پت جھڑ کی آواز
یہ کہانی کے مرکزی کردار تنویر فاطمہ کی زندگی کے تجربات اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ تنویر فاطمہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے لیکن زندگی جینے کا فن اسے نہیں آتا۔ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین مرد آتے ہیں۔ پہلا مرد خشوقت سنگھ ہےجو خود سے تنویر فاطمہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ دوسرا مرد فاروق، پہلے خشوقت سنگھ کے دوست کی حیثیت سے اس سے واقف ہوتا ہے اور پھر وہی اسکا سب کچھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تیسرا مرد وقار حسین ہے جو فاروق کا دوست بن کر آتا ہے اور تنویر فاطمہ کو ازدواجی زندگی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ تنویر فاطمہ پوری کہانی میں صرف ایک بار اپنے مستقبل کے بارے میں خوشوقت سنگھ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں آئے اس پہلے مرد خشوقت سنگھ کو کبھی بھول نہیں پاتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
چوری
یہ ایک ایسےبوڑھے بابا کی کہانی ہے جو الاؤ کے گرد بیٹھ کر بچوں کو اپنی زندگی سے وابستہ کہانی سناتا ہے۔ کہانی اس وقت کی ہے جب اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا اور اس شوق کو پورا کرنےکے لیے اس نے کتابوں کی ایک دکان سے اپنی پسند کی ایک کتاب چرا لی تھی۔ اس چوری نے اس کی زندگی کو کچھ اس طرح بدلا کہ وہ ساری عمر کے لیے چور بن گیا۔
سعادت حسن منٹو
وقفہ
ماضی کی یادوں کے سہارے بے رنگ زندگی میں تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ کا واحد متکلم اپنے مرحوم باپ کے ساتھ گزارے ہوے وقت کو یاد کر کے اپنی شکستہ زندگی کو آگے بڑھانے کی جد و جہد کر رہا ہے جس طرح اس کا باپ اپنی عمارت سازی کے ہنر سے پرانی اور اجاڑ عمارتوں کی مرمت کر کے قابل قبول بنا دیتا تھا۔ نیر مسعود کے دوسرے افسانوں کی طرح اس میں بھی خاندانی نشان اور ایسی مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جو کسی کی شناخت برقرار رکھتی ہیں۔
نیر مسعود
مس ٹین والا
یہ ایک نفسیاتی مریض کی ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں پر مبنی کہانی ہے۔ زیدی صاحب ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں اور بمبئی میں رہتے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وہ ایک بلے کی اپنے گھر میں آمد ورفت سے پریشان ہیں۔ وہ بلا اتنا ڈھیٹ ہے کہ ڈرانے، دھمکانے یا پھر مارنے کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ کھانے کے بعد بھی وہ اسی طرح اکڑ کے ساتھ زیدی صاحب کو گھورتا ہوا گھر سے باہر چلا جاتا ہے۔ اس کے اس رویئے سے زیدی صاحب اتنے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مصنف دوست سے ملنے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے دوست کی اپنی کیفیت اور اس بلے کی شرارتوں کی پوری داستان سناتے ہیں تو پھر دوست کے یاد دلانے پر انہیں یاد آتا ہے کہ بچپن میں اسکول کے باہر مس ٹین والا آیا کرتا تھا، جو مسٹر زیدی پر عاشق تھا۔ وہ بھی اس بلے کی ہی طرح ضدی، اکڑ والا اور ہر طرح کے زد و کوب سے بے اثر رہا کرتا تھا۔
سعادت حسن منٹو
وہ بڈھا
ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کی کہانی ہے جس کی مڈبھیڑ سر راہ چلتے ایک بوڑھے سے ہو جاتی ہے۔ بوڑھا اس کی خوبصورتی اور جوانی کی تعریف کرتا ہے تو پہلے تو لڑکی کو برا لگتا ہے لیکن رات میں جب وہ اپنے بستر پر لیٹتی ہے تو اسے طرح طرح کے خیال گھیر لیتے ہیں۔ وہ ان خیالوں میں اس وقت تک گم رہتی ہے جب تک اس کی ملاقات اپنے ہونے والے شوہر سے نہیں ہو جاتی۔
راجندر سنگھ بیدی
برف باری سے پہلے
ایک ناکام محبت کی کہانی جو تقسیم سے پہلے مسوری میں شروع ہوئی تھی۔ اپنے دوست کے ساتھ سیر کرتے ہوئے جب اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا تو اسے دیکھتے ہی یہ احساس ہوا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جسکی اسے تلاش تھی۔ یہ محبت شروع ہوتی اس سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی اور پھر ملک تقسیم ہو گیا اور سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا۔
قرۃالعین حیدر
ملاقاتی
’’میاں بیوی کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر ہونے والی بحث مباحثوں کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ صبح آنے والے کسی ملاقاتی پر شک کرتی ہوئی بیوی شوہر سے پوچھتی ہے کہ ان سے صبح کون ملنے آیا تھا؟ بیوی کے اس سوال کے جواب میں شوہر اس کے سامنے ہر طرح کی دلیل پیش کرتا ہے، مگر بیوی کو کسی بات پر یقین نہیں آتا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
جب میں چھوٹا تھا
بچوں کی نفسیات پر مبنی کہانی ہے۔ بچوں کے سامنے بڑے جب اخلاق و عادات سنوارنے کے لئے اپنے بچپن کے واقعات سناتے ہیں تو ان واقعات میں ان کی شبیہ ایک نیک اور انتہائی شریف بچے کی ہوتی ہے، درحقیقیت ایسا ہوتا نہیں ہے، لیکن مصلحتاً یہ دورغ گوئی بچوں کی نفسیات پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اس کہانی میں ایک باپ اپنے بیٹے کو بچپن میں کی گئی چوری کا واقعہ سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے دادی کے سامنے اعتراف کر لیا تھا اور دادی نے معاف کر دیا تھا۔ لیکن بچہ ایک دن جب پیسے اٹھا کر کچھ سامان خرید لیتا ہے اور اپنی ماں کے سامنے چوری کا اعتراف نہیں کرتا تو ماں اس قدر پٹائی کرتی ہے کہ بچہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ بچہ اپنے والد سے چوری کا واقعہ سنانے کی فرمائش کرتا ہے، باپ اس کی نفسیات سمجھ لیتا ہے اور کہتا ہے بیٹا اٹھو اور کھیلو، میں نے جو چوری کی تھی اس کا اعتراف آج تک تمہاری دادی کے سامنے نہیں کیا۔
راجندر سنگھ بیدی
اس کے بغیر
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو موسم بہار میں تنہا بیٹھی اپنی پہلی محبت کو یاد کر رہی ہے۔ ان دنوں اس کی بہن کے بہت سے چاہنے والے تھے مگر اس کا کوئی محبوب نہیں تھا اور اسی بات کا اسے افسوس تھا۔ اچانک اس کی زندگی میں آنند آگیا جس نے اس کی پوری زندگی ہی بدل دی۔ انھوں نے مل کر ایک ٹرپ کا پروگرام بنایا۔ اس سفر میں ان دونوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعے ہوئے جن کی وجہ سے وہ اس سفر کو کبھی نہیں بھلا سکی۔
احمد علی
مراسلہ
اس افسانہ میں ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات، آداب و اطوار اور طرز رہائش میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ہے، افسانہ کے مرکزی کردار کے گھر سے اس گھرانے کے گہرے مراسم ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور مصروفیت کی دھول اس تعلق پر جم گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب واحد متکلم اس گھر میں کسی کام سے جاتا ہے تو ان کے طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران ہوتا ہے۔
نیر مسعود
قید خانہ
ایک ایسے شخص کی کہانی جو تنہا ہے اور وقت گزارنے کے لیے ہر روز شام کو شراب خانے میں جاتا ہے۔ وہاں روز کے ساتھیوں سے اس کی بات چیت ہوتی ہے اور پھر وہ درختوں کے جھرمٹ میں چھپے اپنے گھر میں آ جاتا ہے۔ گھر اسے کسی قید خانے کی طرح لگتا ہے۔ وہ گھر سے نکل پڑتا ہے، قبرستان، پہاڑیوں اور دوسری جگہوں سے گزرتے، لوگوں سے میل ملاقات کرتے، ان کے ساتھ وقت گزارتے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ زندگی ایک قید خانہ ہے۔
احمد علی
بن بست
افسانہ میں دو زمانے اور دو الگ طرح کے رویوں کا تصادم نظر آتا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار اپنے بے فکری کے زمانے کا ذکر کرتا ہے جب شہر کا ماحول پر سکون تھا دن نکلنے سے لے کر شام ڈھلنے تک وہ شہر میں گھومتا پھرتا تھا لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ خوف کے سایے منڈلانے لگے فسادات ہونے لگے۔ ایک دن وہ بلوائیوں سے جان بچا کر بھاگتا ہوا ایک تنگ گلی کے تنگ مکان میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہ مکان پراسرار اور اس میں موجود عورت خوف زدہ معلوم ہوتی ہے اس کے باوجود اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے لیکن یہ اس کے خوف کی پروا کیے بغیر دروازہ کھول کر واپس لوٹ آتا ہے۔
نیر مسعود
گزرے دنوں کی یاد
ہماری زندگی میں کبھی کبھی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے جو بیتے دنوں کی ایک ایسی کھڑکی کھول دیتا ہے جس سے یادوں کی پوری بارات چلی آتی ہے۔ اس کہانی کا ہیرو بھی کسی ایسی ہی کشمکش کا شکار ہے۔ ایک دن اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ دوسری طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بتائے کہ یہ آواز کس کی ہے۔ ہیرو اپنی یادداشت کے مطابق کئی لڑکیوں کے نام بتاتا ہے اور فون کرنے والی لڑکی سے مسلسل باتیں کیے جا رہا ہے۔ ذہن پر بہت زور دینے کے باوجود بھی یاد نہیں کر پاتا کہ آخر اس سے بات کرنے والی لڑکی کون ہے؟
احمد علی
مالکن
تقسیم ملک سے بہت سی زندگیوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی زمیندار کی ہے جس کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر جاتا ہے لیکن حویلی کی مالکن نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔ مالکن حویلی کے اندر باہر کا کام اپنے وفادار چودھری گلاب سے کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حویلی کی بچی کھچی شان و شوکت بھی جاتی رہی اور حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ حویلی کی مالکن کو گزر بسر کرنے کے لیے سینے پرونے کا کام کرنا پڑا اور اس کام میں بھی چودھری گلاب مالکن کی مدد کرتا رہا۔ چودھری گلاب کی انسانی ہمدردی کو دنیا والے اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
قاضی عبد الستار
لالہ امام بخش
دیوی پرساد بخش نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام لالہ امام بخش اسلیے رکھا تھا کہ وہ محرم میں مانگی گئی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ چونکہ لالہ امام بخش کی پرورش بڑے لاڈ پیار سے ہوئی تھی اسلیے امام بخش سرکش ہو گیا تھا۔ دیوی پرساد کی موت کے بعد وہ اور بھی بے لگام ہو گیا اور اس کا ظلم گاؤں والوں پر بڑھتا گیا۔ گاؤں والوں نے مشورہ کرکے اسے پردھان بنا دیا۔ حالات اس وقت بدل گیے جب گاؤں میں ایک قتل ہوا اور قتل کے جرم میں لالہ امام بخش کو گرفتار کر لیا گیا۔
قاضی عبد الستار
بڑھاپا
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو ایک ویشیا سے محبت کے باعث اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔ اس کے اس طلاق میں مسجد کا مولوی دونوں فریقین کو خوب لوٹتا ہے۔ پچاس سال بعد جب وہ دوبارہ اس گاؤں میں آتا ہے تو مولوی اسے ساری باتیں سچ سچ بتا دیتا ہے۔ مولوی کا بیان سن کر وہ اپنی بیوی کی قبر پر جاتا ہے، لیکن چاہ کر بھی رو نہیں پاتا۔