آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
زندہ رہ سکتا ہوں ایسی ہی خوش امکانی کے ساتھ
تم ہی بتلاؤ کہ اس کی قدر کیا ہوگی تمہیں
جو محبت مفت میں مل جائے آسانی کے ساتھ
بات ہے کچھ زندہ رہ جانا بھی اپنا آج تک
لہر تھی آسودگی کی بھی پریشانی کے ساتھ
چل رہا ہے کام سارا خوب مل جل کر یہاں
کفر بھی چمٹا ہوا ہے جذب ایمانی کے ساتھ
فرق پڑتا ہے کوئی لوگوں میں رہنے سے ضرور
شہر کے آداب تھے اپنی بیابانی کے ساتھ
یہ وہ دنیا ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں
ہم گزارہ کر رہے ہیں دشمن جانی کے ساتھ
رائیگانی سے ذرا آگے نکل آئے ہیں ہم
اس دفعہ تو کچھ گرانی بھی ہے ارزانی کے ساتھ
اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ
لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریے کو ایک ملتانی کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.