باندھ
کہانی کی کہانی
پنجابی لڑکی رانو کی کہانی، جو جانتی ہے کہ وریا مواس سے محبت کرتا ہے، پر وہ اسے چھوڑ کر کیہر سنگھ کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کیہر سنگھ اس سے محبت نہیں کرتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے ارد گرد چکر لگاتی رہتی ہے۔ اسی میں وہ کیہر سنگھ سے حاملہ ہو جاتی ہے۔ مگر وریامو تب بھی اس سے خاموش محبت کرتا رہتا ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ اس کے گھر کو سیلاب سے بچانے کے لیے تنہا ہی بارش میں بھیگتا ہوا باندھ بنا دیتا ہے۔
شام اونگھ رہی تھی۔
وقت زیادہ نہیں ہوا تھا، لیکن آکاش میں دفعتاً کالی گھٹا چھا جانے سے گہری شام کا دھوکا ہونے لگا تھا۔ وسیع گھٹا دبے پاؤں آئی اور پھر نیلے آکاش پر اپنے گہرے مٹیالے رنگ کا پلستر کر دیا۔ یہ گھٹا اپنی جھولی میں ہوا کا ایک جھونکا تک نہیں لائی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر پیڑ اور ہر پودا ساکت کھڑا تھا۔ آک کے پتے یوں دکھائی دیتے تھے جیسے وہ ہتھیلیاں پھیلائے بارش کا دان مانگ رہے ہوں۔ ایک تو گرمی کی حدت دوسرے ہوا کی غیر موجودگی سے فضا میں گھٹن سی پیدا ہو گئی تھی۔
گاؤں سے آدھ میل دور بیاس دریا سے نکلنے والی چوڑی نہر جو بجائے خود چھوٹے موٹے دریاس ے کم نہیں تھی، چپ چاپ بہہ رہی تھی۔ اس کے دونوں کنارے بل کھاتے ہوئے دور کھیتوں میں گم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ نہر کے کنارے پر شیشم اور ببول کے پیڑ سر اٹھائے کھڑے تھے۔ جو مسافر نہر کی پٹری پٹری سفر کرتے، ان کو ان پیڑوں کی چھاؤں سے کافی آرام ملتا۔
ہاتھوں میں ٹیڑھی چھڑیاں پکڑے ڈھیلے ڈھالے تہبند لہراتے کچھ لڑکے نہرکی پٹری پر گھوم پھر رہے تھے۔ ان کے مویشی کچھ فاصلے پر گھاس چر رہے تھے۔ یکایک دو لڑکے پٹری پر رک گئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ٹوٹتے ہوئے کنارے کو دیکھنے لگے۔ جس مقام سے کنارا کمزور ہو گیا تھا وہاں پر نہر کی لہریں گھوم گھوم کر آتیں اور بار بار سر ٹکراتیں جس سے کنارا گھل گھل کر نہرمیں گر رہا تھا۔ ان لڑکوں کی دیکھا دیکھی باقی ساتھی بھی وہاں آ گئے۔ ٹوٹتے ہوئے کنارے کا منظر دیکھ کر ان کے بدن میں کپکپی سی پیدا ہوئی۔ آنے والے خطرے کا احساس کر کے وہ ایک دم ہی گاؤں کی طرف بھاگ نکلے۔ وہ زور زور سے چلا رہے تھے۔ چلاتے چلاتے ان کے کان لال ہو گئے اور ان کے گلے کی نیلی نیلی رگیں ابھر آئیں۔
گاؤں کے باہر دھریک کے پیڑوں کے جھنڈ تلے چار پائیوں پر بوڑھے بوڑھے اونگھ رہے تھے یا شطرنج چوپڑ وغیرہ کھیل رہے تھے۔ تین بجے ان کے آرام کرنے کا وقت تھا۔ شاید اب تک وہ کھیتوں کو جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ لیکن آسمان پر چھائی ہوئی گھٹا نے فضا میں کالی کالی دھول پھیلا دی تھی۔ چنانچہ وہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔
دور سے لڑکوں کے چلانے کی آوازیں سن کر پہلے تو یہی سمجھے کہ شاید جوہڑ میں گھسی کسی گائے کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ جلد ہی ان الجھی ہوئی آوازوں کے الفاظ صاف سنائی دینے لگی۔۔۔ ’’نہروکنڈ ٹڈا اے پیا۔‘‘
نہر کا کنارا ٹوٹ رہا ہے۔ اتنا سنتے ہی وہ سب ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
اسی وقت بادل اس قدر زور سے اور اتنے طویل وقفے تک گڑ گڑائے جیسے کسی غیبی ہاتھ نے آسمان کو ٹاٹ کی طرح ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھاڑ دیا ہو۔ موٹی موٹی بوندوں کے پھالے آڑے ترچھے دھرتی پر گرے تو ایک بار دھول پھڑ پھڑا کر اوپر کو اٹھی، لیکن لگاتار پانی برسنے سے دھول جیسے اٹھی تھی ویسے ہی بیٹھ گئی۔
گاؤں کے ایک سرے پر بنے ہوئے کچے مکان میں سوئی ہوئی رانو بھی ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی۔ پہلے تو اس کی نظر صحن کی طرف گئی، جہاں اس کی ماں چارپائیاں اٹھا اٹھا کر انہیں چھپر کے نیچے دیوار کے ساتھ ٹکا رہی تھی۔ پھر رانو اٹھ کر بھدی سی کھڑکی کے قریب جا کھڑی ہوئی۔ اس کھڑکی میں لوہے کی سلاخوں کی جگہ چوکور لکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ رانو نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں پر سے سوجے ہوئے پپوٹوں کو اوپر اٹھایا اور دیکھا کہ ہر چہار جانب سے لوگ نہر کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔ بعضوں نے پگڑیاں سر پر جلدی میں باندھنے کی بجائے بغلوں میں دبا رکھی تھں۔ انہوں نے تہبند ایک ہاتھ سے اوپر اٹھا رکھے تھے تاکہ دوڑنے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور بعضوں نے تہبند اتار کر کندھوں پر ڈال لیے تھے اور محض کچھے پہنے دوڑے جا رہے تھے جن کے ازار بند لہرا لہرا کر ان کے گھٹنوں سے سر پٹخ رہے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے بہتیرے لوگ نہر کے کنارے پر جا پہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ نہر کا کنارا اتنا کٹ چکا تھا کہ اب اسے ایک دم بند کرنا ناممکن تھا۔ نہر کا لہراتا ہوا پانی کنارے کو یوں ٹکریں مار رہا تھا جیسے پرانے زمانے میں بڑے بڑے ہاتھی قلعہ کا دروازہ توڑنے کے لیے اس سے ٹکریں مارا کرتے تھے۔
سب کی نظریں ٹوٹتے ہوئے کنارے پر جمی ہوئی تھیں۔ دفعتاً کنارہ کانپا۔ دھرتی میں تھرتھراہٹ سی پیدا ہوئی۔ پھر ٹوٹتے ہوئے کنارے کا جبڑا دھیرے دھیرے چرنے لگا اور پھر پھٹ پڑا۔
پانی بپھر کر دھڑدھڑاتا ہوا باہر کی طرف لپکا۔ اس کے بہاؤ میں آک اور پپولیوں کے کمزور پودے جڑ سے اکھڑ گئے اور پھرجھاگ اڑاتے ہوئے پانی میں ڈوب ڈوب کر ابھرنے اور ابھر ابھر کر ڈوبنے لگے۔
جو لوگ ابھی نہر کے کنارے پر نہیں پہنچ پائے تھے، انہوں نے جب گڑگڑاتے ہوئے پانی کے ریلے کو دیکھا تو ایک دم گھوم کر یوں سرپٹ بھاگے جیسے پاگل ہاتھی ان کا پیچھا کر رہا ہو۔ رانو نے دور پھٹتے ہوئے کنارے پانی ابلتے دیکھا تو اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور زیادہ پھیل گئیں، جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں لوگ بے مہار بھاگے جا رہے تھے۔ کسی کے سر کا جوڑا کھل گیا، کسی کا پاؤں رپٹ گیا اور کسی کی ٹانگیں گیلے تہبند میں الجھ گئیں۔ اچانک ہی رانو نے محسوس کیا کہ جب پانی گاؤں کے قریب پہنچے گا تو سب سے پہلے انہی کے مکان سے ٹکرائےگا۔ کیوں کہ ان کا مکان نہ صرف گاؤں کے سرے پر تھا بلکہ دوسرے مکانوں کی بہ نسبت بہت نیچی سطح پر بھی تھا۔ ممکن ہے پانی ان کے مکان کے اندر تک گھس آئے۔ خوف زدہ ہو کر اس نے منہ ڈھیلا چھوڑ دیا اور ایک چیخ نما آواز حلق سے نکالی۔ ’’ماں!‘‘
اگر اس وقت بادل کی گرج، بجلی کی کڑک اور بارش کا شور نہ ہوتا تو اس کی چیخ گاؤں کے دوسرے سرے تک پہنچتی— ماں اس کی چیخ کا سبب نہیں سمجھ پائی۔ وہ بھاگی بھاگی اندر آئی۔
’’کیوں گلا پھاڑ رہی ہو! میں صحن ہی میں تو کھڑی ہوں آخر ہوا کیا ہے؟‘‘
رانو منہ سے کچھ نہیں بولی۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر نہر کی طرف اشارہ کیا۔ بڑی نہر کے پھٹے ہوئے کنارے میں سے لپک لپک کر بہتے ہوئے پانی کو اس کی ماں نے بھی دیکھا۔
اب اس کی سمجھ میں آیا کہ رانو کیوں اس قدر زور سے چلائی تھی۔ بڑی نہر میں پانی کی کمی نہیں تھی۔ اس لیے ٹوٹے ہوئے کنارے سے جو پانی نکلا تو تھوڑی دیر میں ہی ایک جھیل سی بن گئی جو لمحہ بہ لمحہ وسیع ہوتی جا رہی تھی۔ رانوں کے مکان کے آگے ایک چوڑا کچا راستہ تھا۔ راستے کے دوسرے کنارے پر ریت کی مینڈھ تھی۔ اس وقت گھر کے مرد کچھ سامان لینے کے لیے شہر کو گئے ہوئے تھے۔ چنانچہ ماں بیٹی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ فرش پر رکھے ہوئے لکڑی کے بھاری صندوقوں اور دوسرے متفرق سامان کو پانی آ جانے کی صورت میں کیسے اٹھا کر اونچی جگہ پر رکھ سکیں گی۔
ماں جس پریشانی سے اندر آئی تھی اسی پریشانی سے باہر صحن کی طرف نکل گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کیا نہ کرے۔ رہی سہی کسر بارش نے پوری کر دی تھی۔ ایشور کو بھی مینہ برسانے کا یہ اچھا موقع ملا تھا۔
رانو اپنے ہاتھوں سے کھڑکی کی سلاخوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔ وہ دور بہتے ہوئے پانی کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کے ریلے کو اپنی سرمیلی آنکھوں کے جادو سے آگے بڑھنے سے روک دے گی۔ نہر پر کھڑے مردوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا۔ ٹوٹے ہوئے کنارے کو پاٹنے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ پہلے تو لکڑی کو موٹی موٹی بلیاں اس شگاف میں گاڑ دی جائیں۔ جب بہت سی بلیاں آگے پیچھے گڑ جائیں تو پھر ان میں پکی اینٹوں کے ٹکڑے ڈالے جائیں۔ یہ سب کچھ ہو چکے تو پھر تسلے بھر بھر کر مٹی ڈالی جائے تو پانی رک سکتا تھا۔
اتنا طے کرنے کے بعد انہوں نے چار چار چھ چھ آدمیوں کی ٹولیاں بنا دیں اور ان سب کو الگ الگ کام سونپ دیے۔ کچھ لوگ بلیاں لینے گئے۔۔۔ کچھ اینٹوں کے ٹکڑے اور کچھ مٹی اور تسلے وغیرہ لینے دوڑے۔
بارش نے الگ ایک مصیبت کھڑی کر رکھی تھی۔ لوگوں کے کپڑے تربتر ہو رہے تھے۔ ان کے لیے چلنا پھرنا اور دوسرے کام کرنا دوبھر ہو رہا تھا۔
سارے مردوں کا جمگھٹ نہر کے قریب ہی ہو رہا تھا۔ البتہ کام کرنے والے لوگ ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔ رانو نے اتنا تو سمجھ لیا کہ آنے والے پانی کے ریلے کو روکنا ناممکن تھا۔ کیوں کہ نہر کا کنارہ جہاں سے پھٹا تھا اسے پاٹنے میں کافی وقت درکار تھا۔ کمرے کے باہر اسے اپنی ماں کی گھبرائی ہوئی بے تکی آوازیں اور ادھر ادھر پڑتے ہوئے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔
رانو اپنے سامنے کھیتوں میں ہوتی ہوئی بارش کو اس انداز سے گھور رہی تھی جیسے وہ کوئی اصلیت نہ ہو محض خواب ہو۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ اسے باہر جا کر اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ یہ طے کر کے باہر جانے کو اس کے قدم اٹھے ہی تھے کہ راستے کے اس پار کھیت میں اسے ایک آدمی دکھائی دیا، جو اپنے کندھوں پر لکڑی کی گز گز بھر لمبی بلیوں اور پکی اینٹوں کے ٹکڑے اٹھائے ہوئے تھا۔ رانو پہلے تو یہی سمجھی کہ وہ آدمی اس سامان کو نہر پر لے جا رہا ہے۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس نے سارا سامان وہیں پٹخ دیا ہے تو وہ جاتے جاتے رک گئی۔ یہ دیکھ کر اسے اور بھی تعجب ہوا کہ اس نے کھیت کی مینڈ پر بلیاں گاڑنی شروع کر دیں۔ ان پروہ پھاوڑے کی الٹی طرف سے چوٹیں لگانے لگا۔
رانوں نے ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں پل بھر کو رقص کرتی رہیں۔ مگر سوچنے کی بات تو یہ تھی کہ وہ آدمی تھا کون، جو سب کام چھوڑ کر اس کے مکان کو پانی کو ریلے سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس بات کا جواب دینا مشکل تھا۔ کیوں کہ اب موسلا دھار بارش ہونے لگی تھی اور تیز ہوا بھی چلنے لگی تھی۔ دھرتی سے آکاش تک دھواں دھار ہو جانے کے کارن سب چیزیں دھندلی دھندلی دکھائی دینے لگی تھیں اور پھر اس مرد کی پگڑی کا ایک شملہ کان پرسے ہوتا ہوا نیچے لٹک رہا تھا۔ جس کی اوٹ میں اس کے چہرے کا بیشتر حصہ چھپا ہوا تھا۔ ہاں اس کی ٹھڈی پر اگی ہوئی داڑھی کی جھلک ضرور دکھائی دے رہی تھی۔
رانو نے آنکھیں پھاڑ کر اسے پہچاننے کی کوشش کی۔ جیسے آنکھیں پھاڑکر وہ شملے کے آر پار ہی تو دیکھ لےگی۔
اتنے میں اس کی ماں اندر آئی اور جب اس نے بالکل قریب پہنچ کر کچھ کہنا چاہا تو رانو نے اسے ٹوک دیا اور سرگوشی میں بولی۔ ’’دیکھو ماں نہ جانے کون کھیت کے کنارے بلیاں گاڑ رہا ہے۔ وہ اپنے ساتھ اینٹوں کے ٹکڑے بھی لایا ہے، وہ اسی کوشش میں ہے کہ پانی ہمارے مکان تک نہ پہنچنے پائے۔ مگر ماں! یہ ہے کون؟‘‘
ماں نے چندھی آنکھیں اس مرد پر گاڑ دیں پر شاید وہ آدمی پھاوڑہ چلاتے چلاتے تھوڑا سا دائیں بائیں گھوما۔ اسی اثناء میں وہ اسے پہچان گئی۔ بولی۔ ’’ہوتا کون؟ یہ تو اپنے گاؤں کا ہی دریاموں ہے۔۔۔‘‘
رانو کو ماں کا چہرہ کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے گھوم کر ماں کے چہرے پرنظر ڈالنی چاہی لیکن ماں نے فوراً منہ پھیر لیا اور اپنے گیلے سلیپر پھٹپھٹاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
یہ نام رانو کے کانوں میں گونجا، اس کے دماغ میں گونچا اور پھر اس کے سارے بدن میں گونجا۔ کچھ دیر تک وہ سمجھ ہی نہ پائی کہ وہ کیا محسوس کرے، اسے خوش ہونا چاہیے یا طیش میں آنا چاہیے۔ اسے کھڑکی بند کر دینی چاہیے یا اسے اداس ہو جانا چاہیے۔ وہ ان سب باتوں میں سے کچھ بھی نہ کر پائی۔
سیدھی سی بات تھی۔ دریاموں اس کی طرف دیکھا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ رانو کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ کیوں کہ ان کے گاؤں یا آس پاس کے دیہات میں کون ایسا نوجوان تھا جس کے پاس سے وہ گزرے اور اسے نظر بھر کر نہ دیکھے۔ پھر بھی دریاموں کا ڈھنگ سب سے نرالا تھا۔ دوسرے لوگ تو اسے بھوکی نظروں سے دیکھتے۔ ان کے ہونٹوں پر شرارت ہوتی تھی اور ان کے انگ انگ سے ہوس پھوٹتی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن دریاموں کی آنکھوں میں ویرانی ہی ویرانی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے ہونٹ بے رس اور خشک دکھائی دیتے تھے۔ اس کا سارا جسم یوں نظر آتا جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔ جیسے وہ اپنی ٹانگوں پر نہیں بلکہ لکڑی کی دو بلیوں کے سہارے کھڑا ہو۔
جب بھی رانو، دریاموں کو اس حالت میں دیکھتی تو اس کادل ڈوبنے لگتا۔ اس کا جی چاہتا کہ یا تو آندھی آئے اور اسے دریاموں سے کہیں دور، بہت دور جا پھینکے، یا دھرتی پھٹ جائے، اور دریاموں اس کی گہرائیوں میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے اس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ کبھی کبھی راستہ چلتے چلتے رانو کو یکا یک محسوس ہونے لگتا کہ اسے کوئی چپ چاپ دیکھ رہا ہے، جب وہ گھبرا کر ادھر اُدھر نظر دوڑاتی تو کسی گوشہ میں دریاموں دکھائی دے جاتا۔ اسے یوں لگتا جیسے کوئی ناگ پھن پھیلائے اپنی پتھرائی ہوئی آنکھیں اس پر گاڑے ہو۔
رفتہ رفتہ اسے دریاموں سے نفرت ہونے لگی وہ نہ تو منہ سے کچھ کہتا تھا نہ کوئی ایسی ویسی حرکت کرتا۔ نہ دل کا حال سناتا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دریاموں کیا چاہتا تھا اس سے۔ پھر بھی اکثر وہ اپنی سہیلیوں سے پوچھتی کہ یہ دریاموں کا بچہ اس سے کیا چاہتا تھا؟
ایک وقت وہ بھی آیا جب اسے دریاموں بالکل بھوت معلوم ہونے لگا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک الجھن سی رہنے لگی۔ جیسے اس کے کونےمیں کسی مکڑی نے جالا تان رکھا ہو اس جالے میں مکھیاں پھنس پھنس کر بھنبھناتی ہوں۔ یہ عجیب سا گھناؤنا سا، گندہ سا کھیل اس کے دماغ کے گوشے میں سدا ہی جاری رہتا۔ وہ اس جالے کو مکڑی اور مکھیوں سمیت اپنے دماغ سے پونچھ کر پرے پھینک دینا چاہتی تھی۔ مگر پھینک نہیں پاتی تھی۔
اگر دریاموں مختلف بھی ہوتا تو اسے کیا فرق پڑ سکتا تھا۔ یہ تو ناممکن تھا کہ وہ رانو کے دل میں جگہ پا لیتا۔ کیوں کہ رانوں کے دل پر تو کسی اور نے قبضہ جما رکھا تھا اور وہ تھا۔ کیہر سنگھ۔
کیہر سنگھ کا نہ تو رنگ گورا تھا اور نہ اس کا ناک نقشہ بہت اچھا تھا۔ پھر بھی بحیثیت مجموعی وہ بھلا ہی لگتا تھا۔ جوانوں میں جوان ایسا کہ ایک ہزار جوانوں میں کھڑا وہ الگ دکھائی دیتا تھا۔ اپنے قد، سینے کی چوڑائی اور لمبی بانہوں کے اٹھے اٹھے پٹھوں کے کارن اس کے جما میں شیر کی سی طاقت معلوم ہوتی تھی۔ رانو نے دو برس پہلے اسے دیکھا تو معاً اسے یوں لگا جیسے اس کے سینے سے دل بےاختیار نکل گیا ہو اور اس کی جگہ بےکراں درد نے لے لی ہو۔ وہ پہلا واقعہ یوں پیش آیا۔
اس سے گاؤں والوں نے دور سے ڈھول بجنے کی آوازیں سنیں تو وہ گھروں سے باہر نکل آئے اور رانو کے مکان کے سامنے قطار بنا کر کھڑے ہو گئے۔ ڈھول بجانے والوں کا جلوس ان کے مکان کے آگے سے گزرنے والا تھا۔ دور سے کچھ لوگ ایک جلوس کی شکل میں چلے آ رہے تھے۔ انہیں دو کوس آگے جانا تھا، جہاں سنت پیارا سنگھ کی سمادھی پر میلا لگا ہوا تھا۔ جلوس کے آگے بھنگڑہ ناچنے والے نوجوانوں کا گروہ تھا۔ وہ دھاری دار کرتے اور رنگین تہبند لہراتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کی لال یا کالی واسکٹوں پر سیپ کے بٹنوں کی بھر مار تھی۔ کلف لگی پگڑیاں سر پر، جن کے دو طرے تھے۔ ایک بائیں کو چومتا ہوا اور دوسرا پگڑی کے اوپر لگے کبوتر کی دم کی طرح پھیلا اور اکڑا ہوا۔ پاؤں میں دیسی جوتے جنہیں سرسوں کے تیل میں اچھی طرح چپڑ دیا گیا تھا۔ کانوں میں بالے، موٹے موٹے بالوں والی کلائیوں پر لوہے کے بھاری کڑے، ڈھول پیٹنے والے پیچھے پیچھے تھے اور بھنگڑہ ناچنے والے آگے آگے۔ ناچتے ناچتے جب وہ گاؤں کے قریب پہنچے تو ان کے لمبے لمبے چمٹوں پر لگی لوہے کی ٹکلیاں اور بھی دور سے جھنجھنا اٹھیں۔ ان میں سب سے زیادہ بلند قامت چوڑے کندھوں اور اونچی گردن والا جوان کیہر سنگھ ہی تھا جو اس سمے کالی گھٹا کو دیکھ کر مستی میں آئے ہوئے مور کی طرح ٹھمک ٹھمک کر ناچ رہا تھا۔ اس نے اپنا چمٹا دونوں ہاتھوں سے اپنے سر سے بھی اوپر اٹھا رکھا تھا۔ اس کا چہرہ گھوم کر ایک جانب کو جھک گیا تھا۔ اس نے آنکھیں موند رکھی تھیں۔ پاؤں کی تھرکن کے ساتھ اس کے کانوں میں پڑے بالے بھی مٹک رہے تھے۔ آنکھوں میں لگے سرمے کی دھاریاں پھیل گئی تھیں۔ اس کی یہ مستی دیکھ کر گالھڑ بجانے والے سمٹ کر اس کے قریب آ گئے۔ لاٹھیوں کے سرے پر بندھی ہوئی گالھڑوں کی ڈوریاں بار بار جھٹکے کھانے لگیں اور چمٹوں کی چھنا چن کے ساتھ گالھڑوں کی کٹاکٹ سے سماں باندھ دیا۔ جوانوں کے پاؤں تلے سے اٹھنے والی دھول نے کنواریوں کے مکھڑے چوم چوم لیے۔
کیہر سنگھ پاس ہی کے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ کبھی وہ رانوں کے گاؤں میں بھی آ نکلتا تھا۔ لیکن رانو نے اس کے بارے میں محض کہانیاں ہی سنی تھیں اسے دیکھا نہیں تھا۔ اب اس نے کیہر سنگھ کو پہلی بار دیکھا تو اس پر فدا ہو گئی۔
بھنگڑہ ناچنے والوں کا جلوس تو آگے نکل گیا، لیکن کیہر سنگھ کی محبت کا تیر رانو کے دل میں پھانس کی طرح اٹکا رہ گیا۔ اس کے بعد رانو نے ہمیشہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے۔ اسے جب کبھی خبر ملتی کہ کیہر سنگھ آیا ہوا ہے تو وہ فوراً کسی بہانے اس کے آگے پیچھے دو چار چکر ضرور لگا لیتی۔
شاید کوئی اور آدمی ہوتا تو رانو اسے سچ مچ ہی اپنے بس میں کر لیتی، لیکن کیہر سنگھ کے لیے لڑکی کوئی عجوبہ نہیں تھی۔ اس نے رانو کے جذبات کو بھانپ لیا اور کبھی کبھار اس پر ایک اچٹتی نظر ڈال لیتا۔ لیکن اس کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوا۔ اس کی بے رخی سے رانو کے من کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی۔
اور ایسے موقعے بھی آئے جب رات کے اندھیرے میں رانو اس کے پاس جا پہنچتی۔ جیسا کہ مردوں کا قاعدہ ہے ایسے موقعوں پر کیہر سنگھ بھی مجبور ہو جاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رانو کا پاؤں بھاری ہو گیا۔ ڈھائی تین مہینے سے اسے اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ وہ بچے کی ماں بننے والی ہے۔ کیہر سنگھ ایک اور لڑکی کے ساتھ غائب ہو گیا جس پر وہ کافی عرصے سے ڈورے ڈال رہا تھا۔
رانو کی ماں سے بیٹی کی حالت پوشیدہ نہیں تھی۔ وہ اس کی کیفیت پر پردہ ڈالے تھی، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ راز زیادہ عرصے تک چھپایا نہ جا سکےگا۔ وہ گھبرائی گھبرائی دائیوں سے دوا دارو پوچھتی پھرتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کچھ گرم دوائیں ایسے موقعوں پر کام آ سکتی ہیں، لیکن ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اسے بدنامی کا بھی ڈر تھا۔ اس لیے کھل کر کسی سے مشورہ بھی نہ لے سکتی تھی۔
جوں جوں دن گزر رہے تھے۔ توں توں اس کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ آخر جب گھر کے مردوں کو پتہ چلےگا تو کیا ہوگا؟ ایک روز جب کہ گھر میں ماں بیٹی کے سوا اور کوئی نہیں تھا، رانو پیڑھی پر بیٹھی تھی اور ماں اس کے پاس کھڑی ہو کر یکایک سر پیٹنے لگی اور اپنے بچے کھچے سفید بال نوچنے لگی۔ رانو کچھ نہیں بول۔ وہ سب کچھ سمجھتی تھی لیکن کیا کہہ سکتی تھی کیا کر سکتی تھی؟
ماں نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو پھر اس کے من میں بیٹی کے لیے رحم کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی ترکیبیں سوچنے لگی۔
اسی وقت بلیوں اور اینٹوں سے لدی ہوئی کچھ بیل گاڑیاں بےتکے انداز سے بھاگتی ہوئی ان کے مکان کے آگے سے گزریں۔ بیلوں کے کھروں سے کیچڑ کے چھینٹے اڑ کر دریاموں کے چہرے پر پڑے۔ لیکن وہ اسی لگن سے اپنے کام میں جٹا رہا۔ وہ تین چار چکر لگا کر کافی بلیاں اور اینٹوں کے ٹکڑے لیے آیا تھا۔ ادھر دریاموں اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔
بیل گاڑیاں جھومتی جاتی نہر کے ٹوٹے ہوئے کنارے تک پہنچیں۔ وہاں پر لوگ پہلے ہی تیار کھڑے تھے۔ انہوں نے جھپٹ کر سامان بیل گاڑیوں سے اتارا اور پھر تین چار آدمی بڑی مستعدی سے بلیاں شگاف میں گاڑنے لگے۔ وہ بھیگتے پھسلتے کام میں جٹ گئے۔ پیڑوں کے پتوں پر بارش کی تیز بوندوں کی بوچھار کے ساتھ ساتھ ہتھوڑوں کی دھما دھم سنائی دینے لگی۔ بلی کے بعد بلی گڑتی جا رہی تھی۔ لیکن اس بڑے شگاف میں سے نکلتے ہوئے پانی کے بہاؤ میں زیاد کمی نہیں ہوئی تھی۔ سب جانتے تھے کہ بلیاں گڑ جانے پر جب اینٹوں کے ٹکڑے ان میں بیٹھ جائیں گے تبھی پانی قابو میں آئےگا اور بالکل بند تب ہو گا جب مٹی کے تسلے بھر بھر کر اس میں ڈالے جائیں گے۔
اسی کام کو دریاموں چھوٹے پیمانے پر کر رہا تھا۔ وہ کھیت کی مینڈ پر چھوٹی بلیاں گاڑے جا رہا تھا۔ یہ بلیاں اس نے اپنے کھیتوں کے لیے بڑھئی سے تیار کروائی تھیں۔ کیوں کہ اس کے کھیتوں کی زمین کافی ڈھالو تھی۔ اس لیے جب اس کے کھیتوں کو پانی لگتا تو وہ بہہ کر دوسرے کھیتوں میں چلا جاتا۔ دریاموں کے ہاتھ مشین کی طرح چل رہے تھے۔ بلیاں گاڑ لینے کے بعد اس نے اس میں اینٹوں کی روڑی بھرنی شروع کر دی تھی اور اب وہ تسلے میں مٹی بھر کر اس چھوٹے سے باندھ کو مکمل کرنے لگا۔
رانو کھڑکی کے پاس کھڑی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اور اب اسے نہر کا پانی قریب آتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے پانی کے ریلے کی پیٹھ پر تیزی سے گرتی ہوئی پانی کی بوندیں چابک برسا رہی تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے پانی کا ریلا اپنی پیٹھی پر چابک کی مار کی تاب نہ لا کر بلبلاتا ہوا اور بھی تیزی سے بڑھتا آ رہا تھا۔
بھیگنے سے دریاموں کی حالت خراب سے خراب تر ہو گئی۔ اس کی پگڑی یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے اس نے گیلا گوبر اپنے سر پر تھوپ رکھا ہو۔ گاڑھے کا کرتہ بھیگ گیا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جب اس سے ٹکراتے تو دریاموں کو سردی کی لہر اپنی ہڈیوں تک محسوس ہوتی۔ رہی سہی کسر کیچڑ کی چھینٹوں نے پوری کر دی۔ شاید اتنا بھدا اور بھونڈا وہ پلے کبھی نظر نہ آیا ہوگا۔ لیکن رانو اسے عجیب اور بدلی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
کیہر سنگھ کے کسی اور لڑکی کے ساتھ بھاگ جانے کی خبر پہلے پہل جب رانو کے کانوں تک پہنچی تو اسے بڑا غصہ بھی آیا اور دکھ بھی پہنچا اور نراشا بھی ہوئی۔ اگرچہ رات کی تاریکی میں وہ کئی بار اپنے آپ کو ایک طرح سے زبردستی ہی کیہر سنگھ کے حوالے کر چکی تھی۔ اس امید میں کہ اس طرح شاید وہ اس کا بن جائے لیکن اپنے دل کی گہرائی میں اسے ڈر بھی لگتا تھا کہ شاید وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ کیوں کہ وہ کیہر سنگھ کے روکھے پن کو محسوس کرتی رہی تھی۔ کیہر سنگھ غائب ہوا تو اسے ویسی جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی جیسی شکاری کو شکار ہاتھ سے نکل جانے پر ہوتی ہے۔ وہ اپنی نظروں میں آپ ہی گرسی گئی تھی۔ علاوہ ازیں جو پاپ کی گٹھری وہ پیٹ میں لیے پھرتی تھی اس کی پریشانی الگ تھی۔ آج دریاموں کے برتاؤ نے اس کے من کے بوجھ کو انجانے میں ہی ہلکا کر دیا تھا۔ وہ محسوس ہونے لگی جیسے دریاموں کو اس نے زندگی میں پہلی بار پہچانا ہو۔ سارے گاؤں میں صرف وہی ایک آدمی تھا جسے اس بات کا خیال آیا کہ نہر کا پانی کہیں رانو کے مکان میں نہ گھس آئے۔ جو آدمی اس سے اتنا گہرا پریم کرتا تھا کیا وہ اس کی دیوانی جوانی کی ایک لغزش کو معاف نہ کر دےگا، کیا وہ بدنامی کے اس طوفان کو جوان کے گھر کی طرف نہر کے پانی سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے بڑھا آ رہا تھا، روک نہ دےگا۔
اتنے میں ہی پانی کا ریلا کھیت کی مینڈ سے آ ٹکرایا تو دریا موں اچھل کر باہر نکل آیا۔ پانی کی سطح دھیرے دھیرے اوپر کو اٹھ رہی تھی، لیکن اب پانی دریاموں کے بنائے ہوئے باندھے سے اوپر سے گزر نہیں سکتا تھا۔
اتنی دیر تک دریاموں نے نہ تو رانو سے آنکھ ملائی اور نہ منہ سے کوئی بات کہی۔ رانو کو اس سے الجھن ہونے لگی۔ اگر دریاموں کوئی بات چھیڑ دیتا تو اسے کتنی خوشی اور کتنی سہولت ہوتی۔ لیکن اس کے چپ رہنے پر بھی رانو نے برا نہیں مانا۔ وہ خود ہی گفتگو کا آغاز کرنے پر آمادہ تھی۔ زندگی میں اس سے بات کرنا تو درکنار اس نے دریاموں پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔ اب بات شروع ہو بھی تو کیسے؟
اتنے میں پھاوڑہ دریاموں کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے پانی میں گر پڑا۔ اسے لینے کے لینے کے لیے وہ پھر پانی میں کود پڑا۔ جب نلای تو اس کا پاؤں رپٹ گیا۔ وہ گرا تو نہیں، لیکن لڑکھڑا گیا۔
اتنے غیر اہم واقعہ کا بھی رانونے فائدہ اٹھایا اور بے اختیار ہنس دی، تاکہ دریاموں کے کان تک اس کی ہنسی کی آواز پہنچ جائے۔ رانو اتنا تو سمجھتی تھی کہ اس ہنسی سے بات چیت کا دروازہ کھل جائےگا۔ لیکن دریاموں نے پگڑی کا شملہ گھما کر دوسرے کندھے پریوں پھینک رکھا تھا کہ اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیتاتھا، محض آ نکھیں نظر آ رہی تھیں، جن سے اس کے دل کی کیفیت یا رانو کی ہنسی کے رد عمل کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔
اپنا کام ختم کر کے دریاموں پرے کو چل دیا۔ اب رانو سے رہا نہ گیا۔ اس نے کچھ لاڈ، کچھ پیار اور کچھ موسیقی سے لبریز آوز میں پکار کر کہا۔ ’’دریاموں!‘‘
دریاموں چلتے چلتے رک گیا۔ رانو کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ نہ وہ گھوما اور نہ منہ سے کچھ بولا۔۔۔ وہ چپ چاپ اپنی جگہ پر جامد سا کھڑا تھا۔ رانو نے محسوس کیا کہ اب اسے بات چیت کا آغاز کر دینا چاہیے۔ جلدی میں کچھ سوجھا نہیں تو یونہی ایک بےتکا سا سوال کر ڈالا۔‘‘ پرسوں تمہارے گھرمیں کچھ لوگ آئے تھے۔۔۔ کیوں آئے تھے وہ؟‘‘
رانو جانتی تھی کہ وہ کیوں آئے تھے۔ پچھلے کافی دنوں سے دریاموں کے رشتے کی بات چل رہی تھی، لیکن وہ ہر بارکنی کاٹ جاتا۔ جب ایسی خبریں رانو تک پہنچتیں تو وہ سمجھ جاتی کہ دریاموں کس لڑکی کی خاطر رشتے کو ٹھکرا دیتا ہے۔ اس لیے جو لوگ پرسوں آئے تھے، ان کے بارے میں بھی اسے کوئی چنتا نہیں تھی۔
دریاموں چپ تھا۔ رانو کو یوں لگا جیسے وہ چپ چاپ ہی آگے بڑھ جائےگا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے کھڑ کی کی چوکھٹ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنی سبک ناک سلاخوں میں باہر نکال کر زور سے چلائی تاکہ بارش کے شور کو چیر کر اس کی آواز دریاموں کے کانوں تک پہنچ سکے۔ ’’میں نے سنا ہے کہ وہ تمہارے لیے لڑکی کا رشتہ لے کر آئے تھے۔‘‘
اتنا سنتے ہی دریاموں ایک دھچکے کے ساتھ آگے کو بڑھا۔ بنا گھوم کر دیکھے، بنا کچھ جواب دیے۔ وہ پھاوڑے کی جتھی انگلیوں میں تھامے اسے اپنے پیچھے یوں کھینچ رہا تھا جیسے بھنگی مردہ کتے کو دم سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہیں۔ اپنی بات کا جواب نہ پاکر پہلے تو رانو کو طیش آیا پھر وہ گھبرا سی گئی۔ اس نے زور سے آواز لگائی۔۔۔’’دریاموں!‘‘
پھر بھی دریاموں یوں چلا جا رہا تھا جیسے وہ بہرہ ہو۔ اتنے میں رانو کی ماں اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔ اس نے دھیرے سے غصے بھری آواز میں کہا۔’’مورکھ کہیں کی۔‘‘
اب رانو بری طرح پریشان ہو اٹھی۔ وہ کھڑکی سے پیچھے پیٹ کر گھومی اور ماں کے پاس سے سرپٹ بھاگتی ہوئی گھر کے باہر نکل گئی۔ معاً تیز بارش اور کھلی ہوا میں بھیگ جانے سے اس کا سر چکرا گیا۔ اسے یوں لگا کہ اگر اس نے دوڑنے کی کوشش کی تو وہ چکر کھا کر گر پڑےگی۔ چنانچہ دیوار کا سہارا لے کر وہ رک گئی۔ اور اس نے اپنا گرم گرم رخسار کچی اور گیلی دیوار پر ٹیک دیا۔ اس کی آنکھیں پرنم ہو گئیں اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ آنسوؤں کو بہنے سے روک نہیں پائےگی۔
دور نہر کی طرف زور کا شور اٹھا۔
’’باندھ بندھ گیا۔۔۔ باندھ بندھ گیا۔‘‘
پھر لوگوں نے ’’جو بولے سو نہال!‘‘، ’’ست سری اکال ‘‘کے نعرے لگائے جو کھیتوںمیں گونج گئے۔
بادل جس تیزی سے آکاش پر چھا گئے تھے اسی تیزی سے پھٹ بھی گئے۔ ان پھٹے پھٹے بادلوں میں سے نیلے آکاش کا مکھڑا مسکراتا ہوا جھانکتا دکھائی دے رہا تھا۔
گھر کے اندر بڑھیا، دن کی روشنی کے باوجود چراغ جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
دریاموں گاؤں سے کچھ دور واقع ایک اندھے کنویں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جہاں بچپن میں وہ رانوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
نہر کے دونوں کناروں پر میلوں تک پیلے ہوئے پیڑوں کے جلوس کھڑے جھوم جھوم کر تالیاں بجا رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.