کنول
کہانی کی کہانی
’’ایک برہمن لڑکی کی کہانی ہے، جسے ایک مسلم لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ چونکہ لڑکا الگ مذہب اور ذات کا تھا اسلیے لڑکی اس سے شادی کرنے سے انکار تو کر دیتی ہے لیکن وہ ایک پل کے لیے بھی اسے بھول نہیں پاتی۔ اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہو جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی اپنی اس محبت کے بارے میں سچ سچ بتا دیتی ہے۔ یہ سچائی جان کر اس کے شوہر کی اس صدمے سے موت ہو جاتی ہے اور وہ لڑکی اپنے عاشق کے پاس لوٹ جاتی ہے۔‘‘
ہم دونوں کے مکان پاس ہی پاس تھے۔ کنول کے پتا تحصیلدار اور میرے ماموں انسپکٹر پولیس تھے۔ کنول مجھ سے چار پانچ سال چھوٹی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بھولا نہیں کہ بچپن میں صبح کے وقت خاک و ہول میں لت پت ہوکر زمین پر گھروندے بنانا ہمارا دل پسند کھیل تھا۔ کنول جب گڑیا گڈے کا کھیل کھیلتی تو میں بھی شریک ہو جاتا۔ اس کی سہیلیاں کنول سے بگڑ کر کہتیں، ’’واہ جی واہ! لڑکیوں میں لڑکے کا کیا کام؟‘‘ مگر کنول میرا ساتھ دیتی۔ وہ میرے بغیر کوئی کھیل نہ کھیلتی۔ کبھی کھیل ہی کھیل میں وہ میری بہو بن جاتی، میرے روٹھنے پر وہ میری دلجوئی کرتی اور جب وہ خود کبھی خفا ہو جاتی تو میں خوشامدیں کرکے اسے منا لیتا۔ کیسے اچھے دن تھے زندگی ایک خوشنما ہمواری تھی جس میں خزاں کا گزر نہ تھا۔ بہار ہی بہار تھی۔ کنول اس پھلواری کی خوشنما کلی تھی روپ رنگ سے، وہ ایک راج کماری معلوم ہوتی تھی۔ صاف نکھرا ہوا رنگ۔ موہنی صورت۔ سارا دن مینا کی طرح باتیں کرتی تھی۔ گھر والوں کے لیے تو وہ کھلونا تھی میں بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ کسی بچہ کو کھلونا اور کسی کو تصویر پسند ہوتی ہے لیکن میں تو کنول اور صرف کنول کو چاہتا تھا۔ اگر بالے پن کا پریم گناہ نہ سمجھائے جائے تو مجھے یہ کہنے میں بالکل جھجک نہیں معلوم ہوتی کہ مجھے اس سے پریم تھا۔
میں اس کی موہنی صورت کو گھنٹوں دیکھا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ اس کا حق صرف مجھ ہی کو ہے۔ اس خیال سے میرا دل چاندنی رات کی طرح کھل جاتا تھا۔ انسان لڑکپن میں سیکڑوں غلطیاں کرتا ہے، یہ بھی ان میں سے ایک ایسی غلطی تھی جس کی وجہ سے سماج نے مجھے برادری سے جدا کر دیا۔ کنول کے پتا پرانے خیالات کے دکشت برہمن تھے۔ نئی روشنی والوں کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے خود شہر کے باشندے مگر ان کی بیوی دیہات کی رہنے والی تھی۔ وہ تعلیم نسواں کے بھی خلاف تھے۔ لیکن کنول کے ماموں نے جو ایک روشن خیال ڈاکٹر تھے چپکے چپکے کنول کو ہندی کی ابتدائی کتابیں پڑھا دیں۔ جب ایک دن تحصیلدار صاحب نے کنول کو خوش الحانی کے ساتھ تلسی کرت رامائن کا پارٹ کرتے سنا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کنول کو تعلیم کاسلسلہ جاری رکھنے کی خوشی سے اجازت دے دی۔ دیوریا تحصیل میں لڑکیوں کے لیے ایک پاٹ شالہ اور لڑکوں کے لیے مڈل اسکول تھا۔ جب کنول پاٹ شالہ میں داخل کی گئی تو مجھے بھی ماموں صاحب نے اسکول میں داخل کردیا۔ اسکول جانے اور وہاں سے واپس آنے میں ہم دونوں کی ملاقات ہو جاتی تھی۔ اسی طرح سے ہنسی خوشی میں لڑکپن کا زمانہ ختم ہو گیا اور بچپن کی بے لوث محبت شباب کی جذبات آلود محبت میں منتقل ہو گئی۔ آج قریب بیس سال ہو گئے لیکن بالے پن کی محبت کا پہلا سبق مجھے آج تک نہیں بھولا اور نہ جیتے جی بھولوں گا۔
بھادوں کا مہینہ تھا۔ کپاس کے پھولوں کی سرخ و سفید ملاحت۔ تل کی اودی بہار اور سن کی شوخ زردی کھیتوں میں بہار دکھا رہی تھی۔ کسانوں کے منڈھوں اور چھپروں پر بھی لوکی اور ترئی کے پھولوں کی بہار تھی۔ اس پر پانی کی ہلکی ہلکی پھواریں قدرتی حسن پر مشاطہ کا کام دے رہی تھیں۔ جس طرح عارفوں کے دل نورِحقیقت سے لبریز ہوتے ہیں اسی طرح ندی اور تالاب پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ شاید راجہ اندر کیلاش کی طراوٹ بیز بلندیوں سے اترکر اب میدان میں آنے والے تھے۔تحصیل دار صاحب اور ماموں جی کہیں دیہات میں دورے پر گئے ہوئے تھے۔ تحصیلی کے پاس ہی ایک باغیچہ تھا۔ قریباً چار بجے سے پہر کا وقت ہوگا میں مالی کی جھونپڑی میں چپ چاپ بیٹھا قدرت کی گلکاری کا نظارہ کر رہا تھا کہ پیچھے سے کنول پکوان کی تھال لے کر آ گئی۔ اس نے کہا، ’’پریم!‘‘ میرا نام کچھ اور ہے۔ لیکن کنول مجھے پریم کہتی تھی۔ میں اس خطاب سے خوش تھا، اس خطاب نے مجھے مجسم پریم بنا دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا جس طرح تالاب میں کنول کا لہرانا بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے اسی طرح میری کنول کی خوبصورتی ہنسی کی لہروں میں جگمگا رہی تھی۔ اس دن سے پہلے میں نے کبھی محبت کا اظہار نہ کیا تھا۔ مجھے کبھی اس کی جرأت ہی نہ ہوئی تھی۔ لیکن آج میں اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے صبح کو کنول کے نوشگفتۂ پھول تالاب سے توڑے تھے۔ وہ لاکھ ’’ہاں۔ ہاں‘‘ کرتی رہی مگر میں نے آگے بڑھ کر ان پھولوں کو اس کے جوڑے میں لگا دیے اور جس طرح ایک پجاری مورتی کے سامنے ڈنڈوت کرتا ہے۔ میں نے بھی ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’دیوی جی، پرنام‘‘۔ پہلے تو اس نے تیوری چڑھائی پھر یکبارگی اس کے چہرہ پر متنانت آ گئی۔ اس نے زبان سے تو ایک لفظ نہ کہا لیکن نیچی نگاہیں اور حیاس سے سرخ رخساروں نے میری دل پر ایسا اثر کیا کہ میں نے آگے بڑھ کر اس کی بلائیں لے لیں۔ وہ بھی بےخودی میں میرا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی۔ دونوں میں سے کسی کے منھ سے کوئی بات نہ نکلی۔ مولسری کی شاخوں کے کان میں ہوا کے جھونکوں نے جو سرگوشیاں کیں شام تک بیٹھے ہم وہی سنتے رہے۔ پکوان کھانے کا کسی کو ہوش ہی نہ رہا۔
دوسری ہی دن ہماری محبت کا افسانہ مشہور ہو گیا۔ پولس کے کانسٹیبلوں اور تحصیل کے چپراسیوں نے میرا مذاق بنا لیا۔ تحصیلدار صاحب کے ایک چپراسی کی یہ سب شرارت تھی۔ یہ آگ اسی کی لگائی ہوئی تھی۔ جب ماموں صاحب اور تحصیلدار صاحب دورے سے واپس ہوئے تو ہماری معصوم اور پاک محبت کی شکایت کی گئی۔ تحصیلدار صاحب نے بدنامی کے خیال سے کنول کا پاٹ شالہ جانا بند کردیا اور ماموں صاحب نےمجھے ایک دن تنہائی میں بلاکر تنبیہ کی، ’’مجھے بہت افسوس ہے کہ تم اب آوارہ ہوتے جارہے ہو۔ بہن نے تم کو میرے پاس تعلیم کے لیے بھیجا ہے، تم کو اپنی عزت کا خیال نہیں تو خاندان کا نام تو بدنام نہ کرو۔ آئندہ اگر پھر میں نے تمہارے متعلق کوئی شکایت سنی تو اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘ شرم و ندامت کے مارے میرا سر نیچا ہو گیا، میری آنکھوں سے آنسو بھر آئے۔ ماموں صاحب مجھے اپنی اولاد سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ ان کی تنبیہ نے میرے دل پر خاص اثر کیا۔ کچھ دنوں تک تو میں کنول کے مکان کے سامنے سے بھی نہ نکلا مگر پھر اس کی محبت نے زور مارا۔ پڑھنے لکھنے میں میرا دل نہ لگتا۔ میں پاگلوں کی طرح سے کنول کے مکان کا چکر کاٹنے لگا۔ میری اس بیوقوفی سے کنول کی بدنامی ہونے لگی۔ وہ یک دن خلاف توقع مجھ سے ملی اور کہنے لگی،
’’پریم! کیا اسی کا نام م حبت ہے۔ یہ محبت نہیں بو الہوسی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے میں آپ کو مل جاؤں گی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ آپ مرد ہیں آپ کا تو کچھ نہ بگڑےگا لیکن میں برباد ہو جاؤں گی، سماج میں منھ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میرا باپ کٹر برہمن ہے، وہ اپنی برادری کے علاوہ اور کسی جگہ میرا رشتہ ہرگز پسند نہ کرےگا۔ ایسی حالت میں بہتر یہی ہوگا کہ آپ مجھے بھول جائیے، سمجھ لیجیے کہ کنول اس دنیا میں موجود ہی نہیں۔ ہمارے درمیان سماج کی دیوار کھڑی ہے اس کو توڑنے کی ممکن ہے آپ میں ہمت ہو۔ لیکن میں اپنے ماتا پتا کو دکھ پہنچانا نہیں چاہتی۔ میں گھٹ گھٹ کر مرجانا پسند کروں گی لیکن اپنے پریم کو دباؤں گی۔ ایں آپ روتے کیوں ہیں کیا مردوں کو رورنا زیب دیتا ہے۔ نہیں یہ تو عورتوں کا کام ہے دل کو مضبوط کیجیے اگر آپ کو میری سچی محبت ہے تو کوئی ایسی حرکت نہ کیجیے جس سے جگ ہنسائی ہو۔ اب میں آپ سے نہ مل سکوں گی۔ مجھ سے خط و کتابت کرنے کی بھی کوشش نہ کیجیے ورنہ مجھے سخت قلق ہوگا۔ میں اب جاتی ہوں۔ میرا کہا سنا معاف کیجیےگا ہاں جانے سے پہلے میں آپ کو یقین دلائے جاتی ہوں کہ گو میں آپ سے نہ مل سکوں مگر میں آپ کی ہوں اور جیتے جی آپ ہی کی رہوں گی۔ عورت صرف ایک ہی مرتبہ محبت کرتی ہے اور اسی محبت پر قربان ہو جاتی ہے۔ اس محبت کی لاج رکھیےگا۔ میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پریم پیارے پرنام!‘‘ کنول چلی گئی اور میں اپنی قسمت کو رونے کے لیے اپنے گھر چلا آیا۔
کچھ عرصہ کے بعد ماموں صاحب کا تبادلہ علی گڑھ اور تحصیلدار صاحب کا تبادلہ متھرا ہو گیا۔ چلتے وقت میں نے کنول سے ملنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں مجھے کامیابی نہ ہوئی۔ علی گڑھ پہنچ کر بھی بہت دنوں تک کنول کی یاد نے مجھے بےقرار