صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں
صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں
یہ شاخ گل ہے آئین نمو سے آپ واقف ہیں
سمجھتی ہے کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں
کبھی تیری کبھی دست جنوں کی بات چلتی ہے
یہ افسانے تو زلف خم بہ خم ہوتے ہی رہتے ہیں
توجہ ان کی اب اے ساکنان شہر تم پر ہے
ہم ایسوں پر بہت ان کے کرم ہوتے ہی رہتے ہیں
ترے بند قبا سے رشتۂ انفاس دوراں تک
کچھ عقدے ناخنوں کو بھی بہم ہوتے ہی رہتے ہیں
ہجوم لالہ و نسریں ہو یا لب ہائے شیریں ہوں
مری موج نفس سے تازہ دم ہوتے ہی رہتے ہیں
مرا چاک گریباں چاک دل سے ملنے والا ہے
مگر یہ حادثے بھی بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.