کہانی کی کہانی
’’کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے، جو بہت دین دار ہے۔ مگر اتنا کنجوس ہے کہ اس کی بیوی بیٹی بہت مفلسی میں گزارا کرتی ہیں۔ اس کی بیوی بیٹی کو اچھی پرورش کے لیے ایک عورت کے پاس چھوڑ دیتی ہے، تو بدلے میں وہ اس عورت سے پیسے بھی مانگتا ہے۔ عورت پیسے تو نہیں دیتی، ہاں ایک پڑھے لکھے لڑکے سے اس کا رشتہ طے کر دیتی ہے۔ مگر کم مہر اور نقد نہ ملنے کی وجہ سے وہ دھوکے سے اپنی بیٹی کی شادی ایک امیر اور ادھیڑ عمر کے شخص سے کرا دیتا ہے۔‘‘
ہمارے محلے میں ایک خاں صاحب رہتے تھے۔ میں نے جب انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی عمر قریب پینتالیس سال کے تھی، مگر روایات سے معلوم ہوا کہ ان کے بال ہمیشہ سے ایسے ہی سیاہ و سپید کی آمیزش رہے ہیں۔ آنکھیں ایسی ہی خونی، مزاج ترش اور ٹوپی میلی، بواسیر کی شکایت بھی ان کی ہستی سے وابستہ تھی، مدتوں سے وہ شہر کے تمام طبیبوں اور ہندوستان کی تمام درگاہوں کی برائی کرتے چلے آئے تھے۔
ہمارے محلے میں کسی کو بھی وہ دن یاد نہ تھے، جب خاں صاحب کی کریہہ اور دل لرزانے والی آواز گلی کوچے میں نہیں گونجتی تھی۔ یا ان کا سیاہ چہرہ، قوی ہیکل جسم اور لمبا لٹھ خوف اور نفرت سے لوگوں کی نگاہیں نیچی نہیں کردیتا تھا۔ خاں صاحب کے پیشے کا کسی کو علم نہ تھا، سوا ان کم بختوں کے جنھیں کسی ناگہانی مصیبت میں روپے کی ضرورت ہوئی اور انہوں نے خاں صاحب سے مدد مانگی، مگر ان کی کیا مجال تھی کہ گالیاں سن کر اور سود در سود ادا کرکے بھی خاں صاحب کے پیشے کا کسی سے ذکر کریں۔ خاں صاحب سویرے جاکر موذن کو جگاتے تھے، مسجد کا امام ان کے ڈر سے نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتا تھا، دیر تک دعا مانگتا اور دعامانگتے مانگتے کثرت گناہ کا احساس اسے رلا بھی دیتا تھا۔ خاں صاحب کی ذات نے اس مسجد کو جو علاوہ جمعے کے ویران پڑی رہتی تھی اجتماعِ مسلمین کا مرکز بنادیا تھا۔ جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوا کرتی تھی۔ خاں صاحب کی داڑھی دیکھ کر شریفوں کیا غنڈوں میں میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کی ہمت نہ رہی۔ خاں صاحب کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں خونی تھیں تو کیا، انھوں نے سینکڑوں مسلمانوں کی صورتیں منور کر دی تھیں۔ ان کا مزاج ترش تھا تو کون سی شکایت کی بات، جب ان کی وجہ سے اتنے گمراہ بندے اپنے خدا کے قہر سے پناہ مانگنے لگے تھے۔
ہمارے محلے کے بنئے تو مستقل اختلاج قلب کے مریض ہوگیے۔ مگر بنیوں کا کیا، ان کا تو پیشہ یہی ہے، اگر دھوتی میل سے کالی اور قلب میں اختلاج نہ ہو تو وہ سود کا نرخ کیسے بڑھائیں۔ خاں صاحب شریعت کے ایسے عالم تھے کہ بغیر کفر کا الزام اپنے سر لیے دنیاوی معاملات میں بھی کوئی ان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ منطقی ایسے کہ جوش گفتار سے دوسرے کا دماغ پھرادیں اور فلسفی اس پایے کے کہ جب بیان شروع کریں تو کسی سے بغیر ہاں میں ہاں ملائے نہ بن پڑے۔ خاں صاحب نہایت فصاحت وبلاغت سے دین اسلام کی خوبیاں اپنے پست اندیشہ ہم جنسوں پر روشن کرتے، تنگ نظروں کو خدا کی مصلحت سمجھاتے اور مناظر کائنات کی تعریف میں سرد آہیں بھرتے تھے۔
ہمارا محلہ غریبوں کا تھا، کسی بیچارے کو اتنی مہلت کہاں ملتی تھی کہ شریعت، فلسفہ، منطق اور جمالیات میں یہ امتیاز حاصل کرے۔ خاں صاحب نے اپنی عقل و دانش اور مہیب شخصیت کے اثر سے محلے والوں کے دل و دماغ اور قوت ارادی کو معطل کر دیا تھا اور محلے والے غلامی کےایسے عادی ہوگیے تھے کہ انہیں اپنی آزادی کے دن تک یاد نہ رہے۔
خاں صاحب جب ہمارے محلے میں آکر بسے تو اپنی بیوی کو ساتھ لائے تھے۔ مدتوں تک نہ کسی نے ان کی بیوی کی صورت دیکھی، نہ کسی کو ان کے گھر کا حال معلوم ہوا۔ بہت دن ہوئے ایک بچہ ان کے دروازے کے سامنے کھیلتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ سال دو سال بعد ایک بچی بھی اس کے ساتھ کھیل میں شریک ہونے لگی، مگر لوگ خاں صاحب کے مکان کی طرف سے بغیر ضرورت کے گزرنا پسند نہیں کرتے تھے اور جب بچہ کسی بیماری میں مر گیا تو لوگ بھول گیے کہ خاں صاحب کے ایک لڑکی بھی ہے۔ میری خالہ کو یہ معلوم تھا اس لیے کہ وہ بچے کی تعزیت میں ہمت کرکے خاں صاحب کے یہاں پہنچی تھیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ مہینے بھر بخار میں مبتلا رہیں۔ مزاج پرسی کے سلسلے میں خاں صاحب کی بیوی کا بھی میری خالہ کےیہاں کئی دفعہ آنا ہوا اور یوں دنوں بیبیوں کے تعلقات بڑھ گیے۔
مگر خاں صاحب کی بیوی کی کیا مجال تھی کہ انسانیت کے فرائض ادا کریں اور میری خالہ کے گھر میں قدم رکھیں، اگر میری خالہ کو ان کی سخاوت، دین داری اور غریب پروری نے محلے کیا تمام شہر میں مشہور نہ کیا ہوتا۔ بیوہ ہونے کے بعد انھوں نے اکلوتے بیٹے کو اپنے سامنے مرتے دیکھا تھا۔ اس صدمے نے دنیا سے ان کی طبیعت ایسی ہٹا دی کہ انھوں نے اپنی عمر عبادت کے لیے وقف کردی اور جائداد کی ساری آمدنی غریب بچوں کی تربیت اور حاجت مندوں کی امداد میں صرف کرتی تھیں، ہر مولوی، ملا، امام، حافظ، عالم کو ان کے یہاں سے وظیفہ ملتا تھا۔ جن لوگوں کو خاں صاحب سود پر روپیہ دیتے تھے وہ ان کے یہاں اکثر آ چکے تھے اور خاں صاحب کے ہتھے اس وجہ سے چڑھے کہ مستقل وظیفوں میں میری خالہ کی آمدنی صرف ہو جاتی تھی اور وہ خود کبھی کبھی فاقے سے رہتی تھیں۔
خاں صاحب نے شریعت کی پابندی اور مکےکے زور سے جو اقتدار حاصل کیا تھا، وہ میری خالہ کے اثر سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اسی وجہ سےجب کبھی ان کی بیوی میری خالہ سے ملنے آتیں تو وہ اپنا سلام بھی کہلا بھیجتے۔ میری خالہ کو یہ معلوم ہوگیا کہ خاں صاحب کو ڈولی کا کرایہ دینا ناگوار گزرتا ہے اور انھوں نے خاں صاحب کی بیوی کو پیشگی کرایہ بھیجنے کا قاعدہ بنا لیا، اس پر بھی خادمہ کو سخت تاکید تھی کہ خاں صاحب اسے دیکھ نہ پائیں، ورنہ وہ کرایہ وصول کر لیتے اور کہلا بھیجتے کہ بیوی کی طبیعت بہت خراب ہے۔
خاں صاحب کی بیوی کو جب میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ ادھیڑ عمر کی تھیں مگر اس سن پر بھی ان کی جوانی کے حسن کی جھلک نظر آتی تھی، جسے دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ وہ خاں صاحب کے پنجے میں کیسے پھنسیں، اونچا قد، سڈول جسم، بڑی بڑی پراسرار آنکھیں، لہجے میں متانت، ہرشخص امیر ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا انھیں دیکھتے ہی اپنے دل میں ان کی عزت کرنے لگتا۔ برتاؤ میں ایسی ہمدردی، ایسا خلوص کہ دل سے ہزار پریشانیوں کی کدورت دور کردے۔ طبیعت کی شریف ہونے کےعلاوہ وہ اتنی تعلیم یافتہ اور مہذب تھیں کہ میری خالہ کو یقین ہو گیا کہ خاں صاحب کے ساتھ ان کی شادی سوچ سمجھ کر نہیں کی گئی۔ غالباً ان کے ماں باپ پر کوئی ایسی ہی مصیبت آئی ہوگی کہ ان بیچاروں کوایسی لڑکی ایسے آدمی کے سپرد کر دینا بھی غنیمت معلوم ہوا۔ اصل واقعہ میری خالہ باوجود کثرت ملاقات کے دریافت نہ کر سکیں۔ ایک دو بار انھوں نے پوچھا تو ضرور، لیکن خاں صاحب کی بیوی نے سرد آہیں بھر کر ٹال دیا اور ان کا تکلف دیکھ کر میری خالہ نے پوچھنا چھوڑ دیا۔ اس ناواقفیت سے ان دونوں کی گہری دوستی اور محبت میں کوئی فرق نہیں آیا اور جب خاں صاحب کی بیوی نے ایک دن میری خالہ سے درخواست کی کہ ان کی بچی کی پرورش وہ اپنے ذمہ لے لیں تو ان کی محبت اور پختہ ہو گئی۔
خاں صاحب کی بچی سکینہ اس زمانے میں دس بارہ برس کی تھی، میری خالہ کی بہت پہلے سے خواہش تھی کہ اسے اپنے ساتھ رکھیں، لیکن ایک ستم زدہ ماں سے اس کی اکلوتی بچی کا مانگنا انھیں کسی صورت سے گوارا نہ ہوا۔ خاں صاحب کی بیوی نے شریفوں کے یہاں تربیت پائی تھی اور گو انھیں یقین تھا کہ میری خالہ کو ان کی بچی سے بہت محبت ہے مگر انھوں نے اپنی طرف سے کبھی کوئی اشارہ نہیں کیا۔ سکینہ جب میری خالہ کے یہاں آتی تو بہت خوش ہوتی، کھیلتی کودتی، خالہ کی خدمت بھی کرتی، جب جاتی تو ہمیشہ آنکھوں میں آنسو لے کر جاتی اور وہ خالہ سے وعدہ لے کر کہ وہ اسے پھر جلد یاد کریں گی۔ مگر دونوں بی بیوں کے تکلف میں پانچ چھ سال گزر گیے۔ خالہ کے یہاں وہ مستقل طور پر یوں آ گئی کہ وہ بڑی ہوگئی تھی، کہاروں نے اسے ماں کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیا اور خاں صاحب نے اعلان کیا کہ اگر انھوں نے کبھی اسے رستے میں چلتے دیکھا تو اس کا گلا گھونٹ دیں گے۔
خالہ پر کہاروں کا کرایہ ویسے بھی چڑھ گیا تھا، ایک اور ڈولی کی درخواست ان سے کیسے کی جاتی، پھر بھی یہ انتظام زیادہ تر سکینہ کی تحریک سے ہوا، وہ ابھی تک اپنی ماں کی مجبوریاں اور باپ کی فطرت کو نہیں سمجھی تھی۔ اس نے ایک دن کہا کہ وہ خالہ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور ماں نے خود ہمت کرکے اپنی طرف سے یہ درخواست کر دی، اس خوف سے کہ وہ کہیں واقعی کہہ نہ دے اور میری خالہ کو گمان ہو کہ وہ براہِ راست نہیں کہنا چاہتی تھی، اس لیے لڑکی سے کہلوایا، جب سکینہ کا میری خالہ کے ساتھ رہنا طے ہو گیا تو انھیں اور بھی مصلحتیں سوجھیں، خاں صاحب سکینہ کو میلے چتھڑوں میں رکھتے تھے۔ اب وہ ایسی بچی نہیں رہی تھی کہ میلی ہونے کاالزام اسی پر لگا دیا جائے مگر وہ خاں صاحب کو اپنی گرہ سے کچھ خرچ کرنے پر آمادہ نہ کر سکیں۔ خاں صاحب سےیہ امید کرنا بھی فضول تھا کہ وہ اس کی آئندہ زندگی کے لیے سامان کریں گے۔ میری خالہ کے جو تعلقات تھے انھیں دیکھتے ہوئے سکینہ کے لیے ایک ہونہار شریف زادے کی تلاش کرنا کوئی مشکل بات نہ تھی۔یہ سب تدبیریں تھیں، پھر یکایک تقدیر نے اپنی صورت دکھائی۔ جب سکینہ میری خالہ کے پاس ایک مہینے کے قریب رہ چکی تھی تو خاں صاحب نے اپنی بیوی سے پوچھا،
’’کیوں ری سکینہ کی تنخواہ تونے کاہے میں خرچ کرڈالی؟‘‘
خاں صاحب کی بیوی سہم گئیں۔
’’کیسی تنخواہ؟‘‘
’’ہونہہ! کیا اپنی پلی پلائی لڑکی کسی کو مفت دیتا ہے؟‘‘
خاں صاحب کی بیوی نے بجائے جواب دینے کے اپنا منہ چادر میں لپیٹ لیا اور روتے روتے سو گئیں۔ اپنے شوہر کی بے حیائی پر انھیں ہر دوسرے تیسرے روز شرمندہ ہونا پڑتا تھا۔ اس کی وہ عادی ہو گئی تھیں لیکن اب تو انھیں خود بھی ذلیل کرنے کی ترکیبیں تھیں، اگر بچنے کی کوئی امید ہوتی تو وہ اس کی فکر کرتیں، لیکن انھیں یقین تھا کہ خاں صاحب بغیر اپنے ٹکے وصول کیے نہ مانیں گے۔ وہ اسی کشمکش میں تھیں کہ بات کیسے بنائی جائے۔ ایک روز جب وہ میری خالہ کی ڈیوڑھی میں ڈولی پر سے اتریں تو خاں صاحب نکلتے ہوئے دکھائی دیے، اندر پہنچیں تو خالہ کو برہم پایا اور وہ بے چاری اپنا سا منہ لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں، خالہ کو سلام کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
جب مغرب کے بعد سکینہ کے ذریعے سے معلوم ہوا کہ خالہ کا غصہ اتر گیا ہے تو روتی ہوئی ان کے سامنے آئیں، خالہ نے انھیں گلے لگا لیا، ہمدردی کے کچھ آنسو ٹپکائے مگر بہت دیر خاموش بیٹھی رہیں۔ کہتیں تو کیا کہتیں؟ خاں صاحب نے اپنے افلاس کا دکھڑا رویا تھا، نہایت عجزوانکسار کے ساتھ نوٹس دیے گیےتھے کہ ’’میری لڑکی مجھے واپس مل جائے یا میری بھی پرورش ہو۔ ماں بوڑھی ہے اس سے کچھ کام کاج ہوتا ہواتا نہیں، اسے خود سہارے کی ضرورت ہے میں جو کچھ کر سکتا ہوں کرتا ہوں لیکن میں روٹی تو نہیں پکا سکتا۔ اتنی میری حیثیت نہیں کہ کسی کو نوکر رکھوں۔ اب حضور خود ہی سمجھ لیں آدمی اولاد کی پرورش اسی لیے کرتا ہے کہ بڑھاپے میں آرام ملے۔‘‘
میری خالہ سمجھ گئیں، اگر ہو سکتا تو وہ کچھ نقدی خاں صاحب کے حوالے کرتیں مگر انھیں خود ان دنوں روپے کی بہت سخت ضرورت تھی۔ زیادہ غصہ انھیں اپنی بےبسی پر آیا، مگر جس طرح سے خاں صاحب نے اپنی بیوی کے ضعف پیری اور ان کی حاجتوں کو گفتگو میں پیش پیش رکھا، وہ بھی انھیں بہت ناگوار گزرا۔ خاں صاحب کی بیوی نہ بوڑھی تھیں نہ ضعیف۔ گھر کا کام کاج کرکے وہ اکثر میری خالہ کے یہاں پکانے میں مدد کرتی تھیں۔ خاں صاحب جس کفایت شعاری سے رہتے تھے اس کے لحاظ سے امور خانہ داری کوئی بار نہیں ہو سکتے تھے۔ نہ کسی کا قرض نہ کہیں سے تقاضا، نہ کوئی بحث و مباحثہ اور پیٹ بھی کتنے بھرنے تھے۔ جب سے سکینہ چلی گئی تو چار روٹی ذرا سی بھاجی، ہفتے عشرے میں دو چار بوٹی گوشت اور جب وہ تھی تو بھی ماں اپنے حصے میں سے اسے کھلاتی تھی۔ خاں صاحب کو کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ اولاد کی پرورش کر رہے ہیں۔
یہ سب ماجرا خاں صاحب کی بیوی نے میری خالہ کو سنایا، مگر اس متانت اور ضبط سے کہ خاں صاحب پر کسی طرح کا صریحی الزام نہ آئے۔
’’یہ تو سب کچھ ہے مگر بی بی میں شکایت کس منہ سے کروں۔ خاں صاحب ایسے متقی، پرہیزگار، روزہ نماز کے پابند ہیں کہ جس کسی سے بھی پوچھو وہ بتا دےگا کہ ان کی ذات سے کتنوں کو فائدہ پہنچا، کتنے مسلمان اپنے فرائض سے آگاہ ہوئے۔ مسجد ویران پڑی رہتی تھی، اب وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہے۔ ہزاروں کے لبوں پر اللہ کانام ہے۔ سینکڑوں ان کی دلیلوں سے قائل ہوکر شریعت کے احکام پورے کرنےلگے ہیں۔‘‘
’’ہاں بہن، اس میں تو کوئی کلام نہیں۔‘‘
’’اور پھر بی بی وہ معاملے کے ایسے صاف سچے ہیں۔ جھوٹے وعدے سے زیادہ انھیں کوئی بات ناگوار نہیں ہوتی، مجھ سے خود ہی کہہ رہے تھے کہ سکینہ کو اس طرح آپ کے متھے تھوپ دینا بےجا ہے۔‘‘
’’تم بھی بہن کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔ سکینہ کو تو میں اپنی بیٹی سمجھتی ہوں۔‘‘
’’یہ تو بی بی میں جانتی ہوں، میرا دل جانتا ہے۔۔۔ مگر ہم لوگ غریب ہیں، آپ کو چاہے جتنی محبت ہو، خاں صاحب کو تو ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اس کا دماغ نہ پھر جائے۔۔۔ اسے آخر غریبوں ہی کے گھر زندگی بسر کرنا ہے۔‘‘
’’واہ بہن تم نے بیٹھے بیٹھے مجھے رئیس خوب بنا دیا، میں بھلا اس کی کون سی خاطر کر سکتی ہوں اور وہ کیسے رہتی ہے۔‘‘
’’بی بی آپ کو تو سخاوت اور دین داری نے غریب کر دیا ہے۔ ہماری نظروں میں تو آپ رئیس ہی ہیں۔‘‘
’’اچھا بہن، اگر ایسا ہی ہے تو اپنی لڑکی لے جاؤ میں اور کوئی سہارا ڈھونڈھ لوں گی، تمہاری بیٹی کی عادتیں تو نہ بگڑنے پائیں۔‘‘ میری خالہ نے ٹھنڈی سانس لی اور منہ پھیر لیا۔
خاں صاحب کی بیوی چوکنی ہو گئیں، وہ خاں صاحب کی صفائی تو ضرور کرنا چاہتی تھیں لیکن سکینہ کو اپنے گھر واپس بلا لینا بھی انھیں کسی صورت سے منظور نہ تھا۔
’’بی بی، آپ خفا نہ ہوں، خاں صاحب تو بات کے دھنی ہیں، جو بات جی میں ٹھان لیتے ہیں اسے چاہتے ہیں کہ فوراً کر بھی دکھائیں۔ میں نے انھیں سمجھایا تھا کہ ابھی آپ کے پاس حاضر نہ ہوں، مجھے پہلےآپ کو سارا ماجرا سنا لینے دیں۔ سکینہ آپ کی لونڈی ہے، بھلا ہمیں کب یہ گوارا ہوگا کہ اس کی وجہ سے آپ کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے۔ اس کی پرورش منظور ہے تو بڑی خوشی سے اپنے پاس رکھیے وہ بھی سدھر جائےگی، ہم بھی آپ کو دعا دیں گے آپ جیسا سرپرست اس