جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
بہ حال گمرہی پایا گیا ہوں
حرم سے دیر میں لایا گیا ہوں
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں
برنگ لالۂ ویرانہ بے کار
کھلایا اور مرجھایا گیا ہوں
اگرچہ ابر گوہر بار ہوں میں
مگر آنکھوں سے برسایا گیا ہوں
سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
فرشتے کو نہ میں شیطان سمجھا
نتیجہ یہ کہ بہکایا گیا ہوں
کوئی صنعت نہیں مجھ میں تو پھر کیوں
نمائش گاہ میں لایا گیا ہوں
بقول برہمن قہر خدا ہوں
بتوں کے حسن پر ڈھایا گیا ہوں
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں
حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.