ہر گھر کے آس پاس سمندر لگا مجھے
کتنا مہیب شہر کا منظر لگا مجھے
خلقت بہت تھی پھر بھی کوئی بولتا نہ تھا
سنسان راستوں سے بہت ڈر لگا مجھے
قاتل کا ہاتھ آج خدا کے ہے رو بہ رو
دست دعا بھی خون کا ساغر لگا مجھے
یوں ریزہ ریزہ ہوں کہ کوئی بھی ہوا نہ تھا
یوں تو تری نگاہ کا کنکر لگا مجھے
بیٹھے بٹھائے کوچۂ قاتل میں لے گیا
معصوم دل بھی کتنا ستم گر لگا مجھے
کس کس نے چٹکیوں میں اڑایا ہے میرا دل
چاہے تو تو بھی آخری ٹھوکر لگا مجھے
گلچیں پلٹ کے سب ترے کوچے سے آئے ہیں
پھولوں کے راستے میں ترا گھر لگا مجھے
وہ جاگتا رہا تو قیامت بپا رہی
وہ سو گیا تو اور بھی کافر لگا مجھے
دیکھا جب آنکھ بھر کے اسے ڈوبتا گیا
عالم تمام عالم دیگر لگا مجھے
اس کی خموشیوں میں نہاں کتنا شور تھا
مجھ سے سوا وہ درد کا خوگر لگا مجھے
جس آئنے میں بھی ترا پیکر سما گیا
اس آئنے میں اپنا ہی جوہر لگا مجھے
یا میرے دل سے حسرت پرواز چھین لے
یا میرے پاس آ کے نئے پر لگا مجھے
ساحل پہ جو کھڑا تھا تماشا بنا ہوا
وہ گہرے پانیوں کا شناور لگا مجھے
سوچا تو چور چور تھے شیشے کے گھر تمام
دیکھا تو ہاتھ ہاتھ میں پتھر لگا مجھے
آنکھوں سے گرد جھاڑ کے دیکھا تو دوستو
کوتاہ قد بھی اپنے برابر لگا مجھے
تاریکیوں میں نور کا ہالا بھی تھا کہیں
دشت خیال اپنا مقدر لگا مجھے
چھیڑی کچھ اس طرح سے جمیلؔ اس نے یہ غزل
ہر ایک شعر قند مکرر لگا مجھے
- کتاب : naquush (Pg. 255)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.