‘ مگر کس قدر خستہ حال وائی ڈبلیو سی اے ہے یہ۔ میں نے دل میں سوچا۔
’’ہمیں آپ کا کوئی تار نہیں ملا۔ اور افسوس ہے کہ سارے کمرے گھرے ہوئے ہیں۔‘‘ اب دوسری لڑکی آگے بڑھی۔۔۔ ‘‘یہ ورکنگ گرلز کا ہوسٹل ہے۔ یہاں عام طور پر مسافروں کو نہیں ٹھہرایا جاتا‘‘، اس نے کہا۔ میں یک لخت بے حد گھبرا گئی۔۔۔ اب کیا ہوگا؟ میں اس وقت یہاں سے کہاں جاؤں گی۔۔۔؟ دوسری لڑکی میری پریشانی دیکھ کر خوش خلقی سے مسکرائی۔ ’’کوئی بات نہیں۔ گھبراؤ مت۔۔۔ اندر آجاؤ۔۔۔ لو ادھر سے کود آؤ!‘‘
’’مگر کمرہ تو کوئی خالی نہیں ہے۔۔۔‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’میرے لیے جگہ کہاں ہوگی؟‘‘
’’ہاں ہاں، کوئی بات نہیں۔ ہم جگہ بنا دیں گے۔ اب اس وقت آدھی رات کو تم کہاں جاسکتی ہو؟‘‘ اسی لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ میں سوٹ کیس اٹھا کر کھڑکی سے اندر آنگن میں کود گئی۔ لڑکی نے سوٹ کیس مجھ سے لے لیا۔ عمارت کی طرف جاتے ہوئے میں نے جلدی جلدی کہا، ’’بس آج کی رات مجھے ٹھہر جانے دو۔ میں کل صبح اپنے دوستوں کو فون کردوں گی۔ میں یہاں تین چار لوگوں کو جانتی ہوں۔ تم کو بالکل زحمت نہ ہوگی۔‘‘
’’فکر مت کرو‘‘، اس نے کہا۔ پہلی لڑکی شب بخیر کہہ کر غائب ہو گئی۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں پہنچے۔ برآمدے کے ایک کونے میں لکڑی کی دیواریں لگا کر ایک کمرہ سا بنا دیا گیا تھا۔ لڑکی سرخ پھولوں والا دبیز پردہ اٹھا کر اس میں داخل ہوئی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گئی۔۔۔ ’’یہاں میں رہتی ہوں۔ تم بھی یہیں سو جاؤ۔۔۔‘‘ اس نے سوٹ کیس ایک کرسی پر رکھ دیا اور الماری میں سے صاف تولیہ اور نیا صابن نکالنے لگی۔ ایک کونے میں چھوٹے سے پلنگ پر مچھر دانی لگی تھی۔ برابر میں سنگھار میز رکھی تھی۔ اورکتابوں کی الماری۔ جیسے کمرے ساری دنیا میں لڑکیوں کے ہوسٹلوں میں ہوتے ہیں۔۔۔ لڑکی نے فوراً دوسری الماری میں سے چادر اور کمبل نکال کر فرش کے گھسے ہوئے بد رنگ قالین پر بستر بچھایا اور پلنگ پر نئی چادر لگا کر مچّھر دانی کے پردے گرا دیئے۔ ’’لو تمہارا بستر تیار ہے!‘‘ مجھے بے حد ندامت ہوئی۔۔۔ ’’سنو‘ میں فرش پر سو جاؤں گی۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ اتنے مچھّر کاٹیں گے کہ حالت تباہ ہوجائے گی۔ ہم لوگ ان مچھروں کے عادی ہیں۔ کپڑے بدل لو‘‘ اتنا کہہ کر وہ اطمینان سے فرش پر بیٹھ گئی۔۔۔
’’میرا نام کارمن ہے۔ میں ایک دفتر میں ملازم ہوں اور شام کو یونیورسٹی میں ریسرچ کرتی ہوں۔ کیمسٹری میرا مضمون ہے۔ میں وائی ڈبلیو کی سوشل سکریٹری بھی ہوں۔ اب تم اپنے متعلق بتاؤ؟‘‘ میں نے بتایا۔۔۔ ’’اب سو جاؤ‘‘، مجھے اونگھتے دیکھ کر اس نے کہا۔ پھر اس نے دو زانو جھک کر دعا مانگی اور فرش پر لیٹ کر فوراً سو گئی۔
صبح کو عمارت جاگی۔ لڑکیاں سروں پر تولیہ لپیٹے اور ہاؤس کوٹ پہنے غسل خانوں سے نکل رہی تھیں۔ برآمدے میں سے گرم قہوے کی خوشبو آرہی تھی۔ دو تین لڑکیاں آنگن میں ٹہل ٹہل کر دانتوں پر برش کر رہی تھیں۔
’’چلو تمہیں غسل خانہ دکھا دوں‘‘ کارمن نے مجھ سے کہا، اور ہال میں سے گزر کر ایک گلیارے میں لے گئی جس کے سرے پر ایک ٹوٹی پھوٹی کوٹھری سی تھی جس میں صرف ایک نل لگا ہوا تھا اور دیوار پر ایک کھونٹی گڑی تھی۔ اس کا فرش اکھڑا ہوا تھا اور دیواروں پر سیلن تھی۔ روشن دان کے ادھر سے کسی لڑکی کے گانے کی آواز آرہی تھی۔ اس غسل خانے کے اندر کھڑے ہو کر میں نے سوچا۔ کیسی عجیب بات ہے۔۔۔ مدّتوں سے یہ غسل خانہ اس ملک میں، اس شہر میں، اس عمارت میں اپنی جگہ پر موجود ہے۔۔۔ اور میرے وجود سے بالکل بے خبر۔۔۔ اور آج میں اس میں موجود ہوں۔ کیسا بے وقوفی کا خیال تھا۔
جب میں نہا کے باہر نکلی تو نیم تاریک ہال میں ایک چھوٹی سی میز پر میرے لیے ناشتہ چنا جا چکا تھا۔ کئی لڑکیاں جمع ہوگئی تھیں۔ کارمن نے ان سب سے میرا تعارف کرایا۔ بہت جلد ہم سب پرانے دوستوں کی طرح قہقہے لگا رہے تھے۔
’’اب میں ذرا اپنے جاننے والوں کو فون کردوں‘‘ چائے ختم کرنے کے بعد میں نے کہا۔ کارمن شرارت سے مسکرائی۔۔۔ ’’ہاں اب تم اپنے بڑے بڑے مشہور اور اہم دوستوں کو فون کرو، اور ان کے ہاں چلی جاؤ۔ تمہاری پروا کون کرتا ہے۔ کیوں روزا۔۔۔؟‘‘
’’ہم اس کی پروا کرتے ہیں؟‘‘
’’بالکل نہیں۔۔۔‘‘
کورس ہوا۔ لڑکیاں میز پر سے اٹھیں۔۔۔’’ہم لوگ اپنے اپنے کام پر جارہے ہیں شام کو تم سے ملاقات ہوگی‘‘ میگدیلنا نے کہا۔ ’’شام کو۔۔۔ ؟‘‘ ایمیلیا نے کہا۔۔۔ ’’شام کو یہ کسی کنٹری کلب میں بیٹھی ہوگی۔۔۔‘‘
کارمن کے دفتر جانے کے بعد میں نے برآمدے میں جاکر فون کرنے شروع کیے۔۔۔ فوج کے میڈیکل چیف میجر جنرل کیمو گلڈاس جو جنگ کے زمانے میں میرے ماموں جان کے رفیق کار رہ چکے تھے۔۔۔ مسز انطوانیا کوسٹیلو، ایک کروڑ پتی کاروباری کی بیوی جو یہاں کی مشہور سماجی لیڈر تھیں اور جن سے میں کسی بین الاقوامی کانفرنس میں ملی تھی۔۔۔ الفا نسو ولبیرا۔۔۔ اس ملک کا نامور ناول نگار اور جرنلسٹ، جو ایک دفعہ کراچی آیا تھا۔۔۔ ‘‘ہلو۔۔۔ہلو۔۔۔ ارے۔۔۔ تم کب آئیں۔۔۔ ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی۔۔۔؟ کہاں ٹھہری ہو۔۔۔؟ وہاں۔۔۔؟ گڈ گاڈ۔۔۔ وہ کوئی ٹھہرنے کی جگہ ہے۔۔۔؟ ہم فورا تمہیں لینے آرہے ہیں۔۔۔‘‘ ان سب نے باری باری مجھ سے یہی الفاظ دہرائے۔ سب سے آخر میں، میں نے ڈون گارسیا ڈیل پریڈوس کو فون کیا۔ یہ مغربی یورپ کے ایک ملک میں اپنے دیس کے سفیر رہ چکے تھے اور وہیں ان سے اور ان کی بیوی سے میری اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ ان کے سکریٹری نے بتایا کہ وہ لوگ آج کل پہاڑ پر گئے ہوئے ہیں۔ اس نے میری کال ان کے پہاڑی محل میں منتقل کردی۔
تھوڑی دیر بعد مسز کو سٹیلو اپنی مرسی ڈینر میں مجھے لینے کے لیے آگئیں۔ کارمن کے کمرے میں آکر انہوں نے چاروں طرف دیکھا اور میرا سوٹ کیس اٹھا لیا۔۔۔ مجھے دھکّا سا لگا۔ میں ان لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ میں کارمن، ایمیلیا، برنارڈا اوروزا، اور مگدیلینیا کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔
’’سامان ابھی رہنے دیجیے۔ شام کو دیکھا جائے گا‘‘ میں نے ذرا جھینپ کر مسز کوسٹیلو سے کہا۔ ’’مگر تم کو اس نا معقول جگہ پر بے حد تکلیف ہوگی‘‘، وہ برابر دہراتی رہیں۔۔۔
رات کو جب میں واپس آئی تو کارمن اور ایمیلیا پھاٹک کی کھڑکی میں ٹھنسی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ ’’آج ہم نے تمہارے لیے کمرے کا انتظام کر دیا ہے‘‘ کارمن نے کہا۔ میں خوش ہوئی کہ اب اسے فرش پر نہ سونا پڑے گا۔
ہال کی دوسری طرف ایک اور سیلے ہوئے کمرے میں دوپلنگ بچھے تھے۔ ایک پر میرے لیے بستر لگا تھا اور دوسرے پر مسز سوریل بیٹھی سگریٹ پی رہی تھیں۔ وہ اڑتیس انتالیس سال کی رہی ہوں گی۔ ان کی آنکھوں میں عجیب طرح کی اداسی تھی۔ پولینیزین نسل کی کس شاخ سے ان کا تعلق تھا۔ ان کی شکل سے معلوم نہ ہو سکتا تھا۔ پلنگ پر نیم دراز ہو کر انہوں نے فوراً اپنی زندگی کی کہانی سنانا شروع کردی۔۔۔
’’میں گام سے آئی ہوں‘‘ انہوں نے کہا۔۔۔ ’’گام کہاں ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’بحر الکاہل میں ایک جزیرہ ہے۔ اس پر امریکن حکومت ہے۔ وہ اتنا چھوٹا جزیرہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر اس کے نام کے نیچے صرف ایک نقطہ لگا ہوا ہے۔ میں امریکن شہری ہوں۔۔۔‘‘ انہوں نے ذرا فخر سے اضافہ کیا۔
’’گام۔۔۔‘‘ میں نے دل میں دہرایا۔ کمال ہے۔ دنیامیں کتنی جگہیں ہیں۔ اور ان میں بالکل ہمارے جیسے لوگ بستے ہیں۔
’’میری لڑکی ایک وائلن بجانے والے کے ساتھ بھاگ آئی ہے۔ میں اسے پکڑنے آئی ہوں۔ وہ صرف سترہ سال کی ہے۔ مگر حد سے زیادہ خود سر۔۔۔ یہ آج کل کی لڑکیاں۔۔۔‘‘ پھر وہ دفعتاً اٹھ کر بیٹھ گئیں۔۔۔ ’’مجھے کینسر ہوگیا تھا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’مجھے سینے کا کینسر ہوگیا تھا‘‘، انہوں نے بڑے الم سے کہا۔۔۔ ’’ورنہ تین سال قبل۔۔۔ میں بھی۔۔۔ میں بھی اور سب کی طرح نارمل تھی۔۔۔‘‘ ان کی آواز میں بے پایاں کرب تھا۔۔۔ ’’دیکھو۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنے نائٹ گون کا کالر سامنے سے ہٹا دیا۔۔۔ میں نے لرز کر آنکھیں بند کرلیں۔۔۔ ایک عورت سے اس کے جسم کی خوب صورتی ہمیشہ کے لیے چھن جائے۔ کتنی قہر ناک بات تھی۔
تھوڑی دیر بعد مسز سوریل سگریٹ بجھا کر سو گئیں۔ کھڑکی کی سلاخوں میں سے چاند اندر جھانک رہا تھا۔ نزدیک کے کمرے سے میگدیلناکے گانے کی دھیمی آواز آنی بھی بند ہوگئی۔ دفعتاً میرا جی چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔
اگلا ہفتہ فیشن ایبل رسالوں کی زبان میں ’سوشل اور تہذیبی مصروفیات کی آندھی‘ کی طرح ’آرٹ و کلچر‘ کے معاملات میں گزرا۔ دن مسز کوسٹیلواور ان کے احباب کے حسین، پر فضا مکانوں میں اور شامیں شہر کی جگمگاتی تفریح گاہوں میں بسر ہوتیں۔۔۔ ہر طرح کے لوگ۔۔۔ انٹلکچوئیل، جرنلسٹ، مصنف، سیاسی لیڈر، مسز کوسٹیلو کے گھر آتے اور ان سے بحث مباحثے رہتے اور میں انگریزی محاورے کے الفاظ میں اپنے آپ کو گویا بے حد ’انجوائے‘ کر رہی تھی۔ میں رات کو وائی ڈبلیو واپس آتی اور ہال کی چو کور میز کے ارد گرد بیٹھ کر پانچوں لڑکیاں بڑے اشتیاق سے مجھ سے دن بھر کے واقعات سنتیں۔۔۔ ‘‘کمال ہے!‘‘ روزاکہتی۔۔۔ ’’ہم اسی شہر کے رہنے والے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں کہ یہاں ایسی الف لیلوی فضائیں بھی ہیں۔‘‘
’’یہ بے حد امیر لوگ جوہوتے ہیں نا۔ یہ اتنے روپے کا کیا کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘ ایمیلیا پوچھتی۔
ایمیلیا ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، روزا ایک سرکاری دفتر میں اسٹینو گرافر تھی۔ میگدیلنا اور برنارڈا ایک میوزک کالج میں پیانو اور وائلن کی اعلا تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ یہ سب متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی لڑکیاں تھیں۔
اتوار کی صبح کارمن ماس میں جانے کی تیاری میں مصروف تھی۔ کوئی چیز نکالنے کے لیے میں نے الماری کی دراز کھولی تو اس کے جھٹکے سے اوپر سے ایک اونی خرگوش نیچے گر پڑا۔ میں اسے واپس رکھنے کے لیے اوپر اچکی تو الماری کی چھت پر بہت سارے کھلونے رکھے نظر آئے۔ ’’یہ میرے بچّے کے کھلونے ہیں‘‘، کارمن نے سنگھار میز کے سامنے بال بناتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا۔ ’’تمہارے بچّے کے۔۔۔؟‘‘ میں ہکّا بکّارہ رہ گئی اورمیں نے بڑے دکھ سے اسے دیکھا۔۔۔
کارمن بن بیاہی ماں تھی۔ آئینے میں میرا ردّ عمل دیکھ کر وہ میری طرف پلٹی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس نے کہا، ’’تم غلط سمجھیں۔۔۔‘‘ پھر وہ کھل کھلا کر ہنسی اور اس نے الماری کی نچلی دراز میں سے ایک ہلکے نیلے رنگ کی چمکیلی، بے بی بک نکالی۔۔۔ ’’دیکھو! یہ میرے بچّے کی سالگرہ کی کتاب ہے جب وہ ایک سال کا ہوگا تو یہ کرے گا۔ جب وہ دو سال کا ہوجائے گا تویہ کہے گا۔ یہاں اس کی تصویریں چپکاؤں گی۔۔۔‘‘ وہ اطمینان سے آلتی پالتی مار کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اسی کتاب میں سے خوب صورت امریکن بچوں کی رنگین تصویروں کے تراشے نکال کر بستر پر پھیلا دیئے۔۔۔ ’’دیکھو میری ناک کتنی چپٹی ہے اور نِک تو مجھ سے بھی گیا گزرا ہے۔ تو ہم دونوں کے بچّے کی ناک کا سوچو تو کیا حشر ہوگا۔۔۔ ؟ میں اس کی پیدایش سے مہینوں پہلے یہ تصویریں دیکھا کروں گی تاکہ اس بے چارے کی ناک پر کچھ اثر پڑے۔‘‘
’’تم دیوانی ہو اچھی خاصی۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اور یہ نِک کون بزرگ ہیں۔۔۔؟‘‘ اس کا رنگ ایک دم سفید پڑ گیا۔۔۔ ’’ابھی اس کا ذکر نہ کرو۔ اس کے نام پر مجھے لگتا ہے کہ میرا دل کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ ‘‘
مگر اس کے بعد وہ برابر نِک کا ذکر کرتی رہی۔۔۔ ’’میں اتنی بد صورت ہوں۔ مگر نک کہتا ہے۔۔۔ کارمن۔۔۔ کارمن۔۔۔ مجھے تمہارے دل سے، تمہارے دماغ سے، تمہاری روح سے عشق ہے۔ نک نے اتنی دنیا دیکھی ہے۔ اتنی حسین لڑکیوں سے اس کی دوستی رہی ہے مگر اسے میری بد صورتی کا ذرا بھی احساس نہیں۔‘‘
گرجا سے واپسی پر، خلیج کے کنارے کنارے سڑک پر چلتے ہوئے، وائی ڈبلیو کے نم ناک ہال میں کپڑوں پر استری کرتے ہوئے کارمن نے مجھے اپنی اور نک کی داستان سنائی۔ نک ڈاکٹر تھا اور ہارٹ سرجری کی اعلا ٹریننگ کے لیے باہر گیا ہوا تھا۔ اور اسے دیوانہ وار چاہتا تھا۔
رات کو میں مسز سو ریل کے کمرے سے کارمن کے کمرے میں واپس آچکی تھی۔ کیوں کہ مسز سوریل اپنی لڑکی کو پکڑ لانے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور لڑکی اب ان کے ساتھ مقیم تھی۔ سونے سے پہلے میں مچھر دانی ٹھیک کر رہی تھی۔ کارمن پھر فرش پر آسن جمائے بیٹھی تھی۔
’’نک۔۔۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’آج کل کہاں ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’معلوم نہیں۔‘‘
’’تم اسے خط نہیں لکھتیں ؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ ’’تم خدا پر یقین رکھتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’یہ تو بہت لمبا چوڑا مسئلہ ہے‘‘، میں نے جمائی لے کر جواب دیا۔۔۔ ’’مگر یہ بتاؤ کہ تم اسے خط کیوں نہیں لکھتیں؟‘‘
’’پہلے میرے سوال کا جواب دو۔۔۔ تم خدا پر یقین رکھتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ میں نے بحث کو مختصر کرنے کے لیے کہا۔ ’’اچھا تو تم خدا کو خط لکھتی ہو ؟‘‘
عمارت کی روشنیاں بجھ گئیں۔ رات کی ہوا میں آنگن کے درخت سرسرا رہے تھے۔ کمرے کے دروازے پر پڑا ہوا سرخ پھولوں والا پردہ ہوا کے جھونکوں سے پھڑ پھڑائے جارہا تھا۔ میں نے اٹھ کر اسے ایک طرف سر کا دیا۔
’’بہت خوب صورت پردہ ہے‘‘، میں نے پلنگ کی طرف لوٹتے ہوئے اظہارِ خیال کیا۔ کارمن فر