- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1390
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1122
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
احمد علی کے افسانے
پریم کہانی
محبت کرنا جتنا ضروری ہے اس کا اظہار بھی اسی قدر ضروری ہے۔ اگر محبت کا اظہار نہیں ہوا تو آپ اپنے ہاتھوں محبت کا قتل کر دیں گے۔ یہ کہانی بھی ایسی ہی ایک محبت کے قتل کی داستان ہے۔ ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو کسی لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن اپنی کم ہمتی کے باعث اس لڑکی سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اس سے دور چلی جاتی ہے۔
مہاوٹوں کی ایک رات
مہاوٹوں کی رات ہے اور زبردست بارش ہو رہی ہے۔ ایک غریب کنبہ جس میں تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹے سکڑے لیٹے ہوئے ہیں۔ گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے اور وہ بھوک سے بدحال ہیں۔ بچوں کی ماں اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتی ہے اور سوچتی ہے کہ شاید وہ جنت میں ہے۔ جب بچے باربار اس سے کھانے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں سوچتی اور کہتی ہے اگر وہ ہوتا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا۔
بادل نہیں آتے
اور بادل نہیں آتے، نگوڑے بادل نہیں آتے۔ گرمی اتنی تڑاخے کی پڑ رہی ہے کہ معاذ اللہ! تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح بھنے جاتے ہیں، تمازت آفتاب اور دھوپ کی تیزیت! بھاڑ بھی ایسا کیا گرم ہوگا، پوری دوزخ ہے۔ کبھی دیکھی بھی ہے؟ نہیں دیکھی تو اب مزا چکھ لو۔ وہ موئی
اس کے بغیر
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو موسم بہار میں تنہا بیٹھی اپنی پہلی محبت کو یاد کر رہی ہے۔ ان دنوں اس کی بہن کے بہت سے چاہنے والے تھے مگر اس کا کوئی محبوب نہیں تھا اور اسی بات کا اسے افسوس تھا۔ اچانک اس کی زندگی میں آنند آگیا جس نے اس کی پوری زندگی ہی بدل دی۔ انھوں نے مل کر ایک ٹرپ کا پروگرام بنایا۔ اس سفر میں ان دونوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعے ہوئے جن کی وجہ سے وہ اس سفر کو کبھی نہیں بھلا سکی۔
تصویر کے دو رخ
یہ کہانی آزادی سے پہلے کی دو تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف پرانے روایتی نواب ہیں جو عیش کی زندگی جی رہے ہو ہیں۔ موٹروں میں گھومتے ہیں، دل بہلانے کے لیے طوائفوں کے پاس جاتے ہیں، ساتھ ہی زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو کوستے ہیں، گاندھی جی کو گالیاں دیتے ہیں۔ دوسری طرف آزادی کے لیے مر مٹنے والے وہ نوجوان ہیں جن کی میت کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہیں ہے۔
شادی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی تربیت مغربی تہذیب میں ہوئی ہے۔ اس نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا ہے اور وہاں کے سماج میں پوری طرح رچ بس گیا ہے۔ اپنے ملک لوٹنے پر والدین اس کی شادی کے لیے کہتے ہیں مگر وہ بغیر ملے، دیکھے کسی ایسی لڑکی سے شادی کے لیے راضی نہیں ہوتا جسے وہ جانتا تک نہیں۔ گھر والوں کے اصرار پر وہ شادی کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد وہ ایک اجنبی لڑکی جو اب اس کی بیوی ہے کے پاس جانے سے کتراتا ہے۔ ایک رات تنہا لیٹے ہوئے اسے کسی ناول کے کچھ حصے یاد آتے ہیں اور وہ اپنی بیوی کی چاہت میں تڑپ اٹھتا ہے اور اس کے پاس چلا جاتا ہے۔
غلامی
سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔
مزدور
ہمارا مہذب سماج مزدوروں کو انسان نہیں سمجھتا۔ ایک غریب مزدور طبیعت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود مجبوری میں بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا توازن بگڑتا ہے اور وہ نیچے آ رہتا ہے۔ کسی طرح اسے اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں کہ ڈاکٹر اسے مردہ اعلان کر دیتا ہے۔
استاد شمو خاں
یہ کہانی استاد شمو خاں کی ہے۔ کسی زمانے میں وہ پہلوان ہوا کرتا تھا۔ پہلوانی سے اس نے کافی شہرت پائی اور اب زندگی کے باقی دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرکے گزار رہا ہے۔ پاس ہی رہنے والے شیخ جی بھی کبوتر بازی کا شوق رکھتے تھے۔ کبوتر بازی کے مشترکہ شوق میں دونوں کے درمیان کس کس طرح کے داوں پینچ ہوتے ہیں، جاننے کے لیے یہ کہانی پڑھیں۔
قید خانہ
ایک ایسے شخص کی کہانی جو تنہا ہے اور وقت گزارنے کے لیے ہر روز شام کو شراب خانے میں جاتا ہے۔ وہاں روز کے ساتھیوں سے اس کی بات چیت ہوتی ہے اور پھر وہ درختوں کے جھرمٹ میں چھپے اپنے گھر میں آ جاتا ہے۔ گھر اسے کسی قید خانے کی طرح لگتا ہے۔ وہ گھر سے نکل پڑتا ہے، قبرستان، پہاڑیوں اور دوسری جگہوں سے گزرتے، لوگوں سے میل ملاقات کرتے، ان کے ساتھ وقت گزارتے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ زندگی ایک قید خانہ ہے۔
گزرے دنوں کی یاد
ہماری زندگی میں کبھی کبھی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے جو بیتے دنوں کی ایک ایسی کھڑکی کھول دیتا ہے جس سے یادوں کی پوری بارات چلی آتی ہے۔ اس کہانی کا ہیرو بھی کسی ایسی ہی کشمکش کا شکار ہے۔ ایک دن اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ دوسری طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بتائے کہ یہ آواز کس کی ہے۔ ہیرو اپنی یادداشت کے مطابق کئی لڑکیوں کے نام بتاتا ہے اور فون کرنے والی لڑکی سے مسلسل باتیں کیے جا رہا ہے۔ ذہن پر بہت زور دینے کے باوجود بھی یاد نہیں کر پاتا کہ آخر اس سے بات کرنے والی لڑکی کون ہے؟
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-