پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا ناؤں
پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا ناؤں
سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کے چلیے اس کے گاؤں
پکی سڑکوں والے شہر میں کس سے ملنے جائیں
ہولے سے بھی پاؤں پڑے تو بج اٹھتی ہیں کھڑاؤں
آتے ہیں کھلتا دروازہ دیکھ کے رک جاتے ہیں
دل پر نقش بٹھا جاتے ہیں یہی ٹھٹکتے پاؤں
پیاسا کوا جنگل کے چشمے میں ڈوب مرا
دیوانہ کر دیتی ہے پیڑوں کی مہکتی چھاؤں
ابھی نئی بازی ہوگی پھر سے پتا ڈالیں گے
کوئی بات نہیں جو ہار گئے ہیں پہلا داؤں
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 21)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.