- کتاب فہرست 188058
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1964
طب912 تحریکات298 ناول4615 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1448
- دوہا65
- رزمیہ111
- شرح198
- گیت83
- غزل1165
- ہائیکو12
- حمد45
- مزاحیہ36
- انتخاب1579
- کہہ مکرنی6
- کلیات688
- ماہیہ19
- مجموعہ5033
- مرثیہ379
- مثنوی829
- مسدس58
- نعت550
- نظم1245
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
مختار احمد کی بچوں کی کہانیاں
پراسرار دستانے
عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ عظیم کے والد بغرض ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔یہ
دو چھوٹوں کا بڑا کام
قمر کی امی کی طبیعت کئی روز سے خراب تھی۔ ان کو فکریں بھی تو بہت تھیں۔ اس کے ابّا روزگار کی غرض سے سعودی عرب میں کسی تیل کی کمپنی میں ملازم تھے۔ وہاں کی شدید گرمی تو بہت مشہور ہے اور پھر ان کا تو کام ہی ایسا تھا کہ انھیں ریگستانوں میں کام کرنا پڑتا تھا
پینسل کی چوری
فواد ایک مصور تھا۔ اس کا حلیہ بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ اکثر مصوروں کا ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم جسم، گورا رنگ، شانوں تک لمبے لمبے بال، جسم پر ململ کا کرتا اور پاجامہ اور منہ میں پان۔ اس نے ایک پر رونق علاقے میں اپنا ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو کھول رکھا تھا۔ یہاں
جادو کا آئینہ
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ملکہ ایک نیک دل عورت تھی۔ وہ غریب لوگوں سے بہت محبّت کرتی تھی اور ان کی مدد کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے لوگ اسے دعائیں دیتے تھے۔الله نےانھیں ایک نہایت خوبصورت اور ہونہار بیٹے سے
شرارتی بچے
ہنی گرائمر اسکول پہلی کلاس سے لے کر پانچویں کلاس تک تھا۔یہ اسکول اپنی پڑھائی لکھائی اور مناسب فیسوں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔یہاں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔اس کی ایک انوکھی بات یہ بھی تھی کہ مختلف مضمون پڑھانے کے لیے الگ الگ ٹیچرز نہیں تھیں
غریب شہزادہ
شہزادہ عالم زیب ایک نہایت خوب صورت اور نیک دل شہزادہ تھا۔ بادشاہ اور ملکہ نے شروع ہی سے اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی تھی۔ اسی لیے جب وہ بڑا ہوا تو ذہین بھی تھا اور تلواربازی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر
جادو کا تماشہ
ایک دن بیٹھے بٹھائے گلو میاں کو جانے کیا سوجھی کہ وہ ضد کرنے لگے کہ ان کی سالگرہ منائی جائے۔ انہوں نے یا تو کسی ٹی وی کے ڈرامے میں کسی بچے کی سالگرہ ہوتے دیکھ لی تھی اور یا پھر رات خواب ہی میں کسی کی سالگرہ میں شرکت کرلی تھی۔ بہرحال وجہ خواہ کچھ بھی
محسن
سردیوں کے دن تھے۔ آسمان پر شام سے ہی بادل چھائے ہوۓ تھے۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے، ہوا کا زور کم ہوتا تو چند بوندیں بھی پڑ جاتی تھیں۔ آسمان پر چھائے ہوۓ کالے بادل شدید بارش کی پیشگوئی کر رہے تھے۔ موسم کی اس تبدیلی نے سردی کی شدّت میں اضافہ کردیا
عقل مند وزیر زادہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر خدا دوست نامی ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ بہت نیک اور صلح پسند تھا۔ اس کی ملکہ بھی بہت اچھی اور غریبوں سے محبّت کرنے والی عورت تھی۔ ان کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام شہزادی انعم تھا۔ شہزادی انعم اپنی خوب صورتی،
شہزادے کی ضد
یہ بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر چھ سال تھی اور نام تھا شامی۔ شہزادہ شامی اپنے باپ سے بہت محبّت کرتا تھا، مگر دوسرے بچوں کی طرح اس کی بھی باپ سے محبّت صرف دن دن کی ہوا کرتی تھی۔ رات
عقلمندی کا انعام
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی گاؤں میں عادل نامی شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس کے دو بچے تھے۔ عارف اور شاہینہ۔ وہ دونوں ابھی چھوٹے تھے مگر بہت سمجھدار تھے۔ وہ ہر کام میں اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کے ماں باپ ان سے بہت خوش تھے۔ انھیں
مانو کہاں گئی؟
محل کے شاہی باورچی کا بیٹا شیر افگن بھاگتا بھاگتا گھر میں داخل ہوا اور ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’ابا ابا۔ باورچی خانے میں بہت ساری بلیاں بیٹھی ہیں، جلدی چلو۔ کہیں وہ سارا دودھ نہ پی جائیں‘‘۔ باورچی بیٹھا بیوی سے باتیں کر رہا تھا، بیٹے کی اطلاع پر گھبراکر
شہزادی اور لکڑہارا
شہزادی سلطانہ بادشاہ کی شادی کے بعد بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ تو اس کی پیدائش پر خوش تھے ہی مگر جس روز وہ پیدا ہوئی تھی پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا
جھوٹ پکڑا گیا
جواد چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ ایک تمیز دار اور ہونہار بچہ تھا۔ پڑھائی لکھائی میں تیز تھا اور کبھی اسکول سے چھٹی نہیں کرتا تھا۔ اس کا دوسرے بچوں سے برتاؤ بہت اچھا تھا اور وہ ان کے ساتھ پیار محبّت سے رہتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں سے نہایت دھیمے لہجے اور
ہمیں انعام نہیں چاہیے
شاکر صاحب صبح ہی سے ہی گاڑی کی صفائی ستھرائی میں لگے ہوئے تھے اور اب دوپہر ہونے کو آ گئی تھی۔ ان کے تینوں بچے عاقب، فہد اور ہانیہ بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ان کی بیوی نسرین کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی اور کبھی کبھی کھڑکی سے باہر جھانک کر انھیں
ضدی بادشاہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شہزادی گل فشاں تھا۔شہزادی گل فشاں اپنی خوبصورتی، خوش اخلاقی اور عقلمندی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی اور کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کے خواہش مند
راجولکڑ ہارا
راجو ایک لکڑ ہارا تھا۔ اس کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ روز جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور انھیں فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم اپنی ماں کو لا کر دے دیتا جس سے وہ گھر کا خرچ چلاتی ۔ ایک روز راجْو جنگل
جادو کا کمرہ
شہزادی لیلیٰ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے وہ اس کو بہت چاہتا تھا۔ ملکہ بھی اپنی شہزادی سے بہت محبّت کرتی تھی اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ شہزادی لیلیٰ کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ وہ نہ صرف بے انتہا
اچھا کام
آسمان پر کئی دنوں سے گہرے کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا۔ دن میں ہلکی اور رات کو تیز بارش کا سسلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے پکے گھروں میں رہنے والوں کو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، مگر وہ لوگ جو کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہتے تھے ان
خوشامد پسند بادشاہ
یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔ بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی بھلائی کے کاموں کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے۔ ملک میں
نیک سلوک
کلثوم آپی کالج سے پڑھ کر گھر آئیں تو ان کی دس سالہ بہن ببلی کافی پرجوش دکھائی دیتی تھی۔ ایسا معلوم دیتا تھا کہ جیسے کوئی انہونی بات ہوگئی ہے اور اس بات کو وہ کلثوم آپی کو بتانے کے لیے بے چین ہے۔ وہ کپڑے بدل کر جب ڈرائنگ روم میں آئیں تو ببلی نے انھیں
منی کے جوتے
ابرار گھی بنانے کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ اس کی رہائش گاہ اس کمپنی سے چار پانچ کل میٹر دور تھی اس لیے وہ سائیکل پر کمپنی آتا جاتا تھا۔ وہ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا اور دل لگا کر اپنا کام کرتا تھا ۔اس کے دو بچے تھے۔ ارسلان اور بتول۔ بتول
جادو کی چھڑی
پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک گاؤں تھا۔ اس گاؤں کے تمام لوگ سیدھے سادھے تھے مگر بے چارے تھے بہت غریب۔ان کی غربت کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ کاہل اور آرام پسند تھے اور اپنا اپنا کام محنت اور دل لگا کر نہیں کرتے تھے۔ دل چاہا تو کام پر چلے گئے،
بہترین دوست
شہزاد صاحب اپنی بیوی، بچوں، ماں اور بھائی کے ساتھ مسلم ٹاؤن میں ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، عادل، ریحان اور سونیا۔ تینوں بچے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ ان میں یہ بڑی اچھی بات تھی کہ انھیں پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور وہ نہایت پابندی
گمشدہ گھڑی
سلیم نے پانچویں جماعت پاس کی تو اس خوشی میں اس کی امی نے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں زیادہ لوگوں کو تو نہیں بلایا گیا تھا، صرف بہت ہی قریبی رشتے داروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سلیم کی امی خیال تھا کہ اس تقریب کی وجہ سے سلیم کی
اچھا سلوک
یوسف صاحب بنک کی ملازمت سے فارغ ہو کر ایک پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ان کے دو بیٹے تھے۔بڑا بیٹا کاظم ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا اور اچھے پیسے کماتا تھا۔چھوٹا بیٹا عاصم کسی موبائل کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر تھا۔وہ دونوں شادی شدہ تھے۔ کاظم
کام چور لڑکا
نونی یوں تو بڑا اچھا بچہ تھا مگر اس میں ایک بات بہت بری تھی اور وہ بات یہ تھی کہ وہ ایک کام چور لڑکا تھا۔ اس سے اگر کسی کام کو کرنے کا کہا جاتا تو وہ صاف منع کر دیتا تھا۔ اس کی امی باہر برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتیں اور اس سے کہتیں۔ ’’نونی بیٹے۔
چالاک سوداگر
بہت پرانے زمانے کا ذکر کسی شہر میں امانت نامی ایک شخص رہتا تھا۔وہ غلہ فروشی کا کام کرتا تھا اور شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑے بازار میں اس کی غلّے کی دکان تھی۔ اس دکان میں گندم، چاول، گڑ، شکر، مکئی اور دالیں فروخت ہوتی تھیں۔اس کی ایمانداری، خوش
اچھا لڑکا پکّا دوست
واجد کے اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔وہ اپنی امی سے ضد کرنے لگا کہ یہ چھٹیاں گزارنے خالہ کے گھر حیدرآباد چلیں۔اس کی ضد سے مجبور ہو کر اس کی امی نے اس کے ابو سے بات کی اور انھیں بتایا کہ واجد خالہ کے گھر جانے کو کہہ رہا ہے۔اس پر اس کے ابّو
حویلی کے چور
نوراں کی ساری زندگی مشقت میں بسر ہوئی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے گاوٴں میں رہتی تھی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اسے پورے گھر کو سنبھالنا پڑتا تھا کیوں کہ اس کی ماں گاوٴں کے زمیندار کی حویلی میں ملازمہ تھی۔ وہ صبح سے شام تک حویلی میں کام میں مصروف رہتی۔ اس خدمت کے
ایماندار موچی
سردیوں کے دن تھے۔ بالا موچی درخت کے نیچے اپنی چھوٹی سی دکان میں جوتوں کی مرمت کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی دکان بغیر چھت اور دیواروں کے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے، گاؤں کے بالکل بیچوں بیچ ایک صاف ستھرے میدان میں تھی اور اس دکان کا کل اثاثہ لکڑی کا ایک صندوق
نیک دل پڑوسن
جمیلہ بھی بستی کے دوسرے غریب لوگوں کی طرح ایک تین کمرے والے کوارٹر میں رہتی تھی۔ جب اس کا شوہر زندہ تھا تو اس نے یہ کوارٹر خریدا تھا۔مدت ہوئی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور اب ایک بیٹی کے سوا اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ جب اس کا شوہر زندہ تھا
سنہری گھوڑا
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک امیر کبیر سوداگر رہتا تھا۔اس سوداگر کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ہادی تھا اور وہ اپنے باپ کے تجارت کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ ہادی کا ایک دوست بھی تھا اور وہ تھا اس ملک کا شہزادہ جمال۔ان کی دوستی کی ابتدا
خزانے کی چوری
بہت پرانے زمانے کی بات ہے، کسی ملک میں دولت آباد نامی ایک شہر تھا۔ اس شہر میں حامد نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ اس کے باپ نے اس کو ایک نانبائی کی دکان پر چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے رکھوا دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات چلانے میں
گمشدہ انگوٹھی
ایک روز جب ملکہ نیلوفر کی ماں اس سے ملنے آئی تو یہ دیکھ کر اس کو بہت حیرت ہوئی کہ اس کی بیٹی پھول کر کپا ہوتی جا رہی ہے۔ اتنی موٹی بیٹی کو دیکھ کر اس نے حیرت سے کہا۔ ’’بیٹی تمہیں یہ کیا ہوتا جا رہا ہے؟‘‘ ’’امی حضور ہم ٹھیک تو ہیں۔ آپ نے ہمیں بہت دنوں
ہم کہاں کھلیں؟
ساجد جس محلّےمیں رہتا تھا اس میں آمنے سامنے کل بیس گھر تھے۔ اس کا گھر کونے والا تھا جس میں وہ اپنی امی، ابّو اور ایک چھوٹی بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ محلّےمیں اس کے بہت سے دوست تھے جن کے ساتھ وہ گلی میں مختلف کھیل کھیلا کرتا تھا۔ بچپن بہت مزے کا ہوتا
چالاک بوڑھا
سوداگر کی گمشدگی فاروق سوداگر کو گھر سے گئے ہوئے پورے چھ ماہ ہو گئے تھے۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کرتا تھا اور چھ ماہ پیشتر چالیس اونٹوں پر اعلیٰ اقسام کے ریشمی کپڑوں کے تھان لے کر موتی نگر انھیں فروخت کرنے کی غرض سے لے گیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے
انوکھا کارنامہ
اطہر اپنے امی ابّا کے ساتھ سکھر میں رہتا تھا۔ ووہ بارہ سال کا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ چند دنوں کے بعد اس کی راحیلہ خالہ کی شادی ہونے تھی۔ وہ اس کی امی کی سب سے چھوٹی بہن تھیں اور کراچی میں رہتی تھیں۔ ان کی شادی کی اطلاع ملی تو اطہر کی
انوکھا بندر
اقرا آٹھ نو سال کی ایک بہت اچھی، خوبصورت اور تمیز دار لڑکی تھی۔ اس کی ایک بڑی بہن بھی تھیں جن کی چند سال پہلے شادی ہوگئی تھی اور اس سے بڑا ایک بھائی بھی تھا جس کا نام ظفر تھا۔ شادی کے بعد اس کی آپی اپنے شوہر کے ساتھ دبئی چلی گئی تھیں۔ اس کا
ہنر مند لڑکی
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں حارث نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔اس کا باپ کھیتوں میں کام کر کے اپنے بیوی بچے کا پیٹ پالتا تھا۔وہ اتنا غریب تھا کہ اس کے پاس ہل میں جوتنے کے لیے کوئی بیل بھی نہیں تھا۔بے چارے کو
مجرم پکڑے گئے
مختار احمد ابھی کچھ عرصہ پہلے جب میرےابّا جان سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئے تو انھیں ادارے سے ایک معقول رقم ملی تھی جو ہر سرکاری ملازم کو اس کی ریٹائرمنٹ پر ملتی ہے۔ میں خوش تھا کہ اب ہمارے گھر ہر وہ چیز آجائے گی جس کے لیے میں اور میری امی زندگی بھر
بونے کی انگوٹھی
زمانہ گزرا کسی ملک میں ایک گاؤں تھا جس میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیٹی کا نام لالہ رخ تھا اور وہ پندرہ سولہ سال کی ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی۔ وہ بہت با اخلاق اور ہر کسی کے دکھ درد میں کام آنے والی لڑکی تھی۔ لالہ رخ
گولک
نویدچودہ پندرہ سال کا لڑکا تھا۔وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا جہاں سے اسے رہنے کو ایک چھوٹا سا گھر بھی ملا ہوا تھا۔ نوید کا باپ اس شہر میں آنے سے پہلے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔گاؤں
نیک دل شہزادہ
ایک بادشاہ تھا۔ نہایت اچھا، رحم دل اور اپنی رعایا کا بہت زیادہ خیال رکھنے والا۔ اس کی ایک ملکہ بھی تھی، بےحد حسین و جمیل اور خدا ترس۔ وہ ملک کا نظام چلانے کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق بادشاہ کو رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھی اور بادشاہ
راجہ نگر کی صاف گلی
عامر کے ابو ایک اسکول ٹیچر تھے۔ وہ پہلے اپنے شہر کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتے تھے مگر جب ان کی ترقی ہوئی اور وہ ہیڈ ماسٹر بن گئے تو ان کا تبادلہ راجہ نگر نامی ایک دیہات کے ہائی اسکول میں کر دیا گیا۔ اگر وہ راجہ نگر جانے سے انکار کر دیتے تو پھر
آم کے آم گٹھلیوں کے دام
چند روز بعد حسن کی پھپھو کی شادی ہونے والی تھی۔وہ اس کے دادا دادی کے ساتھ بہاولپور میں رہتی تھیں۔اس شادی میں شرکت کے لیے آج وہ اپنی امی اور ابّا کے ساتھ بسوں کے اڈے پر آیا تھا۔اس کے ابّا نے بس میں تین سیٹیں پہلے ہی سے بک کروا لی تھیں۔راولپنڈی سے بہاولپور
شربت کی بوتل
احتشام کے ابو کو آفس کے لیے گھر سے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ اس کی امی کچن میں برتن دھو رہی تھیں۔ کچن کی ایک کھڑکی لان کے پچھلی طرف بھی کھلتی تھی۔ وہاں ان کی پانی کی زیر زمین ٹنکی بھی تھی اور جہاں جہاں کچی زمین تھی وہاں پودے لگے ہوئے تھے۔ انہوں
بریانی نہیں پکی ہے بھائی
رشیدہ کا شوہر شہاب کاروباری دورے پر ہانگ کانگ گیا ہوا تھا۔اس کا ایک پررونق علاقے کی مارکیٹ میں گارمنٹس کا ایک بڑا سا اسٹور تھا جس میں بچوں کے ملبوسات فروخت کے جاتے تھے۔ اسٹور میں تین سیلزمین کام کرتے تھے_ ایک لڑکا بھی تھا جو صفائی ستھرائی اور دوسرے چھوٹے
join rekhta family!
-
ادب اطفال1964
-