یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
ہم سوالات کا حل سوچ رہے ہوں ابھی تک
اور ماتھے پہ محبت کا نتیجہ لگ جائے
ابھی دیوار اٹھائی بھی نہ ہو دل کی طرف
لیکن اس میں کوئی در کوئی دریچہ لگ جائے
کیا ستم ہے کہ وہی دور رہا ہو تم سے
اور اسی شخص پہ الزام تمہارا لگ جائے
پوری آواز سے اک روز پکاروں تجھ کو
اور پھر میری زباں پر ترا تالا لگ جائے
اور تو اس کے سوا کچھ نہیں امکان کہ اب
میرے دریا میں کہیں تیرا کنارہ لگ جائے
میں نے اور دل نے اسی باب میں سوچا ہے کہ ہم
کام کچھ بھی نہ کریں کوئی وظیفہ لگ جائے
کیا تماشا ہے کہ باقی ہو سمندر کا سفر
اور ساحل سے کسی روز سفینہ لگ جائے
یہ بھی ممکن ہے کہ اس کار گہہ دل میں ظفرؔ
کام کوئی کرے اور نام کسی کا لگ جائے
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 163)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.