- کتاب فہرست 180496
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1859
طب711 تحریکات268 ناول3781 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار63
- دیوان1335
- دوہا65
- رزمیہ99
- شرح164
- گیت82
- غزل860
- ہائیکو11
- حمد35
- مزاحیہ38
- انتخاب1449
- کہہ مکرنی6
- کلیات634
- ماہیہ17
- مجموعہ4154
- مرثیہ348
- مثنوی738
- مسدس49
- نعت478
- نظم1081
- دیگر58
- پہیلی16
- قصیدہ165
- قوالی19
- قطعہ53
- رباعی269
- مخمس18
- ریختی13
- باقیات27
- سلام31
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی22
- ترجمہ73
- واسوخت24
نیر مسعود کے افسانے
وقفہ
ماضی کی یادوں کے سہارے بے رنگ زندگی میں تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ کا واحد متکلم اپنے مرحوم باپ کے ساتھ گزارے ہوے وقت کو یاد کر کے اپنی شکستہ زندگی کو آگے بڑھانے کی جد و جہد کر رہا ہے جس طرح اس کا باپ اپنی عمارت سازی کے ہنر سے پرانی اور اجاڑ عمارتوں کی مرمت کر کے قابل قبول بنا دیتا تھا۔ نیر مسعود کے دوسرے افسانوں کی طرح اس میں بھی خاندانی نشان اور ایسی مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جو کسی کی شناخت برقرار رکھتی ہیں۔
مراسلہ
اس افسانہ میں ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات، آداب و اطوار اور طرز رہائش میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ہے، افسانہ کے مرکزی کردار کے گھر سے اس گھرانے کے گہرے مراسم ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور مصروفیت کی دھول اس تعلق پر جم گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب واحد متکلم اس گھر میں کسی کام سے جاتا ہے تو ان کے طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران ہوتا ہے۔
طاؤس چمن کی مینا
اودھ کی شاہانہ تہذیب، رکھ رکھاؤ، طرز گفتگو، حکمرانوں کی کشادہ دلی، خوش ذوقی اور معاملات زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس تہذیب کے مٹنے کا نوحہ بھی ہے، سلطان عالم کے ایجادی قفس سے کالے خاں اپنی بیٹی فلک آرا کو خوش کرنے کے لیے پہاڑی مینا چرا کر دے دیتا ہے، پکڑے جانے پر سلطان عالم معاف کر دیتے ہیں اور مینا بھی اسے دے دیتے ہیںلیکن انگریز بہادر کی خواہش پوری کرنے کے لیے وزیر اعظم سازش کرکے کالے خاں کو جیل بھیج دیتے ہیں جب وہ جیل سے رہا ہو کر واپس آتا ہے تو لکھنو کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے اور سلطان عالم کلکتے میں نظر بند کر دیے جاتے ہیں۔
ساسان پنجم
یہ افسانہ فرض ناشناس اقوام کے زوال کا نوحہ ہے۔ ساسان پنجم کے زمانے کی عمارت پر کندہ عبارت پڑھنے اور اسے سمجھنے کے لیے آثار قدیمہ کے ماہرین بلاے جاتے ہیں وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عبارت پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ تحقیق کے بعد یہ ثابت کر دیا جاتا ہے کہ ساسان پنجم کا وجود فرضی ہے۔
بن بست
افسانہ میں دو زمانے اور دو الگ طرح کے رویوں کا تصادم نظر آتا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار اپنے بے فکری کے زمانے کا ذکر کرتا ہے جب شہر کا ماحول پر سکون تھا دن نکلنے سے لے کر شام ڈھلنے تک وہ شہر میں گھومتا پھرتا تھا لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ خوف کے سایے منڈلانے لگے فسادات ہونے لگے۔ ایک دن وہ بلوائیوں سے جان بچا کر بھاگتا ہوا ایک تنگ گلی کے تنگ مکان میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہ مکان پراسرار اور اس میں موجود عورت خوف زدہ معلوم ہوتی ہے اس کے باوجود اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے لیکن یہ اس کے خوف کی پروا کیے بغیر دروازہ کھول کر واپس لوٹ آتا ہے۔
عطر کافور
افسانہ زندگی کے تضادات پر مبنی ہے اس تضاد کو عطر کافور کی علامت کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے واحد متکلم کو کافور سے عطر بنانے کا طریقہ معلوم ہے۔ جس کی خوشبو تمام خوشبوؤں سے منفرد ہے اور ماہ رخ سلطان کے لیے زندگی بخش ہے. اس کے علاوہ اسے مٹی کے چھوٹے چھوٹے کھلونے بنانے کا بھی شوق ہے۔ اس نے ایک چڑیا بنائی جس کا نام کافوری چڑیا رکھا جب ماہ رخ سلطان کو دکھایا تو انھوں نے کہا کہ اس سے مرنے کا خیال آتا ہے۔ کافور جو زخموں کے اندمال اور دیگر کاموں کے لئے نفع بخش ہے اسی سے موت کا خیال آنا مرنے کے بعد کافور کا استعمال زندگی کے تضاد کو نمایاں کرتا ہے۔
گنجفہ
یہ ماں بیٹے کی کہانی ہے، جس میں ماں کے لاڈ نے بیٹے کو اس کی زندگی میں کبھی کچھ کرنے نہ دیا۔ اسی ضمن میں ایک اور قصہ لاڈلے اور حسنی کا چلتا ہے۔ ماں اپنی بینائی کمزور ہونے اور مسلسل کھانسی کے باوجود آخر دم تک چکن کے کرتوں کی کڑھائی کرتی رہتی ہے، اس کی کڑھائی کی دھوم ولایت تک ہے، وہی ولایت جہاں اس کا مرحوم شوہر اپنے اکلوتے بیٹے کو تعلیم کے لئے بھیجنا چاہتا تھا، اسی لئے ماں کو اپنے بیٹے کے حساب سے ہر کام چھوٹا معلوم ہوتا تھا اور وہ اسے نوکری سے باز رکھتی ہے۔ حسنی منجن بیچنے والے لاڈلے کی بیٹی ہے، جس نے کڑھائی کا کام راوی کی ماں سے سیکھا ہے۔ ماں کے آخری وقت میں حسنی انتہائی اپنائیت اور دلجمعی سے گھر کا سارا کام کرتی ہے۔ ایک دن راوی حسنی کے گھر کی جانب نکلتا ہے تو وہاں اپاہج لاڈلے بیٹھا ہوا ملتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ حسنی کا انتقال ہو گیا۔ لاڈلے ایک صندوق رکھنے کے لئے اسے دیتا ہے جس میں منجن کی شیشیاں اور کترنیں وغیرہ ہوتی ہیں اور پھر ایک دن لاڈلے کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہانی زندگی کے جبر اور رائگانی کے احساس سے عبارت ہے۔
شیشہ گھاٹ
افسانے کے مرکزی کردار کی زبان میں لکنت ہے اس لیے اس کا منھ بولا باپ نہ چاہتے ہوئے بھی خود سے الگ کسی نئی جگہ اسے منتقل کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی نئی بیوی آنے والی ہے جو اس کی لکنت برداشت نہیں کر سکے گی.لوگوں سے بتاتا ہے اس کے دوست جہاز نے اسے مانگ لیا ہے۔۔۔ جہاز ایک غیر آباد ساحلی علاقے میں رہتا ہے جسے شیشہ گھاٹ کہتے ہیں اس کی مالکن بی بی نام کی ڈراؤنی عورت ہے۔ یہاں پہنچ کر اسے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے لیکن ایک دن لڑکی اسے جھیل کے پانی پر چلتی نظر آتی ہے اسے دیکھ کر یہ خوش ہو جاتا ہے پھر اسی کے آنے کی امید اور دیکھنے کے شوق میں اس کا وقت خوشگوار گزرنے لگتا ہے لیکن ایک روز وہ پانی پر چلتے چلتے ڈوب جاتی ہے اور اس کے پراسرار موت کا الزام اس واحد متکلم پر نہ آئے اس لیے جہاز اسے وہاں سے بھگا دیتا ہے۔
پاک ناموں والا پتھر
بوسیدگی، زنگ آلود قفل اور خستہ حال عمارتوں کی فضا سے معمور اس کہانی میں پاک ناموں والے پتھر کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ راوی کے خاندان میں اس پتھر کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ ساری جائداد ایک طرف اور پتھر ایک طرف رہتا تب بھی لوگ پتھر کے حصول کو ترجیح دیتے۔ اس پتھر کے سلسلہ میں اس خاندان میں خوں ریزیاں بھی ہوئیں لیکن جب راوی کو وہ پتھر ملتا ہے تو اسے اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی، پتھر معمولی ہوتا ہے اور اس پر پاک نام نقش ہوتے ہیں بس۔ پھر بھی وہ اسے گلے میں پہن لیتا ہے اور پھر ایک دن اتار کر ان متبرک چیزوں کے ساتھ رکھ دیتا ہے جو اس کے ساتھ دفن کی جائیں گی۔
بائی کے ماتم دار
افسانہ واحد متکلم کی غیر معمولی یادداشتوں سے تشکیل پذیر ہوا ہے۔ بتاتا ہے کہ اسے بچپن میں دلہنوں سے بڑی انسیت تھی انھیں دیکھنا اچھا لگتا تھا لیکن ایک واقعہ ایسا ہوا کہ وہ خوف کھانے لگا واقعہ یہ تھا کہ ایک بار ایک دلہن مر گئی تھی۔ اسے زیوروں سیمت دفنا دیا گیا تھا دفنانے کے بعد اس کے شوہر کو قبر کے پاس بے ہوش پایا گیا تھا۔ ہوش آنے پر معلوم ہوا کہ دلہن کے زیور اس کے جسم میں پیوست ہو گیے تھے۔ زیوروں سے اسے ایک اور واقعہ یاد آتا ہے کہ اس کے سامنے والے اسی مکان میں ایک عورت جسے بائی کہا جاتا تھا اس کا انتقال ہو گیا تو دیکھا گیا کہ ماتم کرنے والی عورتیں ایک ایک کرکے اس کے جسم پر پڑے زیور نظریں بچا کر نوچ لے رہی ہیں۔
ندبہ
یہ افسانہ ایک مخصوص کمیونٹی کے رسوم و روایات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ مرکزی کردار ایڈوینچر کی غرض سے مختلف علاقوں کا سفر کرتا ہے اور ہر جگہ اپنے میزبان کو اپنا نام اور پتہ کاغذ پر لکھ کر دے آتا ہے۔ رفتہ رفتہ اسے یہ گھومنا پھرنا فضول مشغولیات محسوس ہوتی ہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایک ہجوم اس کے شہر میں آکر اسے تلاش کرتا ہے ان کی وضع قطع سے لوگ انھیں بھیک مانگنے والے سمجھتے ہیں لیکن جب یہ اپنے ہاتھ لکھا ہوا پرچہ دیکھتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ان کے اشاروں اور عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امداد چاہتے ہیں لیکن واحد متکلم ان کی کوئی مدد نہیں کر پاتا۔
جانوس
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے اجداد صاحب اقتدار ہوا کرتے تھے لیکن وقت نے کروٹ لی اور ان کا زوال ہو گیا۔ معاشی مجبوریوں نے اسے لکھنؤ چھوڑکر کانپور جانے پر مجبور کر دیا، واحد متکلم کے گھر وہ اس کے نوکر جان محمد کا پیغام اور تیس روپے واپس کرنے آتا ہے جو اس نے قرض لیے تھے۔ اس نووارد شخص کے ساتھ وہ بھی کانپور ہوٹل میں کام کرتا ہے۔ نووارد بہت نحیف اور لاغر ہے ٹھیک سے بول تک نہیں پا رہا ہے واحد متکلم چونکہ ڈاکٹر ہے اس لیے پریشانی سمجھ لیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم کب سے بھوکے ہو لیکن جواب دینے سے پہلے ہی اس کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔
اہرام کا میر محاسب
صاحب اقتدار شخص کے جوش، طاقت اور اقتدار پر مغرور ہونے اور انجام تک پہنچنے کی کہانی ہے۔ اہرام پر کندہ عبارت دیکھ کر خلیفہ کو جوش آتا ہے کہ اس میں یہ چیلنج کیوں کیا گیا ہے کہ اس اہرام کو کوئی منہدم نہیں کر سکتا وہ شہر بھر سے مزدور جمع کر کے اسے توڑنے پر لگا دیتا ہے لیکن اس عبارت میں دیے گیے وقت معینہ میں صرف ایک دیوار ٹوٹتی ہے اس طرح خلیفہ اپنے تخریبی مہم میں ناکام ہو جاتا ہے اور شہر چھوڑ کر ویرانے میں چلا جاتا ہے جہاں وہ اہرام موجود ہے۔
سلطان مظفر کا واقعہ نویس
افسانہ اقتدار اور طاقت کی عملداری کو سامنے لاتا ہے، کہانی بیان کرنے والا شخص سلطان مظفر کا واقعہ نویس ہے جس نے اس کے صحرائی مہم کے واقعات قلمبند کیے ہیں جوکہ اس نے دیکھے نہیں بلکہ سنے ہیں اور پھر اسی واقعہ کو ایک مورخ نے بھی لکھا جسے سلطان کے حکم سے مرنا پڑا، صحرائی مہم کے بعد واقعہ نویس خامہ نشینی اختیار کر لیتا ہے لیکن پھر کچھ ہی عرصہ بعد سلطانی گماشتہ آتا ہے کہ سلطان نے مقبرہ کا واقعہ قلمبند کرنے کے لیے طلب کیا ہے۔ جبکہ اس نے مقبرہ تعمیر ہوتے دیکھا نہیں ہے افسانے میں یہ بات مبہم ہے کہ یہ مقبرہ سلطان کا ہے بھی یا نہیں۔
علام اور بیٹا
اس کہانی میں ابہام کے بہت سارے رنگ ہیں۔ کہانی حافظہ کی کمزوری کی شکایت سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس علام تک پہنچتی ہے جو شہر کا بدمعاش تھا اور راوی کے والد کے بچپن کا دوست تھا۔ اس کے بیٹے کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کا بچپن بھیڑیوں کے دمیان گزرا ہے، وہ جنگلوں سے مختلف قسم کے جانور پکڑ کر بازار میں فروخت کرتا تھا اور ہمیشہ کالی کفنی پہنے رہتا تھا۔ اخیر عمر میں وہ بیٹھ نہیں سکتا تھا، صرف کھڑا رہ سکتا تھا یا لیٹ سکتا تھا۔ ایک دن بازار میں وہ کھڑا کھڑا گر گیا اور راوی اسے اپنے گھر لے آیا ،لیکن وہ اسے علام کا بیٹا سمجھے ہوا تھا۔ اخیر کے مکالموں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ علام ہی تھا جو اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بعد سے اس حالت میں رہنے لگا ہے۔ جاتے وقت وہ راوی سے کہتا ہے،چھوٹے صاحب نہیں دکھائی دیئے، اب تو بڑے ہو گئے ہوں گے ماشاء اللہ۔
رے خاندان کے آثار
ماضی سے کمزور ہوتے رشتوں کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کا راوی اپنے وسیع و عریض سے مکان سے کچھ دن دور رہنا چاہتا ہے اور اسی غرض سے وہ اپنے افسر دوست کے یہاں عظیم آباد جاتا ہے۔ وہاں اسے رے خاندان یاد آتا ہے جن کے گھرانہ سے راوی کے اہل خانہ کے اچھے مراسم تھے۔ ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو افسر دوست کا ماتحت بڑی تلاش و جستو کے بعد انجیلا رے کا پتا معلوم کر لیتا ہے لیکن پھر راوی کو ان سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور بغیر ملے ہوئے اپنے وطن لوٹ آتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1859
-