سرورق
پیش لفظ
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کاقرار ہوں
گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ دل کو میرے قرار ہے
یاد تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا
بہار آئی ہے بھردے بادۂ گلگوں سے پیمانہ
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
کیا خزاں آئی چمن میں ہر شجر جاتا رہا
یہی حسرت تھی کہ گھر میرا مدینے میں رہے
کون نگر میں آئے ہم کون نگر میں باسے ہیں
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
انتخاب دیوان اوّل (قصیدہ نعتیہ)
اے سرور دو کون شہنشاہ ذوالکرم
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
مقدور کس کو حمد خدائے جلیل کا
ہاں فرد سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا
زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اوپر پیچ پڑا
غم دل کس سے کہوں کوئی بھی غمخوار نہیں
زلف کے سائے تلے وہ رخ اگر چھپ جائے گا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یاں شراب آیا
دل کا کچھ کام نہ تجھ سے بت پرفن نکلا
پیچ میں پردہ دونی کا تھا جو حائل اٹھ گیا
پہلے تو دل میں محبت کا شجر پیدا ہوا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہئے نے تاج شاہانہ
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے مٹا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
جب کہ وہ خط پڑھ کے بھڑکا اور بھڑک کر رہ گیا
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
مری جانب سے غیروں نے لگایا کچھ نہ کچھ ہوگا
خدا جانے حلاوت کیا تھی آب تیغ قاتل میں
تیرا تیرا جس کے سینے سے گزر کر جائے گا
شعلۂ حسن تو اوروں کو دکھا کے مارا
تو جو مہتابی پہ کل رات کھڑا گاتا تھا
یہ آسماں غلام ہے کس مہ جمال کا
تیرا صیدناز جو لو ہو میں ہے ڈوبا ہوا
ہماری آنکھوں سے جس وقت خون ناب بہا
جگر کا درد سیاہی میں گر سحاب بنا
نہ ہر گز درد دل سے کراہا
جب کھلکھلا کے ساقیٔ گلفام ہنس پڑا
گور کنج فراغ ہے اپنا
نہ تو اپنا رہا نہ بیگانہ رہا
روئے جو دل کو کھول کر ٹکڑے جگر ہونے لگا
کرتے تھے اخلاق دل لینے کو سودل لے چکے
دیا ہے جس نے وہاں تک خیال کو پہنچا
وہ نہ آیا یار لائے یوں نہ تھا تویوں ہوا
دیکھے دنیا کو جو اول سے کوئی آخر تک
جس کی آنکھوں کو نہ تیری خواہش دیدار ہو
چشموں سے رواں کیوں نہ ہو مژگاں کے تلے اب
کیجے نہ دس میں بیٹھ کے آپ کی بات چیت
اٹھ کے پہلو سے ہمارے جس طرف جائیں گے آپ
کہہ بیٹھوں جو سوز غم ہجراں کی حقیقت
خار صحرائے جنوں یوں ہی اگر تیز رہے
سب کار جہاں ہیچ ہے سب کار جہاں ہیچ
جو عرش سے ہے فرش تلک آدمی میں ہے
تری پازیب وسر کا جھومر زمیں پہ گوہر فلک پہ اختر
دیکھ پچھتائے گا تو چھوڑ نہ دل کو میرے
بھولا نہ تجھے یہ کبھی اس یاد کی شاباش
ہم کو رخصت ہو کہ بس آپ کی صحبت کے شریک
نہ ملک پر ہے نظر اور نہ مال وزر کی تلاش
وہ چشم ہو کر کیونکر سحر وشام فراموش
ساقی نہ دکھا بزم میں تو جام کی گردش
میر آہ آتش رکھتی ہے اب تاثیر برق
کرتے ہیں بہت صاحب تدبیر پش وپیش
ہر طرح غیر کی دل جوئی ہے معقول چہ خوش
نہ خون دل میں مرے اور نے شراب میں فرق
نہ کیجے ہم سے بہت گفتگو تڑاق پڑاق
برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن
نکلے رگ مجنوں سے دم فصدلہو کیا
دیکھا بل کھاتے جو دود شمع کو محفل میں رات
زیبا ہو کیوں نہ ہاتھ میں ساقی کے جام مے
مرئے اے وائے ان کی ناز برداری میں ہم
ہمدمو جس دن محبت میں قدم رکھیں گے ہم
کرتے غرہ سے جو یہ دوی ایماں ہیں ہم
تیرے جس دن سے خاک پا ہیں ہم
یا تو اپنے پاس تھے وہ یا قریب اوروں کے میں
چڑھا ہے کوٹھے پر کون اپنے کہ دیکھنےکو اب آہ جس کے
صوفیوں میں ہوں نہ رندوں میں نہ مے خواروں میں ہوں
رات دن تیرا تصور ہے خیال اور نہیں
چیدہ چیدہ مہ جبیں اچھے جو دل بردہ سے ہیں
کہیں میں غنچہ ہوں واشد سے اپنی خود پریشاں ہوں
قتل کریں اک عالم کو وہ ابروئے پرخم ایسے ہیں
وہ تیر اور ہے جس تیر کا فگار ہوں میں
کیونکر ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
جی میں کیا تیرے سمایا اسے کیا کہتے ہیں
یاروں مانگے نہ دوں کیوں کر کہو تو کیا کروں؟
خوب ڈھونڈا خوب دیکھا کچھ نظر آیا نہیں
جن گلیں میں پہلے دیکھیں لوگن کی رنگ رلیاں تھیں
خلق اپنے منہ سے جو کچھ مجھ کو کہتی ہے کہے
برنگ چاک گریبان صبح اے جراح
بھری ہے دل میں جوحسرت کہوں تو کس سے کہوں
ہزاروں رنج وغم ہیں خانۂ دل میں نہیں کھلتا
نہ دیکھا دہر میں تو کیا حرم میں دیکھے گا
خواب میں جو نظر آیا وہی ویرانی میں
ناقوس وجرس میں ہے نہ یہ نالۂ نے میں
نہ جب تک خوتری اے کج کلہ الٹی سے سیدھی ہو
وہ دل کیا ہے نہ ہو پیکاں جس میں
واہ وا تم کھاؤ غیروں کے نصیبوں کی قسم
رسم الفت نہ عدوے دل ودیں سے پوچھو
ایسا ہو گر کلام نہ ہو کچھ نہ کچھ تو ہو
کیا رنگ دکھاتی ہے یہ چشم تراوہو ہو
وہ مری جاں مرے پاس آئے تو کیا اچھا ہو
نہ ہم خوش نے خفا دل سے کوئی یوں ہو تو یوں بھی ہو
محبت چاہئے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
چمن میں ابرومل ہوا پھر تو چہلیں ہوں تماشہ ہو
دیتی ہے نکلنے یہ کوئی کشتی مقصود
نہیں اے ہمدمو چلتا یہ دم آہستہ آہستہ
بولے کہ کہیں گم نہ کریں راہ مسافر
اسے لاؤں میں نہ ہوں چشم تر نہ یہ ہو سکے نہ وہ ہو سکے
کیا کہوں کیوں کر تجھے رشک قمر دیکھا کئے
ہم ایسے سوز غم ہجر یار سے ہیں بنے
اگر غفلت کا ہم پردہ اٹھاتے اپنی آنکھوں سے
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشکباری رہ گئی
جہاں میں ہم تو غم آلودہ اک جہاں کے رہے
چلا محفل سے کس کو چھوڑ کر بیتاب تو ایسا
دل ہی سے پوچھو عشق میں جودل پہ بن گئی
جب کوئی کہتا ہے ہستی کو کہ ہستی خوب ہے
ہم بتوں کو اپنے جذب دل سے کھینچے جائیں گے
کہاں خلقت عزیزو زیر چرخ پیر پھرتی ہے
عقل پر ناز ہے قدرت پہ نظر کس کو ہے
جلوہ یہ اس نے دکھایا مرا جی جانتا ہے
نکلنا دل سے اس پیکاں کا مشکل ہے تو بس یہ ہے
رونق گلشن بہار گل جو کم ہوتی چلی
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہے
بزم اورہے یار اور ہیں دور اور ہی ہیں گے
رنج وقلق ہے درد والم ہے حسرت ہے ناکامی ہے
نامہ بر سے پہلے میرا نام سن کر ہنس پڑے
کون دل سوختہ سرگرم فغاں ہوتا ہے
دل میں سو فکر وخیالات ہیں اور کچھ بھی نہیں
نہ ہنسو دیکھ کے تدبیر کو پلٹے کھاتے
کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کسی پردہ نشیں کا ہے شوق لگا کوئی طرح اب ایسی بتا دے مجھے
جام ہے شیشہ ہے ساقی بھی ہے برسات بھی ہے
خاک واں ہے یہ جہان گزراں وہ کہ جہاں
بات کرنی ہمیں مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
ہے تو گردش چرخ کی بھی فتنہ انگیزی میں طاق
گل کچھ تو اس چمن کی ہوا کھا کے جھڑ پڑے
ہے یہ ڈر دل کو نہ چشم مست مہ وش کھینچ لے
ترا دیوانہ مجنوں سے سوا مشہور عالم ہے
صحبت گل ہے نقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی
نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
محفل سے تیری اٹھ کے جو ہم صبح دم چلے
نہ ہو سکتے بیاں ظلم وستم سے قاتل کے
دیکھوں تو آہ شیوہ یہ آدمی میں کیا ہے
عیب وہنر نہ پوچھو تم آدمی میں کیا ہے
ستم کرتا ہے بے مہری سے کیا کیاآسماں پیہم
دل اپنا لگ گیا کنج قفس میں اب کسے پردا
کیا پوچھتے ہو کج روئے چرخ عنبری
بالعکس ہیں جہاں میں جہاں تک ہیں کاروبار
ہوا پہلے ہی کام آخر ترے ناکام کا ورنہ
انتخاب دیوان دوم
پہچانا اسے تو نے جسے دیکھا نہ بھالا
مئے عشرت نہ تھی طالع میں اپنے ساقیا ورنہ
کیا کہوں ہے کیا بتوں کی آشنائی میں مزا
نشے نے بزم ساقی میں جو مستوں کو اڑا مارا
بھولے سے بھی جدھر وہ قدم پاؤ پڑ گیا
بلا سے گریہ شب تو ہی کچھ ا ثر کرتا
ہم نشیں ہونا غم الفت میں جو تھا سو ہوا
وفا کی راہ تھی مشکل اسے بھی طے کیا ہم نے
سینے میں اک دھواں کئی بار اٹھ کے رہ گیا
نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
صد آفریں کہ مرے دل نے داغ لے تو لیا
سرنامہ میرے نام کا اور خط رقیب کا
صوفی ورند میں دونوں تیرے غمزے سے تباہ
ہیں یہاں رنج کے آثار خوشی کے باعث
آتی ہے ہنسی اس کو مرے رونے پہ کیا کیا
پہنچے تری شبیہ کو یوسف کی کیا شبیہ
جن کو ایمان ہم اپنا بخدا گنتے ہیں
جو ہوتے ہم نہ جہان خراب میں داخل
آہ و فغاں یا نالے پیہم چاہتے ہیں سو کرتے ہیں
چشم مست اپنی جو دکھلائے وہ مے نوش تمہیں
عالم صورت میں تو میں صورت آدم ہوں میں
جو لالہ ہو دست حنائی کے قرباں
نہیں ہے طاقت جنبش مجھے تو ناتوانی سے
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
یوں بہم پیوستہ بدخو یار دو رہتے نہیں
جلایا آپ ہم نے ضبط کرکے آہ سوزاں کو
واں تو کینہ ہو جفا ہو یہ بھی ہو او روہ بھی ہو اور کچھ نہ ہو
یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
جو کہ ہو تجھ سے سوا تو اسے حسرت سے نہ دیکھ
جو دوست تھے وہ ہیں دشمن عجب تماشا ہے
وہ گرچہ دشمن صبروقرار ہے لیکن
عیش سے گزری کہ غم کے ساتھ اچھی نبھ گئی
کرتے ہیں ظاہر لطف عنایت منہ کے ہیں یہ میٹھے نہایت
واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
بلا سے گر نہیں ہے سایہ بال ہما سر پر
بہکانے والے آپ کے سب یار بن گئے
کیا میں خود بدخواہ کیا تدبیر دشمن بن گئی
ہزاروں عشق میں اے حضرت دل رنج وغم پہنچے
نہ جائے سوز دل گر جان جل جائے تو یہ جائے
کہاں ہیں وہ اگلی ملاقات والے
تجھ کو بہکا دیا کسی نے ہے
مجھے جو یار میرے آئے ہیں سمجھانے کیا سوجھی
زہد خواہوں سے کچھ ہوگا نہ ہوگا خیرخواہوں سے
شکر اللہ ہم سے یہ کافر صنم اچھے رہے
آنے کی جی میں یاں تم کیوں ٹھانتے نہ آتے
رہتا زباں پہ آٹھ پہر کس کا نام ہے
ہم رہیں ساقی رہے اور دور پیمانہ رہے
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آباد گھر یاں تھے
وہ دیکھ لیتے ہیں جو ادھر کچھ نہ کچھ تو ہے
گرچہ بے طاقت ہوں میں پر دل میں طاقت اور ہے
انتخاب دیوان سوم
کنارہ کش جو تو اے پرغرور ہم سے ہوا
جز بادہ ہمیں بادہ پرستی مین نہ سوچھا
جہاں پہلے تھے ہم اب وہ مکاں پایا نہیں جاتا
نہیں پرواز کی صیاد بال وپر میں جب طاقت
منعم ومفلس ہیں دونوں بزم ہستی میں خراب
یوں گم ہو جذب عشق کی تاثیر یا نصیب
آشنا کون رہا کس سے رکھیں ہم صحبت
ہم نہ ہیں مال کے محتاج نہ زر کے محتاج
دن اور ہے رات اور زمیں او رزماں اور
نہ خبرلی میری اس بے خبری کو شاباش
قسمت ہی مخالف ہے فقط عشق میں اپنی
ہے یاں کی شیخ کشف وکرامت یہیں تلک
غم والم سے نجات پاؤں کہ میں نہایت عذاب میں ہوں
جوں بوئے گل رفیق نسیم چمن میں ہم
نے خرد نے ہوش نے تدبیر پر شاکر ہیں ہم
صنما ہم کہیں تو کیا کہویں
بستے تھے وہ جو لوگ یہاں کوئی بھی نہیں
کہئے اپنا کسے اپنا تو کوئی ہے ہی نہیں
بتوں نے نہ کیں آشنائی کی باتیں
دل دے کے ہوا اس کو گنہ گار تو میں ہوں
کیا کہی بات ہم نے تم سے خلاف
گئی آہ جگر کہیں کی کہیں
نے ہے بت خانہ میں کعبہ میں ہے جو دل ہے
گالیاں دے چکے اب نالہ وزاری تو سنو
ہر جگہ ایک نیا رنگ ہے اللہ اللہ
کیا کہوں بے دولتی وبدنصیبی اپنی میں
کہوں کیا جوش اشکوں کا معاذ اللہ معاذ اللہ
طاقت نہیں پھرنے کی عادت لئے پھرتی ہے
نہ ہو نصیب میں صحت تو کیونکر ہو صحت
جو تیری یار جلوۂ قامت میں سو گئے
نہیں ہے کس میں اسے دیکھ لو سبھی میں ہے
ہمیں رنج بھی ہے او رراحت بھی ہمیں ہے
جب کوئی بات درد محبت کی چل پڑی
وہ بیٹھے ہیں خفا کیا جانے کیا ہے
وہ جھوٹ سے جو زمیں آسماں ملا دیں گے
اے ظفر جو شباب کے دن تھے
بزبان بھاکھا
کیوں نہ ہو عالم پہ احساں احمد مختار کا
انتخاب دیوان چہارم
طوفاں بپا گریے کی شدت نے کیا کیا
اے اسیران خانۂ زنجیر
کہاں تک چپ رہوں چپکے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا
ہائے کہئے کسے یہاں اپنا
مست مئے پندار ہیں یہ مردم دنیا
عزیزو کام نہ کس کس کا یاں بنا بگڑا
ہر شے میں ہے تو جلوہ نما واحد وشاہد
کیا بڑھاپے میں کریں بادہ پرستی کی ہوس
شمع سے گل گیر کیا ہو تاج زر کی احتیاط
تجھ بن شراب عیش کے پینے پہ چارحرف
گرد ہوں یا غبار ہوں کیا ہوں
گل گلزار ہوں تو یاں میں ہوں
کسے ناآشنا اور آشنا ہم کس کو کہہ بیٹھیں
ایک ہو تو کہئے ہیں دنیا کے دھندے سینکڑوں
حال نہیں کچھ کھلتا میرا کون ہوں کیا ہوں کیسا ہوں
بے راہ نما تنہا جائیں تو کدھر جائیں
خط وپیغام کی واں بات تو کچھ ہے ہی نہیں
ہوئی جس سبب ہم سے تم سے جدائی نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
تھے کل جو اپنے گھر میں مہماں وہ کہاں ہیں
جتنی جتنی لوگ جتاتے اپنی یاری منہ سے ہیں
کبھی گھر میں جو آئے تو میرے
زاہد نہ بادہ نوش ہوں نے مے پرست ہوں
شوق پابوسی میں ہم دور سے دوڑے آئے
کہے ہے اور بیگانہ یگانہ اور کہتا ہے
وصل جاناں میں جوتھے عشرت کے وہ دن ٹل گئے
بول اٹھا تیرے آگے جو غنچہ پٹاق سے
کرتا پیدا عالم آرا عالم میں سے عالم ہے
صبح رو رو کے شام ہوتی ہے
سرورق
پیش لفظ
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کاقرار ہوں
گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ دل کو میرے قرار ہے
یاد تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا
بہار آئی ہے بھردے بادۂ گلگوں سے پیمانہ
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
کیا خزاں آئی چمن میں ہر شجر جاتا رہا
یہی حسرت تھی کہ گھر میرا مدینے میں رہے
کون نگر میں آئے ہم کون نگر میں باسے ہیں
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
انتخاب دیوان اوّل (قصیدہ نعتیہ)
اے سرور دو کون شہنشاہ ذوالکرم
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
مقدور کس کو حمد خدائے جلیل کا
ہاں فرد سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا
زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اوپر پیچ پڑا
غم دل کس سے کہوں کوئی بھی غمخوار نہیں
زلف کے سائے تلے وہ رخ اگر چھپ جائے گا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یاں شراب آیا
دل کا کچھ کام نہ تجھ سے بت پرفن نکلا
پیچ میں پردہ دونی کا تھا جو حائل اٹھ گیا
پہلے تو دل میں محبت کا شجر پیدا ہوا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہئے نے تاج شاہانہ
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے مٹا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
جب کہ وہ خط پڑھ کے بھڑکا اور بھڑک کر رہ گیا
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
مری جانب سے غیروں نے لگایا کچھ نہ کچھ ہوگا
خدا جانے حلاوت کیا تھی آب تیغ قاتل میں
تیرا تیرا جس کے سینے سے گزر کر جائے گا
شعلۂ حسن تو اوروں کو دکھا کے مارا
تو جو مہتابی پہ کل رات کھڑا گاتا تھا
یہ آسماں غلام ہے کس مہ جمال کا
تیرا صیدناز جو لو ہو میں ہے ڈوبا ہوا
ہماری آنکھوں سے جس وقت خون ناب بہا
جگر کا درد سیاہی میں گر سحاب بنا
نہ ہر گز درد دل سے کراہا
جب کھلکھلا کے ساقیٔ گلفام ہنس پڑا
گور کنج فراغ ہے اپنا
نہ تو اپنا رہا نہ بیگانہ رہا
روئے جو دل کو کھول کر ٹکڑے جگر ہونے لگا
کرتے تھے اخلاق دل لینے کو سودل لے چکے
دیا ہے جس نے وہاں تک خیال کو پہنچا
وہ نہ آیا یار لائے یوں نہ تھا تویوں ہوا
دیکھے دنیا کو جو اول سے کوئی آخر تک
جس کی آنکھوں کو نہ تیری خواہش دیدار ہو
چشموں سے رواں کیوں نہ ہو مژگاں کے تلے اب
کیجے نہ دس میں بیٹھ کے آپ کی بات چیت
اٹھ کے پہلو سے ہمارے جس طرف جائیں گے آپ
کہہ بیٹھوں جو سوز غم ہجراں کی حقیقت
خار صحرائے جنوں یوں ہی اگر تیز رہے
سب کار جہاں ہیچ ہے سب کار جہاں ہیچ
جو عرش سے ہے فرش تلک آدمی میں ہے
تری پازیب وسر کا جھومر زمیں پہ گوہر فلک پہ اختر
دیکھ پچھتائے گا تو چھوڑ نہ دل کو میرے
بھولا نہ تجھے یہ کبھی اس یاد کی شاباش
ہم کو رخصت ہو کہ بس آپ کی صحبت کے شریک
نہ ملک پر ہے نظر اور نہ مال وزر کی تلاش
وہ چشم ہو کر کیونکر سحر وشام فراموش
ساقی نہ دکھا بزم میں تو جام کی گردش
میر آہ آتش رکھتی ہے اب تاثیر برق
کرتے ہیں بہت صاحب تدبیر پش وپیش
ہر طرح غیر کی دل جوئی ہے معقول چہ خوش
نہ خون دل میں مرے اور نے شراب میں فرق
نہ کیجے ہم سے بہت گفتگو تڑاق پڑاق
برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن
نکلے رگ مجنوں سے دم فصدلہو کیا
دیکھا بل کھاتے جو دود شمع کو محفل میں رات
زیبا ہو کیوں نہ ہاتھ میں ساقی کے جام مے
مرئے اے وائے ان کی ناز برداری میں ہم
ہمدمو جس دن محبت میں قدم رکھیں گے ہم
کرتے غرہ سے جو یہ دوی ایماں ہیں ہم
تیرے جس دن سے خاک پا ہیں ہم
یا تو اپنے پاس تھے وہ یا قریب اوروں کے میں
چڑھا ہے کوٹھے پر کون اپنے کہ دیکھنےکو اب آہ جس کے
صوفیوں میں ہوں نہ رندوں میں نہ مے خواروں میں ہوں
رات دن تیرا تصور ہے خیال اور نہیں
چیدہ چیدہ مہ جبیں اچھے جو دل بردہ سے ہیں
کہیں میں غنچہ ہوں واشد سے اپنی خود پریشاں ہوں
قتل کریں اک عالم کو وہ ابروئے پرخم ایسے ہیں
وہ تیر اور ہے جس تیر کا فگار ہوں میں
کیونکر ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
جی میں کیا تیرے سمایا اسے کیا کہتے ہیں
یاروں مانگے نہ دوں کیوں کر کہو تو کیا کروں؟
خوب ڈھونڈا خوب دیکھا کچھ نظر آیا نہیں
جن گلیں میں پہلے دیکھیں لوگن کی رنگ رلیاں تھیں
خلق اپنے منہ سے جو کچھ مجھ کو کہتی ہے کہے
برنگ چاک گریبان صبح اے جراح
بھری ہے دل میں جوحسرت کہوں تو کس سے کہوں
ہزاروں رنج وغم ہیں خانۂ دل میں نہیں کھلتا
نہ دیکھا دہر میں تو کیا حرم میں دیکھے گا
خواب میں جو نظر آیا وہی ویرانی میں
ناقوس وجرس میں ہے نہ یہ نالۂ نے میں
نہ جب تک خوتری اے کج کلہ الٹی سے سیدھی ہو
وہ دل کیا ہے نہ ہو پیکاں جس میں
واہ وا تم کھاؤ غیروں کے نصیبوں کی قسم
رسم الفت نہ عدوے دل ودیں سے پوچھو
ایسا ہو گر کلام نہ ہو کچھ نہ کچھ تو ہو
کیا رنگ دکھاتی ہے یہ چشم تراوہو ہو
وہ مری جاں مرے پاس آئے تو کیا اچھا ہو
نہ ہم خوش نے خفا دل سے کوئی یوں ہو تو یوں بھی ہو
محبت چاہئے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
چمن میں ابرومل ہوا پھر تو چہلیں ہوں تماشہ ہو
دیتی ہے نکلنے یہ کوئی کشتی مقصود
نہیں اے ہمدمو چلتا یہ دم آہستہ آہستہ
بولے کہ کہیں گم نہ کریں راہ مسافر
اسے لاؤں میں نہ ہوں چشم تر نہ یہ ہو سکے نہ وہ ہو سکے
کیا کہوں کیوں کر تجھے رشک قمر دیکھا کئے
ہم ایسے سوز غم ہجر یار سے ہیں بنے
اگر غفلت کا ہم پردہ اٹھاتے اپنی آنکھوں سے
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشکباری رہ گئی
جہاں میں ہم تو غم آلودہ اک جہاں کے رہے
چلا محفل سے کس کو چھوڑ کر بیتاب تو ایسا
دل ہی سے پوچھو عشق میں جودل پہ بن گئی
جب کوئی کہتا ہے ہستی کو کہ ہستی خوب ہے
ہم بتوں کو اپنے جذب دل سے کھینچے جائیں گے
کہاں خلقت عزیزو زیر چرخ پیر پھرتی ہے
عقل پر ناز ہے قدرت پہ نظر کس کو ہے
جلوہ یہ اس نے دکھایا مرا جی جانتا ہے
نکلنا دل سے اس پیکاں کا مشکل ہے تو بس یہ ہے
رونق گلشن بہار گل جو کم ہوتی چلی
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہے
بزم اورہے یار اور ہیں دور اور ہی ہیں گے
رنج وقلق ہے درد والم ہے حسرت ہے ناکامی ہے
نامہ بر سے پہلے میرا نام سن کر ہنس پڑے
کون دل سوختہ سرگرم فغاں ہوتا ہے
دل میں سو فکر وخیالات ہیں اور کچھ بھی نہیں
نہ ہنسو دیکھ کے تدبیر کو پلٹے کھاتے
کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کسی پردہ نشیں کا ہے شوق لگا کوئی طرح اب ایسی بتا دے مجھے
جام ہے شیشہ ہے ساقی بھی ہے برسات بھی ہے
خاک واں ہے یہ جہان گزراں وہ کہ جہاں
بات کرنی ہمیں مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
ہے تو گردش چرخ کی بھی فتنہ انگیزی میں طاق
گل کچھ تو اس چمن کی ہوا کھا کے جھڑ پڑے
ہے یہ ڈر دل کو نہ چشم مست مہ وش کھینچ لے
ترا دیوانہ مجنوں سے سوا مشہور عالم ہے
صحبت گل ہے نقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی
نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
محفل سے تیری اٹھ کے جو ہم صبح دم چلے
نہ ہو سکتے بیاں ظلم وستم سے قاتل کے
دیکھوں تو آہ شیوہ یہ آدمی میں کیا ہے
عیب وہنر نہ پوچھو تم آدمی میں کیا ہے
ستم کرتا ہے بے مہری سے کیا کیاآسماں پیہم
دل اپنا لگ گیا کنج قفس میں اب کسے پردا
کیا پوچھتے ہو کج روئے چرخ عنبری
بالعکس ہیں جہاں میں جہاں تک ہیں کاروبار
ہوا پہلے ہی کام آخر ترے ناکام کا ورنہ
انتخاب دیوان دوم
پہچانا اسے تو نے جسے دیکھا نہ بھالا
مئے عشرت نہ تھی طالع میں اپنے ساقیا ورنہ
کیا کہوں ہے کیا بتوں کی آشنائی میں مزا
نشے نے بزم ساقی میں جو مستوں کو اڑا مارا
بھولے سے بھی جدھر وہ قدم پاؤ پڑ گیا
بلا سے گریہ شب تو ہی کچھ ا ثر کرتا
ہم نشیں ہونا غم الفت میں جو تھا سو ہوا
وفا کی راہ تھی مشکل اسے بھی طے کیا ہم نے
سینے میں اک دھواں کئی بار اٹھ کے رہ گیا
نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
صد آفریں کہ مرے دل نے داغ لے تو لیا
سرنامہ میرے نام کا اور خط رقیب کا
صوفی ورند میں دونوں تیرے غمزے سے تباہ
ہیں یہاں رنج کے آثار خوشی کے باعث
آتی ہے ہنسی اس کو مرے رونے پہ کیا کیا
پہنچے تری شبیہ کو یوسف کی کیا شبیہ
جن کو ایمان ہم اپنا بخدا گنتے ہیں
جو ہوتے ہم نہ جہان خراب میں داخل
آہ و فغاں یا نالے پیہم چاہتے ہیں سو کرتے ہیں
چشم مست اپنی جو دکھلائے وہ مے نوش تمہیں
عالم صورت میں تو میں صورت آدم ہوں میں
جو لالہ ہو دست حنائی کے قرباں
نہیں ہے طاقت جنبش مجھے تو ناتوانی سے
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
یوں بہم پیوستہ بدخو یار دو رہتے نہیں
جلایا آپ ہم نے ضبط کرکے آہ سوزاں کو
واں تو کینہ ہو جفا ہو یہ بھی ہو او روہ بھی ہو اور کچھ نہ ہو
یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
جو کہ ہو تجھ سے سوا تو اسے حسرت سے نہ دیکھ
جو دوست تھے وہ ہیں دشمن عجب تماشا ہے
وہ گرچہ دشمن صبروقرار ہے لیکن
عیش سے گزری کہ غم کے ساتھ اچھی نبھ گئی
کرتے ہیں ظاہر لطف عنایت منہ کے ہیں یہ میٹھے نہایت
واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
بلا سے گر نہیں ہے سایہ بال ہما سر پر
بہکانے والے آپ کے سب یار بن گئے
کیا میں خود بدخواہ کیا تدبیر دشمن بن گئی
ہزاروں عشق میں اے حضرت دل رنج وغم پہنچے
نہ جائے سوز دل گر جان جل جائے تو یہ جائے
کہاں ہیں وہ اگلی ملاقات والے
تجھ کو بہکا دیا کسی نے ہے
مجھے جو یار میرے آئے ہیں سمجھانے کیا سوجھی
زہد خواہوں سے کچھ ہوگا نہ ہوگا خیرخواہوں سے
شکر اللہ ہم سے یہ کافر صنم اچھے رہے
آنے کی جی میں یاں تم کیوں ٹھانتے نہ آتے
رہتا زباں پہ آٹھ پہر کس کا نام ہے
ہم رہیں ساقی رہے اور دور پیمانہ رہے
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آباد گھر یاں تھے
وہ دیکھ لیتے ہیں جو ادھر کچھ نہ کچھ تو ہے
گرچہ بے طاقت ہوں میں پر دل میں طاقت اور ہے
انتخاب دیوان سوم
کنارہ کش جو تو اے پرغرور ہم سے ہوا
جز بادہ ہمیں بادہ پرستی مین نہ سوچھا
جہاں پہلے تھے ہم اب وہ مکاں پایا نہیں جاتا
نہیں پرواز کی صیاد بال وپر میں جب طاقت
منعم ومفلس ہیں دونوں بزم ہستی میں خراب
یوں گم ہو جذب عشق کی تاثیر یا نصیب
آشنا کون رہا کس سے رکھیں ہم صحبت
ہم نہ ہیں مال کے محتاج نہ زر کے محتاج
دن اور ہے رات اور زمیں او رزماں اور
نہ خبرلی میری اس بے خبری کو شاباش
قسمت ہی مخالف ہے فقط عشق میں اپنی
ہے یاں کی شیخ کشف وکرامت یہیں تلک
غم والم سے نجات پاؤں کہ میں نہایت عذاب میں ہوں
جوں بوئے گل رفیق نسیم چمن میں ہم
نے خرد نے ہوش نے تدبیر پر شاکر ہیں ہم
صنما ہم کہیں تو کیا کہویں
بستے تھے وہ جو لوگ یہاں کوئی بھی نہیں
کہئے اپنا کسے اپنا تو کوئی ہے ہی نہیں
بتوں نے نہ کیں آشنائی کی باتیں
دل دے کے ہوا اس کو گنہ گار تو میں ہوں
کیا کہی بات ہم نے تم سے خلاف
گئی آہ جگر کہیں کی کہیں
نے ہے بت خانہ میں کعبہ میں ہے جو دل ہے
گالیاں دے چکے اب نالہ وزاری تو سنو
ہر جگہ ایک نیا رنگ ہے اللہ اللہ
کیا کہوں بے دولتی وبدنصیبی اپنی میں
کہوں کیا جوش اشکوں کا معاذ اللہ معاذ اللہ
طاقت نہیں پھرنے کی عادت لئے پھرتی ہے
نہ ہو نصیب میں صحت تو کیونکر ہو صحت
جو تیری یار جلوۂ قامت میں سو گئے
نہیں ہے کس میں اسے دیکھ لو سبھی میں ہے
ہمیں رنج بھی ہے او رراحت بھی ہمیں ہے
جب کوئی بات درد محبت کی چل پڑی
وہ بیٹھے ہیں خفا کیا جانے کیا ہے
وہ جھوٹ سے جو زمیں آسماں ملا دیں گے
اے ظفر جو شباب کے دن تھے
بزبان بھاکھا
کیوں نہ ہو عالم پہ احساں احمد مختار کا
انتخاب دیوان چہارم
طوفاں بپا گریے کی شدت نے کیا کیا
اے اسیران خانۂ زنجیر
کہاں تک چپ رہوں چپکے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا
ہائے کہئے کسے یہاں اپنا
مست مئے پندار ہیں یہ مردم دنیا
عزیزو کام نہ کس کس کا یاں بنا بگڑا
ہر شے میں ہے تو جلوہ نما واحد وشاہد
کیا بڑھاپے میں کریں بادہ پرستی کی ہوس
شمع سے گل گیر کیا ہو تاج زر کی احتیاط
تجھ بن شراب عیش کے پینے پہ چارحرف
گرد ہوں یا غبار ہوں کیا ہوں
گل گلزار ہوں تو یاں میں ہوں
کسے ناآشنا اور آشنا ہم کس کو کہہ بیٹھیں
ایک ہو تو کہئے ہیں دنیا کے دھندے سینکڑوں
حال نہیں کچھ کھلتا میرا کون ہوں کیا ہوں کیسا ہوں
بے راہ نما تنہا جائیں تو کدھر جائیں
خط وپیغام کی واں بات تو کچھ ہے ہی نہیں
ہوئی جس سبب ہم سے تم سے جدائی نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
تھے کل جو اپنے گھر میں مہماں وہ کہاں ہیں
جتنی جتنی لوگ جتاتے اپنی یاری منہ سے ہیں
کبھی گھر میں جو آئے تو میرے
زاہد نہ بادہ نوش ہوں نے مے پرست ہوں
شوق پابوسی میں ہم دور سے دوڑے آئے
کہے ہے اور بیگانہ یگانہ اور کہتا ہے
وصل جاناں میں جوتھے عشرت کے وہ دن ٹل گئے
بول اٹھا تیرے آگے جو غنچہ پٹاق سے
کرتا پیدا عالم آرا عالم میں سے عالم ہے
صبح رو رو کے شام ہوتی ہے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔