یہ کیا ہوا کہ سبھی اب تو داغ جلنے لگے
یہ کیا ہوا کہ سبھی اب تو داغ جلنے لگے
ہوا چلی تو لہو میں چراغ جلنے لگے
مٹا گیا تھا لہو کے سبھی نشاں قاتل
مگر جو شام ڈھلی سب چراغ جلنے لگے
اک ایسی فصل اترنے کو ہے گلستاں میں
زمانہ دیکھے کہ پھولوں سے باغ جلنے لگے
نگاہ طائر زنداں اٹھی تھی گھر کی طرف
کہ سوز آتش گریاں سے داغ جلنے لگے
اب اس مقام پہ ہے موسموں کا سرد مزاج
کہ دل سلگنے لگے اور دماغ جلنے لگے
اب آ بھی جا کہ یوں ہی دور دور رہنے سے
یہ میرے ہونٹ وہ تیرے ایاغ جلنے لگے
نہا کے نہر سے سالمؔ پری وہ کیا نکلی
کہ تاب حسن سے خود اصطباغ جلنے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.