aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بیدی ایک باشعور فنکار ہیں، اس لئے بچوں کے جذبات اور بوڑھوں کی نفسیات پر ان کی یکساں نظر ہے۔ زیر نظر مجموعہ دانہ و دام کا افسانہ "بهولا" اب تک بچوں پر لکهے گئے افسانوی ادب کی نمائندگی کرتا ہے. بهولا جہاں معصوم بچوں کی نفسیات کی ترجمانی کرتا ہے وہیں اس افسانہ کا دوسرا کردار دادا، ان بوڑھے بے بس ضعیف لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے،جو زندگی میں وقت کے بے وقت پڑے تھپیڑوں کے کها نے کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بقیہ عمر اپنے معصوم پوتے اور بیوہ بہو کی آئندہ زندگی میں خوشیاں بهر نے کیلئے وقف کر دیتے ہیں۔ بیدی نے زندگی کے اہم تجربات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ "دانہ و دام‘‘ کی اکثر کہانیوں میں بچہ کسی نہ کسی صورت میں مو جود ہے۔
حسّاس اور تہہ دار افسانہ نگار
’’افسانہ اور شعر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہے، توصرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ اک ایسی لمبی بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بحیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔‘‘ راجندر سنگھ بیدی
راجندر سنگھ بیدی جدید اردو فکشن کا وہ نام ہیں جس پر اردو افسانہ بجا طور پر ناز کرتا ہے۔ وہ یقیناً منفرد، بےمثال اور لاجواب ہیں۔ جدید اردو افسانے کے تین دیگر ستونوں، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر کے مقابلہ میں ان کی تحریریں زیادہ گمبھیر، زیادہ تہہ دار اور زیادہ پُرمعنی ہیں اور اس حقیقت کے باوجود کہ ادب میں وکٹری اسٹینڈ نہیں ہوتے، مختلف نقّاد حسب حوصلہ و توفیق ان چاروں کو مختلف پائدانوں پر کھڑا کرتے رہتے ہیں بیدی کو پہلے پائدان پر کھڑا کرنے والوں کی تعداد کم نہیں۔
بیدی کے افسانے انسانی شخصیت کے لطیف ترین عکس ہیں۔ ان کے آئینہ خانے میں انسان اپنے سچّے روپ میں نظر آتا ہے اور بیدی اس کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ اس کی شخصیت کے لطیف گوشے ہی سامنے نہیں آ جاتے بلکہ فرد اور سماج کے پیچیدہ رشتے اور انسان کی شخصیت کے پُر اسرار تانے بانے بھی روشن ہو جاتے ہیں اور اس طرح زندگی کی زیادہ بامعنی، زیادہ بلیغ اور زیادہ خیال انگیز تصویر سامنے آ تی ہے جس میں احساس کا گداز بھی شامل ہوتا ہے، اور فکر کا تجسس اور تجربہ بھی۔ ان کے فن میں استعارہ اور اساطیری تصورات کی بنیادی اہمیت ہے اور وہ اس طرح کہ دیو مالائی ڈھانچہ ان کے افسانوں کے پلاٹ کی معنوی فضا کے ساتھ از خود تعمیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ بیدی اپنے کرداروں کی نفسیات کے ذریعہ زندگی کے بنیادی رازوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا تخلیقی عمل تجسیم سے تخئیل کی طرف، واقعہ سے لا واقعیت کی طرف، تخصیص سے تعمیم کی طرف اور حقیقت سے عرفان کی طرف ہوتا ہے۔
بیدی اپنی کہانیوں پر بہت محنت کرتے ہیں ایک بار منٹونے ان سے کہا تھا، " تم سوچتے بہت ہو۔ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھنے کے دوران سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد سوچتے ہو" اس کے جواب میں بیدی نے کہا تھا، "سِکھ کچھ اور ہوں یا نہ ہوں، کاریگر اچھے ہوتے ہیں۔" اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں بیدی کہتے ہیں، ’’مجھے تخئیلِ فن پر یقین ہے۔ جب کوئی واقعہ مشاہدہ میں آتا ہے تو میں اسے من و عن بیان کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ حقیقت اور تخئیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اسے احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اظہار حقیقت کے لئے اک رومانی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے بلکہ مشاہدے کے بعد، پیش کرنے کے انداز کے متعلق سوچنا بجائے خود کسی حد تک رومانی طرز عمل ہے۔‘‘
بیدی یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہیرا سنگھ لاہور کے صدر بازار ڈاک خانہ کے پوسٹ ماسٹر تھے۔ بیدی کی ابتدائی تعلیم لاہور چھاونی کے اسکول میں ہوئی جہاں سے انھوں نے چوتھی جماعت پاس کی اس کے بعد ان کا داخلہ ایس بی بی ایس خالصہ اسکول میں کرا دیا گیا، انھوں نے وہاں سے1931 میں فرسٹ ڈویزن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد وہ ڈی اے وی کالج لاہور گئے لیکن انٹرمیڈئیٹ تک ہی پہنچے تھے کہ والدہ کا، جو ٹی بی کی مریضہ تھیں، انتقال ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد ان کے والد نے ملازمت سے استعفٰی دے دیا اور1933 میں بیدی کو کالج سے اٹھا کر ڈاک خانے میں بھرتی کرا دیا۔ ان کی تنخواہ 46 روپے ماہوار تھی۔ 1934ء میں صرف 19 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی۔ خالصہ کالج کے زمانہ سے ہی انھوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ڈاک خانہ کی نوکری کے زمانہ میں وہ ریڈیو کے لئے بھی لکھتے تھے۔ 1946 میں ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ"دانہ و دام" شائع ہوا اور ان کی اہمیت کو ادبی حلقوں میں تسلیم کیا جانے لگا اور وہ لاہور سے شائع ہونے والے اہم ادبی رسالہ "ادب لطیف" کے اعزازی مدیر بن گئے۔ یہ کام بلا معاوضہ تھا۔ 1943 ء میں انھوں نے ڈاک خانہ کی نوکری سے استعفٰی دے دیا۔ دو سال ادھر ادھر دھکے کھانے کے بعد انھوں نے لاہور ریڈیو کے کئے ڈرامے لکھنے شروع کئے پھر 1943 سے 1944 تک لاہور ریڈیو اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹر کی ملازمت کی جہاں ان کی تنخواہ 150 روپے تھی۔ پھر جب جنگی نشریات کے لئے ان کو صوبہ سرحد کے ریڈیو پر بھیجا گیا تو ان کی تنخواہ 500 روپے ہو گئی۔ بیدی نے وہاں ایک سال کام کیا پھر نوکری چھوڑ کر لاہور واپس آ گئے اور لاہورکی فلم کمپنی مہیشوری میں 600 روپے کی ملازمت کر لی۔ یہ ملازمت بھی راس نہیں آئی اور انھوں نے 1946 میں اپنا سنگم پبلشنگ ہاؤس قائم کیا۔ 1947 میں ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو بیدی کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ وہ کچھ دن روپڑ اور شملہ میں رہے۔ اسی دوران ان کی ملاقات شیخ محمد عبداللہ سے ہوئی جنھوں نے ان کو جموں ریڈیو اسٹیشن کا ڈائرکٹر مقرر کر دیا۔ ان کی بخشی غلام محمد سے نہیں نبھی اور وہ بمبئی آ گئے۔ بمبئی میں ان کی ملاقات فیمس پکچر کمپنی کے پروڈیوسر ڈی ڈی کشیپ سے ہوئی جو ان سے غائبانہ واقف تھے۔ کشیپ نے ان کو 1000 روپے مہینہ پر ملازم رکھ لیا۔ بیدی نےمعاہدے میں شرط رکھی تھی کہ وہ باہر بھی کام کریں گے۔ کشیپ کے لئے بیدی نے دو فلمیں "بڑی بہن" اور" آرام" لکھیں اور باہر "داغ" لکھی۔ داغ بہت چلی جس کے بعد بیدی ترقی کی منزلیں طے کرنےلگے۔ ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ "گرہن" 1942 میں ہی شائع ہو چکا تھا 1949ءمیں انھوں نے اپنا تیسرا مجموعہ "کوکھ جلی" شائع کرایا۔
بیدی ڈاک خانہ کے دنوں میں بڑے مسکین اور دبّو تھے لیکن وقت کے ساتھ ان کے اندر اپنی ذات اور اپنے فن کے حوالہ سے بلا کی خود اعتمادی پیدا ہو گئی لیکن دونوں زمانوں میں وہ بیحد حسّاس اور رقیق القلب رہے۔ وہ اپنی فلم دستک کی ہیروئن ریحانہ سلطان اور اک دوسری فلم کی اداکارہ سمن پر بری طرح فریفتہ تھے۔ ریحانہ سلطان نے ایک انٹرویو میں بیدی کی جذباتیت کے حوالے سے کہا، "بیدی صاحب ہی میں نے ایسے شخص دیکھے جو ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ دو فلموں میں کام کیا۔ بہت اچھا شاٹ ہوا تو "کٹ" کرنا بھول جاتے ہیں۔ اسسٹنٹ کہے گا، "بیدی صاحب شاٹ ہو گیا "کٹ، کٹ۔۔۔" اور وہ آنسو پونچھ رہے ہیں۔ رونے کے درمیان کہہ رہے ہیں، "بہت اچھا شاٹ تھا۔۔۔" اور بری طرح رو رہے ہیں۔"
بیدی بطور اسٹوری رائٹر، ڈائلاگ رائٹر، اسکرین رائٹر ڈائریکٹر یا پروڈیوسر جن فلموں کا حصہ رہے ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، گرم کوٹ، ملاپ، بسنت بہار، مسافر، مدھومتی، میم دیدی، آس کا پنچھی، بمبئی کا بابو، انورادھا، رنگولی، میرے صنم، بہاروں کے سپنے، انوپما، میرے ہمدم میرے دوست، ستیہ کام، دستک، گرہن، ابھیمان، پھاگن، نواب صاحب، مٹھی بھر چاول، آنکھن دیکھی، اور ایک چادر میلی سی شامل ہیں۔ 1956 میں انھیں گرم کوٹ کے لئے بہترین کہانی کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ دوسرا فلم فیئر ایوارڈ ان کو مدھومتی کے بہترین مکالموں کے کئے اور پھر 1971 میں ستیہ کام کے مکالموں کے لئے دیا گیا۔ 1906 میں نینا گپتا نے ان کی کہانی "لاجونتی" پر ٹیلی فلم بنائی۔
فلمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیدی کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ دانہ و دام، بے جان چیزیں، اور کوکھ جلی کے بعد ان کی جو کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں اپنے دکھ مجھے دے دو، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، مقدس جھوٹ، مہمان، مکتی بودھ اور ایک چادر میلی سی شامل ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی نے زندگی میں اپنی حساس نگاہوں سے بہت کچھ دیکھا۔ پنجاب کے خوشحال قصبوں کی زندگی اور بدحال لوگوں کی بپتا، نیم تعلیم یافتہ لوگوں کی رسمیں، روا داریاں، کشمکش، اور نباہ کی تدبیریں، پرانی دنیا میں نئے خیالات کی آمیزش، نئی نسل اور ارد گرد کے بندھنوں کی آمیزش۔۔۔۔۔۔ ان سب میں بیدی نے دہشت کے بجائے نرمیوں کو چن لیا۔ نرمی اپنے مکمل اور سنجیدہ مفہوم کے ساتھ ان کے مطالعۂ کائنات کا مرکزی نقطہ ہے۔ بھیانک میں سے بھلائی کو اور ناگواری میں سے گوارا کو تلاش کرنا ان کے فنکار کا بنیادی مقصد ہے۔ بے دردی سے سیکھنا، کریدنا اور درد مندی سے اسے کاغذ پر منتقل کرنا ان کا اک بڑا کارنامہ ہے جو منفرد بھی ہے اور عظیم بھی۔ 1965 میں ان کو اک چادر میلی سی کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد 1978 میں ان کو ڈرامہ کے لئے غالب ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی یاد میں حکومت پنجاب نے اردو ادب کا راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ شروع کیا ہے۔
بیوی سے مسلسل ناچاقی کی وجہ سے بیدی کی زندگی تلخ تھی ۔ ان کا بیٹا نریندر بیدی بھی فلم پروڈیوسر اور ڈائرکٹر تھا لیکن 1982 میں اس کی موت ہو گئی۔ بیدی کی بیوی اس سے پہلے ہی چل بسی تھیں۔ بیدی کی زندگی کے آخری ایام بڑی کسمپرسی اور بے بسی میں گزرے۔ 1982 میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور پھر کینسر ہو گیا۔ 1984 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free