- کتاب فہرست 179874
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1856
طب762 تحریکات278 ناول3958 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1369
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل896
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1472
- کہہ مکرنی6
- کلیات632
- ماہیہ18
- مجموعہ4366
- مرثیہ352
- مثنوی754
- مسدس50
- نعت485
- نظم1110
- دیگر61
- پہیلی16
- قصیدہ172
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی270
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی24
- ترجمہ73
- واسوخت24
صدیق عالم کے افسانے
خدا کے بندے
یہ انسانی قدروں اور ان کے تضادات کی کہانی ہے۔ مرلی نسکر کو پڑھنے کا شوق کولکاتا کھینچ لایا تھا۔ مگر اس کے پاس ہاسٹل کے اخراجات کے لئے پیسے تھے نہ کتاب اور کاپیوں کے لئے۔ شاید وہ بھی دوسرے لڑکوں کی طرح آوارہ گردی کرتے کرتے ایک پتلی کاپی تھامے بی اے پاس کر لیتا اور کہیں کلرک یا ٹیچر کا عہدہ سنبھال کر ایک بکواس اور بزدلانہ زندگی گذارتا۔ مگر سونا گاچھی کے دلال گرجا شنکر نے اسے سہارا دیا اور اس گھسی پٹی زندگی سے نجات دلائی۔ گرجا شنکر سے اس کی ملاقا ت لوکل ٹرین میں ہوئی تھی جہاں سے وہ اسے اپنے ساتھ سونا گاچھی لے آیا اور مہندی لکشمی کے کمرے میں اسکا ٹھکانہ طے کردیا۔
دو سارس کی اوڈیسی
یہ انسداد جنگ اور ہجرت پر ایک طنز ہے۔ دنیا پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے جب جھیل کی سطح پر کھڑے دو سارس نے وقت سے قبل سائبیریا لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں نے اپنے پر پھیلائے، ٹانگیں سمیٹیں اور آسمان کی طرف پرواز کر گئے اور اس کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے شہروں شہر پرواز کی وہ داستان۔ جب وہ بدبودار دھوؤں میں اڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ کس طرح گھر جلائے جا رہے ہیں، لوگوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے، نہتے مارے جا رہے ہیں اور اس نر سارس کا کہنا تھا کہ، یہ سب اس لئے تھا کیونکہ دنیا میں جنگ کے اسلحے بہت زیادہ بیچے جا چکے ہیں اور اب ایک بڑی جنگ کا ہونا لازمی ہے تاکہ یہ اسلحے ختم ہوں ورنہ سمندر پار ہتھیار بنانے کے سارے کارخانے بند ہو جائیں گے۔
لال چیونٹیاں
یہ مذہب، روحانیت اور انسانیت کی ناگوار حالات کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسے دور افتادہ گاؤں کی کہانی ہے جہاں کے زیادہ تر لوگ غریب ہیں۔ اس گاؤں میں کھپریل کی ایک مسجد ہے۔ کہانی مسجد کے دوپیش اماموں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا امام نوکری چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو دھول کے غبار سے ایک دوسرا امام نمودار ہوتا ہے۔ شروع میں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے، پھر گاؤں میں عجیب و غریب واقعات پیش آنے لگتے ہیں۔ نیا امام جو کچھ بھی پیشن گوئی کرتا ہے وہ سچ ثابت ہوتا ہے، اور اس کی بد دعاؤں سے سارا گاؤں پریشان ہو جاتا ہے ۔دوسری طرف خود پیش امام معاشی بدحالی کا شکار ہے۔اس کی بیوی کے مردہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور متواتر بھوک سے پریشان ہو کر بیوی پیش امام کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ ایک دن لوگ دیکھتے ہیں کہ پیش امام نے مسجد کے چھپر کو آگ لگا دی ہے۔
لیمپ جلانے والے
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی حقیقت کی تلاش میں ہے۔ وہ اس شہر میں پیدا ہوا ، بڑا ہوا، نوکری کی، بچے پیدا کیے اور اب پنشن یافتہ ہے۔ اسے اس بات کا پتہ ہے کہ اس کے بہی خواہوں اور بدگوئی کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ایک لمبی زندگی کا لازمی نتیجہ ہے۔ ان لوگوں سے انھیں بچنا بھی پڑتا ہے اور گاہے بہ گاہے اسے ان کی ضرورت بھی پڑتی رہتی ہے۔ مگر زندگی کے آخری موڑ پر کھڑے ہو کر اس نے محسوس کیا تھا کہ آپ کے ساتھ نیا کچھ بھی نہیں ہوتا، سارے رشتے ناتے، واقعات و حادثات خود کو دہراتے رہتے ہیں۔ حافظے کا دیو آپ کو اپنے چنگل میں لیے اڑتا رہتا ہے۔
کبھی دو پیر فرتوت
یہ مایوسی اور تضادات کے درمیان رہتے ہوئے سماجی حقیقت پسندی کی کہانی ہے۔وہ کئی برس بعد اس پارک میں آیا تھا اور اسے شدت کے ساتھ اس دوسرے بوڑھے کی یاد آرہی تھی جس سے کسی نہ کسی بنچ پر اس کی ملاقات ہو جاتی اور وہ ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا کرتاتھا۔ آشرم میں گذارے گئے تین برسوں نے، جہاں اس نے اپنے لئے ایک کٹیا خرید لی تھی، اسے ایک دوسرے انسان میں ڈھال دیا تھا۔ وہ اس امید میں تھا کہ شاید کسی بنچ پر دوسرے بوڑھے سے ملاقات ہوجائے تو وہ اسے آشرم کی زندگی کے بارے میں بتائے گا ، اس شانتی کے بارے میں بتائے گا جسے اس نے آشرم میں رہ کر پراپت کیا تھا۔ وہ اسے بتائے گا کہ اگر تمھیں لمبی زندگی جینی ہے، اگر تم صحیح معنوں میں زندہ رہنے میں یقین رکھتے ہو تو تمھیں اس شہر کے شور شرابے کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس شہر کی مانگیں انسان کو اندر سے کھرچ کھرچ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
ڈھاک بن
یہ افسانہ جدید سماج کے ساتھ قبائلی تصادم کی جادوئی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ وہ لوگ کانا پہاڑ کے باشندے تھے۔ اسے کانا پہاڑ اس لئے کہتے تھے کیونکہ جب سورج اس کی چوٹی کو چھو کر ڈوبتا تو کانی آنکھ کی شکل اختیار کر لیتا۔ کانا پہاڑ کے بارے میں بہت ساری باتیں مشہور تھیں۔ اس پر بسے ہوے چھوٹے چھوٹے قبائلی گاؤں اب اپنی پرانی روایتوں سے ہٹتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ پر عیسائی مشنری حاوی ہوگئے ہیں اور کچھ نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو اپنا لیا ہے۔ مگر جو افواہ سب سے زیادہ گرم تھی اور جس نے لوگوں کو مضطرب کر رکھا تھا وہ یہ تھی کہ اب کانا پہاڑ سے روحیں منتقل ہو رہی ہیں۔ وہ یہاں کے لوگوں سے ناخوش ہیں اور ایک دن آئے گا جب پہاڑ کے گربھ سے آگ اْبلے گی اور پیڑ پودے گھر اور پرانی اس طرح جلیں گے جس طرح جنگل میں آگ پھیلنے سے کیڑے مکوڑے جلتے ہیں۔
رود خنزیر
یہ انسانی تاریخ کے لا متناہی ہجرت کی کہانی ہے۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی اپنے عروج پر تھی۔ پاکستان بس ٹوٹنے ہی والا تھا۔ اس کا باپ بندرگاہ میں اپنے سامان کے ساتھ جہاز کے عرشے پرکھڑا تھا۔ اس وقت اسے اور اس کی ماں کو پتہ نہ تھا کہ وہ آخری بار اسے دیکھ رہے تھے، کہ یہ شخص انھیں فریب دے کر وہاں سے بھاگ رہا ہے۔ بہت بعد میں، تقریباً نو برس بعد، بسترِ مرگ پر ماں نے اسے بتایا کہ وہ جس نے جہاز پر قدم رکھنے سے پہلے یقین دلایا تھا کہ کراچی پہنچ کر وہ جلد انھیں بلا لیں گے لیکن اس نے کبھی لوٹ کر ماں بیٹے کی خبر نہیں لی۔ وہ سات برس کا تھا جب ایک دن اس کی ماں اسے لے کر پھر سے ہندوستان واپس لوٹ آئی۔ پھر ایک دن ماں کی موت سے اسے کوئی حیرانی نہیں ہوئی جیسے ساری زندگی وہ اس موت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی جیتے ہوئے چلتے چلتے شہر سے دور ایک ایسے دریا کے کنارے پہنچ جاتا ہے جس میں سور کے مردے بڑی تعداد میں پانی کے ساتھ بہتے جا رہے تھے ۔ اس دریا کو دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ہے کہ گرچہ اس نے دو بار اپنا ملک بدلا تھا، مگر وہ تو ساری زندگی اسی رودِ خنزیر کے کنارے چلتا رہا تھا۔
فور سیپس
یہ جدید تکنیک میں بیان کی گئی ایک جدید کہانی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار سندیپن کولے، جس کی پیدائش فورسیپس کی مدد سے ہوئی تھی، کہانی کے مصنف صدیق عالم سے نالاں ہے جو اپنی کہانی اپنے ڈھنگ سے بیان کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات اسے پسند نہیں۔ وہ اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جینا چاہتا ہے۔ وہ بار بار مصنف سے قلم چھین لیتا ہے، مگر لاکھ کوشش کے باوجود اس کی زندگی اسی لیک پر چل پڑتی ہے جس پر اس کا مصنف اسے چلانا چاہتا ہے۔ آخرکار وہ مصنف سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرتا ہے اور ایک ایسے نہج پر چل پڑتا ہے جو اس کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ کہانی کے اختتام سے قبل مصنف اس سے کہتا ہےکہ تم نے سوچا تھا کہ تم صفحات سے باہر بھی سانس لے سکتے ہو، دیکھو، تم نے اپنا ستیاناس کر لیا نا؟
جانور
یہ نسائی ڈسکورس اور انسان کے رد تشکیل کی کہانی ہے۔ وہ شہر کے قدیم علاقے میں ایک پرانی عمارت کےتین کمروں والے ایک فلیٹ میں اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ بچہ جوان تھا اور اب بیس برس کا ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے کی جسمانی عمر بیس برس سہی، ذہنی طور پر وہ ابھی صرف دو سال کا بچہ ہے۔ ایک دن بازار میں سڑک پر ٹیکسی کا انتظار کر تے ہوئے جانوروں سے بھری ایک وین اس کے سامنے آ کر رکی۔ اس وین کے مالک نے ایک عجیب و غریب جانور اسے دیا جو بہت سارے جانوروں کا مرکب تھا۔ وہ جانور اس شرط پر اپنے بچے کے لئے لے لیتی ہے کہ اگر پسند نہ آئے تو وہ اسے واپس لوٹا دے گی۔ جانور کو گھر لاتے ہی اچانک اس گھر کے لوگوں میں عجیب سی تبدیلیاں دکھائی دینے لگیں، یہاں تک کہ اس عورت کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ آخر جانور کون ہے، وہ عجیب چوپایہ یا خود وہ لوگ؟
مرے ہوئے آدمی کی لالٹین
اس کہانی میں زندگی کو ایک ایسے تھیٹر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ناجائز ہے۔ وہ ایک سال بعد گاؤں لوٹ رہا تھا کہ اس کی شادی ہونے والی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اس کے لئے دور کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی دیکھ رکھی تھی۔ لڑکی والے بہت غریب تھے مگر لڑکی بلا کی خوبصورت تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ان کی شادی کر دی گئی۔ جب اس کے سارے پیسے ختم ہو گئے تو اسے شہر لوٹنا پڑا۔ مگر اب شہر میں اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ وہ صبح شام اور کبھی کبھی دن میں بھی اپنی بیوی سے موبائل پر بات کر لیا کرتا تھا۔ یہ موبائل چوری کی تھی جسے اس نے بہت سستی قیمت پر خرید کر اپنی بیوی کو دی تھی۔ اس کی بیوی نے کبھی اس سے گھر آنے کی فرمائش نہیں کی۔ صرف ایک بار اس نے دبے لفظوں میں کچھ کہنا چاہا مگر کچھ سوچ کر چپ ہو رہی۔ اس نے بار بار کریدنے کی کوشش کی مگر وہ ٹال گئی۔ پھر ایک دن اسے اپنی بیوی کی موبائل بند ملی۔
چور دمسکو
ایک بے تکی دنیا میں رہنے کے ڈھونگ کے طور پر جرم کرنے کی کہانی ہے۔ دمسکو ایک سترہ برس کا نوجوان تھا جسے آسان کام کی تلاش تھی گرچہ اس کےخبتی باپ نے اسے بتایا تھا کہ اس دنیا میں آسان کام سے زیادہ مشکل کام کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے دوست پھلندر نے اس کی پریشانی دور کر دی۔ پھلندر نے ٹرام ڈپو کے پچھواڑے مردہ گھر کے راستے پر ایک سنسان گلی کا پتہ لگایا تھا جہاں ایک بہت ہی بوڑھا بنگالی جوڑا رہتا تھا جو آنکھوں سے اندھے تھے۔ وہ اس گھر کا سارا سامان صاف کرنا چاہتا تھا مگر وہ یہ کام اکیلا نہیں کر سکتا تھا۔ اسے ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو دمسکو کی طرح تیز اور بہادر ہو۔ میں کسی مصیبت میں تو نہیں پڑوں گا؟ دمسکو نے شبہے کا اظہار کیا تو اس کے دوست نے کہا کہ جتنی جلد ہو سکے مصیبت میں پڑنا سیکھ لو۔ تمہاری دنیا بدل جائے گی۔ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے اس سے بہتر نسخہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح دمسکو کو اس کا آسان کام مل گیا۔
دروازہ
یہ بڑھتی آبادی اور معاشرے کے عدم توازن کی کہانی ہے۔ اس کی نوکری چھوٹ گئی تھی مگر اس کی خبر اس میس میں نہیں پہنچی تھی جہاں وہ رہتا تھا۔ یہ میس ایک بالکل ہی سستے ہوٹل کی طرح تھا جس کے کمروں میں چوکیاں لگی تھیں۔ ان ہی آوارہ گردی کے دنوں میں، جب وہ دھیرے دھیرے اپنی جمع کی ہوئی پونجی ختم کر رہا تھا اس کی ملاقات ایک عجیب انسان سے ہو گئی جس کی ہڈیوں میں چربی کی جگہ شراب دوڑتی تھی۔ وہ اسے مبارکباد دیتا ہے کہ اس نے اپنی آزادی حاصل کر لی ہے، اور یہی وقت ہے کہ وہ اس شہر کو چھان پھٹک لے کیونکہ ایک بڑا شہر اپنے آپ میں کسی عجائب گھر سے کم نہیں ہوتا۔
خدا کا بھیجا ہوا پرندا
یہ حقائق اور خیالی تصورات پر مبنی بنی نوع انسان کی اصل دنیا سے متعارف کراتی کہانی ہے۔ انگریز ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی پاکستان کا رخ کر چکی تھی۔ بستی میں چند ہی مسلمان رہ گئے تھے جو اب تک راوی کے دادا کی دو منزلہ عمارت سے آس لگائے بیٹھے تھے اور جب بھی شہر میں فساد کا بازار گرم ہوتا پناہ لینے کے لئے آ جاتے۔ اس کے دادا کو اس بات کا دکھ تھا کہ آئے دن انھیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام کا سامنا کرنے کے لئے تھانہ جانا پڑتا۔ پھر ایک دن فسادیوں نے انھیں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر مار ڈالا۔ اس کے دادا کے گھر میں کئی کرایہ دار رہتے تھے جن میں ایک کرایہ دار بدھ رام تھا جو دادا کے ساتھ لمبے عرصے تک ریلوے میں نوکری کر چکا تھا۔ اس کی ساری زندگی کا اثاثہ ایک ٹرنک کے اندر بند تھا جس پر بیٹھے بیٹھے وہ کھڑکی سے باہر آسمان پر نظریں ٹکائے رہنے کا عادی تھا۔ ان ہی تنہائی کے دنوں میں ایک دن اس نے ایک طوطے کی کہانی سنائی جس کے جسم پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ طوطا ایک ادھیڑ عمر کی عورت اس کے پاس بیچنے آئی تھی، جسے دیکھتے ہی بدھ رام نے محسوس کیا کہ اب یہاں برا وقت آنے والا ہے۔
نل کی پیاس
یہ ایک مصنوعی اور بے ہنگم معاشرے کا مقابلہ کرنے کی کہانی ہے۔اس کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ اس کا گھر کلکتہ کے مرکز میں ایک ایسے بنگالی محلے میں تھا جہاں لوگ اب بھی اپنی پرانی قدروں کے ساتھ جی رہے تھے۔ پھر ایک دن اس کی نظر ایک ٹیوب ویل پر پڑی جو اس کے محلے میں گلی کے بیچوں بیچ ہونے کے باوجود ایک طرح سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا۔ وہ اسے اس جگہ سے ہٹانے کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ مگر بہت جلد اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ یہ پرانا نل ایک پرانے کرایہ دار کی طرح تھا جسے اکھاڑ پھینکنا آسان کام نہیں ہوتا اور کام کے لائق بنانا تو اور بھی مشکل۔
رکی ہوئی گھڑی
یہ ٹائم فریم توڑنے اور انسانی محرکات کو ختم کرنے کی کہانی ہے۔ اس کی ٹرین کی آمدکے مقررہ وقت کو گھنٹوں گذر چکے تھے مگر وہ گاڑی آ رہی تھی نہ ہی اس کا اعلان ہو رہا تھا۔ وہ اکتایا اکتایا سا ایک سائبان سے لٹکتی بند گھڑی کے نیچے بنچ پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک قلی نےاسے بتایا کہ اس کی ٹرین کا تعلق ایک قصہ سے ہے جس کا پتہ صرف سگنل مین کو ہے۔ جب تک وہ یہ قصہ سن نہیں لیتا اس کی ٹرین آ نہیں سکتی۔ قلی ایک دوسرے مسافر کا بھی ذکر کرتا ہے جس نے اس قصے کو سننے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کبھی اپنی منزل تک پہنچا ہی نہیں۔
نادر سکوں کا بکس
یہ نادر سکوں کے ایک ایسے بکس کی کہانی ہے جسے ایک چاچا نے اپنے بھتیجے کو تحفے میں دیا تھا۔ چاچا ادھیڑ عمر کے ہو چکے تھے اور انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ ان کا کمرا پرانی کتابوں کاپیوں، بند گھڑیوں، کمپاس، قطب نما، قدیم نقشوں اور دوسرے الم غلم سامانوں سے اٹا پڑا تھا۔ گھر کے افراد ان کے کمرے میں جانے سے کتراتے تھے۔ بھتیجا کبھی اس راز تک پہنچ نہ سکا کہ اس کے چاچا نے اسے یہ بکس کیوں دیا تھا؟ وہ اس کی سالگرہ کا دن تھا نہ کوئی تہوار، نہ ہی اس نے اسکول یا کھیل کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس کے چاچا نے اس بکس کی کنجی اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا تھا اس سے زیادہ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ شاید یہ ان کے پاگل پن کی ابتدا تھی۔
اچھا خاصا چیروا
یہ ایک فنتاسی ہے۔ جاڑے کی ایک صبح ایک قبائلی اپنے سور کے ساتھ پہاڑ سے اُتر کر اسے بیچنے کے لئے قصبہ کی طرف جارہا تھا ۔ حالانکہ یہ اتنا آسان کام نہ تھا۔ اس قصبہ میں دوسرے چوپایوں کی طرح سوروں کا کوئی ہفتہ وار ہاٹ نہیں لگتا تھا اور سور کو کسی چوراہے پر کھڑے ہوکر بیچنے کے لئے آواز لگانا کچھ عجیب سا عمل تھا۔ وہ مایوس ہو کر واپس آ رہا تھا کہ پہاڑی ڈھلان پر ایک تین جھونپڑوں والے گاؤں کے پاس رات ہوگئی۔ یہ تینوں جھونپڑیاں دراصل تین چڑیلوں کی تھیں جو سورج ڈوبتے ہی پیڑوں پر جابستی تھیں۔ چڑیلوں نے قبائلی سے سور چھیننے کی بھرپور کوشش کی کہ اسلیے ان سے بچنے کے لیے ایک مقامی کسان کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ قبائلی کے لئے وہ رات بد روحوں والی رات ثابت ہوئی۔ صبح ہوتے ہی قبائلی نے فیصلہ کیا کہ وہ سور کے ساتھ ان راستوں سے گزر کر کبھی اپنے گھر نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا اس نے کسان کو وہ سور تحفے کے طور پر دے دیا جسے اس کی بیٹی نے فوراً ایک نام دے ڈالا اور سرسوں کے کھیت میں سیر کرانے چل دی۔
بین
یہ بارہ برس کے ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہےجو اپنی چچا زاد بہن انگورا جو عمر میں اس سے کئی سال بڑی تھی کو پسند کرتا تھا اور جس کے لیے اس کے اندر جنسی خواہشات کے جراثیم کلبلانے لگے تھے۔ چچا ریلوے میں انجن چلایا کرتے تھے۔ ان دنوں اس کی پوسٹنگ ایک دور استادہ اسٹیشن میں تھی جو پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک دن انگورا نے اسے اس لڑکے کے بارے میں بتایا جس سے وہ ریلوے کے ایک متروک کوارٹر میں ملا کرتی تھی اور اب وہ کچھ ہی دنوں میں اس لڑکے کے ساتھ بھاگنے والی ہے۔ اس کا چچازاد اس سے کہتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو اس لڑکے کے بارے میں بتا دے، ممکن ہے وہ دونوں کی شادی کے لیے راضی ہو جائیں۔ انگورا نے بتا یا کہ اس کا باپ اس کے لیےکبھی راضی نہ ہوگا کیونکہ اس لڑکے پر کئی خون کے الزام ہیں اور پولس ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتی ہے۔ چچازاد اس لڑکے سے ملنے سے منع کرتا ہے تو انگورا نےجواب دیا کہ وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی ہے جس کے بازو پر اس کی رکھیل کا نام گدا ہوا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1856
-