نعمان شوق کے اشعار
ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی
یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم
-
موضوع : الوداع
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم تو سردی کی حسیں دھوپ کا چہرہ ہو جسے
دیکھتے رہتے ہیں دیوار سے جاتے ہوئے ہم
-
موضوع : سردی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جمہوریت کے بیچ پھنسی اقلیت تھا دل
موقعہ جسے جدھر سے ملا وار کر دیا
-
موضوع : جمہوریت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ نہ تھا میرے پاس کھونے کو
تم ملے ہو تو ڈر گیا ہوں میں
ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ
ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ذرا یہ ہاتھ میرے ہاتھ میں دو
میں اپنی دوستی سے تھک چکا ہوں
آئنے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار
ایک دن اپنی ہی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں
میری خوشیوں سے وہ رشتہ ہے تمہارا اب تک
عید ہو جائے اگر عید مبارک کہہ دو
عشق کیا ہے خوب صورت سی کوئی افواہ بس
وہ بھی میرے اور تمہارے درمیاں اڑتی ہوئی
رو رو کے لوگ کہتے تھے جاتی رہے گی آنکھ
ایسا نہیں ہوا، مری بینائی بڑھ گئی
بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک
خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں
کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے
تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے
اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا
کیا حال پیڑ کٹتے ہی بستی کا ہو گیا
-
موضوع : ماحولیات
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر
کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم جیسوں نے جان گنوائی پاگل تھے
دنیا جیسی کل تھی بالکل ویسی ہے
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کس کی دنیا میں آ گیا ہوں میں
وہ طنز کو بھی حسن طلب جان خوش ہوئے
الٹا پڑھا گیا، مرا پیغام اور تھا
پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا
ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ میرے لمس سے مہتاب بن چکا ہوتا
مگر ملا بھی تو جگنو پکڑنے والوں کو
فقیر لوگ رہے اپنے اپنے حال میں مست
نہیں تو شہر کا نقشہ بدل چکا ہوتا
ہمیں برا نہیں لگتا سفید کاغذ بھی
یہ تتلیاں تو تمہارے لئے بناتے ہیں
مجھ کو بھی پہلے پہل اچھے لگے تھے یہ گلاب
ٹہنیاں جھکتی ہوئیں اور تتلیاں اڑتی ہوئیں
پہنتے خاک ہیں خاک اوڑھتے بچھاتے ہیں
ہماری رائے بھی لی جائے خوش لباسی پر
ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل
بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی
خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ
ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی
وہ سانپ جس نے مجھے آج تک ڈسا بھی نہیں
تمام زہر سخن میں مرے اسی کا ہے
اس کا ملنا کوئی مذاق ہے کیا
بس خیالوں میں جی اٹھا ہوں میں
ترے بغیر کوئی اور عشق ہو کیسے
کہ مشرکوں کے لئے بھی خدا ضروری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول
اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سنا ہے شور سے حل ہوں گے سارے مسئلے اک دن
سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ
نفرتوں کی شام یاد آئے پرانے یار لوگ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ڈر ڈر کے جاگتے ہوئے کاٹی تمام رات
گلیوں میں تیرے نام کی اتنی صدا لگی
ہم کو ڈرا کر، آپ کو خیرات بانٹ کر
اک شخص راتوں رات جہانگیر ہو گیا
قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے
آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ تو کہیے آپ کی خوشبو نے پہچانا مجھے
عطر کہہ کے جانے کیا کیا بیچتے عطار لوگ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں
ڈوب بھی سکتی ہے میری ناؤ سوچا تک نہیں
ہم بہت پچھتائے آوازوں سے رشتہ جوڑ کر
شور اک لمحے کا تھا اور زندگی بھر کا سکوت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بدن نے کتنی بڑھا لی ہے سلطنت اپنی
بسے ہیں عشق و ہوس سب اسی علاقے میں
آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں
میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس نے ہنس کر ہاتھ چھڑایا ہے اپنا
آج جدا ہو جانے میں آسانی ہے
لپٹا بھی ایک بار تو کس احتیاط سے
ایسے کہ سارا جسم معطر نہ ہو سکے