دیوار پر جڑی تختیاں
ایک وقت تھا جب وہ عمارت ایک خاموش اور پرسکون علاقے میں اپنے باغیچے میں ایستادہ عجیب و غریب مجسموں کے ساتھ بڑے احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ جب میں نے جوانی میں نوکری شروع کی تو وہاں کا پر وقار اور عالمانہ ماحول دور دور تک مشہور تھا۔ پہلی منزل پر ایک بڑا کمرہ تھا جس کے دروازے کی اوپری دیوار پر ایک لال بلب بھی لگا تھا۔ دروازے کے پاس ہی ایک بڑی موچھوں والا رعب دار چپراسی بھی بیٹھا کرتا تھا۔ اس بڑے کمرے کے کرسی نشین کے بارے میں مجھے بہت دنوں تک یہ پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب آتا ہے اور عمارت سے نکل کر کب جاتا ہے۔
البتہ یہ ضرور سنا تھا کہ جب باہر سے کوئی سگار پیتا ہوا یا منھ میں پائپ دبائے یا چوڑی دار سفید پیجامہ اور کالی اچکن پہنے چین دار جیبی گھڑی لگائے بڑی بڑی آنکھوں والا وہاں آتا یا پھر کوئی گوری چٹی بھاری بھرکم عورت آنکھوں پر خوبصورت گاگل لگائے کندھے پر شال ڈالے بڑے تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے حالی موالیوں کے ساتھ اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھتی تو بڑے کمرے کا کرسی نشین اپنے کمرے سے نکل کر زینے کے پاس مؤدب کھڑا ہو جاتا اور اس کا استقبال کر کے بڑے کمرے میں لے جاتا پھر دیوار کی لال بتی جل جاتی۔
شاید یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس عمارت کے بڑے کمرے میں ہر چیز کی جلالت اور توقیر کا رتبہ طے شدہ معیاروں نے مقرر کر رکھا تھا اور انھیں بدلتی ضرورتو ں کے باعث بار بار نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اس لیے جلدی جلدی دروازے کی دیوار پر لال بتی بھی نہیں جلتی بجھتی تھی۔
اب تو ان باتوں کو ایک زمانہ گزر چکا ہے، ان برسوں میں ایسی ہی عمارتیں اسی مقصد کے لیے تھوڑے بہت مقامی فن تعمیر کے فرق کے ساتھ ملک کے کئی بڑے شہروں میں بن گئی ہیں۔ ان نئی عمارتوں میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سبب دورے پر جانے کا موقع بھی مجھے ملتا رہا ہے، جہاں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اندر سے ان عمارتوں کے کمرے، فرش اور غسل خانے سب ایک ہی سے تھے۔ زیادہ غور سے دیکھنے پر انکشاف ہوا کہ ہر عمارت میں پنکھے ایک ہی رفتار سے چلتے تھے، کھڑکیوں کے شیشے ایک ہی جگہ سے ٹوٹے تھے اور روشن دانوں سے گرا برساتی پانی ایک ہی طرح سے دیوار پر گرتا تھا۔
وہاں قیام کے آخری دن تک وہ ناقابل یقین مماثلت بھی مجھ پر واضح ہوگئی کہ ان عمارتو ں میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ، ان کی آنکھوں کے چشمے، ان کے پہناوے بات کرنے اور سگریٹ کا گل جھاڑنے کا انداز اور کمرے میں آکر دلیل کے بغیر دعوے کرنے والے پیغمبروں کی لنترانیوں اور آمدو رفت کے باعث بار بار کمرے کی لال بتی کا جلنا بجھنا اور آخرکار فیوز ہو جایا کرنا اور پھر تمام ردیوں کی ٹوکریوں میں پھینکا ہوا سامان نازیبا، وہاں کے بہ ظاہر مہربان، مگر درحقیقت ہلاکت خیز منافق سب ایک سے تھے۔ ویسے ہی جیسے میری عمارت کے۔ کتنی عجیب بات تھی کہ ان سب کا لہجہ، غیبت کا طریقہ، زبان کی موقعہ پرست لکنت بھی ایک سی تھی اور یہی نہیں کونے کھدروں میں چھپے ہونٹوں پر ایک سی مسکراہٹ جمائے رکھنے والے، دھیمی آواز میں بولنے والے کرتے، شیروانی اور واسکٹ کو گلے تک بند رکھنے والے مہذب دلال بھی بالکل ایک سے تھے۔
ادھر چند برسوں سے خود اپنے یہاں دیکھ رہا ہوں کہ عمارت کے اندر آنے جانے والوں کا بھیڑ بھڑکا بہت بڑھ گیا ہے۔ جہاں Please do not Spit کی تختی لگی ہے، اس کونے میں پان کی پیک کے بدنما اور گندے چکتے روز بہ روز بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں، کانفرنس روم کی گیلری میں ’’دھیرے بولیے‘‘ کی تختی کے باوجود کانفرنس روم سے نکل کر بار بار کسی کو لوگوں کو چپ کرانے کے لیے باہر آنا پڑتا ہے۔ میری یہ فکر روز بہ روز بڑھتی جارہی تھی کہ بار بار الماریاں خریدنے کے باوجود سیکڑوں نئی آنے والی کتابیں جو دستی بھی آتیں اور ڈاک سے بھی فرش پر پڑی رہتی تھیں، پھر لائبریری میں اتنی جگہ بھی نہ رہ گئی تھی کہ ان کے پٹ کھولے جا سکیں۔ آخر کو اور انہیں نشانِ افتخار دیے جانے کے فیصلے سے پہلے ہی ان میں دیمک لگ جایا کرتی۔ اس دوران کئی بار میری ترقی ہوئی اور اب تو مجھے بڑے کمرے کے پاس ہی ایک کمرہ دیا گیا تھا کیونکہ بار بار مجھے بڑے کمرے میں بلایا جاتا تھا۔
اسی زمانے میں جب بڑے کمرے کے برابر میں بیٹھنے لگا تھا، ہماری عمارت میں پہلی منزل پر آنے کے لیے ایک خاتون نے اسی کروفر اور شان کے ساتھ زینہ چڑھا جیسا کہ برسوں پہلے میری نوکری کے آغاز میں آنے والے چڑھا کرتے تھے۔ میں اتفاق سے اس وقت زینے کی کگار پر کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ستائیس اٹھائیس سال کی عمر، رنگ گورا، بال گھونگھریالے، گالوں میں قدرتی گڑھے، ماتھا کشادہ، روشن اور خوش نصیبی کی اجلی چاندنی سے منور، وہ جیسے ہی اوپر آئیں ان کی نظر سامنے ہی لال بلب والے بڑے کمرے کی داہنی دیوار پر پڑی جہاں اب پیتل کے حروف میں لکھی عبارت، چمچماتی لکڑی کی خوبصورت فریم میں جڑی تھی او رپیتل کے حروف براسو سے رگڑ کر چمکائے جاتے تھے۔
عورت نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر بڑی محویت سے عبارت کو پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا، ’’اقتدار مقتدر کو مغرور ہی نہیں خود غرض اور جابر بھی بنا دیتا ہے۔ اقتدار ان کے مفادات سے غافل نہیں رہتا جن سے اس کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ مقتدر کی سرشت میں قوت کا استعمال شامل ہے اور قوت کے استعمال میں بے انصافی مضمر ہے۔‘‘ عبارت پڑھنے کے بعد عورت کی آنکھیں مسکرائیں، پھر وہ پلٹ کر میری طرف آئی اور مخاطب ہوئی،’’میں سکریٹری صاحب سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’جی میں ہی سکریٹری ہوں۔ آئیے۔‘‘ میں انھیں اپنے کمرے میں لے آیا۔ بیٹھنے کے لئے کہا، وہ بیٹھتے ہوئے مسکراکر بولیں، ’’میرا نام مریم زمانی ہے۔ پیتل کے حروف میں یہ عبارت غالباً نیا اضافہ ہے۔‘‘ جواب میں، میں نے انھیں بتایا کہ اب یہ عبارت ہر شہر میں جہاں جہاں یہ عمارت ہے، اس کے بڑے کمرے کی دیوار پر لگا دی گئی ہے۔
’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ ان کے سوال پر مجھے وضاحت کرنا پڑی، ’’یہ اس لیے کہ لوگ مقتدر سے اس کے اقتدار کو لے کر کوئی بحث و مباحثہ نہ کریں اور ملاقات سے پہلے اس کی حیثیت اور منصب کو سمجھ لیں۔‘‘ پھر مریم زمانی نے جنھیں پینٹنگ سے شوق تھا، بتایا کہ انھیں ملاقات کا وقت دیا گیا ہے۔ میں نے ان کے نام کا کارڈ اندر بھجوا دیا۔ کچھ دیر بعد انہیں بلا لیا گیا۔
کئی نئی تختیاں جنھیں دیواروں پر لگنا تھا پینٹر کے یہاں سے آئی پڑی تھیں۔ ان میں سے ایک کو تو صدر دروازے پر لگنا تھا، جس میں ہدایت دی گئی تھی ’’عمارت میں حاکم کو تحفے تحائف نہ پیش کریں۔‘‘ بیسوں احکامات کی تختیاں عمارت کی اندرونی دیواروں پر جڑی جاتی تھیں۔ ان میں کئی کا پنٹ بھی کچھ ایسا اکھڑ گیا تھا کہ عبارت کا مطلب ہی خبط ہو چکا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے عمارت میں عجیب نوعیت کے بے مطلب کام بہت بڑھ گیے تھے۔ جن سے اکتاکر میں بےوقت شاعری اور وہسکی پینے لگا تھا کہ میری نظر میں دونوں ہی کام بےضرر تھے۔ بد دلی سے میں نے ایڈمنسٹریٹر کو وہ کام سونپ دیا۔ تھوڑی دیر بعد مریم زمانی بڑے کمرے سے مسکراتی ہوئی باہر آئیں۔ اس کمرے کی خوبی بھی یہی تھی خواتین مسکراتی ہوئی باہر نکلتی تھیں۔ جب مریم زمانی میرے کمرے میں دوبارہ داخل ہوئیں تو مجھے کچھ تعجب ضرور ہوا کیونکہ وہاں سے نکلنے والے عام طور پر سیدھے نیچے اتر جایا کرتے تھے۔ میں نے پھر بٹھایا تو وہ بولیں:
’’بھئی وہ توبہت خوش اخلاق ہیں، میرے لیے کافی اور سینڈوچ منگائی، خود لنچ میں ککڑی اور پنیر کے قتلے کھاتے رہے۔‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ ڈاکٹروں نے انھیں لنچ میں صرف یہی کھانے کی اجازت دی ہے۔ پھر مریم زمانے نے خاصی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا، ’’ان کی پیٹھ کی دیوار پر سنہری حرفوں میں ایڈور سعید کا ایک قول لکھا ہے‘‘، ’’دانشوروں کو مکتبی اور ادارتی منتظمین کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
’’جی ہاں جی ہاں‘‘ میں نے فوراً حامی بھری اور وضاحت کر دی، ’’جس شہر میں بھی یہ عمارت بنائی گئی ہے وہاں کے بڑے کمرے میں یہ قول بھی چسپاں کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر خاتون کے چہرے پر الجھن عود کر آئی اور انھوں نے پوچھ ہی لیا۔
’’لیکن کیوں؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔‘‘
’’سچ تو یہ ہے کہ دانشوروں میں یہ غلامی اب شرمناک چاپلوسی کی حد تک بڑھ گئی ہے۔‘‘ میرا جواب سن کرمریم زمانی کو کیسا لگا اس کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن اندر ہی اندر وہ ان کی جس بات سے مرعوب تھیں، اسے انھوں نے مجھ پر عیاں کردی، یعنی ان کی صاف گوئی کی بڑی تعریف کی۔ پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے بے تکلف ہوکر مریم کو بتایا کہ انھیں بہت سے لوگ برا سمجھتے ہیں، لیکن وہ اپنی فطرت کی وجہ سے برے نہیں ہیں بلکہ اپنی حیثیت اور مرتبے کی وجہ سے برے ہیں اور اس برائی کی مجبوری یہ ہے کہ یہ غریب، قدیم اور فطری دوستوں کو بھی ایک دوسرے کا حریف بناکر دشمنوں کے طبقات میں تقسیم کر دیا کرتی ہے اور اسی کے نتیجے میں جگہ جگہ آپس میں اندرونی فساد ہوتے بھی چپ چاپ دیکھتی رہتی ہے۔‘‘ مجھے اندازہ ہوا کہ مریم بات کرتے ہوئے ایک نیم واضح پیچ و تاب سے بھی گزر رہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ سے ایکا ایک اٹھیں۔ پرس سے ملاقاتی کارڈ نکال کر میرے سامنے رکھا، پھر کارڈ طلب کیا، لمبی سی سانس بھرکر کارڈ پر نظر ڈالی اور رخصت کی اجازت لے کر چلی گئیں۔
ایک دن مریم زمانی کا فون آیا۔ اس کے گھر پر ایک مشہور پینٹر کی آمد پر اس نے ایک مختصر سی پارٹی رکھی تھی اور انکساری سے میری شرکت کے لیے بھی درخواست کی۔ بعد میں یکایک خیال آیا کہ بڑے کمرے میں بھی فون کیا ہوگا۔ پتا لگا وہاں فون پہلے ہی آ گیا تھا لیکن وہ کہیں اور مصروف تھے۔ میں جاؤں یا نہ جاؤں یہ فیصلہ انھوں نے مجھ پر چھوڑ دیا۔ یہ جان کرمجھے حیرت نہ ہوئی کہ وہ مریم زمانی اور اس کے خاندان وغیرہ کے بارے میں خاصا جانتے تھے اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ مریم دوسرے نام سے کبھی کبھی انگریزی نظمیں بھی لکھتی تھیں اور بعض موقعوں پر وہ ان سے مل بھی چکے تھے۔
پارٹی میں مریم سے ملاقات ہوئی تو عقدہ بھی کھلا کہ اس کے باپ مسلمان اور ماں کرسچین تھیں۔ گھر میں دو گاڑیاں تھیں، کتابوں سے بھری ایک موروثی لائبریری تھی، خوبصورت اور کشادہ لان تھا۔ گھر کے اندر کا ماحول خواب ناک تھا۔ وائلن، پیانو، مرعوب کن علامتی مسیحی صلیب اور کنواری مریم کا جاذب نظر مجسمہ بڑی نفاست اور سلیقے سے آرائش کا حصہ بنائے گیے تھے۔ وہیں کشادہ اور نیم روشن دیوار کی ملگجی روشنی میں ایک پینٹنگ بھی نصب تھی، جس پر اندر داخل ہوتے ہی نظر پڑتی تھی۔ سفید اور ہلکے سرمئی رنگوں کے استعمال کے ساتھ پینٹنگ اس موقعے کا دھندلایا ہوا منظر پیش کر رہی تھی، جب مدینے کے کچھ مسلمان حج کا احرام باندھے ہوئے حدیبیہ کے میدان میں بیٹھے تھے اور اپنے رسول کے ہمراہ کعبے میں داخلے کے لیے قریش سرداروں کے اجازت نامے کے منتظر تھے۔ پوری پینٹنگ کی فضا یاسیت اور حزن بھرے تحمل کی سوگوار دھند میں ڈوبی ہوئی تھی اور عنوان کے جگہ عربی خط میں ’’لبیک لبیک‘‘ لکھا ہوا تھا۔
مریم زمانی کے صنعت پیشہ باپ اودھ کے مرغوب لباس میں مہمانوں کی تواضع مغلوں کے شاہی دسترخوان کے رنگا رنگ کبابوں سے کر رہے تھے۔ ان کی اکلوتی بیٹی مریم زمانی کی تعلیم و تربیت ان کی ماں کی نگرانی میں اعلیٰ درجے کے پبلک اسکولوں میں ہوئی تھی اور ابھی تک غیر شادی شدہ تھی۔ مریم نے اپنا اسٹڈی روم دکھایا جہاں کتابوں اور رسالوں کا بےترتیب انبار تھا۔ میز پر رکھے کمپیوٹر کے پاس بہت سے کاغذات پھیلے ہوئے تھے۔ ایک کاغذ کے سرنامے پر جلی حروف میں لکھا تھا What is opinion mafia۔ میں تجسس سے اسے دیکھنے لگا تو وہ بولیں، ’’میری ناول کا موضوع اسی سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
’’آپ ناول لکھ رہی ہیں؟‘‘
’’لکھ کیا رہی ہوں۔ کچھ دنوں سے جھک مار رہی ہوں۔ لکھا ہوا پڑھتی ہوں پھر آدھا پھاڑ دیتی ہوں، لیکن اسے پھینکتی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسی۔ ’’کبھی کبھی پھاڑے ہوئے سے بھی کچھ کمپیوٹر کی میموری میں ڈال دیتی ہوں۔‘‘
میں نے ان سے پوچھ لیا، ’’آپ ناول کو کس طرح محسوس کرتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر وہ اپنی ہنسی روک کر خاصی سنجیدہ ہو گئی، پھر دھیرے سے بولی، ’’میں ناول میں انسان دوستی کے زاویے سے محرکات اور اسباب کی نشاندہی کو اہمیت دیتی ہوں۔‘‘
مجھے ہمیشہ سے یہ لگتا رہا کہ اس عمارت سے باہر نکل کر میں دوسرا آدمی بن جایا کرتا تھا۔ وہسکی پینا اور اپنے بچوں سے پیار کرنا مجھے اچھا لگتا۔ جب بعض پڑھی ہوئی کتابوں کے تبصرے اخباروں میں دیکھتا تو کبھی کبھی سینے میں گھومتی اور جتن کر کے باہر نکل جانے میں ناکام رہ جانے والی آوازیں ان خوشامدی، منافق اور چالاکی سے پالش کیے لفظوں میں لپیٹ کر پیپ بھرا جھوٹ بیچنے والے گھناؤنے تبصرہ نگاروں کو چیخ چیخ کر گالیاں دیتی تھیں۔ اس غصے کی لپٹیں لگتا تھا میرے جسم کو خاکستر کر دیں گی۔ اس کیفیت میں بکھری نظموں کا مجموعہ چھپ چکا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا ترجمہ شدہ مجموعہ مریم کے پاس موجود تھا۔ کسی کے ہاتھ میں میرے ہونے کی تھوڑی خوشی مجھے ضرور ہوئی۔
’’آپ نے یہ نظمیں پڑھیں؟‘‘ میں نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’جی ہاں!‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھے دوسرے مہمانوں کے پاس لے آئیں۔ آرٹ پر دھیمے دھیمے باتیں کرنے والوں کے بیچ اچھا وقت گزرا۔ چلتے وقت مریم مجھے صدر دروازے تک چھوڑنے آئیں اور بولیں، ’’ایک خاموش طوفان کے پیش خیمہ جیسا تھا وہ وقت جب سروں پر بے پائلٹ جہازوں سے گرائے گیے بموں کا ڈر نہ تھا۔ سپاہی آپس میں اپنے قبیلے کی عظمت دشمن کو یاد دلاکر ہاتھوں سے لڑتے تھے۔‘‘ پھر اداس لہجے میں کہنے لگیں، ’’اس وقت غصے کی پلیٹ کو ٹھنڈا کر کے کھانا شائد اتنا دشوار نہ تھا۔ سنا ہے رسولؐ نے غصے کی پلیٹ ہمیشہ ٹھنڈی کر کے کھائی ہے۔‘‘ یہ سن کر میں مریم کی آنکھوں میں دو پل دیکھتا رہا۔ یہ جھانکنے کے لیے کہ غصہ ٹھنڈا کر کے کھانے کی ہدایت کہیں وہ میری نظمیں پڑھنے کے بعد تو نہیں دے رہی ہیں۔ لیکن ان کی آنکھیں کسی گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا، ’’آپ کرسچن ہیں یا مسلمان؟‘‘ جواب میں وہ مسکرائیں اور بولیں، ’’پھر کبھی۔۔۔‘‘
انہوں نے میری گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں بیٹھ گیا، گاڑی بڑھی تو وہ اندر چلی گئیں۔ راستے بھر میں ان کی پینٹنگ کے بارے میں سوچتا رہا۔ شاید گاندھی نے ستہ گرہ کا راستہ حدیبیہ کے میدان سے لیا ہوگا۔ میں نے مریم زمانی سے نہ تو کبھی پھر یہ سوال کیا کہ وہ کرسچین ہیں یا مسلمان۔ نہ انھوں نے کبھی بتایا۔ مجھے وہسکی پینے کے دوران اکثر ایسا لگا کہ مذاہب بھی میری عمارت میں جڑی تختیاں جیسے ہی ہیں۔
کافی عرصہ گزر گیا مریم زمانی سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک دوبار میں نے انھیں عمارت کے بڑے کمرے سے باہر نکل کر تیز قدموں سے نیچے جاتے دیکھا۔ ایک بار تو مجھے ایسا لگا کہ کمرے سے باہر نکلنے پر ا ن کا چہرہ شاید غصے سے تمتمایا ہوا تھا۔ وہ میرے کمرے میں نہیں آئیں۔ ممکن ہے اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی وہ بڑے کمرے میں آئی ہوں۔ میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ایک دن خبر آئی کہ مریم زمانی کا ناول چھپ گیا ہے۔ طبیعت نہیں مانی تو میں نے انھیں فون کیا تو شام کو کافی ہاؤس میں ملنے کی تجویز انہوں نے رکھی۔ میں پہنچا تو وہ کونے کی میز پر تنہا بیٹھی ہوئی ملیں، لگا کہ ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ پتا چلا کہ ان کی قریبی دوست جو ایک اچھی شاعرہ تھیں گزر گئی ہیں اور وہ وہیں جائیں گی۔ ان شاعرہ کا کلام کبھی کبھی میں نے بھی پڑھا تھا اور مرعوب بھی تھا، افسوس کا اظہار کیا تو وہ بولیں، ’’آپ کی عمارت نے کبھی ان کا اعتراف نہیں کیا۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ کیونکہ تنگ آکر برسوں سے ان سوالوں کو بیوی بچوں اور اپاہج باپ کے مسائل کے ساتھ وہسکی میں ڈبو چکا تھا۔
’’میں جانتی ہوں کہ opinion Mafia کیسے بنتی ہے اور کس طرح کام کرتی ہے‘‘ شاید وہ خود سے کہہ رہی تھیں۔
’’جو دانشور آپ کے مقتدر سے، اس کے وفادار رہتے ہیں، وہ خراج کے طور پر انھیں وفاداروں کو اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے نامزد کرتا ہے۔ ان وفادارو ں کو لگاتار اپنی