منشی رام سیوک بھوئیں چڑھائے ہوئے گھر سے نکلے اور بولے، ’’ایسی زندگی سے تو موت بہتر۔‘‘
موت کی دست درازیوں کا سارا زمانہ شاکی ہے۔ اگر انسان کا بس چلتا تو موت کا وجودہی نہ رہتا، مگر فی الواقع موت کو جتنی دعوتیں دی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ اگر اسے اتنی فرصت ہوتی تو آج زمانہ ویران نظر آتا۔
منشی رام سیوک موضع چاند پور کے ایک ممتاز رئیس تھے۔ اور رؤسا کے اوصاف حمیدہ سے بہرہ ور۔ وسیلہ معاش اتنا ہی وسیع تھا جتنی انسان کی حماقتیں اورکمزوریاں۔ یہی ان کی املاک اور موروثی جائداد تھی۔ وہ روز عدالت منصفی کے احاطے میں نیم کے درخت کے نیچے کاغذات کا بستہ کھولے ایک شکستہ حال چوکی پر بیٹھے نظر آتے تھے اور گو انھیں کسی نے اجلاس میں قانونی بحث یا مقدمے کی پیروی کرتے نہیں دیکھا، مگر عرف عام میں وہ مختار صاحب مشہور تھے ۔ طوفان آئے، پانی برسے، اولے گریں۔ مگر مختار صاحب کسی نامراد دل کی طرح وہیں جمے رہتے تھے۔ وہ کچہری چلتے تھے تو دہقانیوں کا ایک جلوس سا نظرآتا۔ چاروں طرف سے ان پر عقیدت واحترام کی نگاہیں پڑتیں ،اور اطراف میں مشہور تھا کہ ان کی زبان پر سرسوتی ہیں۔
اسے وکالت کہو یا مختار کاری مگر یہ صرف خاندانی یا اعزازی پیشہ تھا۔ آمدنی کی صورتیں یہاں مفقود تھیں۔ نقرئی سکّوں کا تو ذکر ہی کیاکبھی کبھی مسی سکے بھی آزادی سے آنے میں تامل کرتے تھے۔
منشی جی کی قانون دانی میں بھی کوئی شک نہیں مگر’’پاس ‘‘کی منحوس قید نے انھیں مجبور کردیا تھا۔ بہر حال جو کچھ ہو یہ محض اعزاز کے لیے تھا ورنہ ان کی گذر ان کی خاص صورت، قرب و جوار کی بے کس مگر فارغ البال بیواؤں اور سادہ لوح مگر خوش حال بڈھوں کی خوش معاملگی تھی۔ بیوائیں اپنا روپیہ ان کی امانت میں رکھتیں، بوڑھے اپنی پونجی نا خلف لڑکوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں سونپتے۔ اور روپیہ ایک دفعہ ان کی مٹھی میں جاکر نکلنا نہیں جانتا تھا۔ وہ حسبِ ضرورت کبھی کبھی قرض بھی لیتے تھے۔ بلا قرض لیے کس کا کام چل سکتا ہے۔صبح کو شام کے وعدے پر لیتے مگر وہ شام کبھی نہیں آتی تھی۔ خلاصہ یہ کہ منشی جی قرض لے کر دینا نہیں جانتے تھے۔ اور ان کا خاندانی وصف تھا،اس خاندان کی یہ رسم قدیم تھی۔
یہ معاملات اکثر منشی جی کے آرام میں مخل ہوا کرتے تھے۔ قانون اورعدالت کا تو انھیں کوئی خوف نہ تھا۔ اس میدان میں ان کا سامنا کرنا پانی میں رہ کر مگر سے بیر کرنا تھا۔ لیکن جب بعض شریر النفس لوگ خواہ مخواہ ان سے بدظن ہوجاتے ان کی خوش نیتی پر شک کرتے اور ان کے روبرو اعلانیہ بد زبانیوں پر اتر آتے تو منشی جی کو بڑا صدمہ ہوتا۔ اس قسم کے ناخوش گوار واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ ہر جگہ ایسے تنگ ظرف حضرات موجود رہتے ہیں جنھیں دوسروں کی تحقیر میں مزہ آتا ہے۔ انھیں بد خواہوں کی شہ پاکر بعض اوقات چھوٹے چھوٹے آدمی منشی جی کے منہ آجاتے۔ ورنہ ایک کنجڑن کا اتنا حوصلہ نہ ہوسکتا تھا کہ ان کے گھر میں جاکر انھیں کی شان میں نازیبا کلمات منہ سے نکالے۔ منشی جی اس کے پرانے گاہک تھے برسوں تک اس سے سبزی لی تھی اگر دام نہ دیئے تو کنجڑن کو صبر کرنا چاہیے تھا جلد یا دیر میں مل ہی جاتے، مگر وہ بد زبان عورت دو سال ہی میں گھبراگئی اور چند آنے پیسوں کے لیے ایک معزز آدمی کی جان ریزی کی۔ ایسی حالت میں آکر جھنجھلا کر موت کو دعوت دی تو ان کی کوئی خطا نہیں۔
اس موضع میں مونگا نام کی ایک بیوہ براہمنی تھی۔اس کا شوہر برما کی کالی پلٹن میں حولدار تھا وہ وہیں مارا گیا۔ اس کے حسن خدمات کے صلے میں مونگا کوپانچ سو روپے ملے تھے۔ بیوہ عورت تھی، زمانہ نازک۔ اس نے یہ روپے منشی رام سیوک کو سونپ دیے اور ہر ماہ اس میں سے تھوڑا تھوڑا لے کر گذر کرتی رہی۔ منشی جی نے یہ فرض کئی سال تک نیک نیتی سے پورا کیامگر جب پیرانہ سالی کے باوجود مونگا نے مرنے میں تامل کیا اور منشی جی کو اندیشہ ہوا‘ شاید وہ توشہ آخرت کے لیے نصف رقم بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تو ایک روز انھوں نے کہا، ’’مونگا تمھیں مرنا ہے یا نہیں۔صاف صاف کہہ دو تاکہ میں اپنے مرنے کی فکر کروں۔‘‘
اس دن مونگا کی آنکھیں کھلیں خواب سے بیدار ہوئی ۔بولی، میرا حساب کردو۔ فرد حساب تیار تھا۔ امانت میں اب ایک کوڑی بھی نہ تھی۔ اس سخت گیری سے جو بڑھاپے کے ساتھ مخصوص ہے اس نے منشی جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’میرے سو روپے تم نے دبائے ہیں میں ایک ایک کوڑی لے لوں گی۔‘‘
مگر بے کسوں کا غصّہ پٹاخے کی آواز ہے۔ جس سے بچّے ڈر جاتے ہیں اور اثر کچھ نہیں ہوتا۔
عدالت میں اس کا کچھ زور نہ تھا۔ نہ کوئی لکھاپڑھی، نہ حساب نہ کتاب ،البتہ پنچایت سے کچھ امید تھی اور پنچایت بیٹھی۔ گاؤں کے آدمی جمع ہوئے۔ منشی جی نیت اور معاملے کے صاف تھے۔ انھیں پنچوں کا کیا خوف۔ سبھا میں کھڑے ہوکر پنچوں سے کہا، ’’بھائیو۔آپ سب لوگ ایماندار اور شریف ہیں میں آپ صاحبوں کا خاک پا اور پروردہ ہوں آپ سبھوں کی عنایات والطاف سے، فیض وکرم سے، محبت وشفقت سے ،میرا ہر ایک رونگٹا گراں بار ہے۔ کیا آپ سب نیک اور شریف حضرات خیال کرتے ہیں کہ میں نے ایک بے کس اور بیوہ عورت کے روپے ہضم کر لیے۔
پنچوں نے ایک زبان کہا، ’’نہیں آپ سے ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’اگر آپ سب نیک اور شریف صاحبان کا خیال ہے کہ میں نے روپے دبالیے تو میرے ڈوب جانے کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں۔ میں امیرنہیں ہوں۔ نہ مجھے فیاضی کا دعوی ہے۔ مگر اپنے قلم کی بدولت آپ صاحبان کی عنایات کی بدولت کسی کا محتاج نہیں۔ کیا میں ایسا کمینہ ہو جاؤں گا کہ ایک بے کس عورت کے روپے ہضم کرلوں۔‘‘
پنچوں نے یک زبان ہو کر پھر کہا، ’’نہیں نہیں آپ سے ایسانہیں ہوسکتا۔‘‘ پگڑی کی نگری ہے ۔پنچوں نے منشی جی کو رہا کردیا۔ پنچایت ختم ہوگئی اورمونگا کو اب کسی خیال سے تسکین ہو سکتی تھی تو وہ یہ تھا کہ یہاں نہ دیا ،نہ سہی ،وہاں کہاں جائے گا۔
مونگا کا اب کوئی غم خوارو مدگار نہ تھا۔ ناداری سے جو کچھ تکلیفیں ہو سکتی ہیں وہ سب اسے جھیلنی پڑیں اس کے قویٰ درست تھے وہ چاہتی تو محنت کر سکتی تھی مگر جس دن پنچایت ختم ہوئی اسی دن سے اس نے کام کرنے کی قسم کھائی اب اسے رات دن روپوں کی رٹ لگی ہوئی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اسے صر ف ایک کام تھا اور وہ منشی رام سیوک کا ذکر خیرتھا۔ا پنے جھونپڑے کے دروازے پر بیٹھی وہ رات دن انھیں صدق دل سے دعائیں دیا کرتی اور اکثر دعاؤں میں ایسے شاعرانہ تلامزے ایسے رنگین استعارے استعمال کرتی جسے سن کر حیرت ہوتی تھی۔
رفتہ رفتہ مونگا کے حواس پر وحشت کا غلبہ ہوا۔ ننگے سر، ننگے بدن، ہاتھ میں ایک کلہاڑہ لیے وہ سنسان جگہوں میں جا بیٹھتی۔ جھونپڑے کے بجائے اب وہ مرگھٹ پر ندی کے کنارے کھنڈروں میں گھومتی دکھائی دیتی۔ بکھری ہوئی پریشان لٹیں ،سرخ آنکھیں،وحشت ناک چہرہ، سوکھے ہوئے ہاتھ پاؤں۔اس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر لوگ ڈر جاتے تھے۔ اسے کوئی مزاح کے طور پر نہ چھیڑتا تھا۔ اگر وہ کبھی گاؤں میں نکل آتی تو عورتیں گھروں کے کیواڑ بند کرلیتیں۔مرد کتراکر نکل جاتے اور بچے چیخ چیخ کر بھاگ جاتے۔ اگر کوئی لڑکا نہ بھاگتا تو یہ منشی رام سیوک کا صاحبزادہ رام غلام تھا ۔باپ میں جو کچھ کور کسر رہ گئی تھی وہ ان کی ذات میں پوری ہوگئی تھی۔ لڑکوں کا اس کے مارے ناک میں دم تھا۔ گاؤں کے کانے اور لنگڑے آدمی اس کی صورت سے بیزار تھے اور گالیاں کھانے میں شاید سسرال میں آنے والے داماد کو بھی اتنا مزہ نہ آتا ہوگا۔ وہ مونگا کے پیچھے تالیاں بجاتاکتّوں کو ساتھ لیے اس وقت تک رہتا جب تک وہ غریب تنگ آکر نکل نہ جاتی۔ روپیہ پیسہ ہوش وہواس کھوکر اسے پگلی کا لقب ملا اور وہ سچ مچ پگلی تھی، ا کیلے بیٹھے ہوئے آپ ہی آپ گھنٹوں باتیں کیا کرتی جس میں رام سیوک کے گوشت ہڈی‘پوست آنکھیں ‘کلیجہ وغیرہ کو کھانے مسلنے نوچنے کھسوٹنے کی پر جوش خواہش کا اظہار ہوتا تھا اور جب یہ خواہش بے تابی تک پہنچ جاتی تو رام سیوک کے مکان کی طرف منہ کرکے بلند آواز اور ڈراؤنی آواز سے ہانک لگاتی ، ’’تیرا لہو پیوں گی۔‘‘
اکثر راتوں کے سنّاٹے میں یہ گرجتی ہوئی آواز سن کر عورتیں چونک پڑتی تھیں، مگر اس آواز سے زیادہ ہیبت ناک اس کا قہقہہ تھا منشی جی کے خیالی لہو پینے کی خوشی میں وہ زور زور سے ہنسا کرتی تھی، اس قہقہے سے ایسی شیطانی مسرت ایسی سفا کی، ایسی خونحواری ٹپکتی تھی کہ رات کو لوگوں کے خون سرد ہوجاتے تھے معلوم ہوتا تھا کہ گویا سینکڑوں الّو ایک ساتھ ہنس رہے ہیں۔
منشی رام سیوک بڑے حوصلہ جگر کے آدمی تھے۔ نہ انھیں دیوانی کا خوف تھا، نہ فوجداری کا، مگر مونگا کے ان خوفناک نعروں کو سن کر وہ بھی سہم جاتے تھے۔ ہمیں انسانی انصاف کا چاہے خوف نہ ہو اور بسا اوقات نہیں ہوتا۔مگر خدائی انصاف کا خوف ہر انسان کے دل میں خلقی طورپر موجود رہتا ہے اور کبھی کبھی ایسے مبارک اتفاقات پیش آجاتے ہیں جب نفس کے نیچے دبا ہوا یہ خیال اوپر آجاتا ہے۔ مونگا کی وحشت ناک شب گردی رام سیوک کے لیے یہی مبارک اتفاق تھی اور ان سے زیادہ ان کی بیوی کے لیے جو ایک وفادار عورت کی طرح ہر معاملے میں نہ صرف عورت کا ساتھ دیتی تھی بلکہ آئے دن کے مباحثوں اورمناظروں میں زیادہ نمایاں حصہ لیا کرتی تھی۔فرقہ اناث میں ان کے زور بیان کا عام شہرہ تھا۔زبانی معاملات ہمیشہ وہی طے کیا کرتی تھیں۔ ان لوگوں کی بھول تھی جو کہتے تھے کہ منشی جی کی زبان پر سرسوتی ہے۔ یہ فیض ان کی بیوی کو حاصل تھا۔ زور بیان میں انھیں وہی ملکہ تھی جو منشی جی کو زور تحریر میں اور یہ دونوں پاک روحیں اکثر عالم مجبوری میں مشورہ کرتیں کہ اب کیاکرنا چاہیے۔
آدھی رات کا وقت تھا۔منشی جی حسب معمول غم غلط کرنے کے لیے آب آتشیں کے دوچار گھونٹ پی کر سوگئے تھے۔ یکایک مونگا نے ان کے دروازے پر آکر زور سے ہانک لگائی، ’’تیرا لہو پیوں گی۔‘‘ اور خوب کھلکھلا کر ہنسی۔ منشی جی یہ خوفناک قہقہہ سن کر چونک پڑے، خوف سے پاؤں تھرتھرارہے تھے اور کلیجہ دھک دھک کررہا تھا۔ دل پر بہت جبر کرکے دروازہ کھولا اور جاکر ناگن کو جگایا۔ ناگن نے جھلا کر کہا، ’’کیا ہے؟ کیا کہتے ہو؟‘‘ منشی جی نے آواز دبا کر کہا، ’’وہ دروازہ پر آکر کھڑی ہے۔‘‘
’’ناگن اٹھ بیٹھی کیا کہتی ہے؟‘‘
’’تمھارا سر۔‘‘
’’کیا دروازے پر آگئی ؟‘‘
’’ہاں ۔آواز نہیں سنتی ہو۔‘‘
ناگن مونگا سے نہیں ڈرتی تھی مگر اس کی وحشت سے ڈرتی تھی تا ہم اسے یقین تھا کہ میں تقریر میں ضرور اسے نیچا دکھاسکتی ہوں۔سنبھل کر بولی، ’’تو میں اس سے دو باتیں کرلوں۔‘‘ مگر منشی جی نے منع کیا۔ دونوں آدمی دہلیز پر آگئے ۔ اور دروازے سے جھا نک کر دیکھا مونگا کی دھندلی مورت زمین پر پڑی تھی۔ اور اس کی سانس تیزی سے چلتی سنائی دیتی تھی۔ رام سیوک کے خون اور گوشت کی آرزو میں وہ اپنا گوشت اور خون خشک کرچکی تھی ایک بچہ بھی اسے گراسکتا تھا مگر اس سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔
ہم زندہ انسانوں سے نہیں ڈرتے ہیں مردوں سے ڈرتے ہیں۔
اگر چہ اندر سے دروازہ بند تھا مگر منشی جی اور ناگن نے بیٹھ کر رات کاٹی۔ مونگا اندر نہیں آسکتی تھی مگر اس کی آواز کو کون روک سکتا تھا۔ مونگا سے زیادہ ڈراؤنی اس کی آواز تھی۔ صبح کے وقت منشی جی باہر نکلے اور مونگا سے بولے، ’’یہاں کیوں پڑی ہے؟‘‘ مونگا بولی، ’’تیرا خون پیوں گی۔‘‘ ناگن نے بل کھاکر کہا، ’’تیرا منہ جھلس دوں گی۔‘‘ مگر ناگن کے زہرنے مونگا پر کچھ اثر نہ کیا اس نے زور سے قہقہہ لگا یا۔ناگن کھسیانی ہوگئی۔ قہقہے کے مقابلے میں زبان بند ہو جاتی ہے۔ منشی جی پھر بولے، ’’یہاں سے اٹھ جاؤ۔ ‘‘
’’نہ اٹھوں گی۔‘‘
’’کب تک پڑی رہے گی؟‘‘
’’تیرا لہو پی کر جاؤں گی۔‘‘
منشی جی کی پر زور تحریر کا یہاں کچھ زور نہ چلا اور ناگن کی آتشیں تقریر یہاں سرد ہوگئی۔ دونوں گھرمیں جاکر مشورہ کرنے لگے ۔یہ بلا کیوں کر ٹلے گی ، اس آفت سے کیوں کر نجات ہوگی۔
دیو ی آتی ہیں تو بکرے کا خون پی کر چلی جاتی ہیں مگر یہ ڈائین انسان کا خون پینے آئی ہے۔ وہ خون جس کے اگر قلم بنانے میں چند قطرے نکل پڑتے تھے۔ تو ہفتوں اور مہینوں سارے کنبے کو افسوس رہتا تھا۔ اور یہ واقعہ گاؤں میں مرکز گفتگو بن جاتا تھا۔ کیا یہ خون پی کر مونگا کا سوکھا ہوا جسم ہرا ہوجائے گا۔
گاؤں میں خبر پھیل گئی۔ مونگا منشی جی کے دروا زے پر دھرنا دئیے بیٹھی ہے۔منشی جی کی رسوائی میں گاؤں والوں کو خواہ مخواہ لطف آتا تھا ۔ سینکڑوں آدمی جمع ہوگئے ۔اس دروازے پر وقتاً فوقتاً میلے لگے رہتے تھے۔ مگر وہ زور و شوراور پرجوش میلے ہوتے تھے۔ آج کا مجمع خاموش اور متین تھا۔ یہ رکاؤ اور حبس رام غلام کو مرغوب نہ تھا۔ مونگا پر اسے ایسا غصّہ آرہا تھا کہ اس کا بس چلتا تو ضرور کنوئیں میں ڈھکیل دیتا۔ کہتا چل کنوئیں پر تجھے پانی پلا لاؤں جب وہ کنوئیں پر پہنچتی تو پیچھے سے ایسا دھکا دیتا کہ اڑاڑا دھم کنوئیں میں جاگرتی۔ اوروہاں پیٹے ہوئے کتے کی طرح چیخنے لگتی۔ دھماکے کی آواز آتی۔ اس خیال سے رام غلام کے سینے میں گد گدی سی ہونے لگی۔ اور وہ مشکل سے اپنی ہنسی روک سکا۔ کیسے مزے کی بات ہوتی۔مگر یہ چڑیل یہاں سے اٹھتی ہی نہیں کیا کروں۔
منشی جی کے گھر میں استخوانی نسل کی ایک گائے تھی ۔جسے کھلی دانہ اور بھوساتو اسے کثرت سے کھلایا جاتا تھا مگر وہ سب اس کی ہڈیوں میں پیوست ہوجاتا تھا ۔اور اس کا ڈھانچہ روز بروز نمایاں ہوجاتاتھا۔ رام غلام نے ایک ہانڈی میں اس کا گوبر گھولا اور وہ ساری غلاظت مونگا پر لاکر انڈیل دی۔ اور پھر اس کے چھینٹے تماشائیوں پر ڈال دئیے ۔غریب مونگا لت پت ہوگئی اور اٹھ کر رام غلام کی طرف دوڑی ۔صد ہا تماشائیوں کے کپڑے خراب ہوگئے۔لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ۔یہ منشی رام سیوک کا دروازہ ہے۔ یہاں اسی طرح کی مدارات کی جاتی ہے۔ جلد بھاگ چلو ورنہ اب کے کوئی اس سے اچھی خاطر کی جائے گی۔
ادھر مطلع صاف ہوا ۔ادھر رام غلام گھر میں جاکر خوب ہنسا اور خوب تالیاں بجائیں۔منشی جی نے اس مجمع ناجائز کو ایسی آسانی اور خوبصورتی سے ہٹادینے کی تدبیر پر اپنے سعادت مندلڑکے کی پیٹھ ٹھونکی۔ مگر سب بھاگے مونگا جوں کی توں بیٹھی رہی۔
دوپہر ہوئی مونگا نے کھانانہیں کھایا تھا۔ شام ہوئی ہزاروں اصرار کے باوجود اس نے کھانا نہیں کھایا۔گاؤں کے چودھری نے خوشامد کیں حتیٰ کہ منشی جی نے ہاتھ تک جوڑے مگر دیوی راضی نہ ہوئیں۔آخر منشی جی اٹھ کر اندر چلے گئے ان کا قول تھا روٹھنے والے کو بھوک آپ منالیا کرتی ہے۔ مونگا نے یہ رات بھی بے آب ودانہ کاٹ دی۔اور لالہ صاحب اور ان کے غم گسار نے آج بھی پھر جاگ جاگ کر صبح کی۔
آج مونگا کے نعرے اور قہقہے بہت کم سنائی دئیے گھروالوں نے سمجھابلاٹل گئی ۔ سویرا ہوتے ہی جو دروازہ پر دیکھا تو وہ بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔ منہ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ اس کی جان نکل چکی تھی وہ اس دروازے پر جان دینے آئی تھی۔ جس نے اس کی جمع جتھالی تھی۔ اس کو اپنی جان بھی سونپ دی۔اپنی مٹی تک اس کی نذر کردی۔
دولت سے انسان کو کتنی الفت ہے۔ دولت اپنی جان سے بھی پیاری ہوتی ہے۔خصوصا بڑھاپے میں۔ قرض ادا ہونے کے دن جوں جوں قریب آتے ہیں، توں توں اس کا سود بڑھتا ہے۔
یہ ذکرکہ گاؤں میں کیسی ہلچل مچی اور منشی رام سیوک کیسے ذلیل ہوئےفضول ہے ۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ایسے غیر معمولی واقعہ پر جتنی ہلچل مچ سکتی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی مچی۔ منشی جی کی جتنی ذلت ہونی چاہیے تھی اس سے ذرا بھی کم نہ ہوئی۔اب گاؤں کا چمار بھی ان کے ہاتھ کا پانی پینے یا انھیں چھونے کا روادار نہ تھا۔ اگر کسی کے گھر کوئی گائے بندھی بندھی مرجاتی ہے تو وہ شخص مہینوں در بدر بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ نہ حجام اس کی حجامت بنائ۔ نہ کہار اس کا پانی بھرے ،نہ کوئی اسے چھوئے۔یہ گئو ہتیا کا پرایشچت ہے۔ برہم ہتیا کی سزائیں اس سے بدر جہا سخت ۔اور ذلتّیں بدر جہا زیادہ ہیں۔ مونگا یہ جانتی تھی اور اسی لیے اس دروازے پر آکرمری تھی ۔ کہ میں جوزندہ رہ کر کچھ نہیں کرسکتی مرکر بہت کچھ کرسکتی ہوں۔ گوبر کا ایک اپلا جب جل کر راکھ ہوجاتا ہے تو سادھو سنت لوگ اسے ماتھے پر چڑھاتے ہیں ۔پتھر کا ڈھیلا آگ میں جل کرآگ سے بھی زیادہ قاتل ہوجاتا ہے۔
منشی رام سیوک قانون داں آدمی تھے۔ قانون نے ان پر کوئی جرم نہیں لگایا تھا۔مونگا کسی قانونی دفعہ کے منشاء کے مطابق نہیں مری تھی تعزیراتِ ہند میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تھی اس لیے جو لوگ ان سے پرایشچت کرانا چاہتے تھے ان کی سخت غلطی تھی۔ کوئی مضائقہ نہیں۔کہار پانی نہ بھرے وہ خود اپنا پانی آپ بھر سکتے تھے، اپنا کام کرنے میں کوئی شرم نہیں ۔بلا سے حجام بال نہ بنائے گا۔ حجامت کی ضرورت ہی کیا ہے داڑھی بہت خوبصورت چیز ہے، داڑھی مرد کا زیور اورسنگار ہے۔ اور پھر بالوں سے ایسی ہی نفرت ہوگئی تو ایک ایک آنے میں استرے آتے ہیں۔ دھوبی کپڑے نہ دھوئے گا۔ اس کی بھی کچھ پرواہ نہیں صابن کوڑیوں کے مول آتا ہے ۔ایک بٹی میں درجنوں کپڑے ایسے صاف ہوجائیں جیسے بگلے کے پر،دھوبی کیا کھاکے ایسے صاف کپڑے دھوئے گا۔ کم بخت پتھر پرپٹک ٹپک کپڑوں کا لتا نکال لیتا ہے۔ خود پہنے ، دوسروں کو پہنائے ، بھٹی میں چڑھائے ،ریہہ میں بھگوئے ،کپڑوں کی درگت کر ڈالتا ہے ۔جب ہی تو کرتے دو تین سال سے زیادہ نہیں چلتے ورنہ دادا ہر پانچویں سال دوا چکن اور دوکرتے بنوایا کرتے تھے۔ منشی رام سیوک اور ان کی زوجہ غم گسار نے دن بھر یوں ہی دلوں کو سمجھا کر ٹالا۔
مگر شام ہوتے ہی ان کو قوت استدلال نے جواب دے یا۔ان کے دلوں پر ایک بے معنی ‘ بے بنیاد مہمل خوف کا غلبہ ہوا۔ اور رات کے ساتھ ساتھ خوف کا یہ احساس مشکل ہوتا گیا یہاں تک کہ ناگن کھانا پکانے کے لیے رسوئی کے کمرے میں تنہا نہ جا سکی۔ باہر کا دروازہ غلطی سے کھلا رہ گیا تھا مگر کسی ایک کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ جاکر دروازہ بند کرآئے آخر ناگن نے ہاتھ میں چراغ لیا، منشی جی نے کلہاڑا لیا، اور رام غلام نے گنڈا سا۔ اس قطع سے تینوں آدمی چونکتے ہچکچاتے دروازے تک آئے۔ یہاں منشی جی نے بڑی جرأت سے کام لیا۔ انھوں نے بے دھڑک دروازے سے نکلنے کی کوشش کی اور کانپتی ہوئی مگر بلند آواز میں ناگن سے بولے۔ تم ناحق ڈرتی ہو ۔کیایہاں وہ بیٹھی ہے مگر وفادار ناگن نے انھیں اندر کھینچ لیا ۔اور خفا ہوکر بولیں تمھارا یہی لڑکپن تو اچھا نہیں۔
یہ مہم