آدھے چہرے
کہانی کی کہانی
کہانی ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو مس آئیڈینٹٹی کا شکار ہے۔ ایک دن وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اور اسے اپنی حالت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب وہ محلے میں ہوتا ہے تو حمید ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کالج میں جاتا ہے تو اختر ہو جاتا ہے۔ اپنی یہ کیفیت اسے کبھی پتہ نہ چلتی اگر بیتے دنوں ایک حادثہ نہ ہوتا۔ تبھی سے اس کی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ ڈاکٹر سے سوال کرتا ہے کہ وہ اسے بتائے کہ وہ حقیقت میں کیا ہے؟
’’میں سمجھتا ہوں کہ آج کی دنیا میں سب سے اہم مسئلہ ایموشنل سٹریس اور سٹرین کا ہے۔‘‘ اسلم نے کہا، ’’اگر ہم ایموشنل سٹریس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو بہت سی کمپلی کیشنز سے نجات مل سکتی ہے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے ٹرانکولائزر قسم کی چیز۔‘‘ رشید نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ اسلم نے کہا، ’’ٹرانکولائزر نے مزید پیچیدگیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ ایلوپیتھی نے جو مرض کو دبا دینے کی رسم پیدا کی ہے، اس سے امراض میں اضافہ ہو گیا ہے اور صرف اضافہ ہی نہیں اس سپریشن کی وجہ سے مرض نے کیموفلاج کرنا سیکھ لیا ہے۔ لہذا مرض بھیس بدل بدل کر خود کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس میں اسرار کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔ تشخیص کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ کیوں طاؤس۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ اسلم نے پوچھا۔
’’میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں۔‘‘ طاؤس بولا، ’’ہمارا طریق علاج یعنی ہومیوپیتھی یقیناً روحانی طریقہ علاج ہے۔ ہماری ادویات مادے کی نہیں بلکہ انرجی کی صورت میں ہوتی ہیں۔ جتنی دوا کم ہو، اس میں اتنی ہی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘
’’وہ تو ہے۔‘‘ عظیم نے کہا، ’’یقیناً یہ طریق علاج اپنی نوعیت میں روحانی ہے لیکن ہمارے پریکسٹنگ ہومیو پیتھس کا نقطہ نظر ابھی مادیت سے نہیں نکل سکا۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحبان۔‘‘ رشید ہنس کر بولا، ’’آپ لاکھ کوشش کریں لیکن ایلوپیتھی کو ریپلیس نہیں کر سکتے۔‘‘
’’وہ کیوں ؟‘‘ حامد نے پوچھا۔
’’سیدھی بات ہے۔ رشید نے جواب دیا، ’’آج کل مریض کیور نہیں چاہتا۔ وہ صرف ریلیف چاہتا ہے۔ کیور کے لئے صبر چاہئے۔ استقلال چاہئے۔ آج کل لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کیور کا انتظار کریں۔ بس ایک گولی ہو، ایک ٹیکہ لگے اور شام کو انٹرکان کی محفل میں شو آف کا موقع ہاتھ سے نہ جائے۔‘‘
’’سچ کہتے ہو بھائی۔‘‘ حامد نے آہ بھری۔
’’اسلم صاحب۔‘‘ طاؤس نے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی آئیڈنٹیٹی کھو چکے ہیں۔ ماڈرن ایج کی یہ ایک ڈیزیز ہے۔ کینٹجٹس ڈیزیز۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ حامد بولا۔
’’میرا مطلب ہے آج کل کے نوجوانوں کو پتہ نہیں کہ وہ کون ہیں۔ پتہ نہیں ، وہ چاہتے کیا ہیں۔ موومنٹ کے دیوانے تو ہیں۔ چلتے رہنے کا بھوت سوار ہے۔ لیکن انہیں پتہ نہیں کہ ہم کیوں چل رہے ہیں۔ ہمیں کہاں پہنچنا ہے۔ ہمارے نوجوان میڈ کراؤڈ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اندر کے فرد کو دبا رکھا ہے۔ بالکل ایسے جیسے اینٹی بایوٹکس اندر کی بیماری کو دبا دیتے ہیں۔ وہ اکیلے ہونے سے ڈرتے ہیں۔‘‘ طاؤس نے ایک لمبی آہ بھری اور گویا اپنے آپ سے بولا، ’’کاش کہ میں کوئی ایسی دوا بنانے میں کامیاب ہو سکتا جو اندر کے فرد کو ریلیز کر سکتی۔ میڈ کراؤڈ کی نفی کر سکتی۔‘‘
’’ہوں۔ دلچسپ بات ہے۔‘‘ عظیم نے سوچتے ہوئے کہا، ’’آپ کو اس کا خیال کیسے آیا؟‘‘ حامد نے طاؤس سے پوچھا۔
’’دو سال ہوئے۔‘‘ طاؤس کہنے لگا، ’’جب میں نے پریکٹس شروع کی تو پہلا مریض جو میرے پاس آیا اس نے مجھ سے پوچھا تھا، ڈاکٹر صاحب یہ بتایئے کہ میں کون ہوں ؟‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘ رشید زیر لب بولا۔
’’اور وہ مریض مکمل ہوش و حواس میں تھا کیا؟‘‘ اسلم نے پوچھا۔
’’بالکل۔‘‘ طاؤس نے جواب دیا۔
’’شاید ڈس بیلنسڈ ہو۔‘‘ عظیم نے گویا اپنے آپ سے پوچھا۔
’’بظاہر تو نہیں لگتا تھا۔‘‘ طاؤس نے جواب دیا۔
’’حیرت کی بات ہے۔‘‘ رشید نے دہرایا۔ اس وقت یہ سب لوگ رشید کے مکان سے ملحقہ لان میں بیٹھے تھے۔
دراصل رشید ہومیوپیتھی کا بہت دلدادہ تھا۔ ہومیوپیتھ ڈاکٹروں سے اس کے بڑے مراسم تھے۔
اس روز اس نے چار ہومیوپیتھ ڈاکٹروں کو اپنے گھر پر مدعو کر رکھا تھا۔ غالباً کوئی تقریب تھی یا ویسے ہی۔
رشید خود ہومیوپیتھ نہیں تھا لیکن اسے ہومیوپیتھی کے کیسز کا بڑا شوق تھا۔ بہرحال کھانا کھانے کے بعد وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے سبز چائے پی رہے تھے کہ دور حاضرہ کی بات چل نکل تھی۔طاؤس کے اس کیس پر ڈاکٹر تو نہیں البتہ رشید بہت متاثر ہوا۔ اس کے اصرار پر طاؤس نے انہیں اس نوجوان کا واقعہ سنایا۔ طاؤس نے بات شروع کی۔
’’ان دنوں میں نے نیا نیا معمل کھولا تھا اور معمل بھی کیا۔ میں نے گھر کے ایک کمرے پر بورڈ لگایا تھا اور وہاں چند ایک ضروری کتابیں اور دوائیں رکھ لی تھیں۔ شام کا وقت تھا۔ میں اپنے معمل میں بیٹھا ایک رسالے کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دروازے پر ٹک ٹک کی آواز آئی۔ دیکھا تو دروازے پر ایک خوش پوش نوجوان کھڑا ہے، ’’میں اندر آ سکتا ہوں ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تشریف لایئے۔‘‘ میں نے رسالہ ایک طرف رکھا، ’’بیٹھئے۔‘‘
’’آپ ہومیوپیتھ ہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جی۔‘‘ میں نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس کی شکل و شباہت ایک پریکٹیکل نوجوان جیسی تھی۔ سمارٹ، ذہین، مضطرب، شوخ، لا ابالی، چمکتی آنکھیں ، چوڑا منہ، لٹکتی مونچھیں اور سر پر بالوں کا ٹوکرا۔
’’دراصل میں آپ سے ایک بات پوچھنے آیا ہوں۔‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’پوچھئے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ غالباً اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات شروع کرے۔ پھر وہ ایک دم کہنے لگا، ’’میری ایک پرابلم ہے۔ جناب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آیا میں حمید ہوں یا اختر ہوں۔‘‘ طاؤس رک گیا۔ حاضرین حیرت سے طاؤس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’ہاں ہاں!‘‘ یہ کیا بات ہوئی۔ رشید بے صبرا ہو رہا تھا، ’’یہ کیا بات ہوئی بھلا میں حمید ہوں یا اختر۔‘‘
طاؤس نے بات شروع کی۔ بولا، ’’نوجوان کی بات سن کر میں گھبرا گیا۔ سمجھا شاید اس کا ذہن گڈمڈ ہے لیکن میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔ پھر نوجوان خود ہی بولا، ’’آئی ایم ناٹ اے مینٹل کیس سر۔ میرا ذہن بالکل ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر دراصل مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیسے بات کروں؟‘‘
’’یہ بتایئے کہ حمید کون ہے، اختر کون ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں ہوں۔ میں حمید بھی ہوں اختر بھی۔ میرا نام حمید اختر ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’تو کیا حمید اختر ایک ہی فرد کا نام ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی۔ ایک ہی فرد کا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’پھر آپ نے یہ کیوں پوچھا کہ میں حمید ہوں یا اختر؟‘‘
’’میں نے بالکل ٹھیک پوچھا۔ ڈاکٹر یہی میری پرابلم ہے۔ لیکن میں اپنی پرابلم کسی کو بھی نہیں سمجھا سکتا۔ میں اس امید پر یہاں آیا تھا کہ شاید ہومیوپیتھی میں کوئی ایسی دوا ہو جو میری پرابلم کو حل کر سکے۔ لیکن اٹس نو یوز۔‘‘ وہ جانے کے لئے مڑا، ’’معاف کیجئے۔ میں نے آپ کا وقت ضائع کیا۔‘‘
’’ذرا ٹھہریئے تو۔‘‘ میں نے اٹھ کر اس کا بازو پکڑ لیا۔
’’فائدہ؟‘‘ وہ بولا، ’’جب میں اپنی پرابلم پیش ہی نہیں کر سکتا تو۔۔۔‘‘
’’گولی ماریےپرابلم کو۔‘‘ میں نے کہا، ’’آیئے اکٹھے بیٹھ کر چائے کا پیالہ پیتے ہیں۔ دنیا میں سب سے عمدہ دوا اکٹھے بیٹھ کر باتیں کرنا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ کا وقت۔‘‘ اس نے کہا۔
’’بے فکر رہیئے۔ میں بالکل فارغ ہوں۔ احمد دین۔۔۔‘‘ میں نے با آواز بلند اپنے ملازم کو پکارا، ’’بھئی چائے لے آؤ۔‘‘ اس پر وہ نوجوان رک گیا۔
’’بیٹھئے نا۔‘‘ میں نے نوجوان کو صوفے پر بٹھا دیا، ’’دیکھئے موسم کتنا خوشگوار ہے اور یہاں سے پہاڑوں کا منظر کتنا اچھا لگتا ہے۔‘‘ میں نے اس سے باتیں کرنی شروع کر دیں۔ دیر تک بیٹھے ہم دونوں چائے پیتے رہے۔ اس دوران میں دو ایک مرتبہ اس نے اپنی پرابلم کی بات شروع کرنے کی پھر سے کوشش کی۔ آخر میں نے اس سے کہا، ’’حمید صاحب۔ آپ اپنی پرابلم پیش نہ کریں بلکہ اپنی آپ بیتی سنائیں۔ آپ کی پرابلم آپ ہی آپ باہر نکل آئے گی۔‘‘
بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور اس نے مجھے اپنی کہانی سنانی شروع کر دی۔ کہنے لگا، ’’ڈاکٹر صاحب! میرا نام حمید اختر ہے لیکن گھر میں مجھے سب حمید کہتے ہیں۔ ہم شہر کے پرانے حصے کوچہ قاضیاں میں رہتے ہیں۔ میرے آباؤ اجداد نہ جانے کب سے اس محلے میں رہتے ہیں۔ یہ محلہ ایک کوچہ بند محلہ ہے۔ میرا مطلب ہے چاروں طرف سے بند ہے۔ اندر جانے کے لئے ایک بہت بڑی ڈیوڑھی بنی ہوئی ہے۔ جانے کا اور کوئی راستہ نہیں۔ محلے میں صرف قاضی آباد ہیں جو ایک دوسرے کے عزیز یا رشتہ دار ہیں۔‘‘ وہ رک گیا اور کچھ دیر توقف کے بعد بولا،
’’آپ چونکہ شہر کے جدید حصے میں رہتے ہیں ، آپ نہیں سمجھ سکیں گے کہ محلے میں رہنے کا مطلب کیا ہے۔ محلے کا ہر شخص دوسرے شخص کو جانتا ہے۔ جونہی آپ محلے میں داخل ہوتے ہیں ، لوگوں کی نظریں آپ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ بولتا کس طرح ہے۔ سر اٹھا کر یا نیچا کر کے لڑکیوں کی طرف کن نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ ہم لوگ جو پشتوں سے محلے میں رہتے آئے ہیں ، محلہ ہماری ہڈیوں میں رچ بس گیا ہے۔ جونہی ہم محلے میں داخل ہوتے ہیں ، اپنے آپ آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ گفتگو میں شوخی ختم ہو جاتی ہے۔ اندر کا غنڈہ پن دھل جاتا ہے۔ لڑکیاں نگاہ میں لڑکیاں نہیں رہتیں۔ بڑوں کے لئے ادب و احترام کا ایک خول چڑھ جاتا ہے۔
اگرچہ اب محلے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ برقعے اتر گیے ہیں۔ لباس بدل گیے ہیں۔ کاریں آ گئی ہیں۔ ڈرائنگ روم سج گئے ہیں لیکن محلے والوں کا رخ نہیں بدلا۔ اگر بدلا بھی ہے تو یہ تبدیلی باہر تک محدود ہے۔ محلے میں داخل ہوتے ہی کایا پلٹ جاتی ہے۔ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ، ویسے ہی بے اختیاری طور پر۔ ہاں میں اس محلے میں پلا ہوں ڈاکٹر صاحب۔ سمجھے آپ اور مجھے اپنی ماں سے محبت ہے۔ نہیں محبت نہیں۔ عشق ہے عشق۔ میری ماں نے جتنی محبت مجھے دی ہے، اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ میں اپنی ماں کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا ہوں ڈاکٹر۔‘‘
ماں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گیا۔ طاؤس ایک ساعت کے لیے رک گیا۔ پھر بولا۔۔۔
’’آپ کا باپ؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’اب تو میرا باپ ایک اچھی خاصی نوکری پر ہے۔ پہلے وہ ایک معمولی عہدے پر کام کرتے تھے۔ آج کل تو ہمارا گھر ایک اچھا خاصا مڈل کلاس گھرانا ہے۔ اچھا گزارہ ہو رہا ہے۔ پہلے یہ بات نہ تھی۔ بہت مشکل سے پورا ہوتا تھا۔ پھر ہم پر ایک مصیبت نازل ہو گئی۔ ابا بیمار پڑ گئے۔ وہ ایک عجیب سی بیماری تھی۔ انہیں ریڑھ کی ہڈی میں شدت کا درد اٹھتا تھا۔ ہم نے انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ ہسپتال والوں نے انہیں درد سے بچانے کے لئے نشے والے ٹیکے لگانے شروع کر دیئے۔ دو سال بعد وہ صحت مند ہو کر گھر آئے تو ان ٹیکوں کے عادی ہو چکے تھے۔ ایڈکٹ ہونے کی وجہ سے ان کی نوکری چھوٹ گئی۔ بد مزاجی حد سے بڑھ گئی۔ جیسے کہ ہر اس ڈرگ ایڈکٹ کی ہوتی ہے جس کے پاس نشہ پورا کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔
اف۔ وہ چار سال ہم پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہماری ہڈیاں توڑ دیں۔ امی، چھوٹی بہن اور میں پس کر رہ گئے۔ ہم تینوں نے مزدوروں کی طرح کام کیا۔ ریڈی میڈ کپڑے سیئے۔ بیچے۔ دیسی نائیوں کی سپلائی کرنے کے لئے فیس کریمیں بنائیں۔ تھیلے سیئے۔ سیلوفین کے لفافے بنائے۔ ان دنوں ہمیں کئی کئی روز فاقے آئے لیکن امی نے ابا کے علاج اور ہماری تعلیم کو ہر قیمت پر جاری رکھا۔ اگر امی نہ ہوتیں تو گھر کے پرخچے اڑ جاتے۔ امی ایک بہت بڑی عورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب۔۔اس نے ہم سب کا حوصلہ بندھائے رکھا۔ ہم میں مصیبتیں سہنے کی ہمت پیدا کی۔ ابا کی دیوانگی برداشت کی۔ خیر وہ دن بیت گیے۔ ابا کی وہ عادت چھوٹ گئی اور پھر انہیں پہلے سے بہتر ملازمت مل گئی۔ اسی لیے ہم خاصے خوشحال ہو گیے ہیں۔
گھر میں مجھے سب حمید کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ کبھی کسی نے اختر کہہ کر نہیں بلایا۔ محلے میں سب حمید کے نام سے بلاتے ہیں۔ جب کوئی حمید کے نام سے بلاتا ہے تو آواز میرے کانوں میں داخل ہو کر سیدھی دل میں پہنچ جاتی ہے اور میرے دل میں گھر اور محلے کی یادیں یوں جھن جھن کرنے لگتی ہیں جیسے ساز کی تاریں۔ گھر سے وابستہ جذبات ابھرتے ہیں۔ ادب، احترام، خدمت،برداشت، ایک مٹھاس سی پیدا ہو جاتی ہے۔ میری گردن جھک جاتی ہے۔ نگاہیں بھیگ جاتی ہیں۔ منہ سے جی ہاں جی ہاں نکلتا ہے۔ ایک عجیب سا سرور، عجیب سا سکون، میں بیان نہیں کر سکتا ڈاکٹر صاحب۔‘‘ نوجوان نے جھرجھری لے کر کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں آپ کی بات کو۔‘‘ میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔
’’اسے صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو پشت در پشت محلے میں رہتا آیا ہو ڈاکٹر۔‘‘ نوجوان نے پھر بات شروع کی، ’’جب میں کالج میں داخل ہوا، ان دونوں ہماری گھریلو مصیبت نئی نئی ختم ہوئی تھی۔ محنت و مشقت اور غربت کا دور دور ہوا تھا۔ کالج میں میرا جی چاہتا تھا کہ الٹی چھلانگیں لگاؤں ، ہنسوں ، کھیلوں ، قہقہے لگاؤں اور اس کو چھیڑوں اس سے الجھوں۔ پھر وہاں محلے کی بندشیں بھی تو نہ تھیں۔ ایک عجیب سی آزادی کا احساس ہوا مجھے۔ مادر پدر آزاد۔ پھر یہ بھی تھا کہ وہاں مجھے کوئی حمید کے نام سے پکارنے والا نہ تھا۔ پتہ نہیں کیسے وہاں کالج میں سبھی مجھے اختر کہہ کر بلاتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے میں محسوس کرنے لگا تھا کہ میں ایک نیا نکور نوجوان ہوں جسے حمید سے دور کا تعلق نہیں۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ کالج میں یوں تھا جیسے بوتل سے نکلا ہوا جن۔میں نے بال بڑھائے۔ مونچھیں لٹکائیں۔ جیکٹ اور جین پہن لئے۔ میرا بولنے کا انداز بدل گیا۔ سوچنے کا انداز بدل گیا۔ جینے کا انداز یوں بدل گیا جیسے کوئی چٹ سے پٹ ہو جائے۔
ایک سال، میں کالج کی ہر ایکٹویٹی میں پیش پیش ہو گیا۔ آزادی کے نعرے لگانے میں ، پروفیسروں کا مذاق اڑانے میں ، گرل اسٹوڈنٹس کو چھیڑنے میں ، گلیڈ آئی چمکانے میں ، چمکیلی باتیں کر کے اپنی دھاک جمانے میں ، سٹرائیک کرنے میں ، جلسہ جلوس آرگنائز کرنے میں ، ہاتھ پائی کرنے میں ، لڑکیوں سے رومان لڑانے میں۔ میں ڈیبیٹ کلب کا سیکرٹری بن گیا۔ سپورٹس میں کھلاڑی تو نہ بن سکا لیکن پنڈال میں کھڑا ہو کر جس کو چاہتا، سپورٹ کر کے ہیرو بنا دیا۔ جس لڑکی پر توجہ دیتا، وہ ابھر کی کالج کی فضا پر چھا جاتی۔ جس پارٹی کو چاہتا، اسے کامیاب بنا دیتا۔ جسے نہ چاہتا، اسے یوں توڑ کر رکھ دیتا جیسے ہاتھ کا کھلونا ہو۔
یعنی تین سال میں اختر کالج کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ سب سے بڑا بلی بن گیا۔ ڈینڈی بن گیا۔ اب پروفیسر اس سے دبتے ہیں۔ لڑکے اس کے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ لڑکیاں اس سے خائف ہیں۔ ساتھ ہی اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں۔‘‘ بولتے بولتے نوجوان رک گیا۔
’’اور۔۔۔ حمید؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’حمید۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’حمید اپنی جگہ جوں کا توں قائم ہے۔ جب بھی اختر محلے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی کایا پلٹ ہو جاتی ہے۔ اوپر سے اختر کا چھلکا اتر جاتا ہے اور نیچے سے حمید نکل آتا ہے۔ گردن جھک جاتی ہے۔ تنے ہوئے سینے میں لچک پیدا ہو جاتی ہے۔ نگاہوں میں ادب اور لحاظ کا لگاؤ ابھر آتا ہے۔ لڑکی کو دیکھ کر وہ مہتابی نہیں چھوٹتی جس سے کالج کی فضا تارے تارے ہوئی ہے۔ الٹا لڑکیاں ماں بہنوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔ بڑے بوڑھوں کے لئے وہ تحقیر نہیں رہتی بلکہ اس کی جگہ احترام اور ادب کا جذبہ ابھرتا ہے اور جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو ماں ماں نظر آتی ہے جیسے دیوی ہو اور اس کا جی چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو اٹھا کر دیوی کے قدموں کی بھینٹ کر دے۔‘‘ نوجوان خاموش ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے پیار بھری پھوار نکل رہی تھی۔ دیر تک کمرے میں خاموشی طاری رہی۔ آخر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ طاؤس نے کہا اور بن سوچے سمجھے ایک ایسا سوال کر دیا کہ میں خود حیران رہ گیا۔ میں نے کہا، ’’آپ کو کیا یہ احساس شروع سے ہی تھا کہ حمید اور اختر دو مختلف افراد ہیں یا۔۔۔‘‘
’’نہیں۔ نہیں ‘‘ نوجوان نے بڑی شدت سے نفی میں سر ہلا دیا، ’’مجھے اس کا قطعی احساس نہیں تھا۔ اگر کل وہ واقعہ نہ ہوتا تو شاید میں بے خبری ہی میں رہتا۔ کل دوپہر کے وقت کالج کے کھلے میدان میں ہم ایک بڑے فنکشن کا انتظام کر رہے تھے اختر اس فنکشن کا ناظم بھی تھا اور روح رواں تھی۔ اس وقت وہ لڑکیوں کو ہدایات دے رہا تھا کہ محلے کا چچا غفورا وہاں آ گیا۔ اس نے آوازیں دینی شروع کر دیں، ’’حمید۔ حمید۔‘‘ اختر نے وہ آواز سنی بھی لیکن اس وقت اس کے لئے حمید کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ پتہ نہیں حمید کون تھا۔ پھر لڑکوں نے شور مچا دیا، ’’بھئی اختر یہ صاحب کسی حمید کا پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’یہ تو اپنا حمید ہے۔‘‘ چاچا نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ دفعتاً میں نے مڑ کر دیکھا۔ سامنے چچا غفور کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر اختر کا ذہن گڈمڈ ہو گیا۔ شدید دھچکا لگا۔ جب چچا نے بتایا کہ ماں بیمار ہے تو اختر کی نگاہ میں وہ میدان، وہ کالج اور وہ لڑکے سب دھندلا گئے۔ ایک خلا نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پھر حمید جاگ اٹھا۔ یوں جیسے بٹن دبانے سے بتی جل اٹھتی ہے۔
نوجوان خاموش ہو گیا۔ کافی دیر خاموش رہا پھر گویا اپنے آپ سے کہنے لگا، ’’آج سارا دن میرے ذہن میں یہی سوال گھومتا رہا کہ میں کون ہوں۔ اختر یا حمید۔‘‘ پھر میری ہومیوپیتھک کتابوں کی طرف دیکھ کر بولا، ’’میری ماں ہومیوپیتھی کی بڑی قائل ہے۔ یہاں سے گزر رہا تھا کہ آپ کا بورڈ دیکھ کر خیال آیا۔ کیوں نہ آپ سے پوچھوں۔ کیا آپ کے ہاں کوئی ایسی دوا ہے جو میری اصلیت کو ظاہر کر دے۔ سامنے لے آئے تاکہ پتہ چلے کہ مجھے حمید بن کر زندگی گزارنی ہے یا اختر بن کر۔ یہ میری پرابلم ہے ڈاکٹر صاحب۔ کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟‘‘
نوجوان نے جلتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ طاؤس رک گیا اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔ اسلم چھت کی طرف گھور رہا تھا۔ حامد ہاتھوں کے پیالے میں ٹھوڑی ٹیکے بیٹھا سوچ رہا تھا۔ عظیم بظاہر پھٹی پھٹی آنکھوں سے طاؤس کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن اس کی سوچ نہ جانے کن خلاؤں میں بھٹک رہی تھی۔ رشید منہ میں پنسل ڈالے بیٹھا تھا۔
’’بڑا دلچسپ کیس ہے۔‘‘ اسلم نے چھائی ہوئی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
’’اسے صرف سپلٹ پرسنلیٹی تو نہیں کہہ سکتے۔ عظیم بولا ڈیول پرسنیلٹی بھی نہیں۔‘‘
’’کیا یہ صرف حمید اختر کا خصوصی کیس ہے یا ہر ماڈرن نوجوان کالجیٹ کا جو پشتوں سے محلے میں رہتا آیا ہے۔‘‘ حامد نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ طاؤس نے جواب دیا۔
’’چھوڑو یار ان باتوں کو۔‘‘ رشید بولا، ’’یہ بتاؤ کہ تم نے حمید اختر کو کیا جواب دیا؟‘‘
’’وہی جو معالج دیا کرتے ہیں۔‘‘ طاؤس نے جواب دیا۔ میں نے کہا، ’’میں آپ کا کیس سٹڈی کروں گا۔ مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے۔‘‘ اس پر نوجوان اٹھ بیٹھا۔ میں پھر آؤں گا۔ شاید اتوار کے دن۔ امید تو ہے اب مجھے اجازت دیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گیا۔
’’کیا وہ اگلی اتوار کو آیا؟‘‘ رشید نے پوچھا۔
طاؤس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’یعنی بات ختم ہو گئی۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ طاؤس بولا، ’’بلکہ بات شروع ہو گئی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ عظیم نے پوچھا۔
’’میرے دل میں ایک سوال کھڑا ہو گیا۔‘‘ طاؤس بولا، ’’کہ اگر اس کیس کو ہومیوپیتھی حل نہیں کر سکتی تو ہومیوپیتھی کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔‘‘
’’بالکل۔‘‘ اسلم بولا، ’’ایسے کیس کو صرف ہومیوپیتھی ہی حل کر سکتی ہے۔‘‘
’’اگر ہومیوپیتھی سپر سلف کو باہر نہیں لا سکتی تو یہ ہمارا قصور ہے۔ سسٹم کا نہیں۔‘‘ طاؤس نے کہا، ’’اگر ہومیوپیتھی ہپوکریسی کی عادت کو توڑ نہیں سکتی تو یہ افسوس ناک بات ہے۔ قصور ہمارا ہے کہ ہم نے ہومیوپیتھی کو اس زاویئے سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ مٹیریامیڈیکا میں زیادہ تر سمپٹمز ایسے درج ہیں جو جسم نہیں ، شخصیت کی مد میں آتے ہیں۔‘‘ طاؤس جوش میں آ گیا۔
’’وہ تو سب ٹھیک ہے۔‘‘ حامد نے کہا، ’’لیکن یہ بتایئے کہ کیا مریض پھر کبھی آپ سے ملا؟‘‘
’’ہاں ملا۔‘‘ طاؤس نے بات شروع کی، ’’مگر اتفاقاً تقریباً چھ مہینے بعد۔ اس روز میں اتفاقاً میونسپل پارک میں جا نکلا تھا۔ وہاں گھومتے پھرتے دفعتاً میں نے دیکھا کہ وہ اکیلا ایک بینچ پر بیٹھا گہری سوچ میں کھویا ہوا ہے۔‘‘
’’ہیلو‘‘ میں نے کہا۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکا، ’’شاید آپ کو یاد نہ رہا ہو۔ میں طاؤس ہومیوپیتھ ہوں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ وہ اٹھ بیٹھا۔
’’کہئے۔ آپ وعدہ کے مطابق تشریف نہ لائے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’امی کی بیماری کی وجہ سے میں سب کچھ بھول گیا ڈاکٹر۔‘‘ وہ بولا۔
’’اب کیا حال ہے ان کا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ٹھیک ہو گئی ہیں لیکن ڈاکٹر میں ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔‘‘ اس نے آہ بھر کر کہا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مجھے کالج کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے ڈاکٹر۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’آپ کا مطلب ہے۔ اختر کو محبت ہو گئی ہے یا حمید کو؟‘‘
’’ہاں اختر کو۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔
’’لیکن اختر اور محبت بے جوڑ بات ہے۔‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔‘‘ وہ چلایا، ’’اختر تو خود ایک بگڑا ہوا محبوب ہے۔ اسے محبت نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن ہو گئی ڈاکٹر۔ ہو گئی۔ پتہ نہیں کیسے۔ پہلے تو اختر یہ سمجھتا رہا کہ محض دل لگی ہے۔ اپنے آپ کو دھوکا دیتا رہا بہلاتا رہا پھر۔۔۔‘‘
’’لیکن وہ لڑکی کون ہے؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
کہنے لگا، ’’تھرڈ ایئر کی لڑکی ہے۔ اس کا نام سنبل ہے۔ یہ بڑی عجیب و غریب لڑکی ہے ڈاکٹر۔ بڑی عجیب و غریب۔ جب وہ نئی نئی کالج میں داخل ہوئی تو سب نے سمجھا کہ وہ بہت ہی معصوم ہے۔ بات بات پر شرما جاتی تھی۔ اس کی شرماہٹ بہت جاذب نظر تھی۔ وہ ایک چھوٹی سی پتلی، دبلی، سمارٹ لڑکی ہے، تیز بہت تیز، گندمی رنگ، خدوخال تیکھے، سوئی کی طرح چبھ جانے والی لڑکی ہے وہ۔‘‘
’’خیر صاحب۔‘‘ نوجوان نے بات جاری رکھی۔ چند ہی مہینوں میں سنبل نے پر پرزے نکال لئے اور لڑکیوں کو پتہ چل گیا کہ وہ لجاتی شرماتی نہیں بلکہ شرماہٹ کو استعمال کرتی ہے اور ڈاکٹر اسے شرماہٹ کو استعمال کرنا آتا ہے۔ لجا لجا کر توجہ جذب کرتی ہے۔ ایسے کہ میک اپ کرے گی۔ جب شرماتی ہے، اس وقت اس کی پلکیں اڑتی تیتری کے پروں کی طرح پنکھی جھلتی ہیں۔ گال سرخ ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں غروب ہو کر طلوع ہوتی ہیں۔ پھر غروب ہو جاتی ہیں۔ باقی لڑکیوں کا انداز تو دھویا دھایا ہوتا ہے۔ میٹر آف فیکٹ قسم کا۔ چونکہ وہ رمانٹک انداز کو رجعت پسندی کا نشان سمجھتی ہیں اور شرمانے کو نفرت کی آنکھ سے دیکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے سنبل کی اپیل انوکھی تھی۔ سبھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر پتہ چلا کہ سنبل بڑی حرام زادی ہے۔ وہ لڑکوں سے کھیلتی ہے۔ کھیلنے کا گر جانتی ہے۔ آج آپ کی طرف متوجہ ہوئی۔ شرما شرما کر آپ کا برا حال کر دیا۔ کل آپ کو یوں نظرانداز کر دے گی جیسے جانتی ہی نہ ہو۔
اس کا انداز کچھ ایسا ہے ڈاکٹر کہ جس کی طرف متوجہ ہو جائے وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میرے قابو میں ہے۔ قابو میں لانے کی کوشش کروں تو یوں انگلیوں سے پھسل جاتی ہے جیسے جیتی مچھلی ہو۔ ایک نگاہ ڈالئے تو اتنی قریب آ جاتی ہے کہ بس ہاتھ بڑھانے کی بات معلوم ہوتی ہے۔ دوسری نگاہ ڈالتے ہیں تو کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ بڑی چالاک ہے وہ ڈاکٹر۔ لیکن ہے جادوگرنی۔‘‘ نوجوان ہنسنے لگا۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے پھوار سی نکل رہی تھی۔ یوں جیسے پھلجھڑیاں چل رہی ہوں۔ ایک ساعت کے لئے وہ رکا۔ پھر از خود بات شروع کر دی۔
’’قصہ مختصر یہ کہ چھ سات مہینے میں سنبل نے سب لڑکوں کو گھائل کر کے رکھ دیا لیکن کسی کے ہاتھ نہ آئی۔ اس پر اختر کی انا جاگی۔ وہ سنبل کے قریب ہو گیا۔ اسے جیتنے کے لئے نہیں بلکہ قابو میں لا کر دکھانے کے لئے۔ خیر دو چار روز سنبل نے وہ وہ نگاہ ڈالی کہ اختر پگھل کر رہ گیا۔ چھینٹے اڑنے لگے۔ پھر سنبل میں بڑی لڑائی ہوئی۔ گھمسان کا رن پڑا۔ اختر بری طرح گھائل ہوا۔ اپاہج بن کر رہ گیا۔‘‘
میں نے اس کی بات کو ٹوک کر کہا، ’’آپ تو کہتے ہیں ، وہ بڑی مکار ہے، چالاک ہے، حرام زادی ہے، پھر آپ کو اس سے محبت کیسے ہو گئی؟‘‘
’’اسی لئے ہوئی ڈاکٹر۔ وہ مکار ہے۔ چالاک ہے۔ حرام زادی ہے۔ گر وہ سیدھی سادی معصوم لڑکی ہوتی تو میں اس سے کھیلتا اور پھر یوں پھینک دیتا جیسے کھلونا ہو۔‘‘
’’اوہ یہ بات ہے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’اچھا تو کیا آپ نے اظہار محبت کیا؟‘‘
’’پیشتر اس کے کہ اظہار کرتا۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا، ’’ایک مشکل پڑ گئی۔ ویسے اظہار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اسے سب پتہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ میری کیا کیفیت ہے اور یہ بھی کہ میں نے واپسی کی سب کشتیاں اپنے ہاتھ سے جلا دی ہیں۔‘‘ وہ رک گیا۔
’’ہاں تو وہ مشکل کیا تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایک دن امی نے مجھے بلایا۔ کہنے لگی۔ حمید تو نوشابہ کو جانتا ہی ہے۔‘‘
نوشابہ امی کی واحد سہیلی تھی۔ جس زمانے میں ہم پر مصیبت پڑی تھی، اس بھری دنیا میں نوشابہ ہماری واحد ہمدرد تھی۔ اس نے ہم پر بڑے احسان کیےتھے۔ میں ان احسانات کو اچھی طرح جانتا تھا۔
’’ہاں امی۔ میں نوشابہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ میں نے امی سے کہا۔ امی بولی، ’’نوشابہ کے میاں فوت ہو چکے ہیں۔ اس کی اکلوتی بچہ صفیہ اب جوان ہے۔ کالج میں پڑھتی ہے۔ خوش شکل ہے۔ سمارٹ ہے۔ ماڈرن بھی ہے لیکن سگھڑ اتنی، اتنی سلیقے والی، اتنی خدمت گزار کہ یوں لگتا ہے جیسے اسے زمانے کی ہوا بھی نہیں لگی۔ میں چاہتی ہوں ، بیٹے کے کہ اسے بہو بنا کر گھر لے آؤ۔ ارے تو تو گھبرا گیا۔‘‘ امی نے غالباً میری حالت بھانپ کر کہا، ’’نہیں نہیں۔ کوئی زبردستی نہیں ، اگر تیرا جی نہیں چاہتا تو نہ سہی۔ یہ تو میری آرزو ہے۔ اگر تو مان جائے تو میری زندگی سپھل ہو جائے گی۔ سوچ لے۔ کوئی جلدی نہیں ، سوچ کر مجھے بتا دینا۔‘‘
’’پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’فیصلہ۔۔۔‘‘ نوجوان ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی کی آواز ٹوٹی ہوئی تھی، ’’جس وقت سے امی نے شادی کی بات کی ہے۔ سنبل کے لئے میرا جذبہ یوں ابھر آیا ہے جیسے دودھ کی کڑاہی پر ملائی آ جاتی ہے۔ اب مجھے پتہ چلا کہ سنبل سے مجھے لگاؤ ہی نہیں ، عشق ہے۔ عشق ہے۔ اس کے بغیر زندگی بے مصرف نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب! پھانسی پر لٹکا ہوا ہوں۔ پہلے میرا خیال تھا کہ امی کی خواہش پر میں اپنی ہر خواہش قربان کر سکتا ہوں لیکن اب۔۔۔‘‘ نوجوان نے بے بسی سے دونوں ہاتھ اٹھائے اور پھر چپ ہو گیا۔
طاؤس نے چاروں طرف دیکھا۔
’’کتنی انوکھی بات ہے۔‘‘ رشید بولا۔
’’انوکھی نہیں۔‘‘ اسلم نے کہا، ’’عام سی بات ہے۔ ایسے واقعات روز ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہاں تو پھر نوجوان نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘ عظیم نے پوچھا۔
’’ہماری وہ مختصر سی ملاقات تھی۔‘‘ طاؤس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ہم دونوں بنچ پر بیٹھے تقریباً ایک گھنٹہ سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ سخت کشمکش میں مبتلا تھا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا۔ اس کے ذہنی کرب کو محسوس کر کے میں سخت گھبرا گیا اور اسے چھوڑ کر چلا آیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ اسلم بولا، ’’ذہنی کرب متعدی ہوتا ہے۔‘‘
’’اس کے بعد وہ نوجوان آپ سے ملا کیا؟‘‘ حامد نے پوچھا۔
’’ہاں۔ چھ مہینے بعد۔‘‘ طاؤس نے جواب دیا۔
’’تو کیا اس نے آپ کو بتایا۔۔۔‘‘ رشید نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ طاؤس نے پھر سے بات شروع کی، ’’اس روز سینما کا سپیشل شو دیکھنے گیا تھا۔ بڑی آؤٹ سٹینڈنگ پکچر لگی تھی۔
ہال میں خاصا لیٹ پہنچا۔ سیٹ پر بیٹھ کر میں نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حمید اختر مجھ سے اگلی رو میں بیٹھا ہے۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ نئی بیاہی ہوئی دلہن ہے۔ یعنی اس کی شادی ہو چکی تھی۔ میرے دل میں کھسر پھسر ہونے لگی کہ وہ لڑکی کون ہے۔ سنبل یا صفیہ۔ سچی بات یہ ہے کہ فلم پر میری توجہ نہ جمی۔ بس یہی سوچتا رہا۔ پھر جب انٹرول ہوا اور حمید باہر نکلا تو میں بھی پیچھے پیچھے باہر نکل گیا۔ اس نے جلد ہی مجھے دیکھ لیا، ’’ہیلو ڈاکٹر۔‘‘ وہ چلایا۔
’’کہیئے۔‘‘ میں نے انجان بن کر پوچھا، ’’آپ نے کوئی فیصلہ؟‘‘
’’میری تو شادی بھی ہو گئی ڈاکٹر صاحب۔‘‘ وہ چلایا۔
’’سنبل سے یا صفیہ سے؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’مجھے ساری بات بتایئے۔‘‘
اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا، ’’ڈاکٹر صاحب امی کی خواہش کو رد کرنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔ میں نے دل پر پتھر رکھ لیا اور امی سے کہہ دیا۔ امی میں وہاں بیاہ کروں گا جہاں آپ چاہتی ہیں۔ بس یہی میرا فیصلہ ہے۔‘‘
’’پھر کیا تھا ڈاکٹر، امی نے جھٹ منگی پٹ بیاہ کرنے والی بات کی۔ اور اس طرح صفیہ سے میری شادی ہو گئی۔ پھر سہاگ کی رات جب میں نے صفیہ کا گھونگھٹ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے سنبل بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
’’ارے۔‘‘ میرے منہ سے چیخ سی نکلی۔ طاؤس رک گیا۔
سبھی لوگ حیرت سے طاؤس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’صفیہ۔۔۔ سنبل نکلی، مطلب کیا ہوا؟‘‘ رشید چلایا۔
’’مجھے تو ساری بات ہی گپ نظر آتی ہے۔‘‘ اسلم نے کہا۔
’’آپ نے حمید اختر سے نہیں پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟‘‘ عظیم بولا۔
’’ہاں پوچھا تھا۔‘‘ طاؤس نے کہا۔
’’تو پھر کیا بتایا اس نے؟‘‘ رشید نے پوچھا۔
پوچھا تو حمید اختر نے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب وہ بھی میری طرح حمید اختر تھی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’وہ صفیہ سنبل تھی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.