تمام
تعارف
غزل39
نظم58
شعر39
ای-کتاب46
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 8
آڈیو 32
ویڈیو 41
قطعہ10
قصہ29
گیلری 2
بلاگ3
دیگر
اسرار الحق مجاز
غزل 39
نظم 58
اشعار 39
کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی
کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
تشریح
یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔
شفق سوپوری
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 10
قصہ 29
کتاب 46
تصویری شاعری 8
میں آہیں بھر نہیں سکتا کہ نغمے گا نہیں سکتا سکوں لیکن مرے دل کو میسر آ نہیں سکتا کوئی نغمے تو کیا اب مجھ سے میرا ساز بھی لے لے جو گانا چاہتا ہوں آہ وہ میں گا نہیں سکتا متاع_سوز_و_ساز_زندگی پیمانہ و بربط میں خود کو ان کھلونوں سے بھی اب بہلا نہیں سکتا وہ بادل سر پہ چھائے ہیں کہ سر سے ہٹ نہیں سکتے ملا ہے درد وہ دل کو کہ دل سے جا نہیں سکتا ہوس_کاری ہے جرم_خودکشی میری شریعت میں یہ حد_آخری ہے میں یہاں تک جا نہیں سکتا نہ طوفاں روک سکتے ہیں نہ آندھی روک سکتی ہے مگر پھر بھی میں اس قصر_حسیں تک جا نہیں سکتا وہ مجھ کو چاہتی ہے اور مجھ تک آ نہیں سکتی میں اس کو پوجتا ہوں اور اس کو پا نہیں سکتا یہ مجبوری سی مجبوری یہ لاچاری سی لاچاری کہ اس کے گیت بھی دل کھول کر میں گا نہیں سکتا زباں پر بے_خودی میں نام اس کا آ ہی جاتا ہے اگر پوچھے کوئی یہ کون ہے بتلا نہیں سکتا کہاں تک قصۂ_آلام_فرقت مختصر یہ ہے یہاں وہ آ نہیں سکتی وہاں میں جا نہیں سکتا حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارا پھروں جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں غیر کی بستی ہے کب تک در_بہ_در مارا پھروں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی میرے سینے پر مگر رکھی ہوئی شمشیر سی اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجڑی جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی ہوک سی سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے_خانے میں چل پھر کسی شہناز_لالہ_رخ کے کاشانے میں چل یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں اور کوئی ہم_نوا مل جائے یہ قسمت نہیں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں منتظر ہے ایک طوفان_بلا میرے لیے اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وا میرے لیے پر مصیبت ہے مرا عہد_وفا میرے لیے اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں جی میں آتا ہے کہ اب عہد_وفا بھی توڑ دوں ان کو پا سکتا ہوں میں یہ آسرا بھی توڑ دوں ہاں مناسب ہے یہ زنجیر_ہوا بھی توڑ دوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے سیکڑوں سلطان_جابر ہیں نظر کے سامنے سیکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں اس کا گلشن پھونک دوں اس کا شبستاں پھونک دوں تخت_سلطاں کیا میں سارا قصر_سلطاں پھونک دوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارا پھروں جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں غیر کی بستی ہے کب تک در_بہ_در مارا پھروں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی میرے سینے پر مگر رکھی ہوئی شمشیر سی اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجڑی جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی ہوک سی سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے_خانے میں چل پھر کسی شہناز_لالہ_رخ کے کاشانے میں چل یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں اور کوئی ہم_نوا مل جائے یہ قسمت نہیں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں منتظر ہے ایک طوفان_بلا میرے لیے اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وا میرے لیے پر مصیبت ہے مرا عہد_وفا میرے لیے اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں جی میں آتا ہے کہ اب عہد_وفا بھی توڑ دوں ان کو پا سکتا ہوں میں یہ آسرا بھی توڑ دوں ہاں مناسب ہے یہ زنجیر_ہوا بھی توڑ دوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے سیکڑوں سلطان_جابر ہیں نظر کے سامنے سیکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں اس کا گلشن پھونک دوں اس کا شبستاں پھونک دوں تخت_سلطاں کیا میں سارا قصر_سلطاں پھونک دوں اے غم_دل کیا کروں اے وحشت_دل کیا کروں