سمٹی ہوئی یہ گھڑیاں پھر سے نہ بکھر جائیں
سمٹی ہوئی یہ گھڑیاں پھر سے نہ بکھر جائیں
اس رات میں جی لے ہم اس رات میں مر جائیں
اب صبح نہ آ پائے آؤ یہ دعا مانگیں
اس رات کے ہر پل سے راتیں ہی ابھر جائیں
دنیا کی نگاہیں اب ہم تک نہ پہنچ پائیں
تاروں میں بسیں چل کر دھرتی میں اتر جائیں
حالات کے تیروں سے چھلنی ہیں بدن اپنے
پاس آؤ کہ سینوں کے کچھ زخم تو بھر جائیں
آگے بھی اندھیرا ہے پیچھے بھی اندھیرا ہے
اپنی ہیں وہی سانسیں جو ساتھ گزر جائیں
بچھڑی ہوئی روحوں کا یہ میل سہانہ ہے
اس میل کا کچھ احساں جسموں پہ بھی کر جائیں
ترسے ہوئے جذبوں کو اب اور نہ ترساؤ
تم شانے پہ سر رکھ دو ہم باہوں میں بھر جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.