جہاں کارواں ٹھہرا تھا
اس سنسان اکیلی روش پر نرگس کی پتیوں کا سایہ جھک گیا۔ بیکراں رات کی خاموشی میں چھوٹے چھوٹے خداؤں کی سرگوشیاں منڈلا رہی تھیں۔ پیانو آہستہ آہستہ بجتا رہا اور اسے ایسا لگا جیسے ساری دنیا، ساری کائنات ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے اور اس وسیع خلا میں صرف اس کا خیال، اس کی یاد ، اس کا تصور لرزاں ہے۔ اور اس وقت اس نے محسوس کیا کہ رات، مرغ زاروں کی ہوا اور اس کی یاد ایک بار پھر جمع ہوگیے تھے۔ لیکن اسی وقت دھندلے ستاروں کی مدھم چیخیں آسمان پر گونج اٹھیں اور ان تینوں ساتھیوں کو منتشر کرتی ہوئی پہاڑیوں کی دوسری طرف جاکر ڈوب گئیں اور وہ خیالوں کے دھندلکے میں سے کہتا سنائی دیا:
لیڈی ویرونیکا۔ می لیڈی۔ ہُش۔ چاند سن لے گا۔ پھول جاگ اٹھیں گے۔ اپنے ساز اور رواں نہ کرو۔ نیندوں کی بستی کے راستوں پر سے خوابوں کا، پھولوں اور گیتوں کا کارواں آہستہ آہستہ گزر رہا ہے اوراس نے انتہائی تکلیف کے ساتھ سوچا، اور ایسا سوچتے ہوئے اسے نا معلوم سی خوشی ہوئی کہ کاش، کاش وہ مر ہی جائے۔ وہ جس کی آواز اب تک ستاروں کے دھندلکے میں گونج رہی تھی۔ وہ بس مرجائے۔ اگر وہ خود نہیں مرسکی تو وہ کیوں نہیں مرتا۔ لیکن وہ زندہ ہے۔ سب زندہ ہیں۔ اور چاند آلوچے کی ٹہنیوں کے پیچھے چھپ گیا اور چاندنی رات کا گیت تھم گیا۔ مہا گنی کے بھاری سیاہ آتش دان کے کونے پر جلتی ہوئی شمع لرز اٹھی اور تصویر کے بڑے سے شیشے کی سطح پر دھندلی زرد روشنی کی لکیریں تیرتی رہیں اور نیلگوں رات کے ایوانوں میں سے جھک کر چھوٹے چھوٹے خداؤں نے چپکے سے اس سے کہا:
لیڈی ویر ونیکا، ہوائیں خاموش ہیں، پھول سوچکے ہیں۔ تمہاری تصویر کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں کے اوپر کے شیشے کو گرد نے دھندلا کردیا ہے اور اس پر پرانے نقرئی شمع دان کا اجالا جھلملا رہا ہے کیوں کہ تم لیڈی ویر ونیکا نہیں ہو اور نہ زندگی وہ زندگی ہے جس میں چاند کی روشنی ، شوپاں کی موسیقی، پھولوں کے رنگ اور سمندر کی موجیں تھیں۔ خوب صورت زندگی، خوب صورت دنیا اور خوب صورت لیڈی ویر ونیکا۔۔۔ Oh! you silly little Lady make believe۔ شمع کا دھواں دیوار پر لہرا رہا ہے اور مہاگنی کا سیاہ آتش دان زیادہ مہیب نظر آتا ہے۔ زندگی مہیب ہے۔ ہیبت ناک، خوف ناک اور اکتائی ہوئی۔ زندگی اپنے آپ سے اکتا گئی ہے۔ زندگی کبھی ہاتھ نہ آنے والی اور دور سے نظر آکر پھر کھو جانے والی فردوس کے لیے روتے روتے تھک چکی ہے۔
اور اس اندھیری روش پر سے آدھی رات کی ہوائیں شورکرتی ہوئی گزرتی ہیں۔ اس نے پیانو بند کردیا اور اسے خیال آیا کسی نے کہا ہے: ’’ خدا نے ہمیں یادوں کا قیمتی خزانہ اس لیے عطا کیا ہے کہ ہم سرماکی برفانی فضاؤں میں بہار کے گلاب کی گرم خوشبوئیں حاصل کرسکیں۔‘‘ یہ یادیں۔ اس نے محسوس کیا کہ یادوں کی اس فراوانی نے اسے تھکا دیا ہے۔ پھر بھی وہ یادیں اور احمقانہ خواہشیں آگ کی سی تیزی کے ساتھ جل رہی ہیں اور ہواکے ایک تیز جھونکے سے لیڈی ویر ونیکا کی تصویر کے نیچے لرزاں شمع یک لخت بھڑک کر بجھ گئی اور موسیقی کی کتاب کے چند ورق منتشر ہو کر پیانو سے نیچے گر پڑے۔ قریب کی کوٹھی میں کسی نے ریڈیو گرام پر ایک پرانے نغمے کا ریکارڈ بجانا شروع کردیا تھا۔ ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں اور ان محلات کی چار دیواری کے باسی مجھ پر نازاں ہیں اور میں ان کی امیدوں کا سہارا ہوں۔ میرے پاس بے شمار دولت ہے اور میں بے انتہا اعلیٰ نسب ہوں، اور خواب میں میں نے یہ بھی دیکھا، جس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی، کہ تم اب بھی مجھے اتنا ہی چاہتے ہو۔‘‘
ایک مرتبہ کالج کے اوپیرا میں اس نے یہ گیت اس آسٹرین ڈیوک کی لڑکی کا پارٹ ادا کرتے ہوئے، جسے بچپن میں خانہ بدوش چرالائے تھے، پائن کے جنگلوں میں