سر منظر نہ ملے تو پس منظر دیکھوں
سر منظر نہ ملے تو پس منظر دیکھوں
کوئی صورت ہو مگر میں اسے اکثر دیکھوں
اپنے افکار کو میلا تو نہیں کر سکتی
پھول برسیں کہ برستے ہوئے پتھر دیکھوں
میں بھی اک موج ہوں میرا بھی مقدر ہے سفر
کیسے ساحل پہ کھڑے رہ کے سمندر دیکھوں
کوئی گزرا ہوا لمحہ تو پلٹنا ہی نہیں
یہ کہاں تاب کہ آئینہ مکرر دیکھوں
سنتے ہیں گیت بنا کرتی ہیں کرنیں اکثر
چاند کو آج تو آنگن میں نکل کر دیکھوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر دعا بھی ڈالو
جب سر شاخ چمن کوئی گل تر دیکھوں
سچ کی میرے لئے کیوں اور نہ قیمت بڑھ جائے
جب میں لٹکی ہوئی تلوار بھی سر پر دیکھوں
میرے فن کا ہے یہی مجھ سے تقاضا رعناؔ
جو مری ذات میں پنہاں ہے وہ باہر دیکھوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.