پتھر کو پوجتے تھے کہ پتھر پگھل پڑا
پتھر کو پوجتے تھے کہ پتھر پگھل پڑا
پل بھر میں پھر چٹان سے چشمہ ابل پڑا
جل تھل کا خواب تھا کہ کنارے ڈبو گیا
تنہا کنول بھی جھیل سے باہر نکل پڑا
آئینے کے وصال سے روشن ہوا چراغ
پر لو سے اس چراغ کی آئینہ جل پڑا
گزرا گماں سے خط فراموشی یقیں
اور آئنے میں سلسلہ عکس چل پڑا
مت پوچھیے کہ کیا تھی صدا وہ فقیر کی
کہیے سکوت شہر میں کیسا خلل پڑا
باقی رہوں گا یا نہیں سوچا نہیں سعیدؔ
اپنے مدار سے یوں ہی اک دن نکل پڑا
- کتاب : duniyaa zaad (Pg. 210)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.