تمام
تعارف
غزل21
نظم10
شعر562
مزاحیہ1
ای-کتاب98
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 454
قطعہ6
قصہ59
بچوں کی کہانی78
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کی بچوں کی کہانیاں
موسل کے چاول
پرانے زمانے میں کونکن دیس میں بڑے عالم رہا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہاں ودھوا راجن نامی ایک شاعر بھی رہا کرتا تھا۔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دولت مند بھی کافی تھا۔ لیکن ایک بار سیہ یادری دیس کے راجہ نے کونکن پر ایک بھاری فوج لے کر چڑھائی کر
سونے کی تین اینٹیں
ایک دن حضرت عیسیٰ کہیں جا رہے تھے۔ ساتھ ایک اور آدمی بھی ہو لیا۔ آپ نے ایک رومال میں تین روٹیاں باندھ کر اس کے حوالے کیں کہ انہیں سنبھال رکھو جہاں بھوک لگے گی مل کر کھا لیں گے۔‘‘ ساتھی کو بھوک لگی تو اس نے موقع پا کر چپکے سے ایک روٹی نکال کر کھا لی
کام سے نہ ڈرو
ایک سوداگر کسی سفر میں جہاز پر سوار ہوا تو باتوں باتوں میں کپتان سے پوچھا۔ ’’آپ کے والد کیا کام کرتے تھے؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’مہربان! باپ پر کیا موقوف ہے۔ ہماری سات پیڑھیاں جہاز رانی ہی کرتے تھے گزر گئی ہیں۔‘‘ سوداگر نے پوچھا۔ آپ کے باپ کی قبر کہاں ہے؟‘‘ کپتان
عقل کی فتح
ایک غریب آدمی نے سفر پر جاتے وقت کسی ساہوکار کے پاس ایک ہزار روپیہ امانت رکھ دیا تھا مگر نہ کوئی رسید لی، نہ کسی کو گواہ کیا۔ چھ مہینے بعد غریب سفر سے واپس آیا، اور ساہوکار سے روپے مانگے تو وہ صاف مکر گیا۔ کہ میں نے تمہاری کوئی امانت نہیں رکھی۔ یہ
لالچ کی سزا
ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اُس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا کہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی اُدھر آ نکلا اور کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رُکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘ غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب!
سچائی کا انجام
ایک کسان کے کھیت میں کسی امیر کے گھوڑے گھس گئے۔ جنہوں نے کچھ تو روند کر اور کچھ چر کر کھیت کا ستیاناس کر دیا۔ کسان غصے بھرا ہوا امیر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کے گھوڑوں نے میرا کھیت تباہ کر دیا ہے۔ امیر نے کہا۔ تمھارے خیال میں کتنا نقصان ہوا ہوگا؟‘‘ کسان
مکھی کی کہانی
ایک مکھی بیٹھی اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئیں۔ گھر لیپتے لیپتے لیپتے جو انہیں اپنے نام کا خیال آیا۔ تو گئیں ہمسائی کے ہاں۔ ہمسائی سے جاکر کہا۔ بی ہمسائی بی ہمسائی میرا نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ بوا میں نہیں جانتی۔ میرے گھر میں جو
استاد کی مار
ایک دن مامون رشید کی والدہ نے اس کے استاد سے کہلا بھیجا۔ ’’شہزادہ گھر میں شوخی کرتا ہے۔ اسے سزا دینی چاہیے۔‘‘ استاد نے شہزادے کے منہ پر دو چار طمانچے لگا کر کان پکڑوا دیے۔ جس سے مامون کو اتنی تکلیف ہوئی کہ بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ یہ کان پکڑے
دل اور زبان
کہتے ہیں جب لقمان حکیم پڑھ کر فارغ ہو چکے تو استاد نے کہا۔ ’’لقمان! آج ایک بکرا ذبح کرو اور اس میں جو سب سے اچھی چیز سمجھو، ہمارے لیے پکا لاؤ۔‘‘ لقمان نے بکرا حلال کر کے اس کے دل اور زبان کو خوب اچھے مسالوں کے ساتھ بھون بھان کر استاد کے سامنے رکھ
میرا نام کیا ہے؟
ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لئے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔ بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب
اچھا لباس اور اچھا شکار
ایک شہزادے کو اچھی پوشاک پہننے کا اتنا شوق تھا کہ ہر روز قسم قسم کے لباس بنواتا اور طرح طرح کی پوشاکیں پہنے ہر وقت سیر و شکار میں لگا رہتا۔ ایک دن باپ نے فرمایا۔ ’’بیٹا! تم شہزادے ہو۔ تمہیں ایسا لباس پہننا چاہیے جو دوسروں کو نہ مل سکے۔ یہ قیمتی کپڑے
ٹمک ٹوں کی کہانی
اڈھاک تلے کی میں لکڑی لائی۔ لکڑی لے میں نے بڑھیا کو دی۔ بڑھیا نے مجھے آدھی روٹی دی۔ آدھی روٹی لے میں نے کمہار کو دی۔ کمار نے مجھے گھڑا دیا۔ گھڑا لے میں نے گھوسی کو دیا۔ گھوسی نے مجھے بھینس دی۔ بھینس لے میں نے دولہا کو دی۔ دلہا نے مجھے دلہن دی۔ دلہن لے
گدھا اور گھوڑا
دو شخص کسی شہر سے لاہور روانہ ہوئے جن میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا۔ اور دوسرا گدھے پر۔ گدھے والے نے کہا۔ ’’میاں سوار خاں! سفر میں دو آدمی مل کر چلیں۔ تو ایک دوسرے کی رفاقت سے بہت خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم تم ساتھی ہو جائیں تو راستہ بھی اچھا کٹے اور منزل
ایک تھیلی کے چٹے بٹے
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب، دونوں کی مڈبھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوئی۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ
پنجرے کی شہزادی
ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے چین پر ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ایک ہی لڑکی تھی۔ شہزادی خاور اس کا نام تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکتا دمکتا تھا۔ شہزادی کو بچپن ہی سے پھول اچھے لگتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے محل کے باغ میں
وہ تو ہماری بھی نانی نکلی
ظفر، شوکت اور اقبال اپنے چچا سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ چھوٹی نسرین بھی توتلی زبان سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ ’’چچا ہمیں تھگوں والی کہانی سناؤ‘‘۔ ’’ہاں ہاں! ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔‘‘۔ دوسرے بھی بول پڑے اور شور مچانے لگے۔ ’’اچھا
عقلمند بوڑھیا
دو چور ایک گھر میں گھسے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ وہ گھر ایک بوڑھیا کا تھا جس کا اس دنیا میں کوئی بھی عزیز رشتے دار نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی اور کمانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ محلے کے لوگ صبح شام اس کو کھانا دے جایا کرتے
ماں باپ کے لاڈلے
ایک دن اکبر بادشاہ روشنی جھروکے میں بیٹھے مخلوق کی آمدورفت کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ بیربل بھی حاضر تھا۔ بادشاہ نے فرمایا۔ ’’بیربل! کچھ پہچان سکتے ہو۔ ان میں سب سے زیادہ ماں باپ کے لاڈلے کون لوگ ہیں؟‘‘ آنے جانے والوں میں بعض فقیر محتاج بھیک مانگ رہے تھے
علم کی طاقت
کولمبس جس نے امریکہ دریافت کیا تھا ایک جہاز ران کا بیٹا تھا۔ ایسے لوگوں کو ستاروں کی چال بخوبی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اسی علم پر جہاز رانی موقوف ہے۔ ایک دن کولمبس کو خیال آیا کہ سمندر کا دوسرا کنارہ بھی دیکھنا چاہیے۔ کیا عجب کہ ادھر بھی کوئی ملک آباد
ماں کی خدمت
گرمی کے دنوں میں ایک امیر دوپہر کے وقت اپنے کمرے میں سو رہا تھا اور نوکر باہر بیٹھا پنکھا کھینچ رہا تھا کہ آقا اور ملازم دونوں کو نیند آ گئی۔ گرمی کے مارے امیر کی آنکھ کھلی تو اس نے پانی کے لیے نوکر کو آواز دی مگر جواب نہ پا کر خود باہر نکلا تو دیکھا
آج کا کام نہ رکھو کل پر
ایک دفعہ کسی گاؤں کا چودھری سودا لینے شہر میں آیا تو دیکھا، کسی جگہ لوگ ایک وکیل کی بڑی تعریف کر رہے ہیں کہ وہ تو سو سو روپے کی ایک ایک بات بتاتا اور ہزار ہزار روپے کا ایک ایک نکتہ سمجھاتا ہے۔ چودھری نے دل میں کہا۔ ’’ہم بھی چل کر اس کی کوئی بات سن
منحوس میں ہوں یا آپ
ایک بادشاہ کے دو مصاحبوں میں ایسی سخت دشمنی تھی کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن بازار میں موقع پا کر ایک مصاحب نے دوسرے کی بابت کہا۔ ’’حضور کا یہ مصاحب اتنا منحوس ہے کہ اگر کوئی شخص صبح اٹھ کر اس کا منہ دیکھ لے تو دن بھر کھانا نہیں
سپاہی کی کہانی
ایک سپاہی تھے۔ وہ کہیں سے چلے آتے تھے۔ رستے میں ایک آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے سوا! لمبی چوٹی برخوردار۔‘‘ ایک سندیسہ لیتے جائیو۔ اس نے دیکھا۔ تو ادھر ادھر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر اس نے گھوڑا ہانکا تو پھر اس کو یہی آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے
ہاتھی کے گلے میں ڈھولک
ایک دفعہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پرخوش ہو کر روپے اور خلعت کے ساتھ اسےایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجا نے تو بڑی فیاضی دکھائی۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اسے روز دانہ چارہ کہاں سے کھلاؤں گا اور خدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ کچھ سوچنے
صبر اور دیانتداری
ایک دفعہ قحط کے زمانے میں کسی قصبے کا رئیس ہر روز صبح کو سو دو سو روٹیاں پکوا کر سامنے رکھ لیا کرتا۔ گاؤں کے بچے جمع ہو جاتے اور اپنے ہاتھ سے ایک ایک روٹی اٹھا کر چل دیتے۔ ان میں سے اکثر لڑکے اتنی جلدی کرتے کہ کسی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتے اور کسی کے
احسان کی قید
لوگوں نے ایک دانا سے کہا۔ ’’کل فلاں آپ کی نسبت ایسی بری بری باتیں کر رہا تھا، جو آپ کو سخت بدنام کرنے والی ہیں۔ دانا نے فرمایا۔ تم لوگ تو اچھی طرح مجھ سے واقف ہو۔ کیا ان باتوں کے متعلق تمہیں یقین آ سکتا ہے کہ وہ درست ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ہرگز
دیانتداری کا نتیجہ
ایک امیر کی دولت پر چند ڈاؤکوؤں نے چھاپا مارنے کی تجویزیں کیں۔ جس کا امیر کو بھی پتا چل گیا اور وہ چھ لاکھ روپیہ ایک سوداگر کے پاس رکھ کر خود کسی دوسرے شہر چلا گیا۔ سوداگر نے پہلے تو امانت رکھنے سے انکار کر دیا۔ مگر آخر اس شرط پر روپیہ رکھ لیا کہ ’’بچ
کوئی اور بھی پڑھ لے
محمد صادق نامی ایک لڑکا یوں تو لکھا پڑھا تھا مگر کوئی امتحان پاس نہ کرنے کے سبب سرکاری نوکری حاصل نہ کر سکتا تھا اور گھریلو نوکریاں اسے پسند نہ تھیں۔ آخر سوچ سمجھ کر اس نے جوتوں کی ایک دکان کھول لی۔ دکان کی پونجی تھوڑی تھی مگر پھر بھی اسے تنا مل جاتا
خلیفۂ بغداد اور ہندی وید
خلیفۂ بغداد نے ہندوستان کے کسی مشہور وید کو اپنے یہاں طلب فرمایا اور وید صاحب دربار میں پہنے تو علم کی تعظیم کے لیے خلیفہ ادب سے کھڑا ہو گیا۔ بیٹھنے کے بعد وید نے نہایت ادب کے ساتھ تین چیزیں بادشاہ کے سامنے تحفے کے طور پر پیش کر کے عرض کی ’’جہاں پناہ!
گھر کی باتیں
ایک شیخی باز لڑکے کو ہر بات میں شیخی بگھارنے کی عادت تھی اور گھر کی ایسی ایسی باتیں بھی بڑھا چڑھا کر بتاتا رہتا جو نہیں بتانی چاہئیں۔ ان میں اکثر اپنی امیری اور دولتمندی کے قصے ہوتے۔ ایک دن مدرسے سے آتے ہوئے اس کا کوٹ جو ایک طرف سے ادھڑا ہوا نظر آیا
گفتگو کا سلیقہ
ایک دفعہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ میرے بہت سے دانٹ ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ صبح ہوئی تو عالموں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ ایک شخص نے کہا۔ ’’آپ کے اکثر عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے۔‘‘ یہ بات ہارون رشید کو اتنی ناگوار گزری کہ اس شخص کو اسی وقت دربار
نیت کا پھل
پانی یوں تو سب جگہ بڑی چیز ہے مگر ریتلے گرم اور خشک علاقوں میں تو خدا کی بڑی ہی نعمت سمجھا جاتا ہے کہ وہاں نہ دریا ہیں نہ کنوئیں نہ نہریں۔ بس جہاں کہیں تالابوں، جوہڑوں میں مینہ کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ سب اسی کو دور دور بھر کر لے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک
اوئے چوہا!
مسٹر چوہے خاں روز لوگوں سے بھری ہوئی بس کو سڑک پر فراٹے بھرتے دیکھتے ان کا بھی جی چاہتا کہ وہ بس کی سیر کریں۔ لیکن چھوٹے پاؤں ہونے کی وجہ سے اتنی لمبی چھلانگ نہ لگا سکتے تھے کہ پائیدان پر جا چڑھیں۔ سردیوں کے دن تھے۔ چوہے خاں سڑک پر بیٹھے دھوپ سینک
وفادار گیند
طہٰ میاں کی سالگرہ آئی اور ڈھیر سارے تحفے ساتھ لائی۔ خود بخود گھومنے والی اور سائرن بجانے والی کار، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتی، ایک چھوٹا سا بٹوے کی شکل کا ٹیلی ویژن جو جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔ چھوٹا سا کیمرہ اور دوربین، چھوٹی سی چھرے والی بندوق
ہنر کی دولت
کسی جزیرے میں ایک امیر رہتا تھا۔ جسے شکار کا بہت شوق تھا مگر شکار کو جاتے ہوئے ایک جگہ کسی غریب ٹوکریاں بننے والے کی زمین پڑتی تھی۔ اس زمین میں نرسل اگے ہوئے تھے۔ اس کھیت کی ناہمواری اور نرسلوں میں سے گزرنے کی تکلیف امیر کو بہت ناگوار معلوم ہوتی تھی۔ ایک
حوصلہ
جب احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا تو دربار دہلی کی طرف سے ان دنوں میر منو گورنر مقرر تھا۔ اس بے چارے نے پہلے تو دہلی میں امداد کے لیے بہت سی عرضیاں بھیجیں۔ لیکن جب کوئی بھی جواب نہ آیا تو ناچار اپنی ہی مٹھی بھر فوج سے احمد شاہ کا مقابلہ کیا۔ مگر
دو بھائی
دو بھائیوں کو جیب خرچ کے لیے گھر سے ایک ایک پیسہ روز مل جایا کرتا تھا۔ چھوٹے کی تو یہ عادت تھی کہ کبھی خرچ کرتا اور کبھی اس صندوق میں ڈال دیتا جو مدرسے میں غریب بچوں کی امداد کے لیے رکھا رہتا تھا۔ بڑے بھائی کی یہ حالت تھی کہ جب مدرسے میں کھیلنے کی چھٹی
خیالی پلاؤ
شیخ چلی ایک مشہور آدمی گزرا ہے۔ جس کی بے وقوفی کی کہانیاں تم نے بھی سنی ہوں گی۔ ایک دن شیخ چلی بازار میں جا رہا تھا کہ کسی سپاہی نے تیل کا کپا خریدا اور اسے بلا کر کہا۔ ’’ارے میاں! یہ کپا اٹھا کر ہمارے گھر تک لے چلو۔ دو آنے مزدوری دیں گے۔‘‘ شیخ
ہمدردی کا صلہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں میاں بیوی رہتے تھے جو بہت ہی بوڑھے تھے۔ ان کا مکان دیہات سے ذرا الگ تھلگ تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دودھ کے لیے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ضرورت کے مطابق اناج اور سبزی اگا لیتے تھے اور اپنے
چار سال کا بوڑھا
ایک دن ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھا ملا۔ جسے دیکھ کر بادشاہ نے پوچھا۔ بڑے میاں! تمھاری عمر کتنی ہو گی؟ بوڑھے نے جواب دیا۔ جہاں پناہ کی عمر اور دولت زیادہ ہو، اس گنہگار کی عمر صرف چار سال کی ہے۔ نوشیرواں نے کہا۔
امید کا پھل
ایک شہزادہ شکار کھیل رہا تھا شکار کھیل رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا نیا باغ لگا رہا ہے۔ شہزادے نے اس سے پوچھا۔ ’’بڑے میاں! تم تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو۔ پھر باغ لگانے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہو۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔ ’’جناب عالی! اول تو موت کا
آدھا کمبل
ایک دولت مند سوداگر کی بیوی مر گئی تھی۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ خود بھی دمے کے مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس نے اپنی کل جائداد اپنے جوان بیٹے کے نام کر دی۔ ہزاروں کی جائداد پا کر پہلے پہلے تو نوجوان لڑکا اور اس کی بیوی بچے سب سوداگر کی خاطر داری کرتے رہے
کچے سوت کی انٹی
ایک شخص کے بیٹے ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ایک دن باپ نے سب کو پاس بلایا اور کچے سوت کی ایک انٹی دے کر فرمایا۔ ’’تم سب شہ زور نوجوان ہو۔ آج تمہاری طاقت کا امتحان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی اس انٹی کو ایک دو جھٹکوں میں توڑ دے تو ہم پانچ روپے انعام دیں گے۔‘‘
بے غرض نیکی
ایک نیک عورت کہیں گاڑی میں سوار جا رہی تھی کہ اسے سڑک پر چھوٹی عمر کا ایک لڑکا نظر آیا، جو ننگے پاؤں چلا جا رہا تھا اور بہت تھکا ہوا معلوم ہوتا تھا یہ دیکھ کر نیک عورت نے کوچوان سے کہا ’’غریب لڑکے کو گاڑی میں بٹھا لو۔ اس کا کرایہ میں ادا کردوں گی۔‘‘ اس
میں جھوٹ نہ بولوں گا
ایک شریف آدمی نے نہایت شوق سے گھر کے پاس ایک چھوٹا سا باغ لگا رکھا تھا جسے وہ ہر روز اپنے ہاتھ سے سینچتا۔ ایک دن وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا کہ اس کا چھوٹا لڑکا ہاتھ میں آری لیے باغ کی سیر کو نکلا اور اس نے آری کو آزماتے آزماتے ایک سب سے اچھا درخت کاٹ دیا۔ شام
کام کرنے کی برکت
پیغمبر اسلام کے پاس ایک غریب آدمی نے جا کر عرض کی۔ ’’میرا ہاتھ بہت تنگ ہے۔ کوئی ایسی تجویز بتا دیجیے کہ یہ تنگی جاتی رہے۔‘‘ آپ نے پوچھا۔ ’’کچھ تمہارے پاس ہے بھی؟ اس نے کہا۔ صرف ایک دری ہے اور لکڑی کا پیالہ۔‘‘ فرمایا ’’دونوں چیزیں لے آؤ۔‘‘ غریب
وفا دار نوکر
عبدالحمید ایک امیر لڑکا شہر کے مدرسے میں پڑھا کرتا تھا۔ یہ جب مدرسے میں آتا ایک نوکر بستہ لیے ساتھ ہوتا۔ چھٹی کا وقت آتا تو نوکر پھر آ کر بستہ اٹھا ساتھ ہو لیتا۔ اسی مدرسے کے لڑکوں میں دانشمند ایک غریب لڑکا سب سے زیادہ ہوشیار اور محنتی تھا۔ یہ ہمیشہ
اور بادشاہ سلامت پھٹ گئے
الٹانگر کے بادشاہ سلامت جب اینڈتے اکڑتے دربار میں داخل ہوئے تو نقیب نے کڑک کر کہا۔۔۔’’باادب، با ملاحظہ ہوشیار، شہنشاہ معظم۔ اعلی حضرت فرماں روائے الٹانگر تشریف لاتے۔۔۔‘‘ اور پکارنے والا ابھی پوری بات بھی نہ کہنے پایا تھا کہ بادشاہ سلامت دھڑام سے وزیر