- کتاب فہرست 180434
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1859
طب718 تحریکات268 ناول3789 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار63
- دیوان1335
- دوہا64
- رزمیہ99
- شرح164
- گیت82
- غزل867
- ہائیکو11
- حمد35
- مزاحیہ38
- انتخاب1449
- کہہ مکرنی6
- کلیات635
- ماہیہ17
- مجموعہ4167
- مرثیہ348
- مثنوی738
- مسدس49
- نعت480
- نظم1082
- دیگر58
- پہیلی16
- قصیدہ167
- قوالی19
- قطعہ53
- رباعی269
- مخمس18
- ریختی13
- باقیات27
- سلام31
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی22
- ترجمہ73
- واسوخت24
راجندر سنگھ بیدی کے افسانے
لاجونتی
لاجونتی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سندر لال سے محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں اور پھر مہاجرین کی ادلا بدلی میں لاجونتی واپس سندر لال کے پاس آجاتی ہے۔ اس دوران لاجونتی کے لیے سندر لال کا رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ لاجوانتی کو اپنی وفاداری اور پاکیزگی پر کچھ ایسے سوال کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
اپنے دکھ مجھے دے دو
کہانی ایک ایسے جوڑے کی داستان کو بیان کرتی ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ سہاگ رات میں شوہر کے دکھوں کو سن کر بیوی اس کے سبھی دکھ مانگ لیتی ہے مگر وہ اس سے کچھ نہیں مانگتا ہے۔ بیوی نے گھر کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ عمر کے آخر پڑاؤ پر ایک روز شوہر کو جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ میں نے تم سے تمھارے سارے دکھ مانگ لیے تھے مگر تم نے مجھ سے میری خوشی نہیں مانگی اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں دے سکی۔
گرم کوٹ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے ایک گرم کوٹ کی شدید ضرورت ہے۔ پرانے کوٹ پر پیوند لگاتے ہوئے وہ اور اسکی بیوی دونوں تھک گیے ہیں۔ بیوی بچوں کی ضرورتوں کے آگے وہ ہمیشہ اپنی اس ضرورت کو ٹالتا رہتا ہے۔ ایک روز گھر کی ضروریات کی فہرست بنا کر وہ بازار جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیب میں رکھا دس کا نوٹ کہیں گم ہو گیا ہے، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ نوٹ کوٹ کی پھٹی جیب میں سے کھسک کر دوسری طرف چلا گیا تھا۔ اگلی بار وہ اپنی بیوی کو بازار بھیجتا ہے۔ بیوی اپنا اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے شوہر کے لیے گرم کوٹ کا کپڑا لے آتی ہے۔
کوارنٹین
اس کہانی میں ایک ایسی وبا کے بارے میں بتایا گیا ہے جسکی زد میں پورا علاقہ ہے اور لوگوں کی موت بدستور جاری ہے، ایسے میں علاقےکے ڈاکٹر اور انکے معاون کی خدمات قابل ستائش ہے۔ بیماروں کا علاج کرتے ہوئے انھیں احساس ہوتا ہے کہ لوگ بیماری سے کم کوارنٹین سے زیادہ مر رہے ہیں۔ بیماری سے بچنے کے لیے ڈاکٹر خود کو مریض سے الگ کر رہے ہیں جبکہ انکا معاون بھاگو بھنگی بغیر کسی خوف کے شب و روز بیماروں کی تیمارداری میں لگا ہوا ہے۔ علاقے سے جب وبا ختم ہو جاتی ہے تو عمائدین شہر کی جانب سے ڈاکٹر کے اعزاز میں جلسہ منعقد کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر کےخدمات کی تعریف کی جاتی ہے لیکن بھاگو بھنگی کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
ایک باپ بکاؤ ہے
کہانی اخبار میں شائع ایک اشتہار سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک باپ کا حلیہ بتاتے ہوئے اس کے فروخت کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ اشتہار شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ اسے خریدنے پہنچتے ہیں مگر جیسے جیسے انھیں اس کی خامیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ خریدنے سے انکار کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ایک بڑا کاروباری اسے خرید لیتا ہے اور اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ خریدا ہوا باپ ایک زمانے میں بہت بڑا گلوکار تھا اور ایک لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی بھی تھی تو کہانی ایک دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
گھر میں بازار میں
کہانی سماج اور گھر میں عورت کے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ شادی کے بعد عورت شوہر سے خرچ کے لیے پیسے مانگتے ہوئے شرماتی ہے۔ مائیکے میں تو ضرورت کے پیسے باپ کے کوٹ سے لے لیا کرتی تھی مگر سسرال میں شوہر کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو بیسوا سی محسوس کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوہر اپنی پسند کی چیزیں لاکر دیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی بیسوا ہے۔ ایک روز اس کا شوہر اسے ایک بازارو عورت کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ کہتی ہے گھر بھی تو ایک بازار ہی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں شور زیادہ ہے اور یہاں کمَ۔
دس منٹ بارش میں
بارش میں بھیگتی ایک ایسی غریب عورت کی داستان ہے جس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس کی گھوڑی بھی گم ہو گئی ہے۔ اس کا ایک کم عقل بیٹا ہے جو جھونپڑی میں پڑا رہتا ہے۔ تیز بارش کی وجہ سے جھونپڑی کی چھت اڑ گئی ہے جسے وہ عورت اکیلے ٹھیک کر رہی ہے اور دور کھڑے دو مرد آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ کب مدد کے لیے انھیں بلاتی ہے۔
گرہن
یہ ایک ایسی حاملہ عورت کی کہانی ہے جس کے حمل کے دوران چاند گرہن لگتا ہے۔ وہ ایک اچھے خاندان کی لڑکی تھی مگر کائستھوں میں شادی ہونے کے بعد لڑکی کو فقط بچہ جننے کی مشین سمجھ لیا جاتا ہے۔ حاملہ ہونے اور وہ بھی گرہن کے اوقات میں بھی گھریلو ذمہ داریاں نباہنی پڑتی ہیں۔ ایسے میں اسے اپنے میکے کی یاد آتی ہے کہ گرہن کے اوقات میں کیسے دان کیا جاتا تھا اور حاملہ کے لیے بہت سارے کاموں کو کرنے کی ممانعت تھی، یہ سب سوچتے ہوئے اچانک سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔
بھولا
میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھّن رکھتے دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو کنویں کے صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتا
پان شاپ
کہانی میں اپنی محبوب اشیا کو گروی رکھ کر قرض لینے والوں کے استحصال کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ بیگم بازار میں فوٹو اسٹوڈیو، جاپانی گفٹ شاپ اور پان شاپ پاس پاس ہیں۔ پہلی دو دکانوں پر نام کے مطابق ہی کام ہوتا ہے اور تیسری دوکان پر پان بیچنے کے ساتھ ہی قیمتی چیزوں کو رہن رکھ کر پیسے بھی ادھار دیے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے فوٹو اسٹودیو کا مالک اور جاپانی گفٹ شاپ والا پان والے کی ہمیشہ برائی کرتے ہیں۔ جب ایک روز انھیں خود پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر پان والے کے ہاں اپنی قیمتی چیزیں گروی رکھتے ہیں۔
وہ بڈھا
ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کی کہانی ہے جس کی مڈبھیڑ سر راہ چلتے ایک بوڑھے سے ہو جاتی ہے۔ بوڑھا اس کی خوبصورتی اور جوانی کی تعریف کرتا ہے تو پہلے تو لڑکی کو برا لگتا ہے لیکن رات میں جب وہ اپنے بستر پر لیٹتی ہے تو اسے طرح طرح کے خیال گھیر لیتے ہیں۔ وہ ان خیالوں میں اس وقت تک گم رہتی ہے جب تک اس کی ملاقات اپنے ہونے والے شوہر سے نہیں ہو جاتی۔
جوگیا
محبت کی اس کہانی کی پوری فضا رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ محبت آمیز اشارے اور استعارے سب رنگوں کی مدد سے اپنی معنویت واضح کرتے ہیں۔ جگل کو اپنی محبوبہ کے رنگ میں رنگی ہوئی پوری دنیا نظر آتی ہے۔ وہ جس رنگ کے کپڑے پہنتی ہے وہی رنگ اسے ہر طرف نظر آتا ہے، حتی کہ جب وہ جدا ہونے لگتی ہے تو اس کی ساری کا رنگ گلابی ہوتا ہے لیکن جگل کو اس کا رنگ جوگیا نظر آتا ہے۔
کوکھ جلی
یہ ایک ایسی ماں کی کہانی ہے جو پھوڑے کے زخموں سے پریشان بیٹے سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ حالانکہ بیٹے کے ناسور بن چکے زخم سے ساری بستی ان سے نفرت کرتی ہے۔ شروع کے دنوں میں اس کا بیٹا شراب کے نشے میں اس سے کہتا ہے نشے میں بہت سے لوگ اپنی ماں کو بیوی سمجھنے لگتے ہیں مگر وہ ہمیشہ ہی اس کی ماں ہی رہی۔ حالانکہ شراب پی کر آنے کے بعد وہ بیٹے کے ساتھ بھی ویسا ہی برتائو کرتی ہے جیسا کہ شوہر کے ساتھ کیا کرتی تھی۔
رحمن کے جوتے
جوتے کے اوپر جوتے چڑھ جانے کو سفر سے جوڑ کر توہم پرستی کو بیان کرتی خوبصورت کہانی۔ کھانا کھاتے وقت رحمان کا جوتا دوسرے جوتے پر چڑھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اسے اپنی بیٹی جینا سے ملنے جانا ہے۔ جینا سے ملنے جانےکے لیے اس کی ماں نے بہت سارے ساز و سامان تیار کر رکھے تھے۔ دوران سفر اسکے سامان کی گٹھری کہیں گم ہو جاتی ہے جس کے لیے وہ پولیس کے ایک کانسٹیبل سے الجھ جاتا ہے۔ زخمی حالت میں اسے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، وہاں بھی اس کا جوتا دوسرے جوتے پر چڑھا ہوا ہے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ اب ایک لمبے سفر پر جانے والا ہے۔
چھوکری کی لوٹ
کہانی میں شادی جیسے روایتی سنسکار کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے جوان ہونے پر مائیں اپنی چھوکریوں کی لوٹ مچاتی ہیں جس سے ان کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پرسادی کی بہن کی جب لوٹ مچی تو اسے بہت غصہ آیا، کیونکہ رتنا خوب روئی تھی۔ بعد میں اس نے دیکھا کہ رتنا اپنے کالے کلوٹے پتی ساتھ خوش ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ رتنا کی شادی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ تو خود سے اپنا لوٹ مچوانا چاہتی تھی۔
آلو
پیٹ کی آگ کس طرح انسان کو نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور بھلے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، وہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھی سنگھ ایک انتہائی غریب کامریڈ تھا جو بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں اٹکے رہ گئے آلو جمع کرکے گھر لے جاتا تھا۔ ایک دن کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لئے نیو میٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا، جس کی مخالفت میں گاڑی بانوں نے ہڑتال کی اور ہڑتال کے نتیجے میں لکھی سنگھ اس دن بغیر آلووں کے گھر پہنچا اس کی بیوی بسنتو نے ہر موقع پر ایک کامریڈ کی طرح لکھی سنگھ کاساتھ دیا تھا، آج بپھر گئی، اور اس نے لکھی سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی، لکھی سنگھ سوچنے لگا کیا بسنتو بھی رجعت پسند ہو گئی ہے؟
غلامی
یہ ایک ریٹائرڈ آدمی کی زندگی کی کہانی ہے۔ پولہو رام اسٹنٹ پوسٹ ماسٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر گھر آتا ہے تو اول اول تو اس کی خوب آو بھگت ہوتی ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس کے بھجن، گھر کے کاموں میں دخل اندازی کی وجہ سے لڑکے، بہو اور بیوی تک بیزار ہو جاتے ہیں۔ ایک دن جب وہ پنشن لینے جاتا ہے تو اسے نوٹس بورڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاک خانہ کو ایکسٹرا ڈیپارٹمنٹل ڈاک خانے کی ضرورت ہے جس کی تنخواہ پچیس روپے ہے۔ پولہو رام یہ ملازمت کر لیتا ہے لیکن کام کے دوران جب اس پر دمہ کا دورہ پڑتا تو لوگ رحم کھاتے ہوئے کہتے, ڈاک خانہ کیوں نہیں اس غریب بوڑھے کوپنشن دے دیتا؟
حیاتین-ب
غربت پر مبنی کہانی ہے۔ حیاتین ب کی کمی کی وجہ سے ماتا دین مزدور کی بیوی من بھری کے پٹھوں میں ورم آ جاتا ہے۔ میس کا ایک ملازم اچھی خوراک اور غذا کا وعدہ کرکے ماتا دین اور من بھری کو اپنے یہاں ملازم رکھوا لیتا ہے اور من بھری کا جنسی استحصال کرتا ہے۔ جب ماتا دین کو اس کی خبر ہوتی ہے تو وہ وہاں کی ملازمت چھوڑ دیتا ہے اور ایک دن ڈاکٹر کے یہاں سے حیاتین ب چوری کرنے کی وجہ سے حوالات میں قید ہو جاتا ہے۔ وہ خوش تھا کہ من بھری اب ایک صحتمند بچہ کو جنم دے گی لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ شدت غم سے من بھری کا حمل ساقط ہو گیا ہے۔
جب میں چھوٹا تھا
بچوں کی نفسیات پر مبنی کہانی ہے۔ بچوں کے سامنے بڑے جب اخلاق و عادات سنوارنے کے لئے اپنے بچپن کے واقعات سناتے ہیں تو ان واقعات میں ان کی شبیہ ایک نیک اور انتہائی شریف بچے کی ہوتی ہے، درحقیقیت ایسا ہوتا نہیں ہے، لیکن مصلحتاً یہ دورغ گوئی بچوں کی نفسیات پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اس کہانی میں ایک باپ اپنے بیٹے کو بچپن میں کی گئی چوری کا واقعہ سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے دادی کے سامنے اعتراف کر لیا تھا اور دادی نے معاف کر دیا تھا۔ لیکن بچہ ایک دن جب پیسے اٹھا کر کچھ سامان خرید لیتا ہے اور اپنی ماں کے سامنے چوری کا اعتراف نہیں کرتا تو ماں اس قدر پٹائی کرتی ہے کہ بچہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ بچہ اپنے والد سے چوری کا واقعہ سنانے کی فرمائش کرتا ہے، باپ اس کی نفسیات سمجھ لیتا ہے اور کہتا ہے بیٹا اٹھو اور کھیلو، میں نے جو چوری کی تھی اس کا اعتراف آج تک تمہاری دادی کے سامنے نہیں کیا۔
ہڈیاں اور پھول
حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کے لئے گلہ شکوہ کی انسانی فطرت کو اس کہانی میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں میاں بیوی کے درمیان شک و شبہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تلخی کا بیان ہے۔ ملم ایک چڑچڑا موچی ہے، گوری اس کی خوبصورت بیوی ہے، ملم کے ظلم و زیادتی سے عاجز آ کر گوری اپنے مائکے چلی جاتی ہے تو ملم کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہوتا ہے اور وہ بے خودی کے عالم میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے لیکن جب وہی گوری واپس آتی ہے تو اسیشن پر بھیڑ کی وجہ سے ایک اجنبی سے ٹکرا جاتی ہے اور ملم غصے سے ہکلاتے ہوئے کہتا ہے, یہ نئے ڈھنگ سیکھ آئی ہو۔۔۔ پھر آ گئیں میری جان کو دکھ دینے۔
ببل
جنس کی طلب میں کھولتے ہوئے مرد کی کہانی ہے۔ درباری لال سیتا سے محبت کرتا ہے لیکن اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ درباری لال معاشی طور پر مستحکم ہے جبکہ سیتا ایک غریب بیوہ کی اکلوتی لڑکی ہے۔سیتا چاہتی ہے کہ درباری اس سے شادی کرنے کے بعد ہی جنسی رشتے قائم کرے لیکن درباری صرف اپنی ہوس پوری کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک ہوٹل میں سیتا کے ساتھ جاتا ہے جہاں انہیں مشکوک سمجھ کر کمرہ نہیں دیا جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ وہ ایک بھکارن کے خوبصورت لڑکے ببل کو ساتھ لے کر جاتا ہے تو فوراً اسے کمرہ مل جاتا ہے۔ درباری جنسی آگ میں جل رہا ہوتا ہے لیکن ببل اپنی معصومانہ اداؤں سے اس کے ارادوں میں مخل ہوتا ہے، جھنجھلا کر وہ ببل کو تھپڑ مار دیتا ہے۔ سیتا کی مامتا جاگ جاتی ہے اور وہ ببل کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے اور درباری کو شرم دلاتی ہے۔ درباری نادم ہوتا ہے اور پھر سیتا سے شادی کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
بکی
کلکتہ کے ایک سینما کی کھڑکی پر ٹکٹ فروخت کرتی ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو زائد چونی لے کر نوجوانوں اور کنواروں کو لڑکیوں کی بغل والی سیٹ دیتی ہے۔ اس روز اس نے آخری ٹکٹ ایک کالے اور گنوار سے دکھتے لڑکے کو دیا تھا۔ شو کے بعد جب اس نے اس سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ کسی دیہات سے کلکتہ دیکھنے آیا ہے۔ بات چیت میں اسے احساس ہوتا ہے وہ واقعی کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ کلکتہ ایک عورت کی طرح ہے اور وہ اسے سمجھانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔
معاون اور میں
ایک خوددار معاون اور ایک احساس کمتری کے شکار آقا کی کہانی ہے۔ پتمبر کو نو زائدہ رسالہ کہانی کے ایڈیٹر نے اپنے معاون کے طور رکھا ہے۔ بہت جلد پتمبر اپی ذہانت و قابلیت سے کہانی کو مضبوط کر دیتا ہے لیکن ایڈیٹر ہمیشہ اس سے خائف رہتا ہے کہ کہیں پتمبر اس کو چھوڑ کر نہ چلا جائے، اسی لئے وہ کبھی پتمبر کی تعریف نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ نقص نکالتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ تم خود اپنا کوئی کام کیوں نہیں کر لیتے۔ ایک دن جبکہ پتمبر دو دن کا بھوکا تھا اور اس کی بہن کافی بیمار تھی، ایڈیٹر نے اس سے آٹا اور گھی اپنے گھر پہنچانے کے لئے کہا لکن پتمبر نے ذاتی کام کرنے سے منع کر دیا اور دفتر سے چلا گیا۔ ایڈیٹر باجود کوشش کے اسے روک نہ سکا۔
کشمکش
اخلاقی قدروں کے زوال کا نوحہ ہے۔ بڈھا موہنا دو ہفتوں سے بیمار ہے، اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ مر جائے گا لیکن پھر جی اٹھتا ہے۔ اس کے تینوں بیٹے چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مر جائے۔ دو ہفتے بعد جب وہ مر جاتا ہے تو اس کا جلوس نکالا جاتا ہے اور اس کے جلوس سے میٹھے چنے اٹھا کر ایک عورت اپنے بیٹے کو دیتی ہے اور کہتی ہے کہ کھا لے تیری بھی عمر اتنی لمبی ہو جائے گی۔ عورت کو دیکھ کر ٹرام کا ڈرایئور، چیکر اور ایک بابو بھی دوڑ کر بوان سے چھوہارے وغیر لے کر کھاتے ہیں۔
ہم دوش
دنیا کی رنگینی اور بے رونقی کے تذکرہ کے ساتھ انسان کی خواہشات کو بیان کیا گیا ہے۔ شفاخانے کے مریض شفا خانے کے باہر کی دنیا کے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں شدید قسم کی خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ وہ کبھی ان کے ہمدوش ہو سکیں گے یا نہیں۔ کہانی کاراوئی ایک ٹانگ کٹ جانے کے باوجود شفایاب ہو کر شفا خانے سے باہر آ جاتا ہے اور دیگر لوگوں کے ہمدوش ہو جاتا ہے لیکن اس کا ایک ساتھی مغلی، جسے ہمدوش ہونے کی شدید تمنا تھی اور جو دھیرے دھیرے ٹھیک بھی ہو رہا تھا، موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
اغوا
اس میں عنفوان شباب کے الہڑپن اور شوخی کو بیان کیا گیا ہے۔ رائے صاحب شہر سے باہر ایک کوٹھی بنوا رہے ہیں، جس میں مزدوروں کا عملہ کام کر رہا ہے۔ کنسو رائے صاحب کی چنچل لڑکی ہے جو ہر ایک سے اس کی نفسیات سمجھ کر دل لبھانے والی باتیں کرتی ہے۔۔۔ ایک دن مزدور کنسو کے بھاگ جانے کی قیاس آرائی کرتے ہیں لیکن شیخ جی یقین و اعتماد کے ساتھ تردید کرتے ہیں لیکن کچھ ہی دن بعد وہ بھاگ جانے کی پیشن گوئی کرتے ہیں۔ اور اسی دن شام کو شیخ جی راوی کو دکھاتے ہیں کہ کوٹھی کے سامنے علی جو کھڑا ہے، دروازہ کھلا ہوا ہے اور کنسو علی جو کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔
دوسرا کنارہ
تین مزدور پیشہ بھائیوں کی جد و جہد کی کہانی ہے، جس میں باپ اپنے بیٹوں کی نفسیات کو سمجھ نیں پاتا ہے۔ سندر سوہنا اور رجو اپنے باپ کے ساتھ بیکری میں کام کرتے تھے۔ ان کا گاؤں کھاڑی کے ایک کنارہ پر تھا اور دوسرا کنارہ ان کو بہت خوشنما اور دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ جب سندر کا بچپن کا دوست علم الدین تحصیلدار بن کر آیا تو سندر نے بھی تحصیلدار بننے کی ٹھانی اور دوسرے کنارے چلا گیا، سوہنا نے بھی دوسرے کنارے جانے کی کوشش کی لیکن باپ نے مار پیٹ کر اسے روک لیا اور ایک دن اس نے خود کشی کر لی، پھر باپ بھی مر گیا۔ ایک دن سندر جھریوں بھرا چہرہ لے کر واپس آیا تو وہ خون تھوک رہا تھا۔ رجو کو اس نے نصیحت کی کہ وہ دوسرے کنارے کی کبھی خواہش نہ کرے۔
لاروے
عزیز الدین ایک غریب ملازم پیشہ شخص ہے۔ اپنے جھونپڑے کے باہر بنے گڑھے میں لارووں کو دیکھ کر اس کے ذہن میں قسم قسم کے خیالات آتے ہیں۔ ان لارووں کو زندہ رکھنے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ گڑھے میں گندہ پانی جمع رہے کیونکہ صاف پانی میں لاروے مر جاتے ہیں۔ اس کی بیوی عزیزہ کو مجسٹریٹ پریتم داس بطور خادمہ اپنے ساتھ کشمیر لے جاتے ہیں لیکن وہاں سے تار آتا ہے کہ عزیزہ کو پہاڑ کا تندرست پانی راس نہ آیا۔ وہ ڈائریا اور پیچش کی شکایت میں مبتلا ہو کر اچانک مر گئی۔ عزیز الدین کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا، اے خدا تو اپنی بارش کو تھام لے۔
موت کا راز
اس بے ربط و ناہموار زمین کے شمال کی طرف نباتاتی ٹیلوں کے دامن میں، میں نے گندم کی بتیسویں فصل لگائی تھی اور سرطانی سورج کی حیات کش تمازت میں پکتی ہوئی بالیوں کو دیکھ کر میں خوش ہو رہا تھا۔ گندم کا ایک ایک دانہ پہاڑی دیمک کے برابر تھا۔ ایک خوشے کو مسل
نا مراد
صفدر ایک مذہبی گھرانے کا روشن خیال فرد ہے، رابعہ اس کی منگیتر ہے جس کا اچانک انتقال ہو جاتا ہے۔ رابعہ کی ماں صفدر کو آخری دیدار کے لئے بلوا بھیجتی ہے۔۔۔ صفدر راستے بھر فرسودہ خیالات کے نقصانات کے بارے میں غور کرتا رہتا ہے۔ اسے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت نہ اس سے کوئی مشورہ کیا گیا نہ رابعہ کو ہونے والا شوہر دکھایا گیا تو پھر اس تکلف کی کیا ضرورت۔ وہ رابعہ کے گھر پہنچتا ہے تو رابعہ کی ماں ہائے واویلا کرتی ہے اور بار بار رابعہ کو نامراد کہتی رہتی ہے۔ رابعہ کا چہرہ دیکھنے کے بعد صفدر فیصلہ نہیں کر پاتا ہے کہ رابعہ نا مراد ہے یا صفدر یا رابعہ کی ماں جو دونوں سے واقف تھی۔
من کی من میں
عورت کے جذبہ حسد و رقابت پر مبنی کہانی ہے۔ مادھو انتہائی شریف انسان تھا جو دوسروں کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار ریتا تھا۔ وہ ایک بیوہ امبو کو بہن مان کر اس کی مدد کرتا تھا، جسے اس کی بیوی کلکارنی ناپسند کرتی تھی اور اسے سوت سمجھتی تھی۔ عین مکر سنکرات کے دن مادھو کلکارنی سے بیس روپے لے کر جاتا ہے کہ اس سے پازیب بنوا لائے گا لیکن ان روپوں سے وہ امبو کا قرض لالہ کو ادا کر دیتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں کلکارنی رات میں مادھو پر گھر کے دروازے بند کر لیتی ہے اور مادھو نمونیہ سے مر جاتا ہے۔ مرتے وقت وہ کلکارنی کو وصیت کرتا ہے کہ وہ امبو کا خیال رکھے لیکن اگلے برس سنکرات کے دن جب امبو اس کے یہاں آتی ہے تو وہ سوت اور منحوس سمجھ کر اسے گھر سے بھگا دیتی ہے اور پھر امبو غائب ہی ہو جاتی ہے۔
رد عمل
یہ ایک نصیحت آمیز کہانی ہے۔ جلال ایک لا ابالی اور عیش پسند طبیعت کا مالک ہے۔ اس کے چچا مرض الموت میں اسے نصیحت کرتے ہیں کہ باہر ایک اندھا جارہا ہے۔اس کے راستہ پر نشیب و فراز دونوں ہیں، مگر اسے چنداں فکر لازم نہیں، اس کے پاس لاٹھی ہے۔ چچا کی موت کے بعد جلال اس جملہ کے مخلتلف معانی نکالتا ہے اور پھر وہ لہو لعب سے تائب ہو جاتا ہے۔
تلا دان
دھوبی کے گھر کہیں گورا چٹا چھوکرا پیدا ہو جائے تواس کا نام بابو رکھ دیتے ہیں۔ سادھورام کے گھر بابو نے جنم لیا اور یہ صرف بابو کی شکل و صورت پر ہی موقوف نہیں تھا، جب وہ بڑا ہوا تو اس کی تمام عادتیں بابوؤں جیسی تھیں۔ ماں کو حقارت سے ’اے یو‘ اور باپ کو
چیچک کے داغ
جے رام بی اے پاس ریلوے میں اکسٹھ روپے کا ملازم ہے۔ جے رام کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں، اس کی شادی سکھیا سے ہوئی ہے جو انتہائی خوبصورت ہے، سکھیا کو اول اول تو جے رام سے نفرت ہوتی ہے لیکن پھر اس کی شرافت، تعلیم اور برسر روزگار ہونے کے خیال سے اس کے چیچک کے داغ کو ایک دم فراموش کر دیتی ہے اور شدت سے اس کی آمد کی منتظر رہتی ہے، جے رام کئی بار اس کے پاس سے آکر گزر جاتا ہے، سکھیا سوچتی ہے کہ شاید وہ اپنے چیچک کے داغوں سے شرمندہ ہے اور شرمیلے پن کی وجہ سے نہیں آ رہا ہے، رات میں سکھیا کو اس کی نند بتاتی ہے کہ جے رام نے سکھیا کی ناک لمبی ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس کے پاس آنے سے انکار کر دیا ہے۔
لچھمن
ایک کنوارے آدمی کے جذباتی استحصال کی کہانی ہے۔ لچھمن کاٹھ گودام گاؤں کا پچپن برس کا آدمی تھا، جسے گاؤں کی عورتیں اور آدمی شادی کا لالچ دے کر خوب خوب کام لیتے، اس کی بہادری کے تذکرے کرتے اور مختلف ناموں کی لڑکیوں سے اس کے رشتے کی بات جوڑتے۔ ایک دن وہ گوری کی چھت پر کام کرتے کرتے اچانک نیچے گرا اور مر گیا، اس کی چتا کو جب جلایا گیا تو گاؤں کے سب لوگ رو رہے تھے۔
منگل اشٹکا
یہ ایک برہمچاری پنڈت کی داستان ہے جسے اپنے برہمچریہ پر ناز ہے ساتھ ہی اس کا جیون ساتھی نہ ہونے کا دکھ بھی ہے۔ اپنے ایک ججمان کی شادی کی رسم ادا کراتے ہوئے اپنی تنہائی کا احساس ہوتا ہے اور اس کی طبیعت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ اپنی دیکھ بھال کے لیے اپنی بھابھی کو خط لکھتا ہے مگر بھابھی دھان کی کٹائی میں مصروف ہونے کے باعث اس کی عیادت کو نہیں آ پاتی ہے۔ پنڈت کا ایک عزیز پنڈت سے اپنی بیوی کی تعریف کرتا ہے اور بیوی ہونے کے فائدے کے بارے میں بتاتا ہے اور پنڈت کو شادی کرنے کی صلاح دیتا ہے جسے پنڈت قبول کر لیتا ہے۔
مقدس جھوٹ
کہانی ایک بچے کے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔ بچہ اپنے ہی گھر میں چوری کرتا ہے اور جب اس کی ماں کو پتہ چلتا ہے تو وہ اس کی پٹائی کرتی ہے، جس کی وجہ سے بچہ بیمار ہو جاتا ہے۔ بیماری کی حالت میں بچے کو اپنے باپ کی سنائی کہانی یاد آتی ہے کہ جب بچپن میں انھوں نے ایک بار چوری کی تھی تو پکڑے جانے پر اپنی غلطی کو قبول کر لیا تھا۔ بچے کو دکھ ہے کہ اس نے اپنی چوری قبول کیوں نہیں کی۔ بعد میں اسے پتہ چلتا ہے کہ ابا نے جھوٹ کہا تھا، انھوں نے اپنی چوری قبول نہیں کی تھی، اس بات سے اسے سکون کا احساس ہوتا ہے۔
مکتی بودھ
ایک ایسے شخص کی کہانی جو فلموں میں پلے بیک سنگنگ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔ اس کی ملاقات ایک ایسے فلم ڈائرکٹر سے ہوتی ہے جسکی حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم زبردست کامیاب ہوتی ہے۔ ڈائرکٹر کو اپنی اگلی فلم کے لیے ایک موسیقار کی ضرورت ہے، جس کے لیے وہ اسے مکتی بودھ کے نام کی سفارش کرتا ہے۔ مکتی بودھ گیے وقتوں کا مشہور موسیقار تھا مگر ان دنوں اس کے ستارے گردش میں تھے اور وہ سر تا پا مقروض تھا۔
ایوا لانش
جہیز کی لعنت پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ کہانی کا راوی ایک واش لائن انسپکٹر ہے، معاشی قلت کی وجہ سے اس کی دو بیٹیوں کے رشتے طے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ راوی کے کنبہ میں چھ لوگ ہیں، جن کی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھے پر ہے۔ جہیز پورا کرنے کے لئے وہ رشوتیں بھی لیتا ہے لیکن پھر بھی لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ راوی غم سے نجات پانے کے لئے اخبار میں پناہ لیتا ہے۔ ایک دن اس نے پڑھا کہ ایوالانش آجانے کی وجہ سے ایک پارٹی دب کر رہ گئی۔ اسی دوران رشوت کے الزام میں راوی برطرف کر دیا جاتا ہے۔ اسی دن اس کی چھوٹی بیٹی دوڑتی ہوئی آتی ہے اور بتاتی ہے ایک رسیکیو پارٹی نے سب لوگوں کو بچا لیا۔ راوی اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے: کیا کوئی ریسکیو پارٹی آئے گی۔۔۔ رقو۔۔۔ کیا وہ ہمیشہ آتی ہے؟
لمس
یہ افسانہ طبقاتی کشمکش پر مبنی ہے۔ سرجیو رام کے مجسمہ کی نقاب کشائی کے موقع پر زبردست ہجوم ہے۔ سرجیو رام کے مجسمہ کے پتھر پر لکھا ہے، سر جیو رام ۔۔۔ 1862 سے 1931 تک۔۔۔ ایک بڑا سخی اور آدم دوست۔ مجمسہ کی نقاب کشائی ایک ضعیف العمر نواب صاحب کرتے ہیں جن کے بارے میں ہجوم قیاس آرائی کرتا ہے کہ یہ بھی جلد ہی مجسمہ بن جائیں گے۔ ہجوم کو سرجیو رام کے سخی ہونے میں شک ہے اور وہ مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ نقاب کشائی کے بعد بھی ہجوم وہیں کھڑا رہتا ہے جسے سیوا سمیتی کے کارکن ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بت کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بت کے پاؤں سیاہ ہو جاتے ہیں تو وہ اطمینان کے ساتھ اپے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔
متھن
فنکار کی ناقدری اور اس کے استحصال کی کہانی ہے۔ کیرتی ایک آرٹسٹ کی بیٹی ہے جس کے بنائے ہوئے فن پاروں کو مگن لال کوڑیوں کے مول خریدتا ہے اور انہیں سیکڑوں ہزاروں روپے میں فروخت کرتا ہے۔ کیرتی کی ماں اسپتال میں بھرتی ہوتی ہے، اسے آپریشن کے لئے پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے لیکن اس وقت بھی مگن لال اپنے استحصالی رویہ سے باز نہیں آتا اور وہ سیکڑوں روپے کی مورتی کے صرف دس روپے دیتا ہے۔ مگن لال کیرتی کو شہوانی مورتیاں بنانے کےلئے اکساتا ہے اور کیرتی اس سے وعدہ کرکے چلی جاتی ہے۔ اس دوران کیرتی کی ماں مر جاتی ہے۔ کیرتی جب اگلی مرتبہ متھن لے کر آتی ہے تو اس سے ہزار روپے کا مطالبہ کرتی ہے جس پر تکرار ہوتی ہے۔۔۔ مگن جب متھن کو دیکھتا ہے تو اس میں بنی ہوئی عورت کے پردے میں کیرتی کو دیکھ لیتا ہے۔ جس پر وہ اپنے شک کا اظہار کرتا ہہے تو کیرتی اس کے منہ پر تھپڑ مار کر چلی جاتی ہے۔ مرد کا رویہ ایک کمزور عورت کو کس طرح طاقت ور بنا دیتا ہے، یہی اس کہانی کا خلاصہ ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1859
-