Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجو بھیا

MORE BYقاضی عبد الستار

    کہانی کی کہانی

    افسانہ ایک ایسے شخص کی داستان بیان کرتا ہے جس کا باپ پنڈت آنند سہائے تعلقدار کا نوکر تھا۔ اکلوتا ہونے کے باوجود باپ اسے رعب داب میں رکھتا تھا۔ باپ کے مرتے ہی اس کے پر نکل آئے اور وہ پہلوانی کے دنگل میں کود پڑا۔ پہلوانی سے نکلا تو گاؤں کی سیاست نے اسے گلے لگایا اور اس میں اس نے ایسے ایسے معرکے سر کیے کہ اپنی ایک الگ پہچان بنالی اور ساتھ ہی دوست و دشمن بھی، جنھیں ایک ایک کرکے اپنے راستے سے ہٹاتا چلا گیا۔

    پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کردی۔

    پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پوٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کامقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگاکر اڑنے لگا۔

    شبرات کاچاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آگیے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گیے۔ کڑک کر پوچھا،

    ’’یہ کیا؟‘‘

    منظور نے ممناکر جواب دیا کہ مدّی چچا سے کشتی لڑ رہاتھا۔ مدّی جو بڑے بڑے پہلوانوں سے لنگوٹ چھین چکا ہے؟ شیخ معلوم نہیں کیا کیا سوچ ڈالتے کہ چھوٹے خاں نے چونکا دیا۔

    ’’شیخ جی۔۔۔! بستی میں ساری برادریوں کے چودھریوں نے ایک بات طے کی ہے۔۔۔‘‘

    ’’میں بغیر سنے مانے لیتا ہوں۔۔۔‘‘ شیخ بولے۔

    ’’ماننے کی بات نہیں کرنے کی ہے۔۔۔‘‘

    ’’معلوم بھی تو ہو۔۔۔‘‘

    ’’بات یہ ہے کہ ہماری مسجد ہے بہت چھوٹی اور بستی کے نمازی تو آپ جانتے ہی ہیں پانچ چھ ہزار کی بستی کے نمازی ہیں۔۔۔ سمائیں تو کہاں سمائیں۔ جہاں تک پیسے کامعاملہ ہے تو روپیہ گھر بھی لے لو تو بوری بھر جائے گی۔۔۔ ہاں زمین کی بات ٹیڑھی ہے۔ آپ نے بتیس برس پنڈتوں کی خدمت کی ان سے کہیے کہ مسجد کے سامنے والی ٹکڑی دے دیں۔ رہی نذر نذرانے کی بات تو دس بیس باڑھ لے لیں۔‘‘

    چھوٹے خاں نے تو ایک سانس میں سب کچھ اگل دیا، لیکن شیخ سرجھکائے بیٹھے رہے۔ منظور چلم بھر کر لایا۔ حقے پر رکھ دی، گٹادباکر مہنال باپ کے لبوں تک پہنچائی۔ تھوڑی دیر تک نگاہ کے اٹھنے کا انتظار کیا، پھر شیخ کو مراقبے میں سوتا پاکر دبے پاؤں چلا گیا۔ چودھری قاسم نے سینے پر پھیلی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، کھنکار کر تھوکا پھر بہت چبلا چبلا کر گویا ہوئے، ’’اس شتم کی بھی کوئی انتہا ہے کہ ہندوؤں کی دش بکھریاں ہیں اور مین سوالے مسلمانوں کی ہمار ڈیڑھ ہمار لکھ مال ہیں اور ایک مسجد وہ بھی۔۔۔ ڈیڑھ ہاتھ کی۔‘‘ انہوں نے اپنے لمبے چوڑے بالشت سے پلنگ کی پٹی ناپ کر بتائی۔ اب میر بخش کے لیے بولنا ضروری تھا کیونکہ قاسم سے وہ کم کیسے رہتے۔

    ’’مان پور کے ککراواں والوں کو بھی لگان کے لیے تکاجا نہیں کرنا پڑا۔ نجر نجرانا تک ہم پنچ گھر بیٹھے دے آتے ہیں۔ تمری چار پیسے کی پٹی دیر سے پہنچے یا سویرے لیکن اِن کے پندرہ آنے کی کوڑی کوڑی چکاکر روٹی چھوئی ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر کے بعد شیخ نے گردن اٹھائی، بے نور آنکھوں سے سب کے چہروں پر لکھی ہوئی ایک سی عبارت پڑھی اور مری مری آواز میں بولے، ’’کل صبح ککراواں جاؤں گا۔‘‘

    صبح جب شیخ قرآن مجید کی تلاوت کرکے اٹھے تو منظور کی چارپائی خالی تھی۔ ورنہ وہ الٹی سیدھی ٹکریں مار کر بڑی دیر تک اینڈتا رہتا تھا۔ رجب کی ماں سے پوچھا، اس نے تازی روٹی میں گود گود کر گھی بھرتے ہوئے جواب دیا کہ بھیا بڑی دیر سے باہر گیے ہیں۔ شیخ باہر آئے تو ٹانگن غائب تھا۔ کوٹھری کھولی تو ساز رکھا تھا۔ ہاں لگام غائب تھی۔ شیخ دھک سے رہ گیے۔ صحن میں ٹہلتے رہے اور سورہ یٰسین پڑھتے رہے۔ شیخ ٹانگن کی شرارت جانتے تھے۔ ادھر سوارکی پٹری پگڑی ادھر اس نے پھینکا۔ شیخ جن کی سواری کی جوار میں دھوم تھی ان تک کو یہ ٹانگن پٹخنیاں کھلا چکا تھا۔ اس کی اسی ادا پر تو شیخ ریجھے ہوئے تھے۔ ورنہ انھوں نے کبھی ایک جانور پر دو برس سواری نہیں کی۔

    وہ سوچتے سوچتے باہر نکل آئے۔ آج انھوں نے اپنے آپ کو آمادہ کرلیا تھا کہ منظور کی پٹائی کر ڈالیں۔ ماں کی موت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ لونڈے کو دلار میں چوپٹ کرلیا جائے۔ وہ اپنے غصے کو ابھار ہی رہے تھے کہ ٹاپوں کی آواز آئی۔ منظور ماہر شہسوارکی طرح گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تصویر بنا بیٹھا تھا۔ ٹانگن دھول کی طرح ان کے پاس سے گزر گیا۔ وہ کوٹھری میں پہنچے۔ ٹانگن پسینے میں شرابور بھینسے کی طرح ہانپ رہاتھا۔ وہ پاؤں پٹختے اندر پہنچے۔ منظور رجب کی ماں کے کولہے سے کولہاجوڑے گھی میں ڈوبی روٹیاں کھا رہا تھا۔ انہوں نے اسے چیخ کر پکارا اور صحن میں پڑی ہوئی چوکی پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ اس نے کرتے کے دامن سے اپنا منہ پوچھا اور آکر بے نیازی سے بیٹھ گیا۔

    ’’اٹھائیسواں پارہ سناؤ۔‘‘

    شیخ کی دھاڑ سن کر منظور نے نگاہ اٹھاکر ان کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، بس ریکارڈ بجنے لگا۔ شیخ نے زیر زبرکی غلطی کا بہانہ ڈھونڈھنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن کچھ بس نہ چلا۔ پارہ ختم کرکے منظور اٹھا اور دودھار سے دو کٹورے دودھ نکال کر پانی کی طرح چڑھا گیا۔ شیخ اس کے بدن کی حیرت انگیز اٹھان دیکھتے رہے اور اپنا غصہ بلاتے رہے، مگر وہ کسی طرح آہی نہ چکتا تھا۔ مجبوراً باہر چلے گیے۔ اب دھوپ تیز ہونے لگی تھی اور لوچلنے لگی تھی۔ کھلیان میں تھوڑا گیہوں پڑا تھا، شیخ اٹھوانے چلے گیے۔ گیہوں تو پڑا رہا البتہ شیخ اٹھواکر لائے گیے، لو کے ایک ہی تھپیڑے میں جل کر سیاہ ہوگیے۔

    *

    شیخ کے جنازے پر سارا مان پور رویا تھا۔ منظور تو اکلوتا بیٹا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ منظور کو اس خوشی کا بھی انکشاف ہوا تھاکہ اب وہ ساری رات مدی چچا کے ساتھ کشتی لڑسکتا ہے اور سارا دن ٹانگن پر سواری کرسکتا ہے۔ مڈل اسکول کا بھاری بستہ جو منظور کی بیل کی سی گردن پر گاڑی کے جوئے کی طرح رکھا تھا، پرانے سامان کی کوٹھری میں دفن ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے گھنگھروؤں کی ہمیل ٹانگن کی گردن میں گنگنانے لگی۔ لگام میں ریشم کی ڈوریاں چمک اٹھیں۔ اکھاڑے کو وسیع کرکے اس کی مٹی کو ملائم کیا گیا اورمدی چچا سے منظور کے دو دو گھنٹے داؤں ہونے لگے۔ ٹانگن پہ دس دس میل کے چکر لگنے لگے۔ مان پور کے اُتر اور پچھم میں دور دور تک پاسیو ں کے گاؤں تھے جو سب آپس میں عزیز دار ہونے کے باوجود لڑتے رہتے تھے۔ ان لڑائیوں کا سبب شکایت سے زیادہ قوت کا اظہار تھا۔ تاہم یہ وقت پڑنے پر غیرپاسی کے مقابلے میں ایک ہوجاتے تھے۔ ان میں سب سے مضبوط سب سے اہم اور سب سے وسیع گھرانا راجپورہ کے راج دین کا تھا۔ جس کے درجنوں بھائی دس بیٹے اور اتنی ہی بیٹیاں تھیں۔ ان سب کی شادی بیاہوں نے دور دور تک اس کا اثر پھیلا دیا تھا۔

    راج دین ککراواں کا نوکر تھا لیکن جب شیخ کھر بیٹھے تو شیخ کی جائداد کا منتظم ہوگیا۔ راج دین کا چھوٹا لڑکا رام دین منظور کا ہمجولی تھا اور منظور کو ’’منجد‘‘ بھیا کے بجائے ’’مجوبھیا‘‘ کہتا تھا۔ منجور بھیا کا یہ مخفف رام دین نے اپنی آسانی کے لیے کیا تھا جو دھیرے دھیرے مان پور کی زبان پر چڑھ گیا۔ شیخ کے مرنے کے بعد راج دین نے جائداد کے چھوٹے موٹے کام رام دین کے سپرد کردیے۔ اس کا بہت بڑا سبب منظور کی شخصیت کی دل کشی تھی۔ جس نے رام دین کے علاوہ جوار کے بہت سے مطمئن گھرانوں کے نوخیز لڑکوں کو فتح کرکے اپنی رکاب میں شامل کرلیا تھا، مان پور، سیتا پور، ہردوئی کے سرحد پر تھا اور تین تھانوں میں تقسیم تھا۔ اس نزاکت سے فائدہ اٹھاکر جرم کے جائے وقوع میں ذرا سی تبدیلی کرکے ہر تھانیدار اپنا بار ہلکا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پولیس والوں کی زبان میں مان پور بنجر بھی تھا۔ روایت تھی کہ فلاں کے باپ نے ڈھمکے کے دادا سے دو روپے قرض لے کر پولس کو کسی زمانے میں رشوت دی تھی۔

    مان پور کی مفلسی کے علاوہ ایک وجہ اور بھی تھی جس کی بناپر پولیس یہاں کے واقعات میں دلچسپی بہت کم لیتی تھی۔ مان پور کے دوتھانے ککراواں کے تعلقے میں تھے۔ اور ککراواں کے مختار عالم شیخ منظور علی کا وطن مان پور تھا۔ شیخ کی مراعات نے پولیس کو اخلاقی طور پر مجبور کردیا تھا کہ وہ مان پور کی طرف سے آنکھیں بند کرلے۔ ان حالات نے مان پور کی نفسیات بگاڑ دی تھی۔ جس لڑکے کے ہاتھ پیر سلوتر ہوتے وہ کسی نہ کسی استاد کاشاگرد ہوکر بدن بناتا۔ کسی نہ کسی اکھاڑے میں شامل ہوکر بانا گھماتا۔ گلے میں کالاتاگا اور ڈنڈ پر لال تعویذ باندھ کر سات ہاتھ کی لمبی لاٹھی بغل میں دباتا اور بے پئے جھوم جھوم کر مٹرگشتیاں کرتا۔ جب تک باپ چچا روٹی دے پاتے دیتے۔ پھر وہ دو دو تین تین ضلعوں سے بھاگے ہوئے بدمعاشوں سے یارانہ بڑھاتا، کبھی ضرورتاً کبھی تفریحاً ڈکیتی تک میں شامل ہوجاتا۔ جب معاملہ شیخ کے ہاتھ سے نکل جاتا تو صافے میں کمر بندھواکر جیل چلا جاتا۔ چھوٹ کر آتا تو ’’سسرال‘‘ کے قصے سناتااور دل کو دہلادینے والے قہقہے لگاتا۔

    یہ سب دیکھتے ہی دیکھتے شیخ کے بال سفید ہوئے تھے۔ اسی لیے جس دن منظور نے استاد منے کے اکھاڑے میں لکڑی سیکھنے کی اجازت مانگی۔ اس دن شیخ نے پہلی بار دلار سے منظور کو ڈانٹا۔ قرآن مجید کا سبق لمبا کردیا۔ آموختہ دوبارہ سنا۔ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر منشی لال بخش کو سختی کرنے کی تاکید کی۔ اس فضا میں منظور کا بدن ککڑی کی بیل کی طری پھیلتا گیا۔ اس کی چٹھیا چیونٹیوں کے دل کی طرح بڑھتی گئی۔ منظور کے بجائے مجو بھیا کے نام سے وہ مشہور ہوتا گیا اور نومولود باغ اور کھیتوں کی آپ ہی آپ نگرانی ہوتی رہی۔

    *

    دھنوت کا زمانہ تھا، گیہوں بونے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ستاروں کی چھاؤں میں کھڑے ہوئے مجو بھیا بیلوں کو بچھڑے کے آٹے کی لوئیاں کھلا رہے تھے اور چکی پر گاتی ہوئی پسنہاریوں کے گیت سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہرواہے نے ٹانگن کی بیماری کی خبر دی۔ مجو بھیا کی چٹھیا خبر سنتے ہی دوڑ پڑی، چار چار کوس کے دھاوے مارے۔ جوار بھر کے سیانوں کی بھیڑ لگادی۔ مگر ٹانگن مرگیا۔ یاروں نے تالاب کے کنارے گڑھا کھود کر اس کی لاش دبادی۔ چھوٹے خاں کے بیٹے فجو خاں نے ہانک لگائی۔

    ’’فکر نہ کرو مجو بھیا اگلے سال اللہ نے چاہا تو اس کا عرس کریں گے۔‘‘

    مگر فجو خاں کی اس آواز پر کسی نے کان نہ دھرا۔ مجبو بھیا کو سوگوار دیکھ کر کبڑیوں کے چودھری کا بیٹا بکس اپنا لنگوٹ باندھتا ہواآیا اور مجو بھیا کے چوڑے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، ’’تم گھوڑا پسند کرلو بھیا۔‘‘

    ’’ہاں اور تم گھر کے آنگن سے مٹھور کھود کر روپیہ گن دینا۔۔۔ کیوں نا۔۔۔؟‘‘

    ’’اور جو مٹھور ہی کھود دیں مجوبھیا تو۔۔۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اس کو اکھاڑے کی منڈیر پر اپنے پاس بٹھالیا۔

    ’’مسجد کے پاس جو دس بیگھے کا کھیت ہے۔‘‘

    ’’اس میں کوئنیاں کھود کو آلو بوائے دو۔۔۔ فصل ہے ابھی۔‘‘

    ’’اول تو کنواں کھودنے میں روکڑ لگتی ہے۔۔۔ پھر بیا بسارہ؟‘‘

    ’’کیا یار مجو بھیا باتیں کرتے ہو۔۔۔ ہم پنچ جیسے مٹی کے مادھو ہیں۔‘‘

    اور سارا اکھاڑا اپنے اپنے یاروں کو پکارتا ہوا کھیت میں اتر پڑا۔ مگدر ہلانے اور ڈنٹریں لگانے کے بجائے سب کے سب پھاوڑے اور کدال لے کر جٹ گیے۔ شام ہوتے ہوتے پانی نکال لیا۔ دوسرے دن درجنوں بیریاں کھود کر روندھ دیا۔ تیسرے دن کیاریاں پڑنے لگیں۔ بکس کے باپ نے کہا بھی کہ دس بیگھے آلو سنبھالنا تماشہ نہیں ہے، لیکن لونڈوں نے ایک نہ سنی۔ آلو کاکھیت مجو بھیا کی بیٹھک بن گیا۔ جو آتا چلم کا ایک دَم لگاتا یا ایک بیڑی سلگاتا اور سوپچاس ڈول پانی کھینچ کر کھیت میں بہادیتا۔ بسوے دو بسوئے کی نکائی کردیتا۔ بکس کا باپ بفاتی جس نے فنِ کاشتکاری کے سائے میں آنکھ کھولی تھی اور داڑھی سفید کی تھی۔ اس کھیت کا نگہبان تھا۔ وہ بوڑھے فنکار کی طرح نکتے نکالتا اور مان پور کی ساری جوان اور قوی ہیکل آبادی اپناپسینہ بہاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پھاگن کا مہینہ آگیا۔ دن سونے کی طرح چمک رہاتھا۔ کھیت کے سرہانے کھڑے ہوکرمجو بھیا نے دوسیر جلیبیوں پر نذر کردی۔ اور یاروں نے دو دو جلیبیاں منہ میں رکھ کر کھرپیاں سنبھال لیں۔ اور پاؤ پاؤ بھر کا آلو کھودنے لگے۔ مجو بھیا سڑک کے کنارے والی منڈیر پر کھٹیا ڈالے بیٹھے تھے۔ خیالوں کی چاندی کا خیمہ کھڑا کر رہے تھے کہ ککراواں کے مختار عام ہاتھی ایسے مشکی گھوڑے کی لگام کھینچ کر کھڑے ہوگیے۔ مجو بھیا نے دعا سلام کا بہانہ بناکر ان کو گھوڑا دیکھنے کے لیے اتار لیا۔ بکس نے کھرپی کھٹیا پر رکھ کر گھوڑے کو گھورا۔

    ’’مکھتار صاحب کتنے میں خریدا۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ مختار عام نے لونڈے کو گھور کر دیکھا۔

    ’’گھوڑا۔۔۔‘‘

    ’’گودی بھر کے لگا ہے بچو۔۔۔‘‘

    ’’مگر گن تو لیا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں چھ سو کا ہے۔۔۔‘‘ اور بکس کو اس طرح دیکھا گویا کہہ رہے ہوں کہ سن لیا۔

    ’’بس۔ بڑے سستے ہوتے ہیں گھوڑے اپن نے تو جانا تھا کہ ہجار دوہجار کا ہوگا۔‘‘

    ’’توباندھ لو دوچار۔‘‘

    ’’رسید لکھو گے۔۔۔ منگاؤں کاگذ۔‘‘

    ’’اچھا بچو۔۔۔ منگاؤ۔۔۔ تم بھی کیا یاد کرو گے۔۔۔ مگر سوا چھ سو لوں گا۔‘‘

    ’’ہم تو مختار صاحب ساڑھے چھ سو تک دے مرتے۔۔۔ مگر اب تو تم بات ہی ہار گیے۔‘‘

    بکس تیر کی طرح گھر گیا۔ ماں کے ازاربند سے کنجی کھولی، وہ ہاں ہاں کرتی رہی۔ اور اس نے کوٹھری سے بانس کی پٹاری نکال کرآلو کی گاڑیوں والا روپیہ گننا شروع کردیا۔ پھر چھوٹے خاں کو ساتھ لے کر پہنچا اور بات کی بات میں پہاڑ ایسا گھوڑا کھینچ کر سنسان کوٹھری میں پہنچا دیا۔ جس کے دونوں طرف دروازوں کے بجائے ٹٹیاں لگی تھیں۔ مجو بھیا کو اس وقت ہوش آیا جب گھوڑے اور بیسارے کا چکتا ادا کرکے کوئی دوہزار روپیہ ان کے باپ کی صندوقچی میں چھنچھنا رہا تھا۔ وہ باہری کمرے کے تخت کی کثیف جاجم پر بیٹھے تھے۔ کونے پر رکھی ہوئی لالٹین کی زرد روشنی میں ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ دوہزار روپے کا ڈھیر نور کے پتلے کی طرح ان کی قلب ماہیت کر رہا تھا۔ انہوں نے ایک سچے مرید کی طرح اس کے ارشادات کو اپنی دل کے گرہ میں باندھ لیا تھا۔

    صبح ہوتے ہی بجائے اکھاڑے پر جانے کے انہوں نے اپنے باپ کے وقت کے پھوس ہرواہے طلب کیے۔ ان کو ٹھنڈی آواز میں جواب دیا۔ اپنے مشیروں سے مشورہ کرکے لمبے چوڑے ہاتھ پیر والے دس نوکر بھرتی کیے۔ ان کو سفید قمیصیں، نیچی دھوتیاں، لال انگوچھے اور چمرودھے جوتے پہنائے اور شام کو بکس سے ترکاریاں بونے کے فن پر تبالہ خیالات کیا۔ چھوٹے خاں نے سمجھایا کہ نوکر ایک گاؤں کے ہوتے تو اچھاتھا۔ پھر اس کا بھی خیال رکھنا تھا کہ نوکر غریب گھروں کے ہوں تاکہ داب سہہ سکیں۔ لیکن مجو بھیا نے اپنی فہرست پر نظرثانی نہ کی اور جوار کے اہم ترین، گاؤوں کے اہم ترین گھرانوں کے نوجوان اور سرکش پاسی چماروں کا دستہ برقرار رہا۔ مجو بھیا ان کے ساتھ ڈنڈیں لگاتے بھگوئے ہوئے چنے کھاتے۔ ان کے غموں میں آنسو بہاتے، ان کی خوشیوں میں قہقہے لگاتے۔

    دن گزر رہے تھے۔ کھیت چاندی اگلنے لگے۔ دو دروازوں کی مختصر سی کوٹھری وسیع ہوکر اصطبل بن گئی اور اس میں تین رنگوں کے گھوڑے ہنہنانے لگے۔ نوکروں کی تعداد دوگنی ہوگئی۔ شیخ منصور علی کے آبائی مکان کی مشرقی دیوار ڈھادی گئی۔ اور کٹہل کے باغ کی دانتی تک سارا رقبہ گھیر لیا گیا۔ اس میں چھے کمرے بنے، دالان کھڑے ہوئے، پھر سارا مردانہ سفید قلعی کے براق کپڑے پہن کر اترانے لگا۔ کوٹھیوں اور کمروں میں بھرا ہوا مردہ فرنیچر رام لکھن بڑھئی کے علاج میں دے دیا گیا، جس نے سیروں اسپرٹ اور چپرہ پلاکر اسے زندہ کردیا اور مان پور کا سب سے بڑا مکان دور سے نظر آنے لگا۔

    الوداع کے دن حافظ چھنگانے بڑی کوشش کی لیکن جمعہ پڑھانے کے لیے مسجد تک نہ آسکے۔ چودھری منیر بخش نے چھوٹے خاں کے کان میں گھن سے کچھ کہا اور اٹھ کر آگے کے رو میں بیٹھے ہوئے مجو بھیا کو ان کے کرتے کی چنی ہوئی آستین پکڑ کر اٹھالیا اور منبر پر کھڑا کردیا۔ مجّا نے لپک کر اپنے بوڑھے ہاتھوں سے اپنی پگڑی اتاری اور مجو بھیا کے کامدار پلے پر لپیٹ دی۔ مجو بھیا نے طاق پر رکھی ہوئی کتاب اٹھالی اور ٹھنڈی آواز میں خطبہ شروع کردیا۔ گویا شیخ کو آموختہ سنا رہے ہوں۔ پھر مان پور کی کچی عیدگاہ کے صحن میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بغیر داڑھی کے نوجوان مجو بھیا کی امامت میں صف آرا ہوگیا۔ چھوٹے خاں نے جب گرج کر تکبیر کہی تو ان کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے ہوئے حافظ چھنگا کی بیمار آنکھیں چھلک پڑیں۔

    مجو بھیا نے مان پور اور اس کے جوار کے مسلمانوں کا احترام کیا اور نوجوان درگا سہائے کو چکمہ دے کر مسجد کے سامنے کی ساری زمین اپنی نجی ضرورت کے لیے خرید لی۔ رجسٹری ہوتے ہی اپنی جیب سے مسجد میں پیوندکاری کی طرح ڈال دی۔ درگا سہائے نے یہ خبر سنی تو آگ ہوگیے۔ پچاس آدمیوں کو چاروں بندوقیں دے کر مان پور چڑھ آئے۔ مجو بھیا کو سن گن مل چکی تھی۔ ایک ہی للکار میں سارا جوان مان پور ڈھاٹے باندھ کر کیل کانٹے سے لیس ہوکر دوڑ پڑا اور مجو بھیا کے دوارے ان گنت رانوں کی مچھلیاں اور گرم نگاہوں کی بجلیاں تڑپنے لگیں۔ بوڑھے بوڑھے آدمی چپ سادھے بے قرار قدموں سے ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ ککراواں راج کے سامنے پہلی بار مان پور نے سر اٹھایا تھا۔ تجربے کار ہندوؤں نے بستی کے ڈانٹرے پر نیم دائرہ بناکر ہاتھی کو روک لیا۔ بل کھاتے درگا سہائے کو رتی رتی حال بتاکر قانونی اونچ نیچ سمجھائی۔ ان کی چھاتی کے شعلے تو کم ہوگیے لیکن آگ لگی رہی۔

    شیخ مسرور علی مختار عام کے مرنے کے بعد پہلی بار درگا سہائے مان پور آئے تھے۔ بڑی ہچر مچر کے بعد ہاتھی مجو بھیا کے چبوترے پر لگا دیا گیا۔ سپاہیوں کی باہوں پر رکھی ہوئی سیڑھی کے سبک ڈنڈوں پر پاؤں رکھ کر درگا سہائے اتر آئے۔ مجو بھیا نے سلام کرکے ہاتھ ملایا۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دالان میں آئے۔ ان کو آرام کرسی پر بٹھاکر نئے سیٹ میں برف کا شربت پلوایا۔ لکھنؤ کے خریدی ہوئی نئی سٹک کی منہال پیش کی۔ آم کے بور، کٹہل کی فصل اور گیہوں کے بھاؤ پر باتیں کیں۔ ہاتھی پر چڑھتے ہوئے درگا سہائے نے مجمع کے چہرے پر سرکشی کی ایک سی عبارت پڑھ لی۔ اور متردد ہوکر چاروں بندوقوں کو عقب میں لیے ہوئے چلے گیے۔ جب سڑک کی موڑ کے اندھیارے میں ہاتھی کھو گیا تب مان پور کے بوڑھے چہروں پر بحالی آئی۔ اور جوانوں کے سینے اور پھول گیے۔ دھیرے دھیرے بستی کے چوپالوں کی عدالتیں مجو بھیا کے دالانوں میں ضم ہوگئیں۔ یہاں پٹواری کے کاغذات سے لے کر دیور بھاوجوں کے تعلقات تک درست ہونے لگے۔

    دیکھتے ہی دیکھتے مان پور کے بنیوں کی بھینسوں کے تھن سوکھنے لگے۔ دس دس روپے پر دس دس دن میں دو دو روپے سود ادا کرنے والے گودی بھر بھر کر روپیہ لے جاتے اور کوڑی کوڑی پھوڑ کر اداکرتے۔ مگر مجو بھیا کی تیوری پر بل نہ آتا۔ بہتوں نے تو مار بھی لیا۔ لیکن کچہری عدالت کا تو کیا ذکر مجو بھیا نے منہ سے کچی بات بھی نہ کہی۔ مان پور ان کو دل سے زیادہ نگاہ کا سچا سمجھتا تھا۔ گھر میں جب بیسارہ بنایا جاتا اور عورتوں کے ریوڑ لق و دق آنگن میں چھٹا بچھیوں کی طرح کلیلیں کرتے تو وہ کمرے میں لیٹے کڑیاں گناکرتے، سنسناتی دوپہروں میں جب ڈھور ڈنگر تک اپنے تھانوں پر یا درختوں کے سایوں میں جگالی بھول کر آنکھیں میچ لیتے تو ان کے ہاہا ہوہو کرتے مکان میں رجب کی اماں کی سبک سجل پوتیاں نواسیاں لچھے توڑے نچایا کرتیں۔

    پاس پڑوس کی۔۔۔ آنکی بانکی ترچھی مانگی بیاہی عورتیں کھلے ڈھکے سے بے نیاز مجو بھیا کو دودھ پیتا سمجھ کر ٹھٹھے لگایا کرتیں۔ چھیڑ چھاڑ کرکے وہ دھماچوکڑی مچاتیں کہ رجب کی اماں گالیوں کاآموختہ سنانے بیٹھ جاتیں۔ مگر مجو بھیا مورتی کی طرح بیٹھے رہتے۔ جوان جہان مجو بھیا آنگن میں دھمر دھمر کرتے آتے تب بھی ان کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ عورتیں اپنے جونک ایسے بچوں کو دودھ پلایا کرتیں۔ گھٹنوں کی اندھوریوں پر ٹھنڈے ٹھنڈے پنڈول کا برادہ چھڑکتی رہتیں۔ کوئی بڑا لحاظ کرتی تو پاس پڑا ہوا موٹا موٹا دوپٹہ اٹھاکر مٹیوں سے گوندھے ہوئے سر پر ڈال لیتی۔ بہت سی تو اس کی بھی زحمت نہ کرتیں۔

    کالے خاں کی گوری دلہن موٹی موٹی لال لال برتوں پر لگانے کے لیے آنبا ہلدی لینے آئی، رجب کی اماں ابھی ڈبے ٹٹول رہی تھیں کہ بھیا آگیے۔ وہ اٹھی اور راستہ روک کر کندھوں تک اپنی کرتی اُلٹ دی اور برتیں دکھلادیں۔ بھیا کنواریوں کی طرح آنکھیں جھلائے کھڑے اس کی شکایت سنتے رہے اور چلے گیے۔ سڑک کے کنارے جوان عورتوں کو گھاس چھیلتے دیکھ کر وہ سایہ چھوڑ دیتے اور چلچلاتی دھوپ میں بھنتے چلے آتے۔ اپنے باغ میں عورتوں کو اٹکھیلیاں کرتے دیکھ کر دور ہی سے واپس چلے آتے۔ یہ سب کچھ تھا مگر حاجی میٹھے کی دولہن للّی کو دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکن بگڑ جاتی۔ ہاتھ پیر سنسنانے لگتا اور وہ اس جادو کو اپنے سر سے اتار پھینکنے کے لیے لنگوٹ باندھ کر پانچ سو ڈنڈیں نکال دیتے۔ گھوڑا کھینچ کر دس پانچ میل کا چکر لگا ڈالتے پھر بھی چین نہ آتا تو چار چھ بالٹیاں سر پر انڈیل لیتے۔

    حاجی میٹھے گھوڑے بیل کے تو حکیم تھے ہی، حج کے بعد معلوم نہیں کس سادھو نے کون سی بوٹی بتادی کہ وہ برص کا علاج بھی کرنے لگے۔ پہل پہل تو لوگوں نے ٹھٹھول جانا لیکن منا دھوبی کے بھلے چنگے ہوتے ہی قادر نے آنکھیں جھپکائیں اور ایک دن مسجد سے نکلتے ہی حاجی کو پکڑ لیا۔ اٹھارہ بیس سال کی جوان جہان للّی نے اپنا پیٹ اور کمر کھول کر دکھادیا۔ دھبے دیکھ کر جواب میں حاجی نے قادر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔

    ’’چالیس دن لگیں گے۔‘‘

    اور قادر کی آنکھوں میں تشکر مسکرانے لگا۔ ابھی بیس بائیس دن بھی نہ گزرے تھے کہ للّی کے گال کا داغ بجھنے لگا۔ چیت کی تپتی دوپہر تھی۔ للّی کھانا کھاکر کوٹھری میں گئی کہ لیپ لگا کر لیٹ رہے۔ مگر ٹین کا ڈبہ خالی پڑا تھا۔ باہر آئی تو باپ خراٹے لے رہاتھا۔ ماں پڑوس میں گئی تھی۔ مجبوراً ڈبہ پکڑے پکڑے حاجی کے گھر چلی گئی۔ بروٹھے میں پیڑھی پر حاجی بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ چار خانے کے تہبند سے نکلی ہوئی بانس کی پنڈلیوں پر چیوٹیوں کی طرح کالے کالے بال لسے ہوئے تھے۔ کالی داڑھی سینے کی ہڈیوں پر چھائی ہوئی تھی۔ حقہ پینے میں ان کا پیٹ کمہار کی دھونکی کو منہ چڑا رہاتھا۔ املی کے بیجوں جیسی آنکھیں اٹھاکر انہوں نے للی کو دیکھا۔ بائیں گال کو غور سے دیکھا، لیکن دھبہ نظر نہ آیا۔ سرخ گالوں پر لانبی لانبی پلکوں کے پیچھے چپتی ہوئی بغیر کاجل کی کالی کالی آنکھیں دیکھ کر وہ سنسنا گیے۔ حاجی کی نظر جھک گئی، لیکن پھر اٹھ کر للی کے کولہوں پر پھنسی ہوئی کرتی سے لٹک گئی۔ حاجی میٹھے کے وجود کے اندر چھپا ہوا مرد آج کلثوم کی موت کے بعد پہلی بار ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا تھا۔ حاجی نے خشک ہوتے ہوئے گلے کو دھوئیں سے ایک بار ترکرکے حقہ ہٹادیا۔

    ’’وہاں ترواہے میں دوا کا مروا دھراہے۔‘‘ حاجی نے آہستہ سے کہا اور کالے لہنگے کی گوٹ سے بیزار سفید پنڈلیوں کا رقص دیکھنے لگے۔

    ’’ملا ناہیں۔‘‘

    ’’ناہیں۔‘‘

    حاجی اپنے مرتعش وجود کو گھسیٹتے ہوئے ترواہے کے پیچھے والے کمرے میں گھس گیے۔ مروا اٹھاکر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولے۔

    ’’لے۔‘‘

    زندگی میں پہلی بار للی کو انجانامیٹھا میٹھا خوف محسوس ہوا لیکن وہ چلی گئی۔ جیسے وہ مرچوں سے لال آلو کھانے کے لیے چونے سے کٹا منھ کھول رہی ہو۔ حاجی نے کالی کالی دوا سے بھری ہوئی انگلی اس کے بائیں گال کے پھول پر لگادی۔ لگاتے رہے۔ وہ کھڑی رہی جیسے نٹ رسی پر کھڑا ہوا۔ پھر حاجی نے اس کی کرتی کادامن بائیں ہاتھ کی چٹکی سے پکڑ لیا۔ اور للی کو ایسا لگا جیسے لال لال سلاخیں اس کی کمر سے چھو گئی ہوں۔ وہ چلاوے کی طرح تڑپ کر کونے میں کھڑی ہوگئی۔

    ’’دواڈبے میں دھردیو۔‘‘

    ’’للّی۔‘‘

    حاجی کی آواز کے ارتعاش نے خود ان کو چونکا دیا۔ للّی نے وحشی آنکھیں اٹھاکر ان کو دیکھا۔

    ’’تمہاری چھوٹی بہن کی گود میں چار لڑکے ہیں۔۔۔ اور تمہارے ابھی ہاتھ تک پیلے نہیں ہوئے۔۔۔ تم بڑی پیاری ہو۔۔۔ لیکن کون باپ اپنے آٹھ برس کے بیٹے سے تم کو بیاہے گا۔۔۔ تم کو جو ملے گا۔۔۔ دوہجا ہوگا۔۔۔ تو بوڑھا میں بھی نہیں ہوں للّی۔۔۔ پھر کوڑھ کی دوا۔۔۔ چالیس دن کی نہیں ہوتی۔۔۔ چالیس برس کی بھی نہیں ہوتی۔۔۔ عمر بھر کی ہوتی ہے۔۔۔ عمربھر کی۔۔۔ مان پور میں کون مائی کا لال ہے جو عمر بھر کا پھوڑا اپنے ہاتھ سے اپنے کلیجے پر باندھ لے گا۔۔۔ میرے لڑکے ہیں نہ بالے۔۔۔ نہ گوشت روٹی جڑتی ہے۔۔۔ اور نہ چبیناچباتا ہوں۔ بولو للّی۔ بولو ہے نا؟‘‘

    حاجی بڑھتے ہوئے چلے گیے۔ دوا والی انگلی تہبند میں پونچھ لی۔ پھر للّی نے محسوس کیا کہ حاجی کی داڑھی کے کالے کالے بال اس کے گریبان میں میں گڑ رہے تھے۔

    پھر ایک جمعہ کو قادر نے للّی کو پانچ کپڑے اور سات برتن دے کر حاجی میٹھے کے ساتھ رخصت کردیا۔ شادی کے بعد للّی جو باہر نکلی تو مان پور چونک پڑا۔ لوہے کی بالٹی پر سونے کی قلعی ہوگئی تھی۔ سارنگی کے تاروں کی طرح کساہوا انگ انگ بجنے لگا تھا۔ جریٹھی لوکیوں کا جھوا سر پر رکھ کر جب وہ شرماتی ہوئی بازار میں پہنچی تو دور دور تک دلوں نے دھڑکنا چھوڑدیا۔ بکس کو یقین نہ آتا کہ یہ قادر پھوپھاکی وہی لونڈیا للّی ہے جس کے ہاتھ کی چلم پیتے ابکائی آتی تھی۔ للّی کے مہندی لگے ہاتھ اس وقت تک ناچتے رہے جب تک جھوا دیکھنے والوں کی چھاتیوں کی طرح خالی نہ ہوگیا۔ حاجی میٹھے چونک پڑے۔ ایک دن للّی نے حاجی کے سر سے جھوّا اتروایا۔ اس میں سے مارکین کا ٹکڑا گرپڑا۔

    ’’یو کا ہے حاجی۔‘‘

    ’’تیری شلوار کے لیے لایا ہوں۔۔۔ لہنگا کرتی بڑا ننگا پہناوا ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    للّی نے کپڑا اٹھایا اور پاؤں پٹختی ہوئی گئی۔ کپڑا چولہے میں جھونک دیا۔

    ’’میاں جی۔۔۔ میں بیاہ کے آئی ہوں نہ پتریاں ہوں نہ لونڈی۔‘‘

    حاجی اپنی چیاں سی آنکھیں جھپکاتے رہے۔ اس دن کے بعد حاجی نے للّی سے کبھی نہ پوچھا کہ کل تو نے فجو خاں کے گھونسہ کیوں مارا تھا۔ یا بکس کے ساتھ ترواہے میں بیٹھی دو گھنٹے تک کیا باتیں جٹیلتی رہی۔ حاجی بازار اور نماز کے علاوہ کسی بات کو اپنی توجہ کا مرکز نہ سمجھتے تھے۔

    یوں تو سارا جوان مان پورندیدے لڑکوں کی طرح اس کے بدن کو گھورا کرتا لیکن تراب کی آنکھیں جب اس کی کرتی کے فراز پر پڑتیں تو اس کی جان میں بھنگرے لگ جاتے۔ معلوم نہیں کیوں للّی کو اس کی ننگی نظریں کوئی ذلیل منصوبہ بنتی ہوئی نظر آتیں۔ اس تصور کے آتے ہی اس کی فطری شعلہ مزاجی پر تیل کی دھار گرپڑتی۔ اور وہ حاجی کی کسی بات کسی حرکت کو بہانا بناکر ان کے ایسے ایسے بکھان کرتی کہ وہ بیچارے کھونٹی سے تسبیح اٹھاکر مسجد چلے جاتے، یا کھرپی لے کر اپنے کھیت میں جابیٹھتے۔ مگر اس کی آگ نہ بجھتی اور وہ دوپٹے کی بے نیازی سے بے نیاز پاؤں پٹختی ہوئی تائیں تائیں مجو بھیا کے پاس پہنچ جاتی۔ مجو بھیا چاہے ڈنڈیں لگا رہے ہوں، چاہے کھانا کھا رہے ہوں، چاہے بیا بسارنے کا مسئلہ لیے بیٹھے ہوں، چاہے لگام ہاتھ میں لے کر رکاب میں پاؤں ڈال چکے ہوں۔ للّی کو دیکھ کر بدمزاج ماں کے سعید بچے کی طرح کھڑے رہتے۔ اس کی ہر بات کی تائید کرتے اور نظریں جھکائے جھکائے۔۔۔ حاجی میٹھے کو ڈانٹنے کا وعدہ کرلیتے۔ اور اپنی ضدی نگاہوں کو ہاتھ پکڑ پکڑ کر للّی کی کرتی سے جھانکتی ہوئی کمر سے کھینچ لاتے۔

    بقرعید کا مہینہ ڈوب رہا تھا۔ پہلے پانی کا دن تھا۔ حاجی میٹھے خربوزوں کا جھوّا اٹھواکر جمعہ کی وجہ سے جلدی چلے گیے۔ للّی کیان کے جھالے میں باہوں کے خنجر دھو رہی تھی۔ آستینوں کے نیام الٹے پڑے تھے۔ کانوں میں جھولتے ہوئے بڑے بڑے جھمکے براکر اب وہ منہ دھونے لگی تھی کہ اس کی منارکہ مرغیاں زور زور سے کڑکڑانے لگیں۔ وہ چونک پڑی کہ کہیں منگلو۔۔۔ کی بچھیاں تو نہیں گھس آئی ہیں۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو دروازے کے پٹ کھلے تھے اس کی دہلیز پر کتا لیٹا ہوا تھا۔ آنگن میں بورے پر پھیلے ہوئے لال لال مرچے چمک رہے تھے۔ اس کے چبوترے کے برابر منگلو قصائی کے دروازے کے اوٹے پر تراب بیٹھا ہوا تھا۔ للّی نے اسے دیکھتا پاکر آنکھیں جھکالیں اور ہاتھ سست پڑگیے۔ لانبا آدمی اوٹے پر بیٹھا ہوا تھا مگر معلوم ہوتا تھا جیسے کھڑا ہو۔ دھنّی ایسے ہاتھ پاؤں، دیوار کی طرح چوڑا چکلا تراب سڑک پر راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا تو للّی کو گردن اٹھاکر اسے غصیلی نگاہوں سے دیکھنا پڑتا۔

    تراب کو وہ کنوارپن میں بھی دیکھ چکی تھی۔ محرم میں بانا گھماتے ہوئے، ہولی میں نقل بناتے ہوئے، عید گاہ کے کنویں پر وضو بناتے ہوئے، لیکن اب تو ایسے دیکھتے ہی للّی کا خون کھولنے لگتا۔ اس کو معلوم تھا کہ یہ وہی تراب ہے جسے بھیکم پور کے گدیٰ گدیوں کی ناک کہتے ہیں، جس کے ہاتھ پیروں کی باڑھ دیکھ کر گدیوں نے ایک بھینس وقف کردی تھی کہ تراب دودھ پئے اور محنت لگائے۔ یہ وہی تراب تھا جس نے دن دھاڑے بھکا پاسی کی دولہن اٹھاکر اپنے گھر میں ڈال لی تھی۔ اور میلوں تک پھیلے ہوئے پاسیوں کے گاؤں ٹکر ٹکر دیکھا کیے تھے۔ یہ وہی تراب تھا جس نے منگلو ایسے سرکش کی چاند ایسی دولہن پر چھاپا مار لیا تھا۔ کہنے کو تو منگلو اب بھی کہتا تھا کہ تراب سے اس کی بیوی کی نہیں، اس کی خود کی یاری ہے، لیکن مان پور والے جانتے تھے کہ تراب چندہ کے ساتھ کوٹھری کے دروازے بند کرکے نماز نہیں پڑھتا ہے۔

    للّی بیٹھی ہوئی نہ جانے کب تک یہی الم غلم سوچا کرتی کہ چھروں کی طرح بڑے بڑے بوند پڑنے لگے۔ اس نے گردن اٹھاکر بھونرا ایسا سیاہ بادل دیکھا اور نتھنی میں پھنسی ہوئی بالوں کی لٹ درست کرتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔ پھر اپنے نئے لہنگے اور رنگی ہوئی کرتی کے خیال سے خربوزوں کا جھوا اٹھاکر سر پر رکھ لیا اور دھچکتی ہوئی چلتی۔ دوچار ہی قدم گئی تھی کہ حاجی کے چادرے پر نظر پڑی۔ مجبوراً رک گئی۔ چادرے کا اڑوا بنا کر سر پر رکھا اور جھونک دے کر جھوے کو اس پر دھرلیا۔ دوخربوزے گر بھی پڑے مگر وہ بھیگتی ہوئی اور بھاگتی ہوئی چلی ہی گئی۔ بوجھ کی وجہ سے کھیت کی خندق پار کرنا مشکل تھا، اس لیے چکر کاٹ کر وہ منگلوکے دروازے سے نکلی۔ تراب کی بھوری آنکھیں اپنی کرتی پر جمی دیکھ کر اس نے دوپٹہ درست کرنے کی کوشش کی لیکن بھیگی ہوئی زمین پر بھاری جھوے کو ایک ہاتھ سے سنبھالنے کی ہمت نہ ہوئی۔

    ’’خربوزے بکاؤ ہیں؟‘‘

    جیسے شیرے کے ڈھول پختہ سڑک پر لڑھک رہے ہوں۔ وہ بغیر جواب دیے تیز تیز قدموں سے نکلی جارہی تھی کہ ایک فقرہ جوتے کی طرح اس کے منہ پر اور پڑا۔

    ’’اور یہ کرتی والے۔‘‘

    وہ جھنجھنا اٹھی۔ اس کاجی چاہا کہ جھوا پھینک کر اس مرھے کامنہ نوچ لے۔ لیکن کسی نے اس کے جھمکے کے پا س منہ لاکر آہستہ سے کہا کہ للّی یہ نہ فجو خاں ہے نہ بکس۔۔۔ یہ تراب ہے تراب۔ اس نے زندگی میں پہلی بار یہ گندا فقرہ سنا تھا۔ حاجی میٹھے حاجی تو تھے ہی لیکن وہ مان پور کی سب سے بڑی برادری کے چودھری کے بھائی بھی تھے۔ سب جانتے تھے کہ وہ موقعہ بے موقعہ بگڑ کر حاجی کو بیسارے کی کوٹھری میں بند بھی کردیتی لیکن کسی کی کیا مجال کہ وہ حاجی سے اس تضحیک آمیز موضوع پر گفتگو کرتا یا للّی سے اشارتاً کنایتاً بھی ذکر کرتا۔ اس فضا میں پلی ہوئی للّی تراب کے فقروں کو جھیل نہیں پائی۔ جب پہلی بار اس نے تراب کی جلتی ہوئی نظریں اپنے بدن کے نازک خطوط پر محسوس کی تھیں۔ تبھی اس نے باتوں باتوں میں بکس سے ذکر کیا تھا۔ لیکن بکس کو چپ سی لگ گئی تھی۔ اسے حیرت بھی ہوئی تھی کہ بکس مان پور کا سب سے بہیڑا اور لڑاکا جوان جس کے بدن میں آگ بھری ہے، جس کا غصہ برساتی نالے کی طرح چڑھا رہتا وہ ایسی بات پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کیسے بیٹھا رہا۔ وہ سوچتی اور چولہے پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح کھولتی رہی۔ ایک بار اس کی نظر چھینکے پر دھری روٹی کی طرف اٹھ بھی گئی لیکن آج بھوک کہاں تھی۔ وہ چار پائی توڑتی رہی۔ حاجی نماز پڑھ کر آئے اور جھوا ترازو لے کر بازار کو چلے بھی گیے۔ مگر وہ چارپائی توڑتی رہی۔

    ’’حاجی چچا۔۔۔ ہوت۔‘‘

    للّی دلارے پاسی کی آواز سن کر بجلی کی طرح اٹھی، ہاتھ چارپائی کے مچوے پر جھولتے ہوئے دوپٹے پر خودبخود پڑگیا۔ لیکن اس نے اسے چھوکر چھوڑ دیا۔ اور بڑے لاڈ سے بولی۔

    ’’کون دلارے۔‘‘

    ’’ہاں چچی۔۔۔‘‘

    ’’چلے آؤ۔‘‘

    رام دین دلارے کا چھوٹا بھائی مجو بھیا کا نوکر تھا۔ اور مجو بھیا للّی کا کچھ ایسا احترام کرتے کہ دلارے بھی رام دین کی طرح للّی کے چمچماتے منہ پر آنکھیں نہ گاڑ پاتا۔ ویسے دل اس کا بھی للّی کو دیکھ کر دھڑک اٹھتا تھا۔ آج للّی کی آواز میں گڑ کی مٹھاس پاکر وہ بھونچکا ہوگیا۔ پھر اپنی گولے دار لاٹھی دروازے کے کواڑ سے ٹکاکر مٹیالے ہوتے بھیگے آنگن پر ہولے ہولے دھرتا ہواچھپر کے نیچے کھڑا ہوگیا۔

    ’’تم تو ایسا منہ لٹکائے کھڑے ہو جیسے دولہن بھکا کی نائیں تمری اٹھائے لی گئی۔‘‘

    دلارے نے چھاتی کھجلاکر آنکھیں جھکالیں۔

    ’’چچی تم سے یہ امید ناہیں رہے۔۔۔ مل اب تم ہوں جوتے مارے لگیو۔‘‘

    ’’جب تک تراب جیت ہیں جب تک جوتے مارے والی بات ہے یا۔۔۔ کے دلارے اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیو۔۔۔ کہ نائیں ہے۔‘‘

    ’’ہے۔۔۔ چچی۔۔۔ گلے گلے پانی مان ہے۔‘‘

    ’’کیسے آئے ہو؟‘‘

    ’’آئین کا۔۔۔ تنی ادرک چہی ہے۔۔۔ ہے؟‘‘

    ’’ہاں ہے کاہے نائیں۔‘‘

    اور کونے میں دھری ناند کی بھیگی بالو میں ہاتھ ڈال کر ادرک کی گانٹھیں نکال لیں۔ اور دلارے کے حوالے کرکے چارپائی پر بیٹھ گئی۔ دلارے جس کی نگاہوں کی گرفت اس کے بدن پر سخت ہوگئی تھی ادرک پکڑ کر چونک پڑا۔ للّی نے بالو سے بھرے ہوئے ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر باندھ لیے۔

    ’’دلارے اب کہ جمنی نائیں کھیلیو۔‘‘

    ’’جتنی کھاؤ۔۔۔ منَن جمنی ہیں۔‘‘

    ’’تو کھیلیو۔۔۔ اچھاکہاں کی کھیلیو؟‘‘

    ’’تم چچی جہاں کی بتاؤ۔۔۔ وہاں کی اَن دی جائیں۔‘‘

    دلارے مزے میں آگیا تھا۔ للّی کے مسکراتے ہونٹ اور بولتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مجو بھیا کا سایہ اس کے سر سے غائب ہوگیا اور اس نے ہاتھ بڑھاکر اور ضرورت سے زیادہ جھک کر للّی کے لہنگے پر بالو کی انگلیاں جھاڑدیں۔ للّی کے گھٹنے پر ہاتھ پڑتے ہی دلارے کی ریڑھ کی ہڈی پر کسی نے برف کی استری کردی۔ اور پسینے میں ڈوبی ہوئی للّی کی خوشبو اس کی ناک میں آئی۔

    ’’مکھن والے درخت کی جمنی لاؤ دلارے تو ہم جانیں کہ چچی کا بھتیجہ بڑا مرد ہے۔‘‘ دلارے نے سیدھے ہوکر چچی کی کرتی سے جھانکتی ہوئی کمر کی دھار دیکھی اور ہاتھ کے گوپھے میں ادرک کی گانٹھیں سنبھالیں۔

    ’’لائب۔۔۔ چچی لائب۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مرا۔ ابھی وہ آدھے آنگن ہی میں تھا کہ للّی نے کہا، ’’کہیں تراب تمریو دولہن نہ اٹھا لے جائے۔‘‘ دلارے نے گھوم کر للّی کو دیکھا، ایک منٹ کے لیے ٹھٹکا اور دھمر دھمر پاؤں رکھتا چلا گیا۔

    مان پور میں داخل ہونے والی سڑک کے دونوں طرف ایک قطار میں سب سے پہلے قصائیوں کے مکانات تھے۔ جہاں سے گزرتے ہوئے ادھوں کے بیل دندک اٹھتے تھے۔ آخری مکان منگلو کا تھا۔ منگلو اور حاجی میٹھے کے مکان کی دیوار مشترکہ تھی۔ اس دیوار میں دروازہ بھی مشترکہ تھا۔ جسے للّی عموماً بند رکھتی۔ لیکن منگلو کی بیوی چندہ یوں تو سارے مان پور کی سڑکیں کچی کرتی تھی۔ لیکن للّی کے پاس جانے کے لیے وہ ہمیشہ دروازہ کھلواتی تھی۔ منگلو اور حاجی میٹھے کے مکان کے سامنے کچھیانے کے کھیت تھے۔ ان کھیتوں نے ہی تراب اور چندہ کی محبت کو جنم دیا تھا اور ان کا راز بھی فاش کیا تھا۔ تراب رات کے اندھیرے میں انھیں کھیتوں کو روندتا ہوا چندہ کی چاندنی لوٹنے جایا کرتا تھا۔ صبح جب حاجی میٹھے پھوٹی ہوئی لوکیوں کو دیکھتے تو نوکر پر بخار اتارتے۔ نوکر نے بڑے جتن سے تراب کو پکڑا۔ لیکن تراب کو ہاتھ لگانا تو درکنار الاہنا دینا بھی مصیبت بن سکتا تھا۔ نوکر بے چارہ چپ رہا اور اس کے ساتھ ساتھ حاجی بھی چپ ہو رہے۔ مگر قصائیوں کے ساتھ ساتھ کبڑیے بھی تراب کے وجود کی دکھن محسوس کرنے لگے تھے۔

    آج صبح پٹیاپانی برسا تھا۔ للّی کا سارا چھپر تالاب بن گیا تھا۔ پانی تھم چکا تھا لیکن وہ کونڈا لیے پانی الچ رہی تھی کہ چندہ نے دروازہ بھڑبھڑایا۔ وہ بربراتی ہوئی گئی اور دروازہ کھول دیا اور مڑ گئی۔ بیچ آنگن میں اسے چھن چھن کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ہاتھ سے چندہ نے اپنی شلوار کے پائنچے پنڈلیوں تک اٹھائے ہوئے تھے جس پر کڑھے ہوئے ہرے ہرے پھول اس کی گندی پنڈلیوں پر بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ پھر اس کی نظر اس کی نئی جھانجھوں پر پڑی، اب تو وہ ٹھٹھک گئی۔ چندہ اپنے بھاری بدن کو سنبھالے ہوئے بڑے ٹھسے سے اس کے برابر آگئی۔ اور للّی نے اپنے دل میں کہا، ’’تو تراب نے جھانجھیں بنواہی دی بے چاری کو۔‘‘

    ’’چندری میکے سے آئی ہے۔‘‘ للّی نے اس کی لہریا چندری دیکھ کر کہا۔

    ’’اور ناہیں تو منگلو بنوائے دیہیں۔‘‘

    ’’ای رومال میں کا ہے؟‘‘

    ’’پھلیندے۔‘‘

    اور چندہ نے رومال کھول کر ڈلیا میں الٹ دیا۔ للّی نے کونڈا رکھ کر، کھڑی ہوئی چارپائی بچھادی۔ چندہ نے کاجل لگی آنکھیں مٹکاکر اسے دیکھا اور بیٹھ گئی۔

    ’’پھلیندے تو مکھن والے پیڑ کے ہوت ہیں۔۔۔ ای تو سب جمنی ہیں۔۔۔ جے پور کے پاسی خوب بیچت ہیں۔۔۔ تمرے لیے تو تراب لائے ہویہیں۔ ہم ہوں منگاوا ہے اب کی۔‘‘

    ’’میرے لیے کاہے لاتے۔۔۔ لاتے تو منگلو کے لیے لاتے۔۔۔ پھر تراب کوئی جمیندار ہیں۔۔۔ اوپیڑ تو مجو بھیا کے اے پسین کا ہے۔‘‘

    ’’ہویہیں بھیا۔۔۔ ؤ ہم کا کا کرے کا۔۔۔ ہم کا تو مول کی کھائے کاہے۔‘‘

    للّی نے مسکراکر جمنی کی ڈلیا اٹھاکر کھٹیا پر رکھ دی۔ اور اپنے ہونٹوں پر مغرور مسکراہٹ کی سرخی لگالی۔ چندہ بڑی بے چینی سے سورج ڈوبنے کا انتظار کرتی رہی۔ مغرب کی اذان ہوتے ہی اس نے منگلو کو کھلاکر اپنا پاپ کاٹ لیا۔ پھر منگلو کا پلنگ اٹھاکر چبوترے پر ڈال آئی۔ منگلو چھپر کے نیچے بیٹھا ہوااسے دیکھتا رہا، اور کلی کرتا رہا۔ جب دری تکیہ رکھ کر کوٹھری میں پھر گئی تو منگلو بلی کی طرح دبے پاؤں دروازے تک رینگ گیا۔ چندہ کونئے آئینے میں اپنا منہ دیکھتے پاکر وہ بے قرار ہوگیا۔ اور بھیڑیے کی طرح جھپٹ کر اس نے پیچھے سے اس کی چٹیا پکڑ لی اور دھم دھم دو گدے اس کی پیٹھ پر جھاڑ دیے۔ پھر اس کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہوا باہر چلا گیا۔ چندہ تھوری دیر تک دونوں ہاتھ پیٹھ پر رکھے ہوئے چھلکتی ہوئی آنکھوں سے خلا کو گھورتی رہی، پھر چھن چھن کرتی ہوئی نکلی اور باہری دروازے میں کنڈی لگاکر اپنے پلنگ پر پڑ رہی۔ ابھی عشاء کی نماز نہیں ہوئی تھی لیکن انتظار کرتے کرتے چندہ کی جان پر آبنی تھی۔ خدا خدا کرکے دھماکا ہوا اور آدمی بھر اونچی دیوار پھاند کر تراب آہی گیا۔ چندہ کے پلنگ پر بیٹھتے ہی پٹی جھک گئی۔

    ’’سب خیر ہے۔‘‘

    اس نے اپنا پستول تکیہ کے پاس رکھ کرچندہ کے کورے پیالے سے گالوں کو دبوچ لیا۔

    ’’تم بڑے بے ایمان ہو۔‘‘ اس نے اٹھلاکر کہا۔

    ’’کاہے۔‘‘ بھوری بھوری مونچھوں کے نیچے پیلے پیلے دانت چمک اٹھے۔

    ’’تمرے کوئی پھلیندے کا برواہے؟‘‘

    ’’ہے۔‘‘

    ’’اور تم آج تک ناہیں کھلایو۔۔۔ تمرے بروامیں چھائیں نائیں ہے۔‘‘

    ’’پرسال ای فصل ماں تم کہاں ملی رہو۔۔۔ اب پیٹ بھر کے کھایو پیٹ بھر کے باٹیو۔‘‘

    ’’ہوں پیسے سب تورے بیچے ڈارت ہیں۔۔۔ ہم کا پیٹ بھر کے جرور کھلیبا۔‘‘

    ’’ارے اوکا کوئی چھوئی نائیں سکت ہے۔‘‘

    چندہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن تراب سے محبور ہوگئی۔ چندہ کے جی کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔

    ’’یہ پڑوسن تمری بڑی جالم ہے۔‘‘ تراب نے چندہ کی جھانجھ سہلاتے ہوئے کہا۔

    ’’تم بلا وجہ پڑے ہو اوکے پیچھے، اُوکے کوڑھ ہے۔۔۔ نہیں تو حاجی میٹھے کے پلے کاہے بندھتی کوئی جوان جہان نہ جڑجاتا۔‘‘

    ’’اب نائیں چندہ! اب ناہیں ہے اوکے کوڑھ۔۔۔ اور چندہ تم اگر ساتھ دے جاؤ تو میں ای کا مان توڑ کے رکھ دیوں۔‘‘

    ’’تو کا میں کوئی باہر ہوں۔‘‘

    اور یہ رات للّی پر بڑی بھاری گزری۔ حاجی میٹھے عشاء کی نماز کے بعد آنگن میں ٹہل ٹہل کر تسبیح پڑھتے رہے۔ پھر اپنی چارپائی پر کورے گھڑے کا پانی بہاکر لیٹ رہے۔ اور خراٹوں میں ڈوب گیے مگر للّی تڑپتی رہی۔ تراب کا فقرہ بھر جی کے موسل کی طرح اس کی چھاتی پر چلتا رہا اور وہ تڑپتی رہی۔ ابھی اندھیرا تھا کہ فجر کی اذان بلند ہوئی، اس نے اپنی چارپائی پر آدھے لٹک کر حاجی کو جھنجھوڑا جو کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ بیٹھے، چھپر کی الگنی سے کرتا، طاق سے دتون اٹھاکر ٹوپی دیتے ہوئے نکل گیے۔

    کڑکڑاتی ہوئی مرغیوں کے جھوکے کی سل اٹھاتے ہوئے ایک خیال نے للی کے ذہن پر چٹکی لی اور وہ بڑی تمکنت سے چارپائی کے سرہانے سے دوپٹہ اٹھاتی ہوئی باہری دروازے پر آگئی۔ صبح کا دودھیا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ خنک ہوا مٹی اور درختوں کی خوشبو سے بوجھل تھی، وہ سدھائی ہوئی ہرنی کی طرح پگڈنڈیوں پر اڑتی ہوئی مجو بھیا کے ہار میں آگئی جس کی دانتی پر کٹہل کا باغ تھا۔ اس میں درخت تو کم تھے لیکن رقبہ بہت تھا اور اس کی گھاس بھیکم پور والوں نے اپنے جانوروں کے لیے خریدلی تھی۔ اس کے پاس ہی مجو بھیا کی اوکھ کی پیڑی تھی۔ وہ اس کھیت کی مینڈ پر آکر بیٹھ رہی، گھر گھروندوں کی طرح دھندلے دھندلے نظر آرہے تھے۔ اجالا اور بڑھنے لگا۔ اکا دکا آدمی کھیتوں میں دکھائی دینے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بھینسوں کا ایک غول طلوع ہوا۔ للی کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ بھینسیں ڈکراتی ہوئیں گھنٹیاں بجاتی ہوئیں آہستہ آہستہ چلی آرہی تھیں۔ جیسے موٹی عورتیں چہل قدمی کرتی ہوں۔ پھر یہ غول باغ میں داخل ہوگیا۔ اور ان کے پیچھے پیچھے آتا ہوا لڑکا ان کو ڈانٹ کر اپنے کندھے پر لاٹھی رکھے جس طرف سے آیا تھا اسی طرف چلا گیا۔

    للی آہستہ سے اٹھی اور گھات لگاتی شیرنی کی طرح جھکی جھکی چلتی رہی، باغ کی خندق کے پاس ہی سے اس نے بھینسوں کو کنکر مارنے شروع کیے۔ سب سے بڑی ’’مندراجی‘‘ بھینس کے آگے چلتے ہی سب کی سب اس کے پیچھے ہولیں۔ للی ان کو گھیرتی ہوئی مجو بھیا کی اوکھ میں لے آئی جب ساری کی ساری کوئی بیس پچیس بھینسیں کھیت میں بھر گئیں تب وہ مورنی کی طرح نپے تلے قدم رکھتی ہوئی اپنے کچھیانے کی طرف ہولی۔ تھوڑی دور پر اس کو رام دین نظر آیا۔ جو دوسرے نوکروں کے ساتھ مجو بھیا کی ڈیوڑھی پر جارہا تھا۔

    ’’کون رام دین؟‘‘

    ’’ہاں۔! یہ تو چچی ہیں۔۔۔ کہاں سے سبیرے سبیرے۔‘‘

    ’’میں تو سنے رہوں کہ پیسے بڑے نمک حلال ہوت ہیں۔ اور مجو بھیا تو تم پنچن پر جان چھڑکت ہیں۔‘‘

    ’’تو ہم کون نمک حرامی کے ڈارا۔‘‘

    رام دین نے کندھے سے لاٹھی اتارلی اور چچی کے کڑے تیوریوں کو بھانپنے لگا۔ دوسرے نوکر بھی تھم گیے۔

    ’’یوں تو میں جانت ہوں کہ جان کا پیاری ہے۔ اور گدّن کا سامنا پیسے بیچارے کرپاتے تو راج دین کے گھرانے کی ناک کا ہے کٹتی۔ مل اگر تم بھینسن ہانک آؤ تو گدی کچھ توپ تو لگائے نادیہیں۔۔۔ اب بھیا بچرؤ تو بھینسن ہانکے آوے سے رہے۔‘‘

    ’’کون بھینسن۔۔۔ کہاں بھینسن؟‘‘

    رام دین کی آواز میں گرمی آگئی اور نوکر بھی چوکنا ہوئے۔

    ’’پیچھے گھومو۔۔۔ میں کہت ہوں پیچھے گھوم کے دیکھو۔۔۔ اوی بھینسن ہیں کوئی چیونٹی تو ہیں نائیں کہ دکھائی نہ دیں۔‘‘

    رام دین نے آنکھوں پر ہتھیلی کاچھتہ بنایا اور دوسرے ہاتھ سے لاٹھی گھماکر دوڑ پڑا۔

    ’’اوہو۔۔۔ ای کی بھینسن کی۔‘‘ اور وہ ٹھمک ٹھمک کر چلتی ہوئی اپنے کچھیانے کو پار کرکے دروازے پر آگئی۔

    رام دین جس کا جوان خون للّی کی باتوں نے کھولادیا تھا۔ جاتے ہی جاتے بھینسوں پر لاٹھی لے کر ٹوٹ پڑا۔ نوکروں میں سب پاسی تھے۔ راج پاسی۔ بھینسیں بدحواس ہوکر ڈکراتی ہوئی اپنے گاؤں کی طرف بھاگیں تو انھوں نے گھیر کر مان پور کی سڑک پر ڈال دیا۔ گدیوں کو خبر لگی تو وہ لاٹھیاں سونت سونت کر دوڑ پڑے اور مان پور کے ناکے پر بھینسیں روک لیں۔ رام دین کی گہار سن کر اس کے چچا بھتیجوں کے ساتھ سارا راجپورہ دوڑ پڑا۔ راجپورہ کی گہار پر مان پور کا بھکا جس کی بہن دلارے کو بیاہی تھی۔ اور جس کی چھاتی گدی کا نام سنتے پھٹتی تھی۔ ایک ایک آدمی بٹور کر چڑھ دوڑا۔ گدیوں نے لین ڈوری چلتے جو دیکھی تو مصالحت پر اُتر پڑے۔ مان پور نے جویہ گڑبڑ سنی تو استاد مدی کے اکھاڑے والے بکس اور فجوخاں کی چھٹیاں والے بانا گھماتے اور بلم ہلاتے نکل پڑے۔ بوڑھا راج دین کیا جوار کے سارے پاسی نامی پاسی تراب کے لیے بارود بچھائے بیٹھے تھے۔ لیکن ایک تو گدیوں کی طاقت کااندازہ تھا پھر مان پور کا خوف تھا کہ یہ پانچ چھ ہزار کی بستی جس طرف ٹوٹ پڑی وہاں کھلیان لگ جائے گا۔ لیکن آج راج دین دیکھ رہا تھا کہ مجو بھیا کے نام پر لاٹھی اٹھانے والے پاسیوں کے سامنے مان پور کی چھگڑی تک نہیں پھٹکے گی۔ اس نے آتے ہی آتے تراب کے باپ پیرا کو للکارا۔

    ’’تاؤ۔۔۔ ہم بھینسیں پکڑاہے۔ ہم ان کا کانجی ہاوس میں بند کریبا۔۔۔ تم وہاں سے چھڑائے لیو۔۔۔ ہم سے اگر چھیننے کی بات کریو تو پھر فوجداری ہے۔ یو تم جانت ہو کہ فوجداری فوجداری ہے، ای مالڈو نا ہیں بٹت ہیں۔‘‘

    راج دین کی گرمی دیکھ کر تراب جو سڑک کے کنارے بیٹھا بیڑی پی رہا تھا۔۔۔ مینار کی طرح کھڑا ہوگیا۔

    ’’اَی گدّن کی بھینسیں ہیں راج دین۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اور پیسے لیے جات ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر لیے جائیں۔‘‘

    ’’یا بات ہے۔۔۔ تو سنبھل جاؤ۔‘‘

    راج دین نے کندھے پر پڑا ہوا چادر کھینچ کر سرپر باندھنے کے لیے رکھا ہی تھا کہ مجو بھیا کا مشکی گھوڑا مجمع کو کائی کی طرح پھاڑتا ہوا راج دین کے سرپر کھڑا ہوگیا۔ مجو بھیا سفید کرتا اور چوڑی دار پائجامہ پہنے تصویر بنے بیٹھے تھے۔

    ’’کیا راج دین گڑبڑ کرتے ہو۔‘‘

    ’’کتھا آپ سن چکے ہو۔‘‘

    ’’ہاں گدّیوں کے یہاں چارہ نہیں ہوگا۔۔۔ تمہارا کھیت چرالیا۔ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔ کیا یہ لوگ اپنی بھینسیں مرواڈالتے راج دین۔‘‘

    ’’بھیا۔‘‘

    ’’اوکھ کے چارا گوروں کے لیے چالیس آدمی نہیں مارے جاتے۔۔۔ لے جانے دے ان کو بھینسیں۔‘‘

    ’’پیرا۔‘‘

    ’’کہیو۔‘‘

    ’’کٹہل کے باغ میں بھینسیں نہیں آئیں گی اب۔‘‘

    یہ کہہ کر انھوں نے گھوڑا موڑا جو ایک گلی میں غائب ہوگیا۔

    مان پور اور اس کے جوار کے ایک ایک دل میں مجو بھیا کی شرافت، لیاقت اور انسانیت کھونٹے کی طرح گڑ گئی۔ راج دین اور بھکا بڑی دیر تک چھپر میں بیٹھے خاموشی سے چلم پیتے رہے۔ شکار ان کی لاٹھی کی زد پرآکر نکل گیا تھا۔ للّی نے یہ خبر سنی تو منہ لٹک گیا۔ محرم کی پہلی تاریخ تھی۔ وہ پہننے کے لیے ہری کرتی رنگ رہی تھی۔ کرتی نچوڑ کر اس نے الگنی پر لٹکادی۔ لیکن پھر اس سے اٹھا نہ گیا۔ وہ چولہے کے پاس بیٹھی دست پنے سے زمین کھودتی رہی۔

    *

    مجو بھیا زمیندار کے پوت تھے، آج کا نقشہ دیکھ کر غرور سے ان کی چھاتی چار انگل اور بڑھ گئی تھی۔ تراب کے بات کرنے کا انداز ان کو کبھی اچھا نہ لگا۔ وہ واحد آدمی تھا جو ان کے دروازے کے سامنے سانڈ کی طرح جھومتا ہوا نکل جاتا۔ کبھی دو انگلی اٹھاکر سلام کا بھی روادار نہ ہوتا۔ پھر تراب کی بھینسیں اکثر ان کے ہار میں دندناتی ہوئی گھس پڑتیں۔ بظاہر تو وہ کوئی خاص توجہ نہ دیتے لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ حرکتیں ان کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو مجروح کرنے کے لیے سوچ سمجھ کر کی جاتی ہیں۔ پھر ہولی والے دن تو تراب نے کھل کر نوکروں سے کہہ دیا تھا کہ بڑے شیخ کے بیٹے ہوں تو ہاک دیں آکر تراب کی بھینسیں۔ مجو بھیا خون کا گھونٹ پی کر رہ گیے تھے۔ آج انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس میں ان کی حکمت عملی کا ہی دخل تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر فوجداری ہوگئی تو میں ایک فریق بن جاؤں گا۔ اور قتل کے مقدمے میں فریق کے معنی ان کو اچھی طرح معلوم تھے اسی لیے وہ طرح دے گیے۔

    مگر ایک بات انھوں نے طے کرلی تھی۔ بھیکم پور اور مان پور کی سرحد پر ان کا ایک جوار کھیت تھا۔ جس کی مینڈ تراب کے کھیت کو ان کے کھیت سے جدا کرتی تھی۔ اسی مینڈ پر جامن کا وہ درخت تھا جو اپنے مزے کی وجہ سے سارے علاقے میں مکھن والے درخت کے نام سے مشہور تھا۔ پیڑ پٹواری کے کاغذات میں بھی مجو بھیا کے نام درج تھا لیکن جس دن سے مجو بھیا نے اپنا کھیت راج دین پاسی کو بسیر بجانے کی خدمت کے صلے میں دیا تھا اس دن سے اس کے جامن تراب نے ہتھیا لیے تھے۔ جامن کون ایسی نعمت تھی جن کے لیے مجو بھیا کڑھتے لیکن یہ ان کی اور حکومت کا سوال تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ بیڈھب تراب کے سامنے ان کے مٹھی بھر نوکر کیا کرلیں گے۔ آج پاسیوں کی آنکھوں میں جلتی ہوئی آگ دیکھ کر ان کو اپنے بھیگے ہوئے دامن کو سکھانے کی سوجھ گئی تھی۔

    وہ اپنے باہر صحن میں گملوں کے گول دائرے میں آرام کرسی ڈالے بیٹھے تھے۔ آسمان پر کالے کالے جامنوں کے کھلیان سے بادل لدے کھڑے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ محرم کے سلسلے میں تھانے سے آئے ہوئے کانسٹیبل کی خوراک حلوائی کو بھجواکر وہ بیٹھے تھے۔ سارے نوکر اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ رام دین ان کی پشت پر بیٹھا بیڑی پی رہا تھا کہ راج دین بھکا اور دلارے آگیے۔ سبھوں نے جھک کر سلام کیا۔

    ’’آؤ مہیتا۔‘‘

    اور ان تینوں نے اپنے جوتے اتارے اور گول دارے میں مجو بھیا کے پیروں کے پاس آکر بیٹھ گیے۔

    ’’رام دین۔‘‘

    ’’ہاں بھیا۔‘‘

    جب وہ اٹھ کر ان کے سامنے آگیا تو بڑے لاڈ سے جھڑکتے ہوئے مجو بھیا بولے۔

    ’’ابے یہ تو تیرے باپ ہیں۔ ان کو تو بغیر میرے کہے بیڑی پلادی ہوتی۔‘‘

    ’’باپ ہوں چاہے چچا ہوئیں۔۔۔ بیڑی کوئی پیڑن میں تھوڑے لگت ہیں جو ہم بیٹھے لٹاوا کری۔ آپ جیکا حکم دیو اوکا پلائے دیئی۔‘‘

    مجو بھیا نے مسکراکر راج دین کو دیکھا۔

    ’’مہتیا! تمہارا یہ لونڈا کنجوس ہے۔۔۔ بہت بڑا کنجوس ہے۔۔۔ تم ایسے دل والے باپ کا بیٹا کیسے ہے یہ۔‘‘

    راج دین نے فخریہ اپنے بیٹے کو دیکھا۔ دلارے اور بھکا بھی ہنس پڑے۔

    ’’کہو بھکا سب خیریت ہے۔۔۔ تم کیسے آئے؟‘‘

    بھکا نے سوچتی ہوئی آنکھیں اٹھاکر راج دین کو دیکھا اور کھنکارا۔

    ’’اے بھیا آئے ہیں ایک جرورت سے۔۔۔ ہم کا اپنے سنگ لائے ہیں۔‘‘ راج دین نے بہت چبلا چبلا کر کہا۔

    ’’ہاں ہاں بولو۔‘‘

    ’’ای اپنا کمرہ پٹوائے رہے ہیں۔ کڑی اوماں پڑگئی ہیں کم۔۔۔ تو لکڑی اگر کہوں نگاہ ماں ہوئے تو۔‘‘

    راج دین دروازے پر للّی کو دیکھ کر چپ ہوگیا۔ کیوں کہ مجو بھیا نے گردن گھماکر جو دیکھا تو دیکھتے رہ گیے۔ وہ سبز ریشمی اوڑھنی کندھے پر ڈالے سبز کرتی کی بہار دکھلاتی سبز پڑا کے دار گوٹ کے لہنگے میں بھنور بناتی رانیوں کی طرح آرہی تھی۔ گملوں کی شاخوں کے پاس کھڑے ہوکر اس نے اپنے دونوں مرمریں ہاتھ کولہے پر رکھ لیے۔

    ’’کا بھیا کچھ فیصلہ کرت ہیں۔‘‘ اس نے بڑے ناز سے کہا لیکن بھیا کچھ بولے نہیں وہ چاہتے تھے کہ بات ختم کرکے یہ لوگ چلے جائیں تو للّی کو غور سے دیکھوں۔

    ’’فقیر نائیں بنے بھیا آج؟‘‘ للّی نے پہلی بار آج بھیا کو اتنی بے باکی سے اپنے سراپے کو گھورتے پایا تھا۔

    ’’رجب کی اماں نے نہ ابھی ٹوپی رنگی نہ کلائی آئی۔‘‘ بھیا نے اپنے خشخشے بالوں پر ہاتھ پھیر کرکہا۔ پھر راج دین کی طرف مخاطب ہوئے۔

    ’’بھکا کو کڑیوں کے لیے لکڑی چاہیے۔‘‘

    ’’ہاں بھیا۔‘‘

    ’’ہے کہیں نگاہ میں۔‘‘

    ’’ہمری نگاہ کون۔۔۔ جہاں آپ حکم دیو وہاں نگاہ دوڑائی جائے۔‘‘

    ’’ارے راج دین۔‘‘

    ’’بھیا۔‘‘

    پہاڑ ایسا پیڑ سامنے کھڑا ہے اور تم مارے مارے گھوم رہے ہو۔۔۔ تمہارے بیسروالے کھیت میں وہ جامن جو کھڑا ہے۔۔۔ دھنیاں ہی دھنیاں ہیں اس میں۔‘‘

    ’’سانچ تو کہت ہو بھیا۔‘‘

    ’’بھکا تم پیڑ کاٹ لیو۔‘‘

    ’’کا مکھن والا پیڑ تم ان کا دیت ہو۔۔۔ بھکا کا؟‘‘ للّی نے آنکھیں چمکاکر دخل دیا۔

    ’’ہاں۔۔۔! کیوں؟‘‘

    کاہے اپنی آبرو مٹی میں ملاوت ہو۔۔۔ جو اپنی سونا ایسی دولہن نہ بچائے پاوا اور تراب سے اے پہاڑ ایسا پیڑ جرور چھین لیے جیے۔۔۔ ارے پیڑ دیوے کا ہے تو کوئی چمار کاتا کا جون ہاتھ پاؤں جوڑکے بھلا کاٹ تو لے۔‘‘ یہ کہہ کر للّی نے اپنی چنری ڈھلکادی۔ زہر میں بھجے ہوئے تیر سے راج دین، بھکا، رام دین اور دلارے سب کے کلیجے چھید کر وہ جاتے جاتے مڑی۔

    ’’میں بھیا کے لیے ٹوپی اور کلائی لاوت ہوں۔‘‘

    بڑی دیر تک سناٹا طاری رہا۔ مجو بھیا سمیت سب منہ جھلائے بیٹھے رہے۔ عصر کی اذان سن کر بھیا اٹھے، ان کے اٹھتے ہی راج دین کے ساتھ سب اٹھ پڑے۔ اور سلام کی رسم ادا کرکے نکل آئے۔

    مغرب کی اذان ہوچکی تھی، لیکن حاجی بازار سے واپس نہیں آئے تھے۔ للّی نے چاول لگاکر لالٹین کی چمنی جوڑی اور جلاکر کوٹھری میں گھس گئی۔ بانس کے بنے ہوئے کپڑے رکھنے کے پٹارے کے ڈھکن پر سے آئینہ اٹھاکر اس نے اپنی چاندی کی سلائی سی مانگ پر ایک مطمئن نگاہ ڈالی اور کوٹھری بند کردی۔ آگے آگے نوکر جھوا لیے آیا اس کے پیچھے حاجی تھے۔ انھوں نے ڈلیا ترازو کونے میں دھرا اور لوٹے میں پانی لے کر وضو بنانے لگے۔ للّی نے رنگی ہوئی ٹوپی اور کلائی اٹھائی تھی کہ اسے یاد آگیا۔

    ’’بالا مئو کی بزار ہے کل۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہے۔۔۔ آدھی رات سے گاڑی ہانکی جیہیں۔‘‘

    ’’آدھی رات سے؟‘‘

    ’’اونہہ پچھلارے سے ہانکی جیہیں۔ لیکن اٹھے کا تو آدھی رات سے پڑیہے۔‘‘ حاجی جھنجھلا گئے۔ ’’اور ای جو بادل لدے کھڑے ہیں۔‘‘ حاجی نے اٹھ کر سیاہ آسمان کو دیکھا اور ٹوپی پہن لی اور آدھے آنگن میں جاکر بولے، ’’کٹہل بھرے ہیں، کچھ مصری تھوڑے بھری گئی ہے۔‘‘

    ’’اچھا تو سنو۔۔۔ میں تنی لپک کے بھیا کا ٹوپی اور کلائی دے آؤں۔ تم اتنے وخت گھر ماں نماز پڑھ لیو۔‘‘ للّی کا حکم سن کر حاجی پلٹ آئے اور چٹائی ڈھونڈنے لگے۔

    مجو بھیا مزدوروں کو رخصت کرکے اٹھے ہی تھے کہ چھوٹے خاں آگیے۔

    ’’چچا مجھ کو آپ کا پیغام مل گیا تھا۔‘‘

    ’’ہاں فجو خاں کو بھیجا تھا میں نے۔‘‘

    ’’اب آپ یہ بتائیے کہ محرم میں کتنا پیسہ صرف ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بھائی پارسال تین سو چالیس لگے تھے۔‘‘

    ’’اس سال آپ چار سو پورے خرچ کیجیے۔ لیکن محرم کیجیے دھوم سے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ تو صبح گھڑی بھر بیٹھ جاؤ۔۔۔ حساب بنا لیا جائے۔‘‘

    ’’آجائیے گا۔‘‘

    مجو بھیا چھوٹے خاں کو رخصت کرکے گھر کے آنگن میں پہنچے تو للّی باورچی خانے کے طرف سے آرہی تھی۔

    ’’رجب کی اماں نائیں ہیں۔‘‘

    ’’نذر نیاز دلانے گئی ہوں گی۔۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘

    للّی نے ہاتھ بڑھا کر مجو بھیا کے ہاتھ میں ٹوپی پکڑائی ہی تھی کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور بڑے بڑے بوندوں کا ریلا ٹوٹ پڑا۔ مجو بھیا دالان کی طرف لپکے مگر للّی نے جلدی جلدی آنگن میں جو کھچ پڑا تھا، بین کر دالان میں کردیا۔ اور باورچی خانے کے در میں لٹکی ہوئی لالٹین پر جھپٹی لیکن وہ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی بھڑک کر رہ گئی۔ پیٹتے پانی میں پورا آنگن پار کرکے وہ لالٹین دبائے ہوئے دالان میں آگئی جہاں اندھیرے میں مجو بھیا کھڑے تھے۔

    ’’دیا سلائی کہاں ہے بھیا۔‘‘ مکمل اندھیرے میں اس کی آواز کا شعلہ چمکا۔ اور مجو بھیا چونک پڑے اور بڑی مشکل سے بولے۔ ’’کمرے میں تخت پر۔‘‘ کڑکڑاکے بجلی چمکی تو اپنی ریشمی چنری نچوڑتی ہوئی للّی نے دیکھا کہ مجو بھیا کے دیدے اس کے گریبان پر چپک گیے ہیں۔ اس نے ٹٹول کر چنری تخت کے کونے پر رکھ دی اور کمرے کی طرف مڑگئی۔

    ’’یہاں تو بھیا نہیں ہے۔‘‘

    مجو بھیا اپنی شہتیر ایسی ٹانگوں پر پہاڑ سا بدن گھسیٹتے ہوئے اٹھے۔ کمرے کی دہلیز سے نکلتے ہی جلتے توے پر ان کا ہاتھ پڑ گیا اور دل اچک کر حلق میں اٹک گیا۔ سنسان راتوں کے لمبے خوابوں کی جگمگاری ہوئی زندہ تعبیر ان کے بازوؤں کی گرفت میں دھڑک رہی تھی۔ وہ اس لالچی بچے کی طرح ساکت کھڑے رہے جسے مٹھائی کے جنگل میں چھوڑ دیا گیا ہو۔ ابھی وہ اپنے ہاتھوں میں بھری ہوئی آرزوؤں کی دولت ایک نظر دیکھ بھی نہ پائے تھے کہ شانوں سے ان کے ہاتھ تراش لیے گیے۔ پھر انہوں نے بجلی کی روشنی میں دیکھا للّی آنگن میں چھپ چھپ کرتی بھیگتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح تخت پر بیٹھ گئے۔ پانی بند ہوگیا۔ کسی نوکر نے لالٹین جلائی۔ رجب کی اماں نے دالان صاف کرکے تخت پر دسترخوان بچھایا۔ کھانا لگایا۔ پھر اٹھالیا۔ نوکر نے بستر لگایا مچھردانی لگاکر کھڑا رہا پھر چلا گیا۔ باہر پہرے کا سپاہی مستعدی سے ’’جاگتے رہو جاگتے رہو‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ لیکن مجو بھیا نے تخت چھوڑ کرنہ دیا۔ وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہے تھے، کوس رہے تھے۔ للّی جو چوراہے پر کھڑی ہوکر اپنے شوہر کے بکھان کرتی ہے، جس کی شعلہ مزاجی کے سامنے بڑے بڑے فقرے بازوں کی زبانیں کوّا اچک لے جاتا ہے، وہ للّی جو فتنہ نہ کھڑا کردے وہ تھوڑا ہے۔

    بکس، فجو خاں استاد مدّی کیا سوچیں گے، رام دین اور لونڈے میرے متعلق کیا خیال کریں گے۔ میں مان پور کی مسجد کا امام جس کے سامنے جوان جوان عورتیں کرتے دوپٹے سے بے نیاز بیٹھی ہوئی اپنے بچوں کو دودھ پلایا کرتی ہیں اور اپنے شوہروں کے قصے بیان کرتی ہیں۔ میرا کیا ہوگا۔ عورتیں مجھ سے پردہ کرنے لگیں گی۔ مرد مرے نام پر تھوکیں گے۔۔۔ اور لونڈے رنگے سیار پر تالیاں بجائیں گے۔ وہ بے قرار ہوکر اٹھ بیٹھے۔ کیچڑ سے بھرے آنگن میں کامدار مخملی جوتا پہنے وہ ٹہلتے رہے۔ لیکن للّی جو کچھ کہے گی صبح کہے گی۔ پھر صبح اس سے معافی مانگی جاسکتی ہے، منایا جاسکتا ہے۔ وہ کھڑے ہوگیے۔ پھر خیال آیا کہ آج تو حاجی میٹھے بالامئو کی بازار کٹہل لے کر جائیں گے۔ ترپال مانگنے آئے تھے شام کو۔۔۔ وہ کچھ مطمئن ہوکر سوچتے رہے اور رات گزرنے کا انتظار کرتے رہے۔

    للّی جب گھر پہنچی تو چولہا بجھ چکا تھا۔ وہ حاجی سے بولے بغیر ان کے ساتھ کرنے کے لیے روٹیاں پکاتی رہی۔ پھر موٹی موٹی روٹیاں گھی لگاکر ڈبے میں بند کردیں۔ مٹی کے پیالے میں سوکھی سوکھی ترکاری رکھ کر اس نے حاجی کے حوالے کردیا۔ اور اپنے پلنگ پر گڑ مڑاگئی۔ حاجی اور ان کے ساجھے دار دوسرے چھپر میں بیٹھے حساب کتاب کر رہے تھے اور دوسرے دن کے بازار پر قیاس آرائی ہو رہی تھی۔ حاجی نے جب اس کو جھنجھوڑ کر جگایا تو اس نے آسمان پر نگاہ ڈالی جو اس کے بالوں کی طرح کالا تھا۔ اس نے جماہی لی اور انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ’’آسمان کا حال دیکھ رہے ہوحاجی۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ مل سودا ہوچکا ہے۔۔۔ سنگی سب تیار ہیں۔۔۔ چھتری ترپال سب کاانتظام ہے۔ اور دیکھو کوئی گھڑی بھر رات ہے اب۔ ہم ادھر سے رے زینب بہن کا پکار دیبا اوروئی آئے کے لیٹ ریہیں۔‘‘

    ’’تو دروازہ نہ بند کریں۔‘‘

    ’’نائیں۔۔۔ دروازہ ضرور بند کرو۔۔۔ مگر تنی چیتت سویو۔‘‘

    اس نے لڑکھڑاتے ہوئے دروازہ بند کرلیا اور پھر آکر اپنے پلنگ پر پڑی رہی۔ حاجی نے بقرعیدی کے گھر پر ہانک لگائی۔ تین چار آوازوں کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ حاجی نے تہرا کر اس سے زینب کو گھر بھیجنے کی تاکید کی۔ اور ہر بار اس نے پنسیری بھر کا سرہلاکر حامی بھر لی۔ لیکن دروازہ بند کرتے ہی اپنے پلنگ پر لڑھک گیا۔

    للّی کروٹیں بدلتی رہی لیکن نیند نہ آئی۔ کبھی تراب کی موذی مسکراہٹ اس کی چٹیا پر جوتا مسل کر چلی جاتی اور کبھی مجو بھیا کی باہوں کے شیریں لمس سے خیالوں میں چاندنی چھٹک جاتی۔ ابھی وہ پوری طرح مسرور بھی نہ ہوپائی کہ مجو بھیا کی شرماتی ہوئی آنھیں اس سے کہتیں کہ چچی بکس کی طرح میں نے تجھے چھیڑنے کے لیے یہ حرکت کی تھی۔ ورنہ تو یقین جان کہ میں تجھ کو چچی ہی سمجھتا ہوں۔ خیال کے اس سنپولے کے دل پر رینگتے ہی وہ زور سے کروٹ لے کر آنکھیں بند کرلیتی۔

    دروازے پر تھپکی ہوئی۔

    اس نے آہستہ سے کنڈی کھول کر دروازہ جو کھولا تو دست پنے کی سی موٹی موٹی انگلیاں اس کی گردن میں جم گئیں۔ تراب نے بائیں ہاتھ سے دروازہ بند کرلیا۔ داہنے ہاتھ سے للّی کی گردن دبوچے ہوئے منگلو کے گھروالے دروازے کی زنجیر کھول کر داخل ہوگیا۔

    وہ خیں خیں کرتی رہی۔ تراب نے مسکرا مسکراکر پانی بھرنے والی رسی میں اس کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے اور اس کے منہ میں انگوچھا ٹھونس کر ایک لات مار کر پلنگ پر گرادیا اور کوٹھری بند کرلی۔ للّی دل ہی دل میں صبح ہونے کی دعائیں مانگتی رہی۔ لیکن جب تراب نے اُسے گود میں بھر کر پھر اس کے پلنگ پر لاکر پٹخا اور آپ اس کے دروازے کی زنجیر کھول کر باہر نکل گیا۔ اس وقت بھی اندھیرا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد فجر کی اذان ہوئی۔ اس کے تھوڑی دیر بعد کسی نے دستک دی۔ تیسری چوتھی دستک پر وہ اٹھی، دروازہ کھولا تو مجو بھیا کھڑے تھے۔ جس ہاتھ سے وہ کواڑ پکرے تھی اس کی کلائی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے زخمی تھی۔ پھر مجو بھیا نے اس کی کرتی دیکھی جس میں لہریں جھول رہی تھیں۔

    ’’یہ کیا ہوا؟‘‘

    ’’یہ کیا ہوا آخر؟؟‘‘ مجو بھیا نے ہاتھ بڑھاکر دروازہ بند کردیا۔ اور للّی کی کلائی تھام لی۔ للّی ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرح ان کے دیوار ایسے سینے پر ٹک کر رونے لگی۔

    راج دین نے مجو بھیا کے یہاں سے آتے ہی چار چار کوس تک سارے گاؤں کو خبر بھیج دی تھی کہ دوسرے دن بازار کے وقت پہنچ جائیں۔ دس ہی بجے سے آدمی گرنا شروع ہوگیے تھے۔ کوئی بارہ بجے تک راج پورہ کے ایک ایک گھر میں کٹیہرے کموڑوں کی طرح آدمی بجکنے لگا۔ اس کے بعد راجپورہ کے سامنے والے باغ میں آدمیوں کا کھلیان لگ گیا۔ ابھی دو ہی بجاتھا کہ رام دین اور دلارے کلہاڑیاں لے لے کر مکھن والے پیڑ پر پہنچ گیے۔ اس کی پیڑی پر کلہاڑی مارکر جنگ کا ڈھول بجادیا۔ بھیکم پور کے چماروں نے جو سودا سلف لینے مان پور جارہے تھے، یہ رنگ دیکھا تو الٹے پیروں جاکر پیرا کے گھرانے کو خبر دی۔ پیرا اپنا ناریل لے کر چھپر سے نکلا تو آدمی سمٹنے لگے۔ کوئی چالیس پچاس آدمیوں کو عقب میں لیے تراب نے د یکھا کہ دو لونڈے کلہاڑی لیے کھلواڑ کر رہے ہیں تو وہ مسکرادیا۔ لیکن پیراکی بوڑھی آنکھیں منظم سازش کی تہہ تک پہنچ گئیں۔ اس نے ناریل پاس کے آدمی کو پکڑادیا۔ اور نرمی سے بولا،

    ’’پھلا پھولا پیڑ کیوں کاٹے ڈالت ہو بھئی؟‘‘

    ’’روک پاؤ تو روک لو۔‘‘

    پیرا اس جملے کی دھار پرکھ رہا تھا۔

    کہ راجپورہ کے باغ سے پاسیوں کی آندھی چلتی دکھائی دی۔ ساتھ ہی مان پور کی طرف سے آدمیوں کے غول آتے نظر پڑے تو اس کی ڈھارس بندھی۔ ساتھ ہی بھیکم پور سے بھی آدمی سمٹنے لگے تھے۔ چھوٹے خاں نے آتے ہی پاسیوں کو ڈانٹا کہ روز تم لوگ کوئی نہ کوئی بسنت بنایا کرتے ہو۔ پیڑ کس کا ہے۔ آواز آئی مجو بھیا کا ہے۔ مجو بھیا کا نام سن کر چھوٹے خاں کچھ دھیمے پڑے۔ پھر گدیوں کی طرف سے نعرہ بلند ہوا کہ جس کا کھیت ہے اس کادرخت ہے۔ اس قانونی بات چیت میں جتنا وقت لگا اتنے وقت میں مکھن والے جامن کے پورب اور پچھم میں دور دور تک آدمی ہی آدمی نظر آنے لگے۔ پورب میں پاسی پچھم میں گدّی، مان پور والے کبھی ادھر کی حامی بھرتے کبھی اُدھر کی، سنجیدہ کوئی نہ تھا۔ سب تماش بینی کرنے نکل پڑے تھے۔ ویسے ہاتھ کسی کا خالی نہیں تھا۔ بانے، پٹے، تلوار، بلم، کانٹے، لاٹھی ہر چیز دیکھنے کو مل سکتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے محرم میں کرتب دکھانے آگیے ہوں۔

    مان پور کے مکھیا چھوٹے خاں نے آدمی بھیج کرمجو بھیا کو خبر کرادی تھی۔ مجو بھیا نے اپنے سارے نوکروں کو پہلے ہی رام دین کی حمایت میں روانہ کردیا تھا۔ خود نیا دوری دار جوتا پہنے صحن میں چرمر کر رہے تھے۔ مگر بھیگی ہوئی زمین پر جوتے کی مدھم آواز کی وجہ سے انھیں ٹہلنے میں مزا نہیں آرہاتھا۔ مبارک ڈھپالی نے آکر خبر دی کہ ہندو مسلمان میں گڑبڑ مچا ہے۔ چھوٹے خاں بلاوت ہیں۔ مجو بھیا نے کوئی موٹی سی گالی دے کر اسے دھتکار دیا اور بولے کہ اگر ہندومسلمان کا نام لیا تو اتنے جوتے ماروں گا کہ بھیجہ باہر نکل جائے گا۔ مبارک نے مجو بھیا کو بگڑتے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ کان دباکر بھاگ لیا۔ مجو بھیا نے بڑے اطمینان سے اصطبل کھولا۔ سفید گھوڑے کو جسے وہ بجلی کہتے تھے، باہر نکالا۔ اپنے ہاتھ سے کاٹھی رکھی اور اوٹے پر کھڑے ہوکر سوار ہوگئے۔

    اسے ’’یرغہ‘‘ چلاتے ہوئے موقعہ پر پہنچے۔ پاسیوں کی کثرت دیکھ کر محظوظ ہوئے۔ رام دین نے کلہاڑی رکھ کر الف ہوئے ہوئے گھوڑے کی لگام تھام لی۔ رام دین جس نے مجو بھیا کے ساتھ ڈنڈیں لگائی تھیں، مگدر ہلائے تھے، کھلیان اٹھائے تھے اور گھوڑے خریدے تھے۔ مجو بھیا تن کر کاٹھی پر بیٹھے اور کڑک کر بولے، ’’چھوٹے چچا۔‘‘

    ’’ہاں بھیا۔‘‘

    انہوں نے بٹوے سے لونگ لے کر ڈوری گھسیٹ لی۔

    ’’آپ مجو خاں، بکس اور استاد مدی کو لے کر مان پور چلے جائیے محرم ہے یہ۔۔۔ سیدھے چلے جائیے۔‘‘

    محرم کا نام آتے ہی چھوٹے خاں چونک پڑے۔ بٹوا اپنے کرتے کی جیب میں گھسیڑ کر لونڈوں کو ڈانٹا جو اڑیل بیلوں کی طرح ایک قدم چل کر ٹھٹک گئے۔ جب مان پور کا بچہ بچہ چری کے کھیت تک پہنچ گیا تب مجو بھیا نے اپنا گھوڑا گدیوں کی طرف موڑا جن کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں تھیں۔

    ’’پَیرا۔‘‘ مجو بھیا رکابوں پر کھڑے تھے۔

    ’’کہیو۔‘‘

    ’’تمرے بہویں اور بیٹی دونوں ہیں شاید؟‘‘

    ’’ہیں۔‘‘

    ابھی ان کا جملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بھیڑ کو چیر کر تراب باہر نکلا اور لاٹھی اوہار کر دوڑا۔ مجو بھیا، بھکا اور راج دین کے ہونٹوں پر ایک قسم کی زہریلی مسکراہٹ رینگ گئی۔ مجو بھیا نے اپنے ڈوری دار جوتے کی ایڑی بجلی کے پیٹ میں گاڑدی اور رخ بدل کر مان پور والوں کے پاس کھڑے ہوگیے۔ لاٹ ایسے تراب کی گولے دار لاٹھی اور مجو بھیا کے گھوڑے کا فاصلہ دانت پیستے ہوئے پاسیوں کے کھرپا ایسے ہاتھوں میں ناچتی گولے دار لاٹھیوں سے بھر گیا۔ دلارے نے اپنی دھوتی سے دیسی پستول نکال لیا۔ اس کی کھردری بے ہنگم نال میں مٹیالے رنگ کا کارتوس لگاکر تانا ہی تھا کہ بھکا اور راج دین کی منگت میں کوئی دو درجن لاٹھیوں نے تراب کو اپنی باڑھ پر رکھ لیا۔ تراب کی مدد کو گدی دوڑے لیکن ہزار بارہ سو پاسیوں کے سیلابی ریلے میں بہہ گیے۔

    بہت سے گدی بھی مان پور والوں کی طرح ہاتھوں میں سودا سلف لیے بغل میں لاٹھی دبائے نکل آئے تھے۔ بہت ایسے بھی تھے جو زندگی کی یکسانیت سے اکتاکر محض تفن طبع کے طور پر آنکلے تھے۔ لیکن اتنی بات سچ تھی کہ چند کو چھوڑ کر سارے کے سارے گدی ان پاسیوں کے سامنے مطمئن تھے جن سے ابھی چند روز قبل وہ بھینسیں چھین کر ہانک لے گیے تھے۔ مجو بھیا کے فقروں اور تیوریوں پر وہ چونکے ضرور تھے۔ لیکن مان پور کی آدھی جوان آبادی کو کھڑا دیکھ کر ان کی کچھ ڈھارس بندھ گئی تھی۔ آتش بازی کی چرخی کی طرح جب پاسیوں کی لاٹھیاں چومکھی مار کرنے لگیں اور مان پور والے بھیڑ لگائے کھڑے رہے، جیسے محرم کے اکھاڑے میں تماشہ دیکھ رہے ہوں تو کسی چالاک گدی نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ بھاگتے ہوؤں کو جیسے کمک مل گئی۔ انھوں نے گلے پھاڑ کر ’’اللہ اکبر‘‘ کی تکرار کی۔ راج دین اور بوڑھے بوڑھے پاسیوں کے ہاتھ سست ہوگیے اور انہوں نے بڑی حسرت سے مجو بھیا کو دیکھا۔

    مان پور والوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے تراب کے ساتھ پانے ہلائے تھے۔ تاڑی کے کھجڑ توڑے تھے، عورتوں کے بدن لوٹے تھے اور مارکھائے ہوئے تراب کو دیکھ کر تازی کتوں کی طرح زنجیر تڑانے کی فکر میں تھے۔ دلوں میں آگ بھر دینے والی اس آواز کو سنتے ہی بے قرار ہوگیے۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے لاٹھیاں سونت لیں اور دوڑ پڑے۔ لیکن مجو بھیا نے زمین میں لگے ہوئے چابک کو سَڑ سے گھسیٹ کر بجلی کے ایڑ لگائی جو پھنپھناتا ہوا فجو خاں، اور بکس کی چٹھیا کا راستہ روک کر پاؤں پٹخنے لگا۔ پھر فجو خاں اور بکس کے کئی جیالے ساتھیوں نے اپنے بازو اور سینے پر کوڑے کی چلتی ہوئی چوٹ محسوس کی۔ ساتھ ہی مجو بھیا، چھوٹے خاں اور دوسرے بڑے بوڑھوں کی گالیوں کی بوچھار تیروں کی طرح ان کے کلیجوں پر پڑی اور وہ جہاں تھے وہیں مچل کر رہ گیے۔

    اب میدان صاف ہوچکا تھا۔ پیرا، تراب، اور تراب کے بھتیجے کی لاش چھوڑ کر سارے گدّی بھاگ نکلے۔ بھکا او ر رام دین نے لاٹھی کے گولوں سے تراب کی لاش بگاڑدی، پھر آدمیوں کو سمیٹ کر بھیکم پور پر ہلا بول دیا۔ چیختی ہوئی عورتوں نے اپنے آپ کو اور روتے ہوئے بچوں کو اٹھاکر کوٹھریوں میں دفن کرلیا یا پڑوس کے بردے پر بھاگ نکلیں۔ تراب کے اندر سے بند دروازے پر چھوٹے سے چھپر کا مٹھا بھرپوس نوچ کر بھکا نے البٹی سے دیا سلائی نکالی ہی تھی کہ حدنگاہ تک پھیلے ہوئے پاسیوں کی کائی پھاڑ کر مجو بھیا کا بجلی تراب کے چھپر کے پاس پہنچ گیا۔

    ’’راج دین۔‘‘

    ’’بھیا۔‘‘

    ’’یہ کچھ نہیں ہوگا۔ تم گاؤں کی کسی مرغی کو بھی نہیں چھیڑوگے۔ بس پچاس آدمی روک کر تراب کے گھر کا پہرہ دو۔ سونا باہرنکل گئی تو مقدمہ ہار جاؤ گے۔ میں تھانے خبر بھیجتا ہوں۔‘‘

    پھر سارے میں لال صافے پھیل گیے۔ مان پور تک میں طاعون سا چل گیا۔ چھوٹے سے بڑے تک سب اپنے اپنے گھروں میں دبک گیے۔ مجو بھیا کے نوکر اور مجو بھیا کے گھوڑے سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے اور بس عشاء کی اذان ہوتے ہوتے ہردوئی کا سپرنٹنڈنٹ پولیس آگیا۔ مان پور کے مڈل اسکول میں تھانیداروں سے گفتگو کرنے کے بعد علاقے کی سب سے بڑی بستی کے سب سے بڑے آدمی کو طلب کیا گیا۔ جامدانی کی شیروانی اور چوڑی دار پائجامے پر لکھنؤ کا کڑھا ہوا پلا دیے، سچے کام کے جوتے کو آہستہ آہستہ چرمراتے ہوئے دیوقامت مجو بھیا ہال میں داخل ہوئے تو انگریز سپرنٹنڈنٹ نے کھڑے ہوکر ہاتھ ملایا اور کرسی کی طرف اشارہ کرکے بیٹھنے کو کہا۔ گیس کی تیز روشنی میں ان کے دہکتے چہرے پر بڈھے انگریز کی نگاہ نہ ٹھہرتی تھی۔ کپتان اور کپتان کی موجودگی میں ہندو تھانیدار نے ایک سے ایک ترچھے ٹیڑھے سوال کیے۔ لیکن مجو بھیا نے اس بلوے کو ہندو مسلم فساد نہ بننے دیا۔ گدیوں نے یہ تو دیکھا ہی تھا کہ اگر مجو بھیا بیچ میں نہ آجاتے تو پاسی پورا بھیکم پور پھونک دیتے، نہ کہ تراب کا چھپر تک کھڑا تھا، پھر ان کو یقین تھا کہ اگر مجو بھیا کا نام درمیان میں آگیا تو مان پور سے مسلمان شہادت کا ملنا آسان نہ ہوگا۔ اس لیے گدیوں نے بہت سوچ سمجھ کر مجو بھیا کا نام نکالا تھا۔ پاسیوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

    مجو بھیا کو اس کا علم تھا۔ وہ ٹھاٹھ سے بیٹھے ہوئے جواب دے رہے تھے۔ انگریز کپتان اور ہندو تھانیدار دونوں ان کی سچائی کے معترف تھے۔ مرعوب تھے۔ مجو بھیا کے گھر سے آئی ہوئی چائے کی ایک پیالی پی کر جب کپتان جیپ پر بیٹھا تو اس نے مجو بھیا سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ اپنے بجلی پر سوار ہوکر کپتان کی جیپ کے آگے آگے چلے۔ اور ان کی موجودگی میں تراب کے گھر سے بھکا پاسی کی بیوی سونا برآمد ہوئی۔ جس کے وجود اور بیان نے نہ صرف مقدمہ کی نوعیت بدل دی بلکہ مجو بھیا کے بیان کی تصدیق ہوگئی۔ ابھی کپتان سونا کا بیان دیکھ رہا تھا کہ پٹواری لال پرشاد جھوا بھر کاغذات لے کر مجو بھیا کے پاس آگیے اور مجو بھیا نے مکھن والے پیڑ کے اندراجات کپتان پولیس کو دکھلادیے۔ جن کو وہ اتنے غور سے دیکھ رہا تھا گویا واقعی سب کچھ سمجھ رہا ہو۔

    مان پور کے مڈل اسکول میں ساری رات گیسیں جلتی رہیں۔ رتجگا ہوتا رہا۔ صبح ہوتے ہوتے لاشیں اور سات پاسیوں کا چالان روانہ ہوگیا۔ مجو بھیا جب گھر آئے تو بھیڑ بیٹھی انتظار کر رہی تھی۔ اپنی اہمیت کا اندازہ کرکے مسرور ہوتے رہے۔ انہوں نے مختصر جوابات عنایت کیے۔ چھوٹے خاں کی قیادت میں مجمع منتشر ہوگیا۔ وہ شیروانی اتارتے ہوئے اندر گیے تو باورچی خانے میں رجب کی اماں کے ساتھ للّی بھی چائے کے برتن درست کرنے لگی۔ للّی کے گورے گورے ہاتھوں میں چائے کی کشتی دیکھ کر ان کی تھکن پر لگاکر اڑ گئی۔ جیسے دن بھر کے تھکے بیل گڑ کی لوئی کھاکر تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ للّی نے انڈوں کے چلے کی پلیٹ اور ترتراتی ہوئی روغنی روٹیاں ان کے آگے رکھیں تو ان کے ہونٹوں کو للّی کے گالوں کی لذّت یاد آگئی۔ ان کی گردن نے شانوں سے نکل کر گھر کا جائزہ لیا۔ سارے میں سناٹا تھا۔ باورچی خانے سے رجب کی اماں کی کھڑپٹڑ کی آواز آرہی تھی۔ مجو بھیا نے ہاتھ بڑھاکر اس کی میدے کی کلائی پکڑلی۔

    ’’تراب کی لاش دیکھ لی تم نے۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    اس نے اپنی کلائی چھڑا کر کہا۔

    *

    للّی نے اپنے دروازے سے دیکھا۔ حاجی میٹھے کھیت میں پانی لگا رہے تھے۔ نوکر ڈول کھینچ رہے تھے۔ مرغیاں ٹاپے کے اندر کڑکڑا رہی تھیں۔

    ’’حاجی کھول دیتے تو ہاتھ نائیں ٹوٹ جاتے۔‘‘

    بڑبڑا کر اس نے روٹی کی ڈلیا اتاری۔ ایک ہاتھ سے ٹاپے کی سل الٹ کر چارپائی پر بیٹھ گئی اور اطمینان سے روٹی مل مل کر ان کو کھلاتی رہی۔ کنکھیوں سے ٹاپے کے پاس پڑے ہوئے انڈے دیکھتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد منگلو کی موٹی موٹی گالیوں کے ساتھ ’’گھمکے‘‘ سنائی دیے۔ اس نے ڈلیا پھینک کر کنواری لڑکیوں کی طرح قلانچ لگائی اور دروازے کی جھریوں پر آنکھیں رکھ دیں۔ مرغیاں کڑکڑاتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے آکر کھڑی ہوگئیں، لیکن وہ لمبی لمبی سانسیں لیتی دروازے پر جھکی رہی۔ چندا کا دوپٹہ زمین پر پڑا تھا۔ الجھے بالوں کی لٹیں منہ پر جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے بہہ کر موٹے موٹے آنسو لال لال گالوں پر چمک رہے تھے۔

    ’’تم ہوں اُوکے بدمعاش کے ساتھ بکسے میں بند ہوئے کے چلی جاؤ۔‘‘

    منگلو نے کٹکٹاکر کہا اور دھمر دھمر گھونسے مارنے لگا۔ للّی نے جھن سے زنجیر کھولی اور گڑاپ سے اندر چلی گئی۔

    ’’توکا مار ڈلیہو تم ای کا۔۔۔ چھوڑو۔‘‘

    منگلوکے ہاتھ سے چندہ کی کلائی چھڑاکر وہ اسے لیے ہوئے اپنے گھر چلی آئی۔ پیتل کے لوٹے میں پانی بھر کر چندہ کا منہ ہاتھ دھلایا۔ پھر مرادآبادی گلاس میں گڑ کا شربت بناکر اسے پلایا۔ للّی نے اپنے دل کی جھولی میں خوشیوں کی اشرفیوں کی ایسی جھنجھناہٹ سنی کہ انگ انگ ناچ اٹھا۔ ’’موت زندگی اللہ کے گھر سے ملتی ہے۔۔۔ رودھو کر اپنا آپ جلاتی ہو۔۔۔ مٹی خراب کرتی ہو۔‘‘

    للّی نے چھوٹے خاں کی بہو کی پیاری پیاری باتوں کو نقل کی۔ پھر چندہ کے سوکھے بالوں کی چوٹی گوندھنے لگی۔

    ’’آج بھیا پوچھ رہے تھے کہ تراب کی منگلو کی دولہن سے بھی کچھ جان پہچان ہے۔‘‘

    چندہ نے چونک کر اپنے بال چھڑالیے۔ لال لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔

    ’’مجو بھیا پوچھت رہن۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ معلوم ناہیں ان کا کیسے سن گن مل گئی۔‘‘

    ’’تم کا کہیو۔‘‘

    ’’میں کہیوں۔۔۔ اللہ اللہ کرو بھیا۔۔۔ دیوار سے دیوار ملی ہے مورے گھر کی۔۔۔ دال تک بگھاری گئی تو میں کا معلوم۔۔۔ اتنا لاٹ ایسا آدمی آتا تو پردے پڑے رہتے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر کا۔۔۔ چپ سادھ لی۔۔۔ مگر ان کا شک۔‘‘

    محرم بھر حکام پڑے رہے۔ ان کے ناشتے کے انڈوں سے لے کر گھوڑوں کی گھاس تک مجو بھیا کے نوکر مہیا کرتے رہے۔ تھانیدار سکسینہ تو ان کامرید ہوگیا۔ تھوڑی سی دوڑ دھوپ کرکے اس نے مجو بھیا کو بندوق کا لائسنس دلادیا۔ ادھر مجو بھیا نے مقدمے کی ایسی پیروی کی کہ ایک ایک آدمی سشن سے چھوٹ گیا۔ ٹھیک ہولی کے دن مجو بھیا لکھنؤ سے دونالی بندوق خرید کر لائے۔ رات میں پاسیوں نے مجو بھیا کے دوارے پر جشن کیا۔ رات بھر کڑاھیاں چڑھی رہیں۔ رات بھر رنڈیاں ناچتی رہیں۔ للّی نے اسی رات مسجد میں طاق بھرے اور میلاد شریف کیا۔ مجو بھیا شامیانے کے نیچے گاؤ لگائے الوان اوڑھے سگریٹ پیتے رہے۔ ناچ دیکھتے رہے۔ وہ شرمیلے مجو بھیا جو جوان عورتوں کا راستہ چھوڑ دیتے۔ بات کرتے تو لڑکیوں کی طرح آنکھیں نہ اٹھاتے۔ ہزار بارہ سو پاسیوں کے دیو استھان پر بیٹھے ہوئے خرانٹ عیاش کی طرح ناچ دیکھتے رہے۔ رام دین اپنے چکی کے پاٹ ایسے سینے پر کارتوسوں کی پیٹی کا تمغہ لگائے ان کے پیچھے بیٹھا رہا۔

    مجو بھیا کے مکان سے گزرتی ہوئی سڑک پر تھوری دور چل کر بائیں طرف مڈل اسکول تھا، جس کی جھنجھری دار چہادریواری گوٹ کی طرح سڑک پر رکھی تھی۔ اس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف اسکول کی فیلڈ تھی جسے لوگ میدان کہتے۔ یہاں بستی بھر کے چھٹا جانور چرا کرتے۔ لڑکے گلی ڈنڈا اور کبڈی کھیلتے، کبھی کبھی پتنگ کے ’’میچ‘‘ بھی منعقد ہوجاتے۔ اس کے اطراف میں پٹھانوں، کبڑیوں اور دوسروں کے ملے جلے مکان تھے۔ نئی لڑکی کی پکائی ہوئی روٹی کی طرح ٹیڑھی میڑھی دیواروں پر بوڑھی عورتوں کے بالوں کی طرح مراہے چھپر جھولا کرتے۔ بوڑھی کھوسٹ دیواروں سے پھوٹتے سوراخوں سے سیراب ہوتے ہوئے کالے نابدان راہگیروں کی ناک پر رومال رکھ دیتے، کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر یہ کالی غلاظت سودے سلف سے لدے پھندے بوڑھے بوڑھے آدمیوں کواسکول کے لڑکوں کی قواعد کراتی رہتی۔

    عورتیں اپنی دہلیز کے نیچے دواینٹیں رکھ کر بچوں کے لیے سنڈاس بنادیتیں۔ جس چبوترے کے چھپر میں کالو درزی کی مشین رکھی تھی وہاں سے جلیبی جان کے گھر تک دونوں طرف دوکانیں ملتیں۔ جلیبی جان کے مکان کے سامنے سڑک کے داہنی طرف لمبے چوڑے میدان میں گوریّا سے لے کر ہاتھی کی قبر کے سائز تک کے ان گنت چبوترے ملتے جن پر ہفتے میں دو دن دوکاندار اپنی دوکانیں سجاتے۔ اس کے آگے سکلیوں ڈھپالیوں کی بستی فقیر کی گدڑی کی طرح پڑی سوکھتی رہتی جس پر بدصورت عورتوں اور غلیظ بچوں کی مکھیاں بھنبھنایا کرتیں۔ یہاں سے ذرا داہنی طرف مڑ کر دیکھنے سے مان پور کی مسجد کا گنبد نظر آتا۔ جس کا صحن مجو بھیا نے وسیع کرایا تھا۔ مسجد کے پاس ہی پرائمری اسکول کی جھکی جھکی سی عمارت دکھائی پڑتی۔ جیسے کوئی لڑکا ملگجے کپڑے پہنے ٹاٹ پر بیٹھے ہوئے نقشہ بنارہا ہو۔

    پرائمری اسکول کے سامنے آبادی ہے اور پیچھے کھیت۔ اس کے لمبے چوڑے رقبے کو بانسوں کا سرسبز احاطہ گھیرے ہوئے ہے۔ اس کے کمروں میں مختلف لوگ مختلف قسم کے کام کرتے۔ دن میں لڑکے پڑھتے ہیں۔ شام میں اگر کھیت کھلیان کا جھگڑا نہ ہوا تو ’’لکی لکورا‘‘ کھیلتے نوخیزلڑکے اور لڑکیاں اُن کے اندھیارے کنجوں میں نمبردار اور تربھون کی ٹوٹنکی میں دیکھی ہوئی لیلیٰ مجنوں کی کہانی دہراتے۔ اغوا کی ہوئی عورتیں اس کے کمروں سے برآمد ہوتیں۔ جب چنی لال چرسئے اور چھجومل کلوارنعل نکالنے میں بے ایمانی کرنے لگے تو مجبوراً یہاں بھی دوچار دن جوا کھیل لیا جاتا۔ یہاں سے تیر کی طرح سیدھا گلیارہ چھ سات گھروں کو پار کرکے چھوٹے خاں کے گھر کے پاس ٹھٹک جاتا۔

    چھوٹے خاں کے چبوترے سے ملے لمبے چھپر میں مان پور کا مکتب تھا۔ جہاں چھوٹے چھوٹے لڑکے لڑکیوں کو نابینا مولوی صاحب قرآن مجید پڑھانے کے بہانے دن بھر بیٹھے اونگھا کرتے اور محلے سے آئی ہوئی روکھی سوکھی روٹی کھاکر جانوروں کی طرح ڈکارتے رہتے اور اس خدا کا شکر ادا کرتے جس نے ان کو مولوی صاحب بنادیا۔ چھپر کے سامنے پختہ کنواں تھا۔ جس کی جگت سے ملا ہوا حوض دھلی ہوئی پنڈلیوں اور کلائیوں سے جگمگایا کرتا۔ یہ کنواں محلے کے بنجر علاقے میں سرسبز نخلستان کی طرح قہقہوں سے کھنکتا رہتا۔ سرگوشیوں سے گنگنایا کرتا، بفاتی کی لڑکی گھڑے سے چلو میں پانی لے کر منہ دھو رہی تھی کہ فجو خاں نے اپنے بروٹھے کی آڑ سے کنکری ماری، اس نے بھیگی ہوئی آنکھیں سکیڑ کر پہلے فجو خاں کی جھانکتی ہوئی دھوتی دیکھی پھر ارد گرد کامطالعہ کرکے اطمینان سے منہ دھونے لگی۔

    فجو خاں اس بروٹھے میں کھڑے رہے جس کے ایک کونے میں بکری کے کھونٹے کے پاس میگنیاں پڑی سلگ رہی تھیں۔ جیسے عوددان میں عود مہکتا ہو۔ پھر فجو خاں آہستہ سے دروازہ کھول کر باورچی خانے میں بوڑھی اماں کو بجھڑے کا آٹا گوندھتے ہوئے دیکھ کر کوٹھری میں چلے گیے۔ بانس کی ڈھکن دارڈلیا میں کھتے چونے میں لت پت مٹی کی کلھیاں رکھی تھیں۔ انہوں نے ان کو نکال کر نیچے کاپرت دیکھا لیکن ایک بھی پیسہ نہ پاکر پلنگ کے نیچے سے ٹین کا صندوق گھسیٹ لیا۔ ڈھکنا ان کے ہاتھ میں ہی تھا کہ پیچھے سے ان کی دولہن کلثوم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’الّاقسم ایک پیسہ نہیں ہے ان میں۔‘‘

    فجو خاں نے ایک جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑالیا۔

    ’’تو دیکھ لینے دو۔۔۔ پریشانی کا ہے کی ہے۔‘‘

    بکس میں ہاتھ ڈالتے ہی وہ لپٹ گئی۔ فجو خاں نے اسے کمر سے اٹھاکر اتنے زور سے چارپائی پر دے مارا کہ وہ چیخ پڑی۔ چیخ کی آواز سن کر چھوٹے خاں نے ہانک لگائی، ’’فجو۔۔ اَبے اَے فجوا۔‘‘ فجو نے باپ کی آواز جو سنی تو کلثوم کے کالے کالے گالوں کو ہاتھ میں لے کر مکار آنکھوں سے خوشامد کرنے لگے۔

    ’’سنا نہیں تونے۔‘‘ جلدی سے باہر نکل کر چوروں کی طرح وہ باپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

    ’’اسکول چھوڑا۔۔۔ کھیت کھلیان چھوڑا۔۔۔ اب بھیا کے یہاں اٹھنا بیٹھنا بھی چھوڑا، گھر میں کوئی خزانہ گڑا ہے کہ میں کھود کھود کر دوزخ بھرتا رہوں۔ دس مرتبہ کہا کہ بھیا سے کہہ کر بزار کا ٹھیکہ لے لے۔‘‘

    ’’نیلام کے دن تو آویں۔۔۔ کہ ٹھیکہ کوئی کھٹیا ہے۔۔۔ جب جی چاہے لے آؤں۔‘‘

    ’’سنتی ہو تم فجو کی اماں۔۔۔ باتیں دیکھو سالا کیسا بارہ ہزار کی کرتا ہے۔‘‘

    چھوٹے خاں تقریر رَٹ چکے تھے۔ ابھی انہوں نے ابتداہی کی تھی۔ مگر فجوخاں بروٹھے میں غڑاپ سے الوپ ہوگیا۔ کنویں کی جگت خالی پاکر وہ آگے بڑھ گیا۔ بشیر اپنے بھائی کی پرچون کی دوکان پر بیٹھ کر پڑیاں باندھتے شعر کہتے اور کوئی خوش روگاہک آجاتا تو گنگناکر آنکھیں سینک لیتے۔ جلیبی جان کے چبوترے کے ایک مونڈھے پر بشیر کا بھی نام لکھا تھا۔ فجو خاں نے پہلے سوچا کہ بشیر سے کہے پھر خیال آیا کہ یہ خود ہی ایک آدھ بیڑی کے بنڈل پر دن بھر پڑیاں لپیٹا کرتا ہے۔ اس کے پاس کیا ہوگا۔ نور علی اپنے بساطے کی چادر پر بیٹھے طلسم ہوشربا کے انداز میں اخبار پڑھ رہے تھے۔ سامعین انتہائی سنجیدگی کے ساتھ بیٹھے سن رہے تھے۔ جیتے تراویح سنی جارہی ہو۔ دوکان کے نیچے تین ٹانگ کے تخت پر میلے کچیلے اٹنگے پائجامے اور تہبند پہنے برسوں کے پرانے تاش کھیل رہے تھے۔ وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ منور نے پتا پھینک کر صدادی۔

    ’’اینیٹ کی بیگم حکم کے یکے پر چلی گئی خاں صاحب۔‘‘

    فجوخاں نے مسکراکر اس کا جواب دیا اور رکھیسیں نکالے ہوئے چمر دوھے جوتے کو گھسیٹتا بڑھ گیا۔ چنی لال چرسئیے کے چھپر میں بیٹھا منگلو کوڑیاں ہلارہا تھا۔ اس نے فجوخاں کو دیکھ کر سلام کیا اور کوڑیاں پھینک دیں۔ مگر فجو خاں اڑے چلے گیے۔ منگلو قصائی کے دروازے پر بھرجی کا کالا کالا لڑکا پیتل کی تھالی میں چنے کی دال کی پٹی لیے کھڑا تھا۔ چندہ کرتے کا دامن اپنی ٹھڈی کے نیچے دبائے شلوار کے ازاربند میں بندھے ہوئے پیسوں کی گرہ کھول رہی تھی۔ فجوخاں کی نظر اس کے پیٹ پر جم گئی۔ پھر کولہوں کا طواف کرتی ہوئی للّی کے آنگن میں داخل ہوگئی۔

    ’’کاچلے آویں۔۔۔ چچی۔‘‘

    ’’آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔‘‘ للّی نے روٹی کو توے پر ڈال کر اپنے گھنٹے لہنگے میں چھپالیے۔ گھائیں کی روٹی گھماتے ہوئے بولی، ’’کیسے آئے گئو اتنے وخت۔‘‘ للّی کے لہجے کی ٹھنڈک سے وہ کھٹک گیا۔ لیکن ہونٹوں پر آئی ہوئی اُگل ہی دی۔

    ’’آج ایک اٹھنی دے دیو۔۔۔ کل بارہ آنے لے لیو۔‘‘

    ’’کاننھی پیڑے مانگن ہیں۔‘‘

    ’’یہی سمجھ لیو۔‘‘

    پیسے تو بھائی اتنے وقت ناہیں۔ کہو تو ترکیب ایک بتائے دیں۔‘‘

    ’’بتاؤ۔‘‘ وہ بہت دور سے بولا۔

    ’’چندا کل ایک گنی بھنائن ہیں۔‘‘

    ’’گنّی۔۔۔ اور چندہ۔‘‘

    ’’ارے ہاں۔۔۔ تراب کی دی ہوئی ایک آدھ پڑی ہوئی ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔! تب ہی منگلو چنی لال چرسئیے کے یہاں بیٹھے تھے۔۔۔ میں کہوں مینڈکی کو زکام کہاں سے ہوا۔‘‘

    ’’اینٹھ لیو دو ایک روپیہ تم ہو۔‘‘

    ’’ہے اتنے وقت اکیلی۔‘‘

    ’’اتنے وقت روٹی پانی کے وقت کون سگا بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ منگلو ہوئے تو ہوئے۔‘‘

    ’’منگلو تو کوڑی پھینک رہے ہیں۔۔۔ ادھر سے چلے جائیں۔‘‘

    ’’چلے جاؤ۔‘‘

    فجو خاں نے آہستہ سے دروازہ کھلا۔ چھپر میں چارپائی پر بیٹھی چندہ پٹی کھارہی تھی۔ چونک کر کھڑی ہوگئی۔ سرہانے سے چادر اٹھاکر اوڑھنے لگی۔

    ’’مجو بھیا نے بھیجا ہے تم سے بات کرنے کو۔۔۔ دروازہ بند ہے باہری۔‘‘

    فجوخاں نے کھنکار کر کہا اور اس کے بھاری مدن کے نشیب و فراز کو گھورنے لگا۔ وہ چپ کھڑی رہی تو فجوخاں نے خود جاکر اپنا اطمینان کرلیا۔ اور اس کے سامنے پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیے اور بڑے متفکرانہ انداز میں بولے، ’’تراب نے ایک گدی سے کہا تھا کہ پستول تمہارے پاس ہے۔۔۔ اب وہ گدی بھیا کے پاس آیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگرچندہ نے پستول نہ دیا تو پولیس کو خبر کر دی جائے گی۔ پولیس خود برآمد کرالے گی۔‘‘

    ’’چاہے جیسی قسم لے لیو۔۔۔ میں نائیں جانت ہوں پستول۔‘‘

    ’’دیکھو پولیس کو پہلے ہی سے سن گن ہے۔ بھیا نے پانوں نہ ٹیکا کیونکہ تم اگر پولیس کے ہاتھ پڑجاتیں تو معلوم نہیں کیا حشر ہوگیا ہوتا تمہارا اس لیے۔‘‘

    ’’تراب نے گنی بھی چھوڑیں۔‘‘

    ’’گنی۔‘‘

    ’’ہاں ہاں گنی۔۔۔ جو کل بھن کر آئی ہیں ہردوئی سے تب ہی کہہ رہا ہوں آج۔‘‘

    اس کا چہرہ سفید ہوگیا۔ فجو خاں نے اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹ لیا اور گبرون کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا۔

    جلیبی جان کی صورت تو ایسی تھی جیسے بھینس کی ران پر چاقو سے آنکھیں گود دی جائیں۔ ناک کی لکیر کھینچ کر دونقطے رکھ دیے جائیں۔ مگر خدا نے گلا ایسا نور کا دیا تھا کہ بڑی بڑی اکھاڑے دار طوائفیں بے سری ہوجاتیں۔ مان پور کے جوانوں کو پنڈٹ درگا سہائے کی شادی یاد تھی۔ ککراواں کی کوٹھی کے سامنے شامیانے میں لکھنؤ اور فیض آباد کی طوائفوں کے ڈھیر لگے تھے۔ جب جلیبی جان اپنے سازندوں کے ساتھ پہنچیں تو محفل تو خیر محفل تھی، طوائفیں تک منہ پھیر پھیر کر ہنسنے لگیں۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے بدصورت ہیجڑے نے پیشواز پہن لی ہو۔ طبلے پر رام دلارے کی تھاپ پڑتے ہی جلیبی جان نے ایک ہاتھ کان پر رکھ کر جو تان لگائی تو محفل سانس لینے لگی۔ ساز لودینے لگے۔ جلیبی جان نے بیٹھے بیٹھے بدنصیب انشاء کی وہ غزل چھیڑی جس میں اس کے نصیب کی کافرماجرائی دھڑک اٹھی ہے۔

    نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

    توبوڑھے بوڑھے رئیس جن کے سینوں میں فارسی کے دیوان دفن تھے، ایک ہاتھ سے آنکھوں کے گوشے پونچھنے لگے۔ دوسرے ہاتھ سے جیبیں خالی کرنے لگے۔ رملا مو کے جواہر سنگھ کے پاس جب کچھ نہ رہا تو کانوں کے دُر اتارکر پھینک دیے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جلیبی جان اور ان کے سازندے برسوں اس مجرے کی روٹی کھاتے رہے۔ منی جان کے جوان ہوتے ہی جلیبی جان نے گھنگھرو اتار کر اس کو پہنادیے اورآپ چولہا پھونکنے لگیں۔ منی جان اور ننھی جان دونوں بے سری تھیں۔ گانا ان کے پیشے کا بہانہ تھا۔ صورت شکل میں بھی آدمی کا بچہ تھیں مگر جوان تھیں۔ جوانی اور رنڈی کی جوانی۔ مان پور کے ساتے بے فکرے چونی اٹھنی کا بندوبست کرکے رنگی چونگی بھر کر ایسی گول مٹول طوائفوں میں بیٹھ کر ذرا ہنس بول لیتے۔ فجو خاں اور بکس مان پور کے دوسرے ہنگاموں کی طرح یہاں بھی پیش پیش رہتے۔ چندہ سے چاندنی کے چھنچھناتے ہوئے چار روپے لے کر فجو خاں سیدھے بکس کے یہاں پہنچے۔ اور اس کا ہاتھ اٹھاکر اپنی جیب پر رکھ لیا۔ بکس نے یہ خزانہ جو دیکھا تو جلدی جلدی ہاتھ پاؤں دھوکر جامدانی کی قمیص میں چاندی کے زنجیر دار بٹن لگائے اور لاٹھی لے کر فجو خاں کے ساتھ ہولیا۔ جلیبی جان کی چھوٹی بیٹی ننھی جان پر صدقے ہوکر جب یہ لوگ باہر نکل آئے تو فجو خاں نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر خالص مہاجنی انداز میں بجایا۔ روپئے کی شیریں کپکپاتی آواز کی طرح بکس کے اعصاب بھی جھنجھنا اٹھے۔ وہ اب تک سوچ رہا تھا کہ آخرفجوخاں کو چار روپے ملے کہاں سے۔

    ’’یاربکس اگر تقدیر سے یاری ہوجائے تو ایک کے چار بن سکتے ہیں۔۔۔ اور کل پھر۔‘‘

    ’’یار مجو بھیا کے کھیت میں آلو بوکر تو ہم بھرپائے جب دیکھو بپا ٹھینا دیا کرت ہیں کہ جون ہاتھن سے بھیا کے کھیت سے سونا نکالے ہو انھیں ہاتھوں سے اپنے یہاں کچھ کرکے دکھاؤ۔ اور یوں بہانے لے کر بیڑی پینے کا بھی ٹکا نہیں دیت ہیں۔ لے دے کے ایک ٹھکانا بھیا کا رہ گوا ہے۔۔۔ باقی سب خیر صلّا ہے۔‘‘

    ’’یار کہیں سے ایک روپیہ بناؤ۔۔۔ تو چار بازی کھیل لی جائیں۔‘‘

    ’’بھیا سن پائے تو کھال اتار ڈالی جیہئے۔‘‘

    ’’یہ بات تو ہے۔‘‘

    ’’اچھا آج چھوڑو۔۔۔ شاید کل تک کوئی بندوبست ہوجائے۔‘‘

    *

    دوسرے ڈاکو اور بدمعاشوں کی طرح تراب کا نام بھی چٹخارے دار کہانی کہنے والوں کی زبان تک محدود ہوکر رہ گیا۔ لیکن چندہ کے نام کو پر لگ گیے۔ میلے کچیلے کپڑے پہن کر گوشت کی جھوئی سر پر رکھ کر جب وہ گھروں میں جاتی تو نگاہیں چونک چونک کر اس کے جسم کے خطوط میں وہ کہانی ڈھونڈھنے لگتیں، جس پر جوار کے سب سے نامی آدمی کا نام لکھا تھا۔ منگو بجھڑے کی روٹی اور اوجھڑی کا سالن دے کر اس کی پیٹھ پر اتنے گھونسے مارتا کہ اس کے پیٹ میں سانس نہ سماتی۔ یہ تو وہ جھیل ہی رہی تھی لیکن فجو خاں کے بکوٹوں کی ٹیس سے وہ بے قرار ہوگئی۔ بیچ کی دیوار پھاند کر جب للّی کی آواز اس کے آنگن میں آکر کدکڑے لگاتی تو وہ دانت پیس کر رہ جاتی اور اسے یقین ہوجاتا کہ اسی حرافہ نے بھیا سے پستول والی بات داغی ہے۔ اس بدمعاش نے فجو خاں کو گنی کی چھناچھن سنائی ہے۔ منگلو دوکان بڑھاکر آیا تو اس نے کھال میں نمک بھر کر رکھ دیا اور چھولی سے بھیجے اور گردے نکال کر نئی بنی ہوئی ڈلیا میں رکھتے وقت اس نے طے کر لیا کہ اگر جوتے ہی کھانا ہے تو فجو خاں اور پولیس کے سپاہیوں کے کیوں کھائے جائیں۔ بھیا کے کھالیے جائیں، جن کی ایڑی کے نیچے للّی کی چٹیا بھی دھری ہے۔

    *

    اساڑھ بھرنے لگا تھا مگر پوس کی طرح آسمان ننگا پڑا تھا۔ بادلوں کے پیرہن موسم کے پٹارے میں تہہ کیے رکھے تھے۔ سفید دیواروں سے گھرے ہوئے صحن میں دو سیدھے شہتیروں پر ایک آڑا شہتیر جڑا ہوا تھا جیسے فٹ بال کی فیلڈ سے ’’ایک گول‘‘ اکھاڑ کر کھڑا کردیا گیا ہو۔ آڑے شہتیر میں لمبا سا پنکھا جھول رہا تھا۔ مجو بھیا کی مسہری کے نیچے پڑے ہوئے جوتوں سے تھوڑی دور کے فاصلے پر آدمی بھر اونچا اسٹول رکھا تھا۔ اس پر ایک چمار کا لڑکا مشین کی طرح نصب پنکھے کی ڈوری لیے جھوم رہا تھا۔ مگر مجو بھیا کروٹیں بدلے جارہے تھے۔ بے آب و گیاہ میدان میں سبزے کی جستجو کرتے آہو کی مانند نیند معلوم نہیں کتنی دور نکل گئی تھی۔ مجو بھیا ایک ایک خواب ایک ایک خیال دل کے نہاں خانے سے نکال لائے۔ لیکن جلتی ہوئی پلکوں میں صلح نہ ہوئی۔ پھر مرغے بولنے لگے۔ اذانیں ہونے لگیں۔ استاد مدی آگیے، س کھاڑے میں پٹھے زور کرنے لگے، نوکر اصطبل میں جھاڑو دینے لگے، سائیس گھوڑوں کے کھرارہ کرنے لگے لیکن مجو بھیا سینبھل کی روئی کے تکیوں پر سر رگڑتے رہے۔ پھر مدی استاد نے کنکھیوں سے مجو بھیا کی مسہری دیکھ کر پورن کو نیم کی مسواک توڑنے کا اشارہ کیا۔ پورن نے لاٹھی سے مار کر مسواک توڑی۔ لنگوٹ میں لگے ہوئے چاقو سے اسے صاف کیا، اپنے بنائے ہوئے بدن پر انگوچھا ڈال کر مجو بھیا کے پائتی کھڑا ہوگیا۔ دیر کے بعد مجو بھیا نے ہاتھ بڑھاکر مسواک لے لی۔

    ’’زور نہیں کروں گا۔۔۔ رام دین کو بلواؤ۔۔۔ ککراواں جاؤں گا۔‘‘

    پورن مڑگیا۔ مجو بھیا مسواک کو دانتوں میں دباکر تہبند کی گرہ درست کرتے ہوئے دوسرے مکان کے اس بڑے سے کمرے میں گھس گیے جو غسل خانے کے فرائض انجام دیتا تھا۔ منواں پاسی نے شیخ مرحوم کے وقت کا سوٹ کیس کھول کر چوڑی دار پائجامہ اور کڑھا ہوا کرتا نکالا۔ ازاربند ڈالنے کے لیے جھانکر کی لکڑی کو صاف کرنے لگا۔ شیروانی میں چاندی کے بٹن لگاکر گروین نے ناشتے کے تیار ہونے کی اطلاع دی لیکن بھیا نے نفی میں سرہلاکر رام دین کے ہاتھ سے جو تالے لیا جو بڑی دیر سے اپنے انگوچھے سے چمکا رہا تھا۔ رام دین اپنے کندھے سے بندوق لگائے کنپٹی پر بہتا ہوا تیل انگلیوں سے پونچھ رہا تھا۔ بھیا کو آتا دیکھ کر اس نے بندوق کے فیتے کو گردن میں پہن لیا۔ بجلی کو چمکتی ہوئی کاٹھی پہناکر سائیس لے آیا۔ جسے جے نے لپک کر ایک رکاب پکڑلی اور مجو بھیا سوار ہوگئے۔

    مان پور سے ککراواں کی کوٹھی تک ان گنت سلاموں کو سرکی جنبش سے قبول کرتے ہوئے مجو بھیا نے پورٹیکو میں سینے تک لگام کھینچ کر بجلی کو روکا۔ جب تک رام دین اپنے گھوڑے سے اترے۔ ککراواں کے سپاہی نے چھل بل دکھلاتے ہوئے بجلی کی لگام پکڑلی۔ مجو بھیا اس کی گردن تھپتھپاکر اتر آئے۔ کسی خدمت گار نے لپک کر چق اٹھادی۔ پنڈت درگا سہائے نے بھاری تخت کی مسند پر گاؤ لگائے چاندی کی گڑ گڑی پی رہے تھے۔ جھاگ ایسی سفید دھوتی ان کے کولہوں پرٹکی ہوئی تھی۔ گردن کی سنہری زنجیران کے ننگے پیٹ کے رقبے کو چھو رہی تھی۔ مجو بھیا کے سلام کا مسکراکر جواب دیا اور اپنے پاس ہی تخت پر بٹھالیا۔ خدمت گار پائیدان پر جوتے اتار کر قالین پر ہولے ہولے قدم رکھتا آیا اور مجو بھیا کی پشت پر کھڑا ہو کر پنکھا ہلانے لگا۔ چھت گیری سے طلوع ہوتے ہوئے فانوس کے نقش و نگار دیکھتے ہوئے مجو بھیا کو درگا سہائے نے مسکراکر دیکھا۔

    ’’کیسے نکل پڑے صبح صبح۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ ہی کے پاس آیا ہوں۔‘‘

    ’’ٹھنڈائی نہیں آئی۔‘‘

    درگا سہانے نے خدمت گار کو دیکھ کر جھڑکی دی۔

    ’’آئے رہی ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا اور پنکھا تیز کردیا۔

    ’’تحصیل جارہے تھے۔‘‘

    ’’جی۔۔۔ نہیں۔۔۔ سناتھاکوئی جودھپور سے گھوڑا منگوایا ہے آپ نے۔‘‘

    درگا سہائے نے پہلو بدل کر تفخر سے گردن ہلائی۔

    ’’منگوایا ہے۔‘‘

    ’’ایسی دھوم مچی ہے علاقے میں کہ سن سن کر نیند اڑ گئی۔‘‘

    پنڈت کے پشت کا دروازہ ہٹاکر ایک کالا کالا لڑکا ہاتھوں میں کڑے پہنے آیا اور دوپلیٹوں میں پکوان اور دوگلاسوں میں ٹھنڈائی تخت پر رکھ کر تھالی ہلاتا ہوا چلا گیا۔ درگاسہائے نے ایک پلیٹ اور ایک گلاس مجو بھیا کے سامنے کرکے ٹھنڈائی کا ایک گھونٹ لیا، ’’تو گھوڑا دیکھنے آئے ہو تم۔۔۔ میں کہوں دن میں چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ کسی سے کہو گھوڑا نکالے۔‘‘ آدمی مجسم تسلیم ہوکر پنکھا صوفے پر رکھتا ہوا چلاگیا۔

    پھر پورٹیکو کے فرش پر ٹاپوں کی آواز آئی۔ مجو بھیا اپنی بے قراری چھپائے بغیر گلاس رکھ کر اٹھ پڑے۔ سپاہیوں کے ہجوم میں گھوڑا کھڑا تھا۔ سفید گھوڑا۔۔۔ تصویروں کا گھوڑا۔۔۔ کہانیوں کا گھوڑا۔۔۔ خوابوں کا گھوڑا۔۔۔ جب وہ ہنہناکر گردن اٹھاتا تو معلوم ہوتا طاوس ناچ رہا ہے۔ لمبی گردن کہ سوار کو چھپالے۔ مجو بھیا خواب ناک آنکھوں سے اس کی شان دیکھتے رہے۔ دیکھتے رہے۔ پھر درگاسہائے مجو بھیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرائے۔ وہ مغرور مسکراہٹ جیسے شکاری اپنے شکار کو پھنستا ہوا دیکھ کر مسکرائے۔

    ’’دہانہ دیکھ رہے ہو مجو۔۔۔ چائے کی پیالی میں پانی دے دوتو پی جائے۔‘‘

    ’’گھوڑا نہیں ہے پنڈت جی۔۔۔ پری ہے۔‘‘

    ’’ہوں! تو پسند آیا۔۔۔ اڑا پاؤ تو اڑا کر دیکھو۔‘‘

    ’’ضرور اڑاؤں گا۔‘‘

    ایک سپاہی نے لگام بڑھادی، دوسرے نے لگام تھام لی۔ مجو بھیا کو لے کر گھوڑا بجلی کی طرح نکل گیا۔ درگا سہائے گاؤ سے پشت لگائے گڑگڑی پیتے رہے۔ فرش کے قالین کے پھول چنتے رہے۔ جب مجو بھیا اندر آگیے تب انہوں نے نگاہ اٹھائی۔

    ’’چال میں کیسا ہے۔‘‘

    ’’جادوٹونا۔‘‘

    مجو بھیا کی شیروانی پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خدمت گار ان کی پشت پر کھڑا پنکھا جھل رہاتھا۔ وہ آرام کرسی پر دراز تھے۔

    ’’آیا کتنے میں یہ پنڈت جی؟‘‘ مجو بھیا نے بڑی حسرت سے ان کا منہ دیکھ کر پوچھا۔

    ’’گٹھری بھر روپیے میں۔‘‘ بڑی تمکنت سے پنڈت جی نے الفاظ ادا کیے۔ پھر دانتوں میں منہال دبالی۔

    ’’پھر بھی کچھ تعداد تو ہوگی۔‘‘ مجو بھیا گڑگڑائے۔ دیر کے بعد پنڈت جی نے منہال نکالی۔ اٹھ کر بیٹھے۔ منہ پر آئے ہوئے جملے کی دھار دیکھی اور مسکرائے۔

    ’’پٹواری کے کاغذات میں جو تمہاری جائداد ہے نا اس سے زیادہ تعداد۔۔۔ بتیس سو روپیہ۔۔۔ بتیس سو۔‘‘

    مجو بھیا پر جیسے گڑگڑی کا انگارہ اچھل کر گرپڑا ہو۔ ان کی دونوں بھوئیں اچک کر ایک دوسرے سے مل گئیں۔ ہونٹ پھڑکنے لگے۔ رنگ اڑگیا۔

    ایک فصل میں ایک کھیت کا لہسن بتیس سو کا بیچتا ہوں پنڈت جی۔ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی۔

    ’’ہوں۔۔۔ کلو امراؤ چونسٹھ سو کا بیچتا ہے۔‘‘

    مجو بھیا اٹھ کر کھڑے ہوگیے۔ خدمت گار نے پنکھا روک لیا۔

    ’’تو کلو امراو سے جوڑ ملایا ہے میرا۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ وہ میری رعایا کا بیٹا ہے اور تم نوکر کے۔‘‘ پنڈت جی کے لہجے میں وہی ٹھنڈک تھی۔ وہی زہر تھا۔

    ’’دیکھا جائے گا پنڈت جی۔‘‘ مجو بھیا دروازے کی طرف مڑگئے۔ باہر نکلتے نکلتے انہوں نے سنا۔ ’’توپ لگوادینا۔۔۔۔ نودولتا کہیں کا۔‘‘

    رام دین کو شہسواری کے جتنے کرتب یاد تھے ان سب کا اس نے آموختہ پڑھ لیا لیکن بجلی کی گرد بھی نہ ملی۔ جب وہ مکان پہنچا تو سائیس اس کو ٹہلا رہا تھا۔ دوپہر کا کھانا لگاکر اٹھالیا گیا۔ رات کاکھانا لگاکر اٹھالیا گیا۔ عشاء کی نماز کے بعد بھیا کمرے سے نکلے۔ پنکھے کے نیچے لگی ہوئی مسہری پر لیٹتے ہوئے نگاہ کی۔ سارے نوکر قطار باندھے کھڑے تھے۔

    ’’جاؤ تم لوگ۔‘‘

    سب بے آواز قدموں سے سرجھکائے ہوئے چلے گیے۔

    پھر صبح ہوئی۔ للّی چمکتی ہوئی آئی، لیکن کمرے کے بند دروازے پر بیٹھے ہوئے پاسی نے کہہ دیا کہ بھیا کا حکم ہے کہ کوئی نہ آنے پاوے۔ وہ چلی گئی۔ دوپہر کو بوڑھا راج دین پتاور ایسی مونچھیں چڑھائے ہوئے آیا۔ دالان میں بلم کھڑا کیا۔ جوتے اتارے۔ آہستہ سے دروازہ کھول کر ان کی مسہری کے پائنتی بیٹھ گیا۔ مگر نگاہ نہ اٹھی۔ وہ بیٹھارہا۔ مغرب کی نماز کے وقت جب گرویں نے لیمپ جلاکر رکھا۔ دروازے کھول دیے تو اس کو اور پنکھا کھینچتے ہوئے رام رتن دونوں کو راج دین نے باہر جانے کا اشارہ کیا، اس کے بعد وہ کھسک کر مسہری کے تکیے کے پاس آگیا۔

    ’’حکم ہو۔۔۔ تو ککراواں کا گھوڑا کھول کر گھرکے تھان پر باندھ دیا جائے۔‘‘

    ’’گھوڑا چاندی کانہیں ہوتا جسے سنار ٹگھلاکر دوسرا بنادے اور پتہ نہ چلے کہ یہ مان پور کا ہے یا ککراواں کا۔‘‘

    ’’اس کا بھی بندوبست ہے مالک۔‘‘

    ’’کیا۔‘‘

    ’’حاجی میٹھے۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    بڑی دیر تک سناٹا رہا۔ پھر بڑی دیر تک راج دین سرگوشیاں کرتا رہا۔ عشاء کی اذان کے وقت وہ باہر نکلا اور کسی نوکر کو حکم دیا کہ للّی کو ساتھ لے کر آئے۔ پھر جب بھیا راج دین اور للی کمرے کے باہر نکلے تو پہرہ پڑنے لگا تھا۔ دونوکر للّی کو بھیجنے گیے۔

    منگلو کی دھوتی میں بندھے کپڑوں کی گٹھری رکھ کر جب دھوبن چلی گئی۔ تو چندہ نے وہ شلوار نکالی جس کے پائنچے پر ہرے پھول کڑھے تھے۔ وہ قمیص نکالی جس کے دامن پر لال لال گلدستے تھے۔ پھر بالوں سے صاف کیے ہوئے بتانے، طوق اور جھانجھیں پہن کر وہ کپڑے لیے کو ٹھری میں چلی گئی۔ چھپر کے طاق میں دھرے ہوئے ٹین کے آئینے میں آنکھوں کا کاجل برابر کیا۔ مانجھے ہوئے طباق میں گردے اور بھیجا رکھ کر تانبے کی لگن بند کی اور گھر میں تالا ڈال دیا۔ جھنک جھنک کی آواز سن کر رجب کی اماں نے چپاتی پکاتے ہوئے ہاتھ روک لیے۔

    ’’منگلو کی دولہن۔۔۔ آؤ۔‘‘

    ’’کابوبو۔۔۔ بھیا ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    رجب کی اماں نے آٹے میں ڈوبی ہوئی لوہے کی پھنکنی سے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ طباق آٹے کی لگن کے پاس رکھ کر دھڑ دھڑ کرتے ہوئے کلیجے کو سنبھالے رک گئی۔ پھر من من بھر کے پاؤں اٹھاتی دالان کی طرف چلی۔ مجو بھیا کھیت سے آئے تھے۔ چوڑی دار پائجامہ اتار کر تہبند پہن چکے تھے۔ کرتا اتارتے ہوئے دیکھا تو دالان کے در میں چندہ کھڑی شرمارہی تھی۔

    ’’کیا ہے؟‘‘ انہوں نے اپنی روایتی گرجدار آواز میں کہہ تو دیا لیکن ذہن کے کسی گوشے میں بیٹھی ہوئی تراب کی معشوقہ کے جسم کی آن دیکھنے کی حسرت نے ان کو ڈس لیا۔ جب وہ کمرے کی دہلیز پر آگئی تو مجو بھیا نے دھیمی آواز میں کہا، ’’چلی آؤ۔‘‘

    تراب کی موت کے بعد ان گنت نگاہوں کے عرفان کی دولت سے چندہ نے اس تھرتھراتی ہوئی آواز میں چھپے ہوئے معنی دیکھ لیے۔ مجو بھیا۔ تراب سے نکلے ہوئے قد کے، تراب سے کہیں تندرست اور وجہیہ مجو بھیا دیو کی طرح تخت پر بیٹھے تھے۔ ان کے پاؤں کچے فرش پر رکھے تھے۔ چندہ نے ہارے ہوئے جواری کی طرح آخری داؤں چلا اور اپنا سر مجو بھیا کے موٹے موٹے پیروں پر رکھ دیا اور سسکنے لگی۔

    ’’ارے ارے۔‘‘ مجو بھیا نے گھبراکر اس کا سر اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو وہ پھسل کر چندہ کے گالوں پر آگیے۔ سر اٹھا تو بڑی بڑی آنکھوں میں آنسوؤں سے کاجل پھیل گیا تھا، چہرہ دمک اٹھا تھا۔ سینے کے فراز پر جھلارا طوق رکھا تھا۔ سرخی مائل کلائیاں اُن کے گھٹنے پر تھیں۔

    ’’منہ سے بولو۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘

    ’’مورے پاس پستول نائیں ہے تراب کا۔ دولت نائیں ہے تراب کی۔ بس تراب کی بدنامی مورے سر پر ہے۔‘‘ اس نے اپنا سر جھکالیا۔ ’’تم موری بوٹی بوٹی کاٹ ڈالو۔۔۔ مگر پولیس تھانے نہ بھیجو۔۔۔ للّی کا میں سے عداوت ہے۔ اگر تراب ان کا موری کوٹھری میں اٹھائے لے گیے تو میں کیسے بچائے لیتوں۔۔۔ ہاں میں نائکہ بنی ہوں تو مجرم۔۔۔ ایک دن مورے پاس آئیں کہ دوا کے لیے تین روپے دے دیو۔‘‘

    ’’دوا کے لیے۔۔۔ کاہے کی دوا؟‘‘

    ’’وہی جو اوکا مرج ہے۔۔۔ کوڑھ۔‘‘

    ’’مرض تو نہیں ہے اس کو اب۔‘‘

    ’’بھیا ہر تیسرے دن جب محلہ بھر سوچکتا ہے تو دوا بنت ہے۔۔۔ تو میں ان کا روپے دے دیوں۔۔۔ اب اس دن سے مورے پاس تراب کی گنّی جمع ہیں۔۔۔ ایک گنّی میں بھنائے ضرور ہوں۔۔۔ موری مائے کی ہیں مورے پاس۔ منگلو سے چرائی ہیں۔۔۔ منگلو سے چراؤں نہ تو جوئے میں ہار جائے۔‘‘

    چندہ کی کلائیاں گھٹنے پر رکھی رہیں۔

    چندہ کے جانے کے بعد مجو بھیا جو للّی کے دسترخوان سے سیر ہوچکے تھے۔ للّی کے تصور سے مکدر ہوگیے۔ ان کے کان میں کسی نے کہا کہ چندہ صحیح کہتی ہے۔ للّی کا مرض گیانہیں ہے۔ یہ مرض جاتا نہیں ہے اور یہ مرض اڑکر لگتا ہے۔ مجو بھیا اڑ کر لگتا ہے۔۔۔ اور کیا۔۔۔ پھر۔۔۔ تم۔۔۔۔ اور گھبراکر اٹھ کھڑے ہوئے۔

    ’’کھانا ٹھنڈا ہوئے رہا ہے۔‘‘ رجب کی اماں نے گلاس میں پانی بھر کر کہا۔ مجو بھیا دسترخوان پر بیٹھ تو گیے لیکن کھانا نہ کھایا گیا۔ کتنی جھوٹی ہے یہ للّی۔ کہتی تھی اس کو مرض کبھی تھا ہی نہیں۔ قادر بھی یہی کہتے تھے۔ حاجی میٹھے بھی یہی کہتے تھے۔ وہ تو ٹھیک ہے۔ ان سب کو یہی کہنا چاہیے۔ وہ تو یہ سوچتے رہے پھر اٹھ کر باہر گیے۔ نوکر کوبلاکر راج دین کو ساتھ لانے کا حکم دیا اور اسے تاکید کی کہ دواجلد از جلد حاصل کرلی جائے۔ اور راج دین سیدھا للّی کے یہاں پہنچ گیا۔

    ہلکی بوندیں پڑنے لگتی تھیں۔ دالان میں کھانا لگ رہاتھا۔ ڈیوڑھی میں جلتی ہوئی ڈبیا کی روشنی میں مجو بھیا نے دیکھا کہ للّی آنچل میں چھپائے کوئی چیز لیے آرہی ہے، وہ کمرے میں کھڑے رہے۔ للّی نے باورچی خانے کی دہلیز ہی پر ایک سینی میں اپنی گود خالی کی اور کمرے میں چلی آئی۔ دالان میں جلتی ہوئی لالٹین کی مدھم روشنی کمری میں پھیلی ہوئی تھی۔ للّی کے آتے ہی کمرہ جگمگا اٹھا۔ عہد فراموشی کا گریزاں دامن مجو بھیا کے ہاتھ سے نکل گیا۔ للّی کے بدن سے ان کے دونوں بازو بھر گیے۔ ڈیوڑھی میں للّی کے غروب ہوجانے کے بعد جب مجو بھیا نے گوشت کے پیالے میں نوالہ ڈبویا تو رجب کی ماں نے ایک چینی کی پلیٹ ان کے آگے بڑھادی۔

    ’’للّی بَرے لائیں رہین۔‘‘

    چینی کی سرمئی پلیٹ میں دہی میں ڈوبے ہوئے سفید سفید برے رکھے تھے۔ مجو بھیا کاہاتھ ان پرمنڈلاکر رہ گیا۔ ان کومعلوم ہوا جیسے کسی سانولی لڑکی کے بدن پر برص کے دھبے پڑے ہوں۔ انھوں نے پلیٹ سامنے سے ہٹادی۔ ذہن سے اس گھناؤنے تصور کو جھٹک کر انھوں نے بڑے خلوص سے نوالہ منہ میں رکھا مگر منہ کامزہ بدمزہ ہوچکا تھا۔

    *

    ککراواں کی کوٹھی کاپہرے دار گلے میں بندوق پہنے ٹہلتا رہااور آنکھ سے کاجل اڑالے جانے والے فنکار گھوڑا نکال لے گیے۔ جے پور کے کٹھار میں چمار کی رانپی سے راج دین نے وہ ایال اتارلیے جن پر درگا سہائے آف ککراواں کی مغرور انگلیاں مشاطلگی کرتی تھیں۔ رام دین اور دلارے نے بیلوں کے سینگ رنگنے والی سیاہی سے نقرہ جانور کو ’’ابلق‘‘ بنادیا۔ راج دین اس پر چڑھ کر رانی داتا دھنک پوری اپنی بڑی بیٹی کی سسرال پہنچا۔ وہاں ’’ابلق‘‘ کو ’’مشکی‘‘ بناکر داماد کو سوار کرایا اور خود دس بارہ لٹھ بندلے کر اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا ضلع ہردوئی کے رام نگر میں اترپڑا۔ رام نگر کے مکھیا، پاسیوں کی ناک اور اپنے سمدھی کے سامنے حاجی میٹھے کی دواؤں کے پشتارے کے ساتھ کہانی بھی رکھ دی۔ ترکیب استعمال کانسخہ سمجھاکر آندھی کی طرح راجپورہ آیااور حالات کی نبض ٹٹولنے لگا۔ یہاں اودھم مچا ہوا تھا۔ پنڈت درگا سہائے آف ککراواں کی تحریری رپورٹ کے موصول ہوتے ہی کئی تھانوں کی رپورٹ حرکت میں آگئی۔ دور دور تک جانوروں کی بازاریں کھنگال ڈالی گئیں۔ تھانے دار نے چائے کی میز پر مجو بھیا سے کہا کہ پنڈت جی کو آپ پر ہی شک ہے۔ مجو بھیا نے ایک فرمائشی قہقہہ بلند کیااور کہا اصطبل تو آپ کے سامنے ہے۔ کوٹھریوں کے بکس اگر دیکھنا ہوں تو نوکر سے کنجی لے کر چلے جائیے دیکھ لیجیے۔

    مغرب کی نماز کے بعد منگلو کھانا کھاکر میلی دھوتی سے منہ پونچھتاہوا چھپر کے طاق میں بیڑی ٹٹولنے لگا، روپے پر ہاتھ پڑتے ہی اس کی کھینسیں نکل آئیں۔ مڑ کر دیکھا تو چندہ پتیلی کی تری میں روٹی رگڑ رگڑ کر کھا رہی تھی۔ چولہے کی گرمی اور چراغ کی روشنی میں اس کا چہرہ محرم کی روشن چوکی کے سرخ گلاس کی طرح چمک رہا تھا۔ منگلو نے روپیہ اٹھاکر البٹی میں لگالیا۔ چراغ سی بیڑی جلاتے ہوئے اسے ایک خیال نے بھڑکی طرح کاٹ لیا۔ ’’کہیں روپیہ کھوٹا تو نہیں ہے۔‘‘ اس نے بیڑی دانتوں میں دبالی۔ چراغ لیے ہوئے تیر کی طرح کوٹھری میں گھس گیا۔ جھینگے سنار کی طرح اس نے چاندی کو پرکھنے والی نگاہ سے دیکھا۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ پھیل گیے۔ روپیہ البٹی میں واپس چلا گیا۔ چندہ کو روٹی کھاتا چھوڑ کر دروازے کو دھڑاک سے بند کرتاہوا گھر سے نکل گیا۔ چندہ نے جلدی جلدی روٹی ختم کی اور سیدھی طاق پر پہنچی۔ پھر اس کی آنکھوں نے دیکھا کہ چرسئے کے یہاں بیٹھا ہوا منگلو کوڑی پھینک رہا ہے۔ اس نے مسکراکر الگنی پر سے اپنا پھولدار جوڑااٹھالیا۔ کوٹھری میں چلی گئی۔ دیر تک چراغ کی رشنی میں اپنے جسم پر دھار رکھتی رہی۔

    دروازے میں تالا ڈالتے ہوئے چندہ نے دیکھا کہ للّی اپنی دہلیز پر کھڑی تو تو کرکے کتے کو بلا رہی ہے۔ اس نے خنک ہوا کے جھونکے سے اپنا مہین چادر اچھین کر سر ڈھک لیا۔ اپنی جھانجوں کو چھن چھن کرتی للّی کے سامنے سے گزر گئی۔ ’’کہیں پانی برسا ہے۔‘‘ جلتے ہوئے دن کے بعد رات کی ٹھنڈی ہوا کی گدگدی پر اسے خیال آیا۔ حسین موسم کی اس پروائی نے تراب کی چوٹ چمکادی۔ پرائمری اسکول کے سنسان علاقے کی طرف جاتے ہوئے جب وہ بھنگیوں کے جھونپڑوں کے سامنے سے گزری تو اس نے دیکھا کہ سکرو مہتر دیوار سے ٹیک لگائے پڑا ہے۔ تاڑی کے کھجڑ الٹے پڑے ہیں۔ تھوڑی دور پر بھنگیوں کے لڑکے ڈھولک اور لیزم بجابجاکر ناچ رہے ہیں۔ ان کے حلقے میں اکڑوں بیٹھا ہوا سکھبند کوئل کی طرح کوک رہا ہے۔ دیوار میں لگی ہوئی مشعل کی روشنی میں کویل کی طرح کوکنے والا سکھبند کوئل ہی کی طرح چمک رہا ہے۔ اس نے چادر کھینچ کر اپنا منہ اور چھپا لیا۔

    میدان سے گزر کر جب وہ چھوٹے اسکول کی پشت پر پہنچی تواس نے چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ جناتوں والے باغ تک سارے میں سناٹا تھا۔ بانس کی باڑھ میں شیشم کے پیڑ کے پاس ایک شگاف تھا۔ وہ خندق میں اترکر آہستہ سے کپڑوں کو بچاتی ہوئی چھوٹے اسکول میں داخل ہوئی۔ کنپٹی تک کھینچی ہوئی آنکھیں کھول کر اس نے چبوترے کو تاکا جس کے کونے پر تاڑ کا درخت سپاہی کی طرح کھڑا تھا۔ اس کی چھتری پر برسات کے چاند کی روشن مشعل جل رہی تھی۔ وہ پست چبوترے کی سیڑھیوں پر ٹھٹک گئی۔ پھر اچھل پڑی، مجو بھیا نے پیچھے سے دبوچ لیا۔

    ’’بڑی دیر کردی تم نے۔‘‘

    ’’منگلو کی وجہ سے۔‘‘

    اور اس کا منہ بند ہوگیا۔ مجو بھیا اسے اپنے کلیجے سے لگائے اس کمرے میں لے آئے، جس کی کھڑکی سے دور پر کھڑا ہوا گول پھاٹک نظر آتا تھا۔ بغیر سلاخوں کی کھڑکی سے آتی ہوئی چاندنی کی چادر میں مجو بھیا نے چندہ کی آنکھیں دیکھیں۔ سیاہ آنکھیں جن میں موتی کوٹ کوٹ کر بھر دیے گیے تھے۔ ابروکی محراب میں لانبی لانبی پلکیں سجدے کر رہی تھیں۔ مجو بھیا نے کانپتے ہوئے ہونٹ رکھ دیے۔

    ان طویل ملاقاتوں کی تیز روشنائی مجو بھیا کے دل پر بنی ہوئی للّی کی چمکدار تصویر میلی کرتی گئی۔ حاجی میٹھے کی دوائیں اپنا اثر دکھانے لگیں۔ چاندی کی سفید جلد دھندلی ہوگئی۔ گھوڑا ’’سمند‘‘ ہونے لگا۔ عید کے کپڑوں کی آرزو میں چاند رات کی طویل ساعتوں پر جھنجھلانے والے بچے کی طرح مجو بھیا نے رام دین کو چاندی کے دوسو روپیوں کی گٹھری باندھ دی۔ کملا پور کے میلے میں راج دین نے ککراواں کے گھوڑے کا جوڑ خریدا اور بارہ بنکی کے کسی گانوں میں پڑ رہا۔ جب میلا اجڑ گیا۔ سوداگر تتر بتر ہوگیے تو اس نے بروہی کے جنگل میں خریدے ہوئے گھوڑے کو کھاند کر پھینک دیا۔ کئی کاغذوں میں لپیٹی ہوئی رسید شلوار کی اندرونی جیب میں رکھی، پھر چولابدلے ہوئے ککراواں کے گھوڑے پر موچی سے خریدا ہوا چار جامہ رکھ کر جو چڑھا تو مان پور کے تھان پر دم لیا۔

    مان پور کے جنگل میں آگ کی طرح خبر پھیل گئی۔ ککراواں والوں کے بھی کان کھڑے ہوئے۔ مختار عام بازار کے نیلام کی گفتگو کے بہانے آئے۔ گھوڑا دیکھا۔ چاندی کے ایال کا چنور چھل گیا تھا، جلد تروہی ہوگئی تھی۔ بدن گھٹ گیا تھا۔ مگر کنوتیوں کے وہیں تیور تھے۔ پانوں پٹکنے میں وہی جلال تھا۔ مختار عام کی سوچی ہوئی نگاہ دیکھ کر ہاتھی ایسے مجو بھیا کی چھاتی میں شیر کا دل کانپ گیا۔ مختار عام کے جانے کے بعد بھی بڑی دیر تک وہ آرام کرسی کی قبر میں پڑے رہے، پھر گھر کے سامنے میدان میں ٹہلنے لگے۔

    دھیمی دھیمی پھوار پڑ رہی تھی۔ فجو خاں چنی لال چرسئیے کے چھپر میں بیٹھے کھنجڑی پر ہولی سن رہے تھے کہ سامنے سے منگلو نکلا۔ کسی منچلے نے ہانک لگائی لیکن وہ راس خریدنے کا بہانہ بناکر پیچھا چھڑا گیا۔ گلیارے کے موڑ پر منگلو کے مڑتے ہی فجوخاں نے بیڑی کو چٹکی میں لے کر آخری دم لیا اور اٹھ پڑے۔ کسی نے ہاتھ تک پکڑ لیا، مگر وہ جھٹک کر چلے آئے۔ چندہ بروٹھے میں بیٹھی مونج کی ڈلیا بن رہی تھی۔ فجوخاں کو دیکھ کر اس نے تیور چڑھالیے۔ فجو خاں کھٹکے تو مگر چندہ کے گریبان میں دھرے ہوئے مٹھائی کے دونے پر ہاتھ ڈال دیا۔ چندہ نے ڈلیا اور سوجا ایک طرف پھینک خانصاحب کے سینے پر مضبوط ہاتھوں کا وہ دوہتر مارا کہ بھونچکے رہ گیے۔ چندہ طاق سے کھال ادھیڑنے والی چھری اٹھاکر کھڑی ہوگئی۔

    ’’جات ہو خان صاب کہ پکاروں محلے کو۔‘‘

    فجو خاں کو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جاتے جاتے ایک خونی نگاہ ضرور ڈالی۔ چندہ کا صحت مند بدن غصے سے کانپ رہا تھا۔ باہرنکل کر خان صاحب نے حواس درست کرکے نگاہ کی تو اپنے کھیت کے کونے میں للّی بیٹھی تھی۔ وہ بڑی دیر تک اس کے کولہے سے کولہا ملائے بیٹھے رہے اور کلیجے کے پھپھولے پھوڑتے رہے۔

    حاجی میٹھے جب نماز پڑھنے چلے گیے تو للّی نے قلعی دار سینی میں کرکری کرکری برھیوں کے پرت جمائے، ان پر کٹہل کے کبابوں کا گلدستہ رکھا۔ لہنگے میں بھنور بناتی ہوئی سینی اٹھاکر چلی۔ مجو بھیا کی ڈیوڑھی میں اس کادل دھڑکنے لگا آپ ہی آپ مگر وہ چلی گئی۔ باورچی خانے میں ٹین کی ڈبیا جل رہی تھی۔ اس کی خاموش چاپ پر آٹے کی ڈلیا میں اینڈتے ہوئے چوہے خرگوش کی طرح غائب ہوگیے۔ اس نے سینی دہلیز پر رکھ دی اور کمرے کی تیز روشنی کو دیکھتی ہوئی چلی۔ تیسرے دروازے کاایک پٹ کھلا تھا۔ اس میں قدم رکھتے ہی چندہ اپنی قمیص درست کرتی ہوئی مجو بھیا کی گود سے اٹھ پڑی۔ للّی کو ایسا لگا جیسے سکرو مہتر نے اپنی ڈلیا اس پر الٹ دی ہو۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی، لیکن جیسے کسی نے پیروں میں کیلیں ٹھونک دی ہوں۔ وہ مجسمے کی طرح نصب ہوکر رہ گئی۔ اسی پلنگ پر، اسی پھولدار بستر پر یہی مجو بھیا مجھے چومتے چومتے نڈھال کردیتے تھے اور آج اسی پلنگ کے اسی پھولدار بستر پر ’’کلموہی‘‘ چندہ بیٹھی اس کی چھاتی پر مونگ دَل رہی ہے۔

    ’’کھڑی کیوں ہو۔‘‘ مجو بھیا ڈکارے۔ وہی مجو بھیا جن کی سانسیں نہ سماتی تھیں، جو اسے دیکھ کر گھگھیانے لگتے تھے، وہی مجو بھیا اسے دھتکار رہے تھے۔ چندہ اپنے شانوں پر بکھرے ہوئے بالوں کو سمیٹ کر دوپٹہ اوڑھ رہی تھی۔ للّی نے اپنے دھونکنی کی طرح چلتے ہوئے سینے کو سنبھالا۔ اور گویائی کی ساری قوت جمع کرکے آہستہ سے بولی۔

    ’’میں جائے رہی ہوں۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ دفعان ہوجاؤ۔‘‘

    مجو بھیا نے دوسرا جوتا مارا۔ اور کان تک کھینچی ہوئی کمان کی طرح صابر للّی دفعتاً لوٹ گئی۔

    ’’تراب یہی دن کے لیے مارے گیے رہن۔‘‘

    پلنگ سے اٹھتے ہوئے مجو بھیا کے چہرے پر اپنے جملے کا ردعمل دیکھے بغیر وہ مڑگئی۔

    ’’للّی۔‘‘

    مجو بھیا کی دہاڑ نے دالان ہی میں للّی کو ڈس لیا۔ وہ کھڑی ہوگئی۔ مجو بھیا نے اپنا دھنی ایسا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا اور ایسے لہجے میں بولے جیسے داروغہ کسی عادی مجرم کو تاکید کر رہاہو۔

    ’’اگر یہ بات کسی کومعلوم ہوگئی تو اچھانہیں ہوگا۔‘‘

    للّی نے آنکھیں اٹھاکر مجو بھیا کو گھورا جن کے نتھنے پھڑک رہے تھے اور آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔

    ’’برائی کے لیے ایک چندہ نائیں ہیں۔۔۔ ککراواں کاگھوڑا۔‘‘

    مجو بھیا کے کان پر جیسے کسی لڑکے نے ’’چھچھوندر‘‘ داغ دی ہو۔ ان کا ہاتھ بے اختیار اٹھا اور للّی کے پھول ایسے گال پر شبرات کا پٹاخہ چھوٹ گیا۔ للّی کا داہنا کان سن سن کرنے لگا اور آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔

    ’’دور ہوجا حرام زادی۔۔۔ بدمعاش۔۔۔ نہیں تو بوٹی بوٹی کٹواکے پھینکوادوں گا۔‘‘

    للّی کے گورے گورے پیروں میں پہئے لگ گیے۔ وہ کوک بھرے کھلونے کی طرح ڈیوڑھی میں گھوم گئی۔ دروازے پر ایک آدمی ہانپتے ہوئے ٹٹو کی رسی پکڑے کھڑاتھا۔ حاجی میٹھے اس کا تنفس دیکھ رہے تھے جیسے حکیم قادرورہ دیکھ رہاہو۔ للّی اپنے پلنگ پر پڑی رہی۔ جب حاجی اندر آئے تو اس نے چادر سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور کبابوں کاکٹورہ برھیوں کی ڈلیا میں رکھ کر پلنگ پر پٹخ دیا۔

    ’’آؤ۔‘‘ حاجی نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔

    ’’موراجی ماندہ ہے آج۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘

    حاجی نے کھانا کھایا۔ پھر ڈلیا چھینکے پر ٹانگ دی۔ گھڑونچی کے پاس بیٹھ کر وضو کیا اور عشا کے لیے چلے گیے۔ وہ آنکھیں بند کیے پڑی رہی۔ فجر کی اذان ہوگئی مگر وہ جاگتی رہی۔

    ساون کی دوپہر تھی۔ سورج سیاہ بادل کی دلائی اوڑھے بیچ آسمان میں سو رہاتھا۔ بوندوں کے گھنگھرو چھنک رہے تھے۔ کچے مکانوں کی مٹی نمک کی طرح گھل گھل کر گلیاروں میں بہہ رہی تھی۔ جوان جسم کی خوشبو کی طرح بوجھل اور خنک پروائی دلوں کو گرمارہی تھی۔ مجو بھیا کے دالان میں یہاں سے وہاں تک جاجم بچھی تھی۔ ایک سرے پر مخملی قالین پڑا تھا، مجو بھیا اور اس کے کچھ زمیندار دوست گاؤ تکیوں سے لگے بچھو کے ڈنک کی طرح کٹیلی مونچھیں انگلیوں میں مروڑ مروڑ کر رقص دیکھ رہے تھے۔ سازندوں کے نیم دائرے کے سامنے تربھون کی نوٹنکی کی گلاب جان سرخ ساری باندھے سرخ چولی باندھے ناچ رہی تھی۔ بجلی بھرے ہوئے بدن کا انگ انگ بول رہاتھا اور قہقہے لگا رہاتھا۔ وہ جس کے سامنے ایک گھٹنے پر بیٹھ کر کاجل لگی آنکھیں مٹکامٹکا کر بھاؤ بتلاتی وہ نہال ہوکر اور زور زور سے اپنی مونچھیں انگلیوں میں مروڑنے لگتا۔ دل دھڑک رہے تھے۔ روپے چل رہے تھے کہ تھانے کا سپاہی پنڈت پائیدان پر آکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنے جسم سے بھیگا ہوا بوراا تار کندھے پر پڑے ہوئے رومال سے منہ پونچھ کر مجو بھیا کو سلام کیا۔ رنگ خراب ہوگیا۔

    ’’خیر ہے پنڈت۔‘‘

    مجو بھیا نے سلام کاجواب دے کرپوچھا۔ گلاب جان گھنگھرو بندھے پاؤں کی ٹھوکر مار کر پہلے کھڑی ہوگئی پھر سلام کرکے سازندوں کے پاس بیٹھ گئی۔ مجو بھیا کے دل میں پنکھے لگے تھے۔ ان کواندیشہ تھا کہ ککراواں کی ریاست اور دولت گھوڑے کو سانپ کے منہ کی چھچھوندر نہ بنادے۔ انھوں نے احباب سے معذرت کی اور دوسرے کمرے میں چلے گیے۔

    ’’میں بھیا اپنا احسان چکانے آیا ہوں۔‘‘

    مجو بھیا کا دل اتنے زور سے دھڑکنے لگاکہ زبان بند ہوگئی۔

    ’’ککراواں والے پہلے ہی سے چوکنا تھے۔ رہی سہی کسر آپ کے قصبے کی مسماۃ للّی نے پوری کردی۔ اس نے آج تھانے آکر بیان دیا ہے کہ وہ گھوڑا جو آپ کملاپور سے لائے ہیں وہ ککراواں کا ہے۔ اس کے ایال قینچی سے کاٹ دیے گیے ہیں اور رنگ خود اس کی دواؤں سے بدلا گیا ہے اور وہ عدالت میں یہ بیان دینے پر تیار ہے۔‘‘

    ’’پھر۔‘‘ مجو بھیا کو سانپ سونگھ گیا۔

    ’’وہ تو بڑی خیریت ہوگئی۔ بڑے تھانیدار پیشی پر گیے ہیں، چھوٹے تھانیدار اور عملہ راج گھاٹ کی ڈکیتی میں تحقیقات پر گیا ہواہے، میں ہی لے دے کے ایک خواندہ سپاہی ہوں۔ اس لیے مسماۃ للّی کا سابقہ مجھ ہی سے پڑا۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ کون ہے یہاں۔‘‘

    ’’ہاں بھیا۔‘‘

    ایک نوکر بھیگی دھوتی باندھے اندر آیا۔

    ’’پنڈت جی کو شربت پلاؤ۔‘‘

    کرتے کی ایک جیب تو رنڈی پر نچھاور ہوچکی تھی، دوسری جیب میں ان کا ہاتھ سرسرانے لگا۔

    ’’للّی کے ساتھ کون کون تھا پنڈت؟‘‘

    ’’فجو خاں اور بکس۔‘‘

    مجو بھیا دھواں دھواں پھر رہے تھے۔ گلاب جان کی بولتی ہوئی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی شراب کی دعوت میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں رہی تھی۔ دوستوں کے ساتھ وہ بجھے بجھے قہقہے لگا تے رہے اور ہونٹوں کو مانگے کی مسکراہٹ پہناتے رہے۔ پانی کے مدھم ہوتے ہی گلاب جان اور دوستوں نے رسماً اجازت چاہی اور مجو بھیا نے سچ مچ ان کو رخصت کردیا۔ مغرب کی اذان نہیں ہوئی تھی لیکن اندھیرا پھیل گیا تھا۔ باہری چھپر میں راج دین، بھکا، دلارے، رام دین اور بہت سے آدمی بیٹھے چلمیں پی رہے تھے۔ اندھیرا گہرا ہوتے ہی گھوڑے کھینچے گیے۔ ککراواں کے گھوڑے پر راج دین بیٹھا، مشکی پر دلارے اور ’’بجلی‘‘ پر مجو بھیا۔ پانی برستا رہا لیکن یہ لوگ گلیارے کی اتھلی نہر میں چھپر چھپر کرتے چلتے رہے۔

    انچولی کے جنگل میں چلور کے درختوں کے جھنڈ کے پاس یہ لوگ اترے۔ مجو بھیا نے تھرتھراتے ہاتھوں سے ککراواں کے گھوڑے کی بھیگی بھیگی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اسے اس نگاہ سے دیکھا جیسے عاشق اپنی دولہن بنی ہوئی محبوبہ کو غیر کے ڈولے میں بٹھاتے وقت دیکھتا ہے۔ رات اور جنگل کے سناٹے میں چھتنار درختوں پر بوندوں کی ایسی ماتمی لے بج رہی تھی تھی جیسے محرم کے باجے۔ پھر مجو بھیا نے اس کی گردن سے ہاتھ اٹھا لیااور کنکھیوں سے راج دین کو دیکھا جس کے ہاتھ میں بھجالی چمک رہی تھی، للّی کے عریاں بازو کی طرح۔ ان کے قریب سے ہٹتے ہی راج دین کا بوڑھا ہاتھ اٹھا اور بھجالی گھوڑے کے سینے میں تیرگئی۔ وہ گولی کھائے ہرن کی طرح اچھلالیکن راج دین کے مشاق ہاتھوں کی مار نے اسے ڈھیر کردیا۔ راج دین اور دلارے نے آناً فاناً اس کی کھال نکال کر ایک کتھری میں باندھ لی۔ سر اور سُم ایک گڈھے میں دفن کردیے۔

    جب وہ انچولی کے جنگل میں دھوم مچاتے ہوئے بیتے کے پل سے گزرے تو راج دین نے کتھری سمیت کھال جھم سے پانی میں پھینک دی۔ مجو بھیا کے چھپر میں جھانکروں کاالاؤ لگا سب لوگ بدن سینکتے رہے۔ مجو بھیا بیٹھے بیٹھے پوری کیتلی کی چائے پی گیے۔ پانی تھم گیاتھا۔ پہرہ پڑنے لگاتھا۔ مجو بھیا دیکھ رہے تھے کہ وہ باہری کمری میں لیٹے ہیں۔ جان کو پگھلادینے والی گرمی پڑ رہی ہے۔ پنکھے کو کھینچتے کھینچتے نوکر سوگیا ہے اور وہ سپنے میں ڈوبے کروٹیں بدل رہے ہیں کہ للّی آگئی۔ اس کو بھیگا ہوا دیکھ کر پنکھا کھینچنے لگی، کھینچتی رہی، جب تک وہ اٹھ کر نہ بیٹھ گیا۔ جب تک اس نے ڈانٹ کر نوکر کو جگا نہ دیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے سردی لگ گئی ہے۔ رات کے دس بج چکے ہیں۔ رجب کی اماں اپنے بیٹے کے گھر گئی ہیں۔ نوکر سب ہندو ہیں۔ للّی آئی اسی طرح لہراتی ہوئی لہنگے میں بھنور بناتی ہوئی انگیٹھی کی راکھ جھاڑی۔ آگ بناکراس کے پاس رکھی اور گرم گرم چائے بناکر اسے پلائی اور مزید حکم کی منتظر کھڑی ہے۔

    پھر مجو بھیا نے دیکھا کہ نوکر دوپہر میں روٹی کھانے گیے ہیں۔ پٹیا پانی برس رہا ہے۔ دالان تو دالان کمروں میں بوچھار سے ٹخنوں ٹخنوں پانی بھرا ہواہے۔ للّی اپنے گورے گھٹنوں تک بھیگا ہوا سرخ لہنگا چڑھائے تاش لیے پانی الچ رہی ہے۔ آنکھوں سے تھکن ٹپک رہی ہے لیکن ہاتھ ’’کل‘‘ کی طرح چل رہے ہیں۔ پھر مجو بھیا نے دیکھا کہ ان کا’’بجلی‘‘ بیمار ہے۔ وہ حاجی میٹھے سے لڑ لڑ کر نئی نئی دوائیں منگا رہی ہے، خود بنا رہی ہے او راپنے سامنے کھڑی پلوا رہی ہے۔ سارے نوکر تھک کر جا چکے ہیں۔ مگر للّی اپنے حسین کولہوں پر پھول سے ہاتھ رکھے اس طرح گھوڑے کی کیفیت دیکھ رہی ہے جیسے یہ گھوڑا گھوڑا نہیں اس کابیٹاہے۔ اس کے جسم کاایک حصہ ہے۔ للّی پھر آگئی، مٹکتی ہوئی چمکتی ہوئی للّی۔ اور ناخوش ہوتے ہوئے بولی کہ بھیا کا پیاز سوکھ رہاہے۔ نوکروں کے کہنے پر نہ جاؤ پانی لگواؤ۔ اور قلمی آم کے باغ کی فصل میں چھبیس سو کی نہ بکنے دوں گی۔ ستائیس سو توفلاں آدمی میرے سرمڈھے جارہا تھا۔ کسی نوکر نے للّی کو چھیڑنے کے لیے ہوائی چھوڑدی کہ ’’بھیا‘‘ کے کھیت میں گورو تمباکو چرے جارہے ہیں اور للّی توے کی روٹی چھوڑ کر لہنگا پھڑکاتی ہوئی اور کمر پر ہاتھ رکھ کرنوکروں کو میٹھی آواز اور کھٹے لہجے میں ڈانٹنے لگی۔

    گلاب جان کے لہنگے کے پھولوں کی طرح چمک دار آوازاور اس کے اندر چھپے ہوئے بدن کی طرح قاتل معنی نے تھوڑی دیر کے لیے مجو بھیا کو بے حس کردیا۔ پھر جیسے کسی طرف سے چندہ اپنی جھانجھیں بجاتی ہوئی آئی اور ان کی موٹی موٹی کلائیں پکڑلیں۔ ہتھیلی کے پیالوں سے ان کاچہرہ چھلک گیا۔ چندہ ان کی پھنکنی کی طرح موٹی موٹی انگلیاں سہلانے لگی۔ مجو بھیا اس کی آنکھیں دیکھتے رہے۔ چمکدار آنکھیں، جن میں سارے لکھنؤ کے گوٹے کی دوکانیں ہضم ہوگئی ہوں۔ گہری آنکھیں جن میں ککراواں کا ہاتھی تو خیر ایک طرف، تراب ایسا پانی دارآدمی اپنی ساری ہیکڑی سمیت ڈوب چکاہو۔ چندہ کے گریبان میں چھپی سونے کی پوٹلیاں جن پر تراب کی ہیبت اپنے نام کی لاٹھی کھینچے پہرہ دے رہی تھی۔ بڑی دیر تک ان کی چوڑی چوڑی ہتھیلیوں پر رکھی ہیں۔ چندہ کے بدن کے وہ سارے ’’ہفت خواں‘‘ جن میں مان پور کی سورما نگاہیں تھک کر دم تورچکی تھیں۔ مجو بھیا کے بھاری بھرکم قدموں کے نشانوں کے چراغ جلائے۔ ان کے قدموں میں دیوالی جلاتے رہے۔

    مجو بھیا پر نشہ طاری ہونے لگا تھا۔ ان کے تصور نے چندہ کے بدن سے ایک ایک قطرہ نچوڑ کر پی لیا تھا۔ چندہ کے عریاں بازو ان کی گردن کو لپیٹے فضاؤں میں اڑنے لگے تھے کہ ککراواں کے تعلقدار پنڈت درگاسہائے کے فقرے نے ان کو ڈس لیا اور بلبلاکر ہوش میں آگیے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ لچھمن چوکیدار کا صافہ ان کی کمر میں بندھا ہے۔ سارے نوکر آنکھ میں آنسوں بھرے بلی کی طرح دبکے کھڑے ہیں اور جب وہ تھانے دار کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے اپنی ڈیوڑھی سے نکلے تو مقتول تراب کے چھوٹے بھائی نے ان کے منہ پر پڑے ہوئے رومال کو الٹ دیا۔ پھر قہقہوں کا وہ زلزلہ آیا کہ ان کے اصطبل میں بندھے ہوئے گھوڑے رسیاں تڑا کر نکل گیے۔ جب وہ مان پور کے گنج کے پاس پہنچے تو للّی اپنی سبز چنری ڈھلکائے نظر آئی۔ کولھوں پر پھنسے ہوئے لہنگے پر وہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی اور ایسی خطرناک ہنسی ہنس رہی تھی جس کو ان کے ہونٹوں نے بھاگتے ہوئے ہرن کو گولی مار کر اپنے کلیجے سے لگایا تھا۔

    مجو بھیا نے تلملاکر پہلو بدلا ہی تھا کہ سامنے ہاتھی پر سوار درگا سہائے نظر آئے۔ مختار عام مشکی گھوڑے کی رکابوں پر کھڑے تھے۔ ہاتھی کے پیچھے سپاہیوں کا پرا لاٹھیاں کاندھوں پر دھرے ٹھٹھول کر رہا تھا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ بھری عدالت میں جج نے چوری کے جرم میں چھ مہینے کی سزا کا حکم پڑھ کر سنایا۔ اور چھ بلم ان کے کلیجے میں اترگیے۔

    ’’راج دین۔‘‘

    ’’بھیا۔‘‘

    ’’کیا دیر ہے۔‘‘

    ’’حاجی میٹھے کی گاڑیاں بالامئو کی بازار کے لیے لد رہی ہیں۔۔۔ ہانک دی جائیں تب اٹھا جائے۔‘‘

    ’’رام دین۔‘‘

    ’’بھیا۔‘‘

    ’’بھورارہ ہوتے ہی تم تھانے جاؤ اور کملا پور کی بازار سے خریدے ہوئے گھوڑے کی رسید دکھلاکر چوری کی رپٹ لکھا دو۔‘‘

    ’’بہت نیک۔‘‘

    ہولناک سناٹے نے ’’جاگتے رہو‘‘ کی مدقوق آوازوں کو نگل لیا۔ آوارہ کتے بھونکتے بھونکتے تھک گیے تو دیواروں کے سایوں اور دکانوں کے پٹوں کی آڑ میں پڑ کر سوگیے۔ وہ روشن ستارے جن کو مان پور والے دوسرے گاؤں والوں کی طرح ’’ہنی ہنا‘‘ کہتے تھے۔ پیپل کی پھنگی پر دیوں کی طرح جل اٹھے۔ جانوروں کی گردن میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی نحیف آوازیں آنے لگیں۔ مارکین کے کفن کی طرح دھندلی دھندلی سفیدی اس مشرق پر پھیلنے لگی جوکئی صدیوں سے مرا پڑا تھا۔ جاگیرداری نظام کی بیمار قدروں کی طرح سائے سونلانے لگے۔ ٹھنڈی ہواؤں کی پریاں اپنے پروں پر نئی صبح نئے دور کے پھولوں اور کارناموں کی خوشبو لے کرمجو بھیا کے آنگن میں اٹکھیلیاں کرنے لگیں تو باہری دروازہ ہاتف کی طرح بولا اور سب دم بخود ہوگیے۔ دھرم پال سپاہی کہہ رہاتھا۔

    ’’حاجی میٹھے گیے۔‘‘

    راج دین نے جلتی ہوئی چلم کا آخری کش لگاکر چلم دیوار سے لگاکر کھڑی کردی۔ پتاور ایسی مونچھوں کو ہتھیلی سے برابر کیا اور کھڑا ہوگیا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی بھکا دلارے رام دین اور مجو بھیا بھی کھڑے ہوگیے۔

    آج مجو بھیا کا لنگر قدموں سے اٹھایا نہ جارہاتھا۔ محرم کی ساتویں کو جب فیجو منیہار نے بیماری کا بہانہ کرکے عباسی علم اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ اور چھوٹے خاں کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں تھیں۔ تو مجو بھیا نے وہ آستینیں چڑھائی تھیں جن کے کلف دار ململ کو للّی نے بڑے ریاض سے پاندان کے ڈھکنے پر چنا تھااورگلے میں ڈولچی ڈال کر عباسی علم اٹھا لیا تھا۔ علم لے کے چلتے ہوئے انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب استاد مدی نے گرج کر ’’علی کا لشکر‘‘ کانعرہ مارا تھا اور ہزاروں کے مجمع نے کلیجہ پھاڑ کر دلوں کو ہلادینے والی آواز میں یا ’’حسین‘‘ کی تکرار کی تھی۔ لیکن آج مجو بھیا چلتے ہوئے ایسی اذیت محسوس کر رہے تھے جیسے دو عباسی علم دونوں ہاتھوں پر جھول رہے ہوں۔ وہ راج دین کے پیچھے اور دوسروں کے آگے چل رہے تھے۔ اونگھتے ہوئے کتے گردن اٹھا کرکرکراتے، پھر ان کے براق کپڑوں کے کفن ایسے سفید جلوے میں منہ ڈھانپ کر رہ جاتے۔

    چبوترے کی سیڑھیاں چڑھ کر ان کے موٹے موٹے ہاتھ نے آہستہ سے تھپکی دی۔ چارپائی چرچرائی۔ جھانجھیں گنگنائیں۔ شیشے کی چوڑیوں نے سرگوشی کی اور کنڈی بجی اور دروازہ کھل گیا۔ مٹی کے تیل کی ڈبیہ طاق میں جل رہی تھی۔ اس کی لال روشنی میں چندہ کھڑی تھی۔ کسمیلی قمیص اور میلی شلوارپہنے چندہ نے دروازے سے ہٹ کر انگڑائی لی تو اس کے جسم کے خطوط میں چراغ جل گیے۔ الجھے ہوئے کالے کالے بال کمرتک پڑے ہوئے تھے۔ لانبی لانبی آنکھیں نیند سے سینچی ہوئی تھیں۔ مجو بھیا نے اسے مخمور نگاہ سے دیکھا۔ دل کی آرزو لہو بن کر ہاتھوں میں دوڑنے لگی۔ لیکن اُن کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو وقت کی نزاکت نے پکڑ لیا۔ رام دین دہلیز پر ہی کھڑاتھا۔ مجو بھیا کااشارہ پاکر وہ اندرگیا، دوسرے آدمی للّی کے دروازے پر پہنچ گیے۔ چندہ کی نیم باز آنکھوں سے اپنی پیاسی آنکھوں کو بغلگیر کرکے مجو بھیا نے پوچھا،

    ’’منگلو کو گیے کتنی دیر ہوئی۔‘‘

    ’’حاجی کے ساتھ ہی وہو گیے ہیں۔‘‘

    چندہ اور للّی کے گھروں کی مشرکہ دیوار پر رام دین لاٹھی لگاکر چڑھ گیا۔ بلی کی طرح اُتر کراس نے دروازہ کھول دیا۔ مجو بھیا گردن جھکاکر بازو سے شانہ بچاتے ہوئے للّی کے صحن میں آگیے۔ رام دین پنجوں کے بل چلتا ہوا گیا اور للّی کے دروازے کی زنجیر کھول دی۔ راج دین، بھکااور دلارے تینوں آگیے۔ مجو بھیا نے اپنا مخملی جوتا دروازے پر چھوڑ دیا، جس کو چندہ نے اٹھالیا۔ چھپر میں دو چارپائیاں بچھی تھیں۔ ایک خالی چارپائی پر زمین کے رنگ کی سکڑی ہوئی دری پڑی تھی۔ سرہانے کثیف تکیہ رکھا تھا۔ دوسرے پلنگ پر للّی لیٹی تھی۔ چت لیٹی ہوئی سیاہ لہنگے کی گوٹ سے چاندی کے گھٹنے جاگ رہے تھے۔ سنگ مرمر کی سڈول پنڈلیاں اندھیرے میں چمک رہی تھیں جیسے ’’پنشاخے‘‘ جل رہے ہوں۔

    خراٹے لیتی ہوئی للّی کی کرتی میں وہ خربوزے دھڑک رہے تھے جن کی مٹھاس سے تراب کی زبان ہمیشہ کے لیے بندھ گئی تھی۔ باہوں کے خنجر دونوں پیٹوں پر پڑے تھے۔ جیسے ان کے قبضے مجو بھیا کی کلائی نے توڑ لیے ہوں۔ میلے میلے تکیہ پر جھبڑے جھبڑے بالوں کا انبار رکھا تھا۔ جس کے لمس کی خاطر مان پور کے کتنے ہی شانے قلم ہو جانا گوارا کرسکتے تھے۔ مجو بھیا اس کے بے پناہ حسن کے طلسم میں اسیر کھڑے رہے۔ پھر ان کی گردن ہلی۔ شاید مچھر نے بائیں گال پر کاٹ لیا تھا۔ اور ان کی گردن ہلتے ہی رام دین کی انگلیاں سنگسی کی طرح اس کی گردن کی صراحی میں پیوست ہوگئیں۔ وہ پھڑپھڑائی مگر دلارے اس پر سوار ہوگیا۔ وہ ذبح کی ہوئی بٹیر کی طرح مٹھی میں پھڑپھڑاکر رہ گئی۔ راج دین نے اسے آلو کے بورے میں ٹھونس کر بھر دیا۔ رام دین نے بورے کو پیٹھ پر لاد لیا۔ دلارے نے للّی کامکان اندر سے بند کیا۔ پھر چندہ کے گھر میں کھلنے والی کھڑکی کو للّی کی طرف سے بندکرکے دیوار پھاند کر چندہ کے گھر میں ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔

    سڑک پر بڑے بڑے بیلوں کا ادھا کھڑا تھا۔ بورا اس میں ڈال کر جاجم بچھادی گئی۔ اور بیل چوک بھرنے لگے۔ ہاہا کار کرتے ہوئے بیتے کے اونچے پل پر ادھا روک لیا گیا۔ مجو بھیا نے بجلی کو دوڑاکر ہر طرف سے اطمینان کرلیا۔ پھر طلوع ہوتی ہوئی صبح کے مٹیالے اندھیرے میں بورا دھار میں چھوڑ دیا گیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوگیا۔ مجو بھیا کارتوسوں کی پیٹی ڈالے اور کندھے پر بندوق رکھے رکابوں پر کھڑے ابلتے شور کرتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہے۔

    مان پور کے ایک ایک دل میں خودرو پیڑ کی طرح یہ بات جم گئی کہ جوان للّی بوڑھے حاجی کے پوپلے منہ پر تھپڑ مار کر کسی آشناکے ساتھ نکل گئی ہے۔ معلوم نہیں کتنے آدمیوں نے اسے ’’نخلؤ‘‘ کے بازارمیں ایک بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی کے ساتھ ہاتھ بھر کے گلاس میں لسی پیتے دیکھا تھا۔ اس واقعہ نے دوسروں پر خیر جو کچھ اثر کیا ہو۔ لیکن منگلو نے جب جمعہ کے دن بال بنوائے، اور چاندی کے تاروں کاایک گچھا اس کی قمیص کے دامن میں گر پڑا تو چپ سادھ لی۔ عصر کی نماز کے بعد ہی چندہ نے کھانا پکاکر چھینکے کے سپرد کیا۔ دروازہ بند کرکے چارپائی کھڑی کی اور ابٹن لگالگاکر نہائی پھر اجلے کپڑے پہن کر دیر تک ٹین کی پشت کے آئینے میں کاجل لگی انگلی آنکھوں میں پھیرتی رہی۔ پھر جب چادر اٹھاکر چلی تو اس کے لال لال گالوں کو دیکھ کر منگلو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا،

    ’’کہاں چلیں اتنے بیرے۔‘‘

    ’’بھیا کے یہاں۔‘‘

    وہ تو چلی گئی لیکن منگلو بڑی دیر تک کھٹیا پر لیٹا ہوا جلے ہوئے ناریل کو گڑگڑاتا رہااور ذہن پر رینگتے ہوئے بچھوؤں کو پکڑ پکڑ کر مارتا رہا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے