فیصل فہمی
غزل 11
نظم 2
اشعار 8
کسی فرد محبت سے بھلا امید کیا رکھنا
محبت بے وفا تھی بے وفا ہے بے وفا ہوگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
پہلے تمام شہر کو صحرا بنائیں گے
پھر وحشتوں کی ریت پہ سویا کریں گے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تا عمر طفل دل پہ یتیمی کا کرب تھا
کوشش تو کی مگر میں کبھی ماں نہ بن سکا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میں اپنے آپ کا سب سے بڑا مخالف ہوں
مری ہی طرح کا اک شخص اور ہے مجھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یہی سب لوگ ہیں ان سب نے مرا قتل کیا
یہ مری قبر کو پھولوں سے سجانے والے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 2
سنو خاموش ہی ہستی مری تم سے جدا ہوگی کہ اب ہر اک فریاد_عنایت بے_نوا ہوگی کسی فرد_محبت سے بھلا امید کیا رکھنا محبت بے_وفا تھی بے_وفا ہے بے_وفا ہوگی پرانے کاغذوں پہ درج میری شاعری شاید کسی مجروح دل کے زخم کی مائل ردا ہوگی کرو_گے ظلم کب تک مشورہ ہے باز آ جاؤ بہت پچھتاؤ_گے تم ظلم کی گر انتہا ہوگی تجسس چھوڑ دے تم قیس_و_لیلیٰ سی محبت کا کی دور_نو کی ہر تمثیل_الفت بے_وفا ہوگی
عشق کی آج انتہا کر دو روح کو جسم سے جدا کر دو ہے خلاصہ یہی محبت کا ہو جو اچھا اسے برا کر دو یہ جو آنکھوں سے خون جاری ہے اس کو ہاتھوں کی تم حنا کر دو وقت_رخصت گلے لگا لینا آخری بار یہ خطا کر دو تم مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتی اپنے حق میں تو فیصلہ کر دو شبنمی رات کے اندھیرے کو برہنہ جسم کی قبا کر دو اب اٹھا دو نقاب چہرے سے رات کو چاند سے خفا کر دو ہے کہ دشوار زندگی فہمیؔ خود کو بیمار با_خدا کر دو