کپاس کا پھول
کہانی کی کہانی
ادھوری رہ گئی محبت میں ساری زندگی تنہا گزار دینے والی ایک بوڑھی عورت کی کہانی۔ اس کے پاس جینے کا کوئی جواز باقی نہیں ہے وہ ہر وقت موت کو پکارتی رہتی ہے۔ تبھی اس کی زندگی میں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے جو کپاس کے پھول کی طرح نرم و نازک ہے۔ وہ اس کا خیال رکھتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ اس برے وقت میں بھی اس کی قدر کرنے والا کوئی ہے۔ انھیں دنوں بھارتی فوج گاؤں پر حملہ کر دیتی ہے اور مائی تاجو کا وہ پھول کسی کیڑے کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔
مائی تاجو ہر رات کو ایک گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ دی۔ پو پھٹے جب وہ کھاٹ پر سے اتر کر پانی پینے کے لیے گھڑے کی طرف جانے لگی تو دوسرے ہی قدم پر اسے چکر آ گیا تھا اور وہ گر پڑی تھی۔ گرتے ہوئے اس کا سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرا گیا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔
یہ بڑا عجیب منظر تھا۔ رات کے اندھیرے میں صبح ہولے ہولے گھل رہی تھی۔ چڑیاں ایک دوسرے کو رات کے خواب سنانے لگی تھیں۔ بعض پرندے پر ہلائے بغیر فضا میں یوں تیر رہے تھے جیسے مصنوعی ہیں اور کوک ختم ہو گئی تو گر پڑیں گے۔ ہوا بہت نرم تھی اور اس میں ہلکی ہلکی لطیف سی خنکی تھی۔ مسجد میں وارث علی اذان دے رہا تھا۔
یہ وہی سریلی اذان تھی جس کے بارے میں ایک سکھ سمگلر نے یہ کہہ کر پورے گاؤں کو ہنسا دیا تھا کہ اگر میں نے وارث علی کی تین چار اذانیں اور سن لیں تو واہگو رو کی قسم کھاکے کہتا ہوں کہ میرے مسلمان ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اذان کی آواز پر گھروں میں گھمر گھمر چلتی ہوئی مدھانیاں روک لی گئی تھیں۔ چاروں طرف صرف اذان حکمران تھی اور اس ماحول میں مائی تاجو اپنی کھاٹ کے پاس ڈھیر پڑی تھی۔ اس کی کنپٹی کے پاس اس کے سفید بال اپنے ہی خون سے لال ہو رہے تھے۔
مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی، مائی تاجو کو تو جیسے بے ہوش ہونے کی عادت تھی۔ ہر آٹھویں دسویں روز وہ صبح کو کھاٹ سے اٹھتے ہی بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ایک بار تو وہ صبح سے دوپہر تک بےہوش پڑی رہی تھی اور چند چیونٹیاں بھی اسے مردہ سمجھ کر اس پر چڑھ آئی تھیں اور اس کی جھریوں میں بھٹکنے لگی تھیں۔ تب پڑوس سے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں پنجوں کے بل کھڑی ہو کر دیوار پر سے جھانکی تھی اور پوچھا تھا، ’’مائی! آج لسّی نہیں لوگی کیا؟‘‘ پھر اس کی نظر بےہوش مائی پر پڑی تھی اور اس کی چیخ سن کر اس کا باپ اور بھائی دیوار پھاند کر آئے تھے اور مائی کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار مار کر اور اس کے منہ میں شکر ڈال ڈال کر خاصی دیر کے بعد اسے ہوش میں لائے تھے۔ حکیم منور علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔
اس دن سے راحتاں کا معمول ہو گیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوجاتی، وہیں پر بیٹھی مائی کی باتیں سنتی رہتی۔ ایک دن مائی نے کہا تھا، ’’میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں بیٹی کہ جانے کب اوپر سے بلاوا آ جائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسّی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔ تب تم آنا اور ادھر وہ چارپائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں سے میرا کفن نکال لینا، کبھی دکھاؤں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کہ مولوی عبدالمجید سے اس پر خاکِ پاک سے کلمہ شہادت بھی لکھوا لیا تھا۔ ڈرتی ہوں اسے بار بار نکالوں گی تو کہیں خاک پاک جھڑ ہی نہ جائے۔ بس یوں سمجھ لو کہ یہ وہ لٹھا ہے جس سے بادشاہ زادیاں برقعے سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے یہ کپڑا۔ ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکی پیس پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی ہوں اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔ کیوں بیٹی! یہ کوئی گھاٹے کا سودا تھا؟ نہیں تھانا! میں ڈرتی ہوں کہ کہیں کھدر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی ہی نہ پسوانے لگیں۔‘‘ پھر اپنے پوپلے منہ سے مسکراکر اس نے پوچھا تھا، ’’تمھیں دکھاؤں؟‘‘
’’نامائی!‘‘ راحتاں نے ڈر کر کہا تھا ’’خاکِ پاک جھڑ گئی تو!‘‘ پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی، ’’ابھی تو تم بیس سال اور جیوگی۔ تمھارے ماتھے پر تو پانچ لکیریں ہیں۔ پانچ بیسیاں سو۔‘‘
مائی کا ہاتھ فوراً اپنے ماتھے کی طرف اٹھ گیا، ’’ہائے پانچ کہاں ہیں بیٹی،کل چار ہیں۔ پانچویں تو یہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ تو چھری کی نوک سے دونوں ٹکڑوں کو ملادے تو شاید ذرا سا اور جی لوں۔ تیرے گھر کی لسی تھوڑی سی اور پی لوں۔‘‘ مائی کے پوپلے منہ پر ایک بار پھر گول سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کر آس پاس پھیلے ہوئے کفن اور کافور کی بُو سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ