کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے
کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے
آج فرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے
پھر کسی نظم کی تمہید اٹھائی جائے
پھر کسی جسم کو لفظوں میں سمویا جائے
کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے
بج گئے رات کے دو اب تو وہ آنے سے رہے
آج اپنا ہی بدن اوڑھ کے سویا جائے
نرم دھاگے کو مسلتا ہے کوئی چٹکی میں
سخت ہو جائے تو موتی میں پرویا جائے
اتنی جلدی تو بدلتے نہیں ہوں گے چہرے
گرد آلود ہے آئینے کو دھویا جائے
موت سے خوف زدہ جینے سے بے زار ہیں لوگ
اس المیے پہ ہنسا جائے کہ رویا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.