مزدوری
لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اضافہ ہوگیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جارہا تھا۔۔۔
جب تم ہی گئے پردیس لگا کرٹھیس او پیتم پیارا، دنیا میں کون ہمارا۔
ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جارہا تھا۔۔۔ ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی میں سے گر پڑی۔ لڑکا اسے اٹھانے کے لیے جھکا تو ایک آدمی نےجس نے سر پرسلائی کی مشین اٹھائی ہوئی تھی اس سے کہا، ’’رہنے دے بیٹا رہنے دے۔ اپنے آپ بھن جائیں گے۔‘‘
بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔۔۔ آنتوں کے بجائے شکر، سفید سفید دانوں والی شکر ابل کرباہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہوگئے اوراپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا، اس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا اور مٹھیاں بھر بھر اس میں ڈالنے لگا۔
’’ہٹ جاؤ۔۔۔ ہٹ جاؤ۔۔۔‘‘ ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔
اونچے مکان کی کھڑکی میں سے ململ کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا۔۔۔ شعلے کی زبان نے ہولے سے اسے چاٹا۔۔۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔
’’پوں پوں۔۔۔۔ پوں پوں۔۔۔‘‘ موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔
لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدد سے اس کو کھولنا شروع کیا۔
’’کاؤ اینڈ گوٹ۔‘‘ دودھ کے کئی ٹین دونوں ہاتھوں پر اٹھائے اپنی ٹھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔بلند آواز آئی، ’’آؤ آؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو۔۔۔ گرمی کا موسم ہے۔‘‘ گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کیے بغیر چل دیا۔
ایک آواز آئی، ’’کوئی آگ بجھانے والوں کو تو اطلاع دے دے۔۔۔ سارا مال جل جائے گا۔‘‘ کسی نے اس مفید مشورے کی طرف توجہ نہ دی۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑتڑکی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔
پولیس کو بازار خالی نظر آیا۔۔۔ لیکن دور، دھوئیں میں ملفوف موڑکے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔۔۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندرگھس گیا۔ پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔ دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھاکہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پروزنی بوری اٹھانے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہوگئے مگر وہ کشمیری مزدور نہ رکا۔ اس کی پیٹھ پر وزن تھا۔ معمولی وزن نہیں، ایک بھری ہوئی بوری تھی لیکن وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پرکچھ ہے ہی نہیں۔
سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آکر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ پر سے گرپڑی۔ گھبرا کر اس نے اپنے پیچھے آہستہ آہستہ بھاگتے ہوئے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا۔ لیکن ایک ہی جھٹکے سے بوری اٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔
سپاہیوں نے سوچا، ’’جانے دو، جہنم میں جائے۔‘‘
ایک دم لنگڑاتا لنگڑاتا کشمیری مزدور لڑکھڑایا اور گرپڑا۔ بوری اس کے اوپر آرہی۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور بوری سمیت لے گئے۔ راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا،’’حضرت، آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے۔۔۔ میں تو غریب آدمی ہوتی۔۔۔ چاول کی ایک بوری لیتی۔۔۔ گھر میں کھاتی۔۔۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔‘‘ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔
تھانے میں بھی کشمیری نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا، ’’حضرت، دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اٹھاتی۔۔۔ میں تو فقط ایک چاول کی بوری لیتی۔۔۔ حضرت، میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔‘‘
جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانےدار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا، ’’اچھا حضرت، تم بوری اپنے پاس رکھ۔۔۔ میں اپنی مزدوری مانگتی۔۔۔ چار آنے!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.