طارق قمر
غزل 35
نظم 22
اشعار 22
مزاج اپنا ملا ہی نہیں زمانے سے
نہ میں ہوا کبھی اس کا نہ یہ زمانہ مرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کوئی شکوہ نہ شکایت نہ وضاحت کوئی
میز سے بس مری تصویر ہٹا دی اس نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ابھی باقی ہے بچھڑنا اس سے
نا مکمل یہ کہانی ہے ابھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
وہ بھی رسماً یہی پوچھے گا کہ کیسے ہو تم
میں بھی ہنستے ہوئے کہہ دوں گا کہ اچھا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا
ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 3
کیسے رشتوں کو سمیٹیں یہ بکھرتے ہوئے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں یہی فیصلہ کرتے ہوئے لوگ غور سے دیکھو ہمیں، دیکھ کے عبرت ہوگی ایسے ہوتے ہیں بلندی سے اترتے ہوئے لوگ اے خدا معرکۂ_لشکر_شب باقی ہے اور مرے ساتھ ہیں پرچھائیں سے ڈرتے ہوئے لوگ مر کے دیکھیں_گے کبھی ہم بھی، سنا ہے ہم نے مسکراتے ہیں تری راہ میں مرتے ہوئے لوگ قید_خانوں کے اندھیروں میں بڑے چین سے ہیں اپنے اندر کے اجالوں سے گزرتے ہوئے لوگ کتنے چہروں پہ سر_بزم کریں_گے تنقید آئنہ دیکھ کے تنہائی میں ڈرتے ہوئے لوگ خودکشی کرنے پہ آمادہ و مجبور ہیں اب زندگی! یہ ہیں ترے عشق میں مرتے ہوئے لوگ تم تو بے_وجہ پریشان ہوئے ہو طارقؔ یوں_ہی پیش آتے ہیں وعدوں سے مکرتے ہوئے لوگ