بسترِ مرگ پر پڑی گومتی نے چودھری ونایک سنگھ سے کہا، ’’چودھری میری زندگی کی یہی لالسا تھی۔‘‘ چودھری نے سنجیدہ ہوکر کہا، ’’اس کی کچھ چنتا نہ کرو کاکی۔ تمھاری لالسا بھگوان پوری کریں گے۔ میں آج ہی سے مزدوروں کو بلا کر کام پر لگائے دیتا ہوں۔ دیو نے چاہا تو تم اپنے کنویں کا پانی پیوگی۔ تم نے تو گناہوگا کتنے روپے ہیں؟
گومتی نے ایک پل آنکھیں بند کرکے بکھری ہوئی یادداشت کو یکجا کرکے کہا۔ بھیا میں کیا جانوں کتنے روپے ہیں جو کچھ ہیں وہ اسی ہانڈی میں ہیں۔ اتنا کرنا کہ اتنے ہی میں کام چل جائے۔ کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھروگے۔
چودھری نے بند ہانڈی کو اٹھا کر ہاتھوں سے تولتے ہوئے کہا، ’’ایسا تو کریں گے ہی کاکی کون دینے والا ہے۔ ایک چٹکی بھیک تو کسی کے گھر سے نکلتی نہیں۔ کنوا ں بنوانے کے لیے کون دیتا ہے۔ دھنیہ ہوتم کو کہ اپنی عمر بھر کی کمائی اس دھرم کاج کے لیے دے دی۔‘‘
گومتی نے فخر سے کہا، ’’بھیا تم تو بہت چھوٹے تھے تمھارے کاکا مرے تو میرے ہاتھ میں ایک کوڑی بھی نہ تھی۔ دن بھر بھوکی رہتی۔ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب ان کی بیماری پراٹھ گیا۔ وہ بھگوان کے بڑے بھگت تھے۔ اس لیے انھیں بھگوان نے جلدی سے اپنے پاس بلا لیا۔ اس دن سے آج تک تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح دن کاٹ رہی ہوں۔ میں نے ایک رات میں من بھراناج پیسا ہے۔ بیٹا دیکھنے والے تعجب کرتے تھے۔ نہ جانے اتنی طاقت مجھ میں کہاں سے آجاتی تھی۔ بس یہی تمنّا رہی کہ ان کے نام پر گاؤں میں ایک چھوٹا سا کنواں بن جاتا۔ نام تو چلنا چاہیے اس لیے تو آدمی بیٹے بیٹی کو روتا ہے۔
اس طرح چودھری ونایک سنگھ کو وصیت کرکے اسی رات کو بڑھیا گومتی پرلوک سدھاری۔ مرتے وقت آخری الفاظ جو اس کے منہ سے نکلے تھے وہی تھے۔ ’’کنواں بنوانے میں دیر مت کرنا۔‘‘ اس کے پاس دولت ہے یہ تو لوگوں کو اندازہ تھا لیکن دوہزار ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ بڑھیا اپنی دولت کوعیب کی طرح چھپاتی تھی۔ چودھری ونایک سنگھ گاؤں کا مکھیا اور نیت کا صاف آدمی تھا اس لیے بڑھیا نے اسے یہ آخری حکم دیا تھا۔
چودھری نے بڑھیا کے کریاکرم میں بہت روپے خرچ نہیں کیے۔ جوں ہی ان سنسکاروں سے چھٹی ملی وہ اپنے بیٹے ہرناتھ سنگھ کو بلاکر اینٹ، چونا، پتھر کا تخمینہ کرنے لگا۔ ہرناتھ سنگھ اناج کا کاروبار کرتا تھا۔ کچھ دیر تک تو وہ بیٹھا سنتارہا پھر بولا، ’’ابھی دوچار مہینے کنواں نہ بنے تو کوئی بڑا ہرج ہے کیا؟‘‘
چودھری نے ’ہوں ‘ کرکے کہا، ’’ہرج تو کچھ نہیں۔ لیکن دیر کرنے کا کام ہی کیا ہے۔‘‘ روپے اس نے دے ہی دیئے ہیں، ہمیں تو مفت میں ناموری ملے گی۔ گومتی نے مرتے مرتے جلد کنواں بنوانے کو کہا تھا۔‘‘
ہرناتھ بولا، ’’ہاں۔ کہا تو تھا، لیکن آج کل بازار اچھا ہے تین ہزار کا اناج بھرلیاجائے تو اگہن پوس تک سوایا ہو جائے گا۔ میں آپ کو کچھ سو ددے دوں گا۔‘‘
چودھری کا دل شک اور خوف کی وجہ سے کشمکش میں پھنس گیا۔ دوہزار کے کہیں ڈھائی ہزار ہوگئے تو کیا کہنا، کچھ بیل بوٹے بنوادوں گا۔ لیکن خوف تھا کہ کہیں گھاٹا ہوگیا تو؟ اس شک کو وہ چھپا نہ سکے۔ بولے، ’’جو کہیں گھاٹا ہوگیاتو؟‘‘ ہر ناتھ نے تڑپ کر کہا، ’’گھاٹا کیوں ہوجائے گا؟ کوئی بات ہے۔‘‘
’’مان لو گھاٹا ہوگیا تو؟‘‘
ہرناتھ نے مشتعل ہوکر کہا، ’’یہ کہو کہ تم روپیہ نہیں دینا چاہتے ہو۔ بڑے دھرماتما بنے ہو۔‘‘
دوسرے بزرگوں کی طرح چودھری بھی بیٹے سے ڈرتے تھے۔ دبے ہوئے لہجے میں بولے، ’’میں یہ کب کہتا ہوں کہ روپیہ نہیں دوں گا۔ لیکن پرایادھن ہے سوچ سمجھ کر ہی تو اس میں ہاتھ لگانا چاہیے۔ بیوپار کا حال کون جانتا ہے۔ کہیں بھاؤ اور زیادہ گرجائے تو؟ اناج میں گھن ہی لگ جائے۔ کوئی مدعی گھر میں آگ لگادے۔ سب باتیں سوچ لواچھی طرح۔‘‘
ہر ناتھ نے طنزسے کہا، ’’اس طرح سوچنا ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ کوئی چورہی اٹھا لے جائے یا بنی بنائی دیوار بیٹھ جائے۔ یہ باتیں تو ہوتی ہی ہیں۔‘‘
چودھری کے پاس اب اور کوئی دلیل نہیں تھی۔ کمزور سپاہی نے تال تو ٹھونکی اکھاڑے میں اتر بھی پڑا تلوار کی چمک دیکھتے ہی ہاتھ پھول گئے۔ بغلیں جھانک کر چودھری نے کہا، ’’تو کتنا لوگے؟‘‘
ہرناتھ ہوشیار جنگجو کی طرح دشمن کو پیچھے ہٹتا دیکھ کر بپھرکر بولا، ’’سب کا سب دیجئے سو پچاس لے کر کیا کھلواڑ کرنا ہے۔‘‘
چودھری راضی ہوگئے۔ گومتی کو انھیں روپیہ دیتے کسی نے نہیں دیکھا۔ دنیا برائی کرے گی اس کا امکان بھی نہیں تھا۔ ہر ناتھ نے اناج بھرا۔ اناج کے بوروں کا ڈھیر لگ گیا۔ آرام کی میٹھی نیند سونے والے چودھری اب ساری رات چوروں کی رکھوالی کرتے مجال نہ تھی کہ کوئی چوہیا بوروں میں گھس جائے۔ چودھری اس طرح جھپٹتے کہ بلّی بھی ہار مان جاتی اس طرح چھ مہینے گذر گئے۔ اناج بکا۔ پورے پانچ سور روپے کا منافع ہوا۔ ہر ناتھ نے کہا، ’’اس میں پچاس روپیہ آپ لے لیں۔‘‘ چودھری نے جھلّا کر کہا، ’’پچاس روپیہ کیا خیرات لے لوں۔ کسی مہاجن سے اتنے روپے لیے ہوتے تو کم سے کم دو سو روپیہ سود کے ہوتے۔‘‘
ہر ناتھ نے بات کو زیادہ نہیں بڑھایا۔ ایک سو پچاس روپے چودھری کو دے دیے۔ چودھری کی آتما اتنی خوش کبھی نہیں ہوئی تھی۔ رات کو وہ اپنی کوٹھری میں سونے گیا تو اس کو ایسا محسوس ہواکہ بڑھیاگومتی کھڑی مسکرارہی ہے۔ چودھری کا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا وہ نیند میں نہ تھا۔ کوئی نشہ نہ کھایا تھا۔ گومتی سامنے کھڑی مسکرارہی تھی۔ ہاں اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر ایک عجیب تازگی تھی۔
کئی سال گذر گئے چودھری برابرا سی فکر میں رہتے کہ ہر ناتھ سے روپیہ نکال لوں لیکن ہر ناتھ ہمیشہ ہی حیلے حوالے کرتا رہتا تھا۔ وہ سال میں تھوڑاسا سود دے دیتا تھا مگر مول کے لیے ہزارو ں باتیں بناتاتھا۔ کبھی لہنے کا رونا تھا کبھی چکتے کا۔ ہاں کاروبار بڑھتا جاتاتھا۔ آخرکارایک دن چودھری نے اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ تمھارا کام چلے یا ڈوبے مجھے پرواہ نہیں۔ اس مہینے میں تمھیں ضرور روپے چکانے پڑیں گے۔ ہر ناتھ نے بہت اڑن گھائیاں بتائیں چودھری اپنے ارادے پر جمے رہے۔
ہرناتھ نے جھنجھلا کر کہا، ’’کہتا ہوں کہ دو مہینے اور ٹھہرئیے مال فروخت ہوتے ہی میں روپے دے دوں گا۔‘‘ چودھری نے سختی سے کہا، ’’تمھارا مال کبھی نہ بکے گا اور نہ کبھی تمھارے دو مہینے پورے ہوں گے۔ میں آج روپیہ لوں گا۔‘‘ ہرناتھ اسی وقت غصّے میں بھر اہوا اٹھا اور دو ہزار روپیہ لا کر چودھری کے سامنے پٹک دیا۔ چودھر نے کچھ جھینپ کر کہا، ’’روپے تو تمھارے پاس تھے۔‘‘
’’تو کیا باتوں سے روزگار ہوتا ہے۔‘‘
’’تم اس وقت مجھے پانچ سو روپے دے دو۔ باقی دو مہینے میں دے دینا۔ سب آج ہی خرچ نہیں ہوجائیں گے۔‘‘
ہرناتھ نے تاؤ کھاکر کہا، ’’آپ چاہے خرچ کیجئے یا جمع کیجئے مجھے ان روپیوں سے کام نہیں۔ دنیا میں کیا مہاجن مرگئے ہیں جو آپ کی دھونس سہوں۔‘‘
چودھری نے روپے اٹھا کر ایک طاق پر رکھ دئیے کنویں کی داغ بیل ڈالنے کا سارا جوش ٹھنڈا پڑچکا تھا۔
ہرناتھ نے روپے لوٹا تو دئیے تھے مگر من میں کچھ اور منصوبہ باندھ رہا تھا۔ آدھی رات کو جب گھر میں سنّاٹا چھا گیا تو ہر ناتھ چودھری کی کوٹھری کی چول کھسکا کر اندرگھسا چودھری بے خبر سوئے ہوئے تھے۔ ہرناتھ نے چاہا کہ دونوں تھیلیاں اٹھاکر باہر نکل جاؤں لیکن جوں ہی ہاتھ بڑھایا اسے اپنے سامنے گومتی کھڑی دکھائی دی۔ وہ دونوں تھیلیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھی۔ ہرناتھ خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔
پھر یہ سوچ کرکے شاید مجھے دھوکا ہورہا ہے۔ اس نے پھر ہاتھ بڑھایا پر اب کی وہ مورتی اتنی ڈراؤنی ہوگئی کہ ہر ناتھ ایک پل بھی وہاں کھڑانہ رہ سکا۔ بھاگا پر برآمدے میں ہی بیہوش ہوکرگر پڑا۔
ہرناتھ نے چاروں طرف سے روپے وصول کرکے بیوپاریوں کے دینے کے لیے جمع کررکھے تھے۔ چودھری نے آنکھیں دکھائیں تو وہی روپیہ لاکر پٹک دیا۔ دل میں اسی وقت سوچ لیا تھا کہ رات کو روپے اڑالاؤں گا۔ جھوٹ موٹ چور کا غل مچاؤں گا تو میری طرف شک بھی نہ ہوگا۔ پر جب یہ پیش بندی ٹھیک نہ اتری تو اس پر بیوپاریوں کے تقاضے ہونے لگے۔ وعدوں پر لوگوں کو کہاں تک ٹالتا جتنے بہانے ہوسکتے تھے سب کیے۔ آخر یہ نوبت آگئی کہ لوگ نالش کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ ایک نے تو تین سو روپے کی نالش بھی کردی۔ بیچارے چودھری بڑی مشکل میں پھنسے۔
دکان پر ہرناتھ بیٹھتا تھا۔ چودھری کو اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ پر اس کی جوساکھ تھی وہ چودھری کی وجہ سے تھی۔ لوگ چودھری کو کھرا اور لین دین کا صاف آدمی سمجھتے تھے حالانکہ اب بھی ان سے کوئی تقاضا نہیں کرتا تھا پر وہ سب سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مگر انھوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ کنویں کے روپے نہ چھوؤں گا۔ چاہے کچھ بھی آپڑے۔
رات کو ایک بیوپاری کے مسلمان چپراسی نے چودھری کے دروازے پر جاکرہزاروں گالیاں سنائیں چودھری کو باربار غصّہ آیا تھا کہ چل کر اس کی مونچھ اکھاڑلوں، پر دل کو سمجھایا۔ ہم سے مطلب ہی کیا ہے۔ بیٹے کا قرض ادا کرنا باپ کا فرض نہیں ہے۔
جب کھانا کھانے گئے تو بیوی نے کہا، ’’یہ سب کیا جھگڑا کررکھا ہے؟‘‘
چودھری نے کمزور لہجے میں کہا، ’’میں نے کررکھا ہے؟‘‘
’’اور کس نے؟بچّہ قسم کھاتا ہے کہ میرے پاس صرف تھوڑا سا مال ہے۔ روپے تو سب تم نے مانگ لیے۔‘‘
چودھری، ’’مانگ نہ لیتا تو کیا کرتا۔ حلوائی کی دکان پر دادا کا فاتحہ پڑھنا مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘
استری، ’’یہ ناک کٹاتی اچھی لگتی ہے؟‘‘
چودھری، ’’تو میرا کیا بس ہے بھائی۔ کبھی کنواں بنے گا کہ نہیں، پانچ سال ہوگئے۔‘‘
استری، ’’اس وقت اس نے کچھ نہیں کھایا۔ پہلی جون بھی منہ جھوٹا کرکے اٹھ گیا تھا۔‘‘
چودھری، ’’تم نے سمجھا کر کھلایا نہیں۔ دانہ پانی چھوڑ دینے سے تو روپے نہیں ملیں گے۔‘‘
استری، ’’تم کیوں نہیں جاکر سمجھا دیتے۔‘‘
چودھری، ’’مجھے تو وہ اس وقت بیری سمجھ رہا ہوگا۔‘‘
استری،’’میں روپے لے جاکر بچّہ کو دے آتی ہوں۔ ہاتھ میں جب روپے آجائیں تو کنواں بنوادینا۔‘‘
چودھری، ’’نہیں، نہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ میں اتنا بڑا دھوکا نہ کرسکوں گا چاہے گھر مٹی میں مل جائے۔‘‘
لیکن استری نے ان باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا وہ لپک کر اندر گئی اور تھیلیوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتی تھی کہ ایک چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کا سارا جسم ستار کی طرح کانپنے لگا۔
چودھری نے گھبرا کو پوچھا، ’’کیا ہوا، تمھیں چکر تو نہیں آرہا۔‘‘
عورت نے طاق کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’وہ۔۔۔ وہ چڑیل وہاں کھڑی ہے۔‘‘
چودھری نے طاق کی طرف دیکھ کر کہا، ’’کون چڑیل؟ مجھے تو وہاں کوئی بھی نظر نہیں آتا۔‘‘
استری، ’’میرا تو کلیجہ دھک دھک کر رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوا کہ اس بڑھیا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہے۔‘‘
چودھری، ’’یہ سب وہم ہے۔ بڑھیا کو مرے ہوئے پانچ سال ہوگئے۔ کیا اب تک وہ یہاں بیٹھی ہے۔‘‘
استری، ’’میں نے صرف دیکھا وہی تھی۔ بچّہ کہتا تھا کہ اس نے رات تھیلیوں پر ہاتھ رکھے دیکھا تھا۔‘‘
چودھری، ’’وہ رات کو میری کوٹھری میں کب آیا؟‘‘
استری، ’’تم سے کچھ روپیوں کے بارے میں ہی کہنے آیا تھا، اسے دیکھتے ہی بھاگا۔‘‘
چودھری، ’’اچھا پھر تم اندر جاؤ میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
استری نے کان پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’نا بابا۔ اب اس کمرے میں قدم نہ رکھوں گی۔‘‘
چودھری، ’’اچھا میں جاکر دیکھتا ہوں۔‘‘
چودھری نے کوٹھری میں جاکر دونوں تھیلیاں طاق پر سے اٹھالیں۔ کسی طرح کا شک نہیں ہوا۔ گومتی کی چھایا کا کہیں نام تک نہیں تھا۔ استری دروازے پر کھڑی جھانک رہی تھی۔ چودھری نے آکر فخر سے کہا، ’’مجھے تو کہیں کچھ نہ دکھائی دیا۔ وہاں ہوتی تو کہاں چلی جاتی۔‘‘
استری، ’’کیا جانے تمھیں کیوں نہیں دکھائی دی۔ تم پر مہربان تھی، اسی لیے ہٹ گئی ہوگی۔‘‘
چودھری، ’’تمھیں وہم تھا اور کچھ نہیں۔‘‘
استری، ’’بچّہ کو بلا کرپچھوائے دیتی ہوں۔‘‘
چودھری، ’’کھڑا تو ہوں جاکر دیکھ کیوں نہیں آتی۔‘‘
استری کی کچھ ہمت بندھی۔ اس نے طاق کے پاس جاکر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا اور زور سے چلاکر بھاگی اور آنگن میں آکر دم لیا۔ چودھری بھی اس کے ساتھ آنگن میں آگیا اور حیرت سے بولا۔ کیا تھا؟ کیا بیکار میں بھاگی چلی آئی۔ مجھے تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ استری نے ہانپتے ہوئے کہا، ’’چلو ہٹو۔ اب تک تو تم نے میری جان ہی لے لی تھی نہ جانے تمھاری آنکھوں کا کیا ہوگیا۔ کھڑی تو ہے وہ ڈائین۔‘‘ اتنے میں ہر ناتھ بھی وہاں آگیا۔ ماتا کو آنگن میں پڑے دیکھ کر بولا، ’’کیا ہے امّاں کیسا جی ہے۔‘‘
استری، ’’وہ چڑیل آج دوبارہ دکھائی دی۔ بیٹا میں نے کہا لاؤ تمھیں روپے دے دوں جب ہاتھ میں آجائیں گے تو کنواں بنوادیا جائے گا۔ لیکن جیوں ہی تھیلیو ں پر ہاتھ رکھا اس چڑیل نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ پر ان نکل گئے۔‘‘
ہرناتھ نے کہا، ’’کسی اچھے اوجھا کو بلانا چاہیے جو اسے مار بھگائے گا۔‘‘
چودھری، ’’کیا رات کو تمھیں بھی دکھائی دی تھی‘‘
ہرناتھ، ’’ہاں، میں تمھارے پاس ایک معاملے میں صلاح کرنے آیا تھا۔ جیوں ہی اندر قدم رکھا۔ وہ چڑیل طاق کے پاس کھڑی دکھائی دی، میں بدحواس ہوکر بھاگا۔‘‘
چودھری، ’’اچھا پھر تو جاؤ۔‘‘
استری، ’’کون؟ اب تو میں نہ جانے دوں چاہے کوئی لاکھ روپیہ ہی کیوں نہ دے۔‘‘
ہرناتھ،’’میں اب نہ جاؤں گا۔‘‘
چودھری، ’’مگر مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات کیا ہے؟‘‘
ہرناتھ، ’’کیا جانے آپ سے ڈرتی ہوگی۔ آج کسی اوجھا کو بلانا چاہیے۔‘‘
چودھری، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیا ماجرا ہے۔ کیا ہوا بیجو پانڈے کی ڈگری کا؟‘‘
ہرناتھ ان دنوں چودھری سے اتنا جلتا تھا کہ اپنی دکان کے بارے میں کوئی بات بھی ان سے نہ کہتا۔ آنگن کی طرف تاکتاہوا جیسے ہوا سے بولا، ’’جو ہونا ہوگا وہ ہوگا۔ میری جان کے سوا اور کوئی کیا لے لے گا۔ جو کھاگیا ہوں وہ تو اگل نہیں سکتا۔
چودھری، ’’کہیں اس نے ڈگری جاری کرادی تو۔‘‘
ہرناتھ، ’’تو کیا دکان میں چار پانچ سو کا مال ہے وہ نیلام ہوجائے گا۔‘‘
چودھری، ’’اروبار تو سب چوپٹ ہوجائے گا۔‘‘
ہرناتھ، ’’اب کاروبار کے نام کو کہاں تک روتا رہوں۔ اگر پہلے سے معلوم ہوتا کہ کنواں بنوانے کی اتنی جلدی ہے تو یہ کام چھیڑتا ہی کیوں۔ روٹی دال تو پہلے بھی مل جاتی تھی۔ بہت ہوگا دوچار مہینے حوالات میں رہنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔‘‘
ماتا نے کہا، ’’جو تمھیں حوالات میں لے جائے اس کا منہ جھلس دوں۔ ہمارے جیتے جی تم حوالات میں جاؤ گے۔‘‘
ہرناتھ نے فلاسفر بن کر کہا، ’’سن باپ جنم کے ساتھی ہوتے ہیں، کسی کے کرم کے ساتھی نہیں ہوتے۔‘‘
چودھری کو بیٹے سے بڑی محبت تھی مگر انھیں شک تھا کہ ہر ناتھ روپے ہضم کرنے کے لیے ٹال مٹول کررہا ہے اسی لیے انھوں نے تقاضا کرکے روپے وصول کرلیے تھے۔ اب انھیں احساس ہوا کہ ہرناتھ کی جان سچ مچ مصیبت میں ہے۔ سوچا اگر لڑکے کو حوالات ہوگئی یا دکان پر قرقی آگئی تو خاندان کی عزّت دھول میں مل جائے گی۔ کیا ہرج ہے اگرگومتی کے روپے دے دوں۔ آخر دکان چلتی ہی ہے، کبھی نہ کبھی تو روپے ہاتھ میں آہی جائیں گے۔
یکایک کسی نے باہر سے پکارا، ’’ہر ناتھ سنگھ۔‘‘ ہرناتھ کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ چودھری نے پوچھا’’کون ہے؟‘‘
’’قرقی کرنے والا امین۔‘‘
’’کیا دکان قرق کرنے آیا ہے؟‘‘
’’ہاں معلوم تو یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’کتنے روپے کی ڈگری ہے؟‘‘
’’بارہ سو روپے کی۔‘‘
’’قرقی کرنے والاامین کچھ لے دے کر نہ ٹلے گا۔‘‘
’’ٹل تو جاتا پر مہاجن بھی تو اس کے ساتھ ہوگا۔ اسے جوکچھ لینا ہے ادھر سے لے چکا ہوگا۔‘‘
’’نہ ہو۔ بارہ سو روپے گومتی کے روپیوں میں سے دے دو۔‘‘
’’اس کے روپے کون چھوئے گا۔ نہ جانے گھر پر کیا آفت آئے۔‘‘
’’اس کے روپے کوئی ہضم تھوڑے ہی کیے لیتا ہے چلو میں دے دوں۔‘‘
چودھری کو اس وقت ڈر ہوا کہیں وہ مجھے بھی دکھائی نہ دے لیکن ان کا شک بے بنیاد تھا۔ انھوں نے ایک تھیلی سے بارہ سو روپے نکالے اور دوسری تھیلی میں رکھ کر ہرناتھ کو دے دیئے۔ شام تک ان دوہزار روپیوں میں سے ایک روپیہ بھی نہ بچا۔
بارہ سال گزر گئے۔ نہ چودھری اب اس دنیا میں ہے اور نہ ہر ناتھ چودھری جب تک زندہ رہے انھیں کنواں بنانے کی فکر رہی۔ یہاں تک کہ مرتے دم بھی ان کی زبان پر کنویں کی رٹ لگی ہوئی تھی لیکن دکان میں ہمیشہ روپیوں کی کمی رہی۔ چودھری کے مرتے ہی سارا کاروبار چوپٹ ہوگیا۔ ہر ناتھ نے ایک آنہ روپے کے منافع سے مطمئن نہ ہو کر دگنے تگنے منافع پر ہاتھ مارا جواکھیلنا شروع کیا۔ سال بھر بھی گذر نے نہ پایا تھا کہ دکان بند ہوگئی۔ گہنے پاتے برتن بھانڈے سب مٹی میں مل گئے۔
چودھری کی موت کے ٹھیک سال بھر بعد ہرناتھ نے بھی اس نفع نقصان کی دنیا سے کوچ کیا۔ ماتا کی زندگی کااب کوئی سہارا نہ رہا۔ بیمار پڑی پر دوادارو نہ ہوسکی۔ تین چار مہینے تک طرح طرح کے دکھ جھیل کر وہ بھی چل بسی۔ اب صرف بہو تھی اور وہ بھی حاملہ اس بیچاری کے لیے اب کوئی سہارا نہیں تھا۔ ایسی حالت میں مزدوری بھی نہ کرسکتی تھی۔ پڑوسیوں کے کپڑے سی کر اس نے کس طرح پانچ چھ مہینے کاٹے۔ تیرے لڑکا ہوگا۔ ساری علامات لڑکے کی تھیں۔ یہی ایک زندگی کا سہارا تھا۔ جب لڑکی ہوئی تو وہ سہارا بھی جاتا رہا۔
ماں نے اپنا دل اتنا سخت کرلیا کہ نو مولود بچّے کو چھاتی بھی نہ لگاتی تھی۔ پڑوسیوں کے بہت سمجھانے بجھانے پر چھاتی سے لگایا پر اس کی چھاتی میں دودھ کی ایک بوند بھی نہ تھی۔ اس وقت بد نصیب ماں کے دل میں رحم اور ممتا کا ایک زلزلہ سے آگیا۔ اگر کسی طریقے سے اس کے سینے کی آخری بوند دودھ بن جاتی تو وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی۔
بچی کی یہ بھولی، معصوم قابلِ رحم اور پیاری صورت دیکھ کر ماں کا دل جیسے ہزاروں آنکھوں سے رونے لگا۔ اس کے دل کی ساری نیک خواہشات، ساری آشیرواد، ساری محّبت جیسے اس کی آنکھوں سے نکل کر اس بچی کو اس طرح شرابور کردیتے تھے جیسے چاند کی ٹھنڈی روشنی پھولوں کو نہلادیتی ہے۔ پر اس بچّی کی قسمت میں ماں کی محّبت کے سکھ نہیں تھے۔ ماں نے کچھ اپنا خون، کچھ اوپر کا دودھ پلا کر اسے زندہ رکھا مگر اس کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جاتی تھی۔
ایک دن لوگوں نے آکر دیکھا تو وہ زمین پر پڑی ہوئی تھی اور بچی اس کی چھاتی سے چپٹی ہوئی اس کے پستان کو چوس رہی تھی۔ دکھ اور غریبی کے مارے ہوئے جسم میں خون کہاں جس سے دودھ بنتا۔
وہی بچی پڑوسیوں کے رحم وکرم سے پل کر ایک دن گھاس کھودتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جہاں بڑھیا گومتی کا گھر تھا۔ چھپرکب کے زمین میں مل چکے تھے۔ صرف جہاں تہاں دیواریں کھڑی تھیں۔ لڑکی نے جانے کیا سوچ کر کھرپی سے گڈھا کھودنا شروع کیا دوپہرسے شام تک وہ گڈھا کھودتی رہی۔ نہ کھانے کی سدھ تھی نہ پینے کی۔ نہ کوئی خوف تھا نہ ڈر۔ اندھیرا ہوگیاپر وہ جیوں کی تیوں بیٹھی گڈھا کھودتی رہی۔ اس وقت کسان لوگ بھول کر بھی ادھر نہیں آتے تھے۔ یہ لڑکی بے خوف بیٹھی زمین سے مٹی نکال رہی تھی۔ جب اندھیراہوگیا تو چلی گئی۔
دوسرے دن وہ بڑے سویرے اٹھی اور اتنی گھاس کھودی جتنی وہ کبھی دن بھر میں بھی نہیں کھودتی تھی۔ دوپہر کے بعد وہ اپنی کھانچی اور کھرپی لیے ہوئے پھر اسی جگہ پر پہنچی پر وہ آج اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ دو بچے اور بھی تھے۔ تینوں وہاں شام تک کنواں کھودتے رہے۔ لڑکی گڈھے کے اندر کھودتی تھی اور دونوں بچے مٹی نکال نکال کر پھینکتے تھے۔
تیسرے دن دو اور لڑکے بھی اس کھیل میں مل گئے۔ شام تک کھیل ہوتا رہا۔ آج گڈھا دوہاتھ گہرا ہوگیا تھا۔ گاؤں کے لڑکے لڑکیوں میں اس عجیب کھیل نے بے مثال حوصلہ بھر دیا تھا۔ چوتھے دن اور بھی کئی بچے آملے۔ صلاح ہوئی کون اندر جائے۔ کون مٹی اٹھائے گڈھا اب چار ہاتھ گہرا ہوگیا تھا پر ابھی تک بچّوں کے علاوہ کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔ ایک دن رات کو ایک کسان اپنی کھوئی ہوئی بھینس ڈھونڈتا ہوا اس کھنڈرمیں پہنچااندر مٹی کا اونچا ڈھیر۔ ایک بڑا سا گڈھا اور ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ دیکھا تو ڈر کر بھاگا۔ اوروں نے بھی آکے دیکھا، کئی آدمی تھے، کوئی ڈر نہ تھا۔ قریب جاکر دیکھا تو بچی بیٹھی تھی۔ ایک آدمی نے پوچھا، ’’ارے کیا تو نے یہ گڈھا کھودا ہے؟‘‘
بچی نے کہا، ’’ہاں‘‘
’’گڈھا کھود کر کیا کرے گی؟‘‘
’’یہاں کنواں بناؤگی۔‘‘
’’کنواں کیسے بنائے گی؟‘‘
’’جیسے اتنا کھودا ہے ویسے ہی اور کھودلوں گی۔ گاؤں کے سب لڑکے کھیلنے آتے ہیں۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے تو اپنی جان دے گی اور اپنے ساتھ اور لڑکوں کو بھی مارے گی خبردارجو کل سے گڈھا کھودا۔‘‘
دوسرے دن اور لڑکے نہ آئے۔ لڑکی بھی دن بھر مزدوری کرتی رہی لیکن شام کے وقت وہاں پھر چراغ جلااور پھر وہ کھرپی ہاتھ میں لیے ہوئے وہاں بیٹھی دکھائی دی۔ گاؤں والوں نے اسے ماراپیٹا۔ کوٹھری میں بند کیا پر وہ موقع پاتے ہی وہاں جا پہنچتی۔ گاؤں کے لوگ عام طور پر عقیدت مند ہوتے ہیں۔ لڑکی کے اس روحانی لگاؤ نے آخران میں بھی لگاؤ پیدا کیا۔ کنواں کھدنے لگا۔ ادھر کنواں کھدرہا تھا ادھر وہ بچی مٹی سے اینٹیں بناتی تھی۔ اس کھیل میں سارے گاؤں کے لڑکے شریک ہوتے تھے۔ اجالی راتوں میں جب سب لوگ سوجاتے تھے تب بھی وہ اینٹیں تھاپتی دکھائی دے جاتی۔ نہ جانے اتنی لگن اس میں کہاں سے آگئی تھی سات سال کی عمر والوں کے کان کاٹٹی تھی۔ آخر ایک دن وہ بھی آیا کہ کنواں بن گیااور اس کی پکی جگت بھی تیار ہوگئی اس دن بچی اسی جگت پر سوئی۔ آج اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ وہ گاتی تھی، چہکتی تھی۔
صبح کے وقت اس جگت پر صرف اس کی لاش ملی۔ اس دن سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ وہی بڑھیا گومتی تھی اور اس کنواں کا نام ’’پسنہاری کا کنواں‘‘ پڑ گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.