Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لاجونتی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    لاجونتی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سندر لال سے محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں اور پھر مہاجرین کی ادلا بدلی میں لاجونتی واپس سندر لال کے پاس آجاتی ہے۔ اس دوران لاجونتی کے لیے سندر لال کا رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ لاجوانتی کو اپنی وفاداری اور پاکیزگی پر کچھ ایسے سوال کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

    ’’ہتھ لائیاں کمھلاں نی لاجونتی دے بوٹے‘‘

    (یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)

    ایک پنجابی گیت

    بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی۔۔۔

    گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی۔

    اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملاّ شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہوگئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندرلال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کرسکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندرلال کی اپنی بیوی اغوا ہوچکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو۔۔۔ لاجونتی۔

    چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے۔ ’’ہتھ لائیاں کمھلاں نی لاجونتی دے بوٹے۔‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہوجاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا۔ جانے وہ کہاں ہوگی، کس حال میں ہوگی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟ اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔

    اور اب تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا تھا۔ اس کا غم اب دنیا کا غم ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کردیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا۔ انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اٹھنے بیٹھنے ، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔

    اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اس کا اضطرار شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کراس کے بڑے سے پتے پر کبھی ادھر اور کبھی ادھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دبلاپن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مارپیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اٹھتی، ’’پھرمارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی۔‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مارپیٹ بھول چکی ہے۔ گاوں کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں۔ ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی۔‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگالی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گاوں چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا، ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہوگی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے۔

    اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتادوں۔ ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہوجانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہوجانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا۔ ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کردینا چاہیے۔ وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا ،جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا۔ انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیئے جو ان کے ساتھ ہوئیں۔ کیونکہ ان کے دل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح۔۔۔ ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے۔

    گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملاّ شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی الجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے۔ او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہگین پروپگنڈ ے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔

    لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا، پر گُنگناتا چلا جاتاہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بھائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملاّ شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہوگئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندرلال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے۔اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے۔

    لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماں، باپ، بہن اور بھائیوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟ وہ بزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی۔ سہاگ ونتی۔۔۔ سہاگ والی۔اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی۔ تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے۔ اور بہاری چلاّ دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔

    لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابھائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندرلال نے امید وبیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کردیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جلی ایک تقریر کردیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پرانوں کا حوالہ دیتے، اتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھاجاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے۔

    ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا۔ میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا۔ ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے۔۔۔؟‘‘ نارائن باوا نے کہا، ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘

    کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اٹھا،

    ’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیئے بابا‘‘

    ’’چپ رہو جی۔‘‘

    ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘

    ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا، ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

    پھر ملی جلی آوازیں آئیں، ’’خاموش!‘‘

    ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی، ’’مار دیں گے۔‘‘

    نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا، ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال‘‘

    سندر لال نے کہا، ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا۔ رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘

    انیر لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اٹھے۔ ’’سنو، سنو، سنو۔۔۔‘‘

    رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے، ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کرپائے؟‘‘

    نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا، ’’اس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘

    ’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا، ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا۔ آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے۔اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے۔اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘

    آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے۔ سیتا۔لاجونتی۔اور سندر لال بابو نے رونا شروع کردیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سرخ جھنڈے اٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندرلال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا، ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی، ’’شری رام چندر۔۔۔‘‘

    اور پھر بہت سی آوازیں آئیں، ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میں شامل ہوگئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جارہے تھے، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے۔ اور ان کے درمیان کہیں سندرلال جارہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے۔

    ’’ہتھ لائیاں کملاسں نی لاجونتی دے بوٹے‘‘

    ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہوپائی تھی اور محلہ ملاّ شکور کے مکان 414 کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘ لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپولے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا، ’’بدھائی ہو سندر