وہ ابر جو مے خوار کی تربت پہ نہ برسے
وہ ابر جو مے خوار کی تربت پہ نہ برسے
کہہ دو کہ خدارا کبھی گزرے نہ ادھر سے
اتنا تو ہوا آہ شب غم کے اثر سے
فطرت کا جگر پھوٹ بہا چشم سحر سے
امید نے بھی یاس کے مردوں کو پکارا
آئی کوئی آواز نہ دل سے نہ جگر سے
ناصح کو بلاؤ مرا ایمان سنبھالے
پھر دیکھ لیا اس نے اسی ایک نظر سے
خورشید قیامت کی ادا دیکھ رہا ہوں
ملتی ہوئی صورت ہے مرے داغ جگر سے
ایک ایک قدم پر ہے جہاں خندۂ تقدیر
تدبیر گزرتی ہے اسی راہ گزر سے
اے خندۂ گلشن یہ ہے انجام شب عیش
گل روتے ہیں نہ منہ ڈھانپ کے دامان سحر سے
کچھ شان کریمی نے اس انداز سے تولا
بھاری ہی رہا دیدۂ تر دامن تر سے
خطرے میں ہیں کچھ دن سے حفیظؔ اہل دو عالم
ہر شب مرے نالوں کی لڑائی ہے اثر سے
- کتاب : Kulliyat-e-Hafeez Jalandhari (Pg. 137)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.